مگر مچھ کے آنسو

عمران خان کی حکومت نے کبھی یہ حقیقت چھپانے کی کوشش نہیں کی معیشت بہت خراب حالت میں ہے۔

جب سے پاکستان کاآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پایا ہے، حزب اختلاف کی جماعتوں اور خاص مقاصد رکھنے والے میڈیا ہاؤسز کو پاکستانی معیشت کی فکر کھا رہی ہے اور وہ اس فکر میں دبلے ہورہے ہیں کہ ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں افطار کے لیے جمع ہونے والے کیا وہی نہیں جو اس ملک کے عوام پر گوشت خور پرندوں کی طرح منڈلاتے رہے ہیں۔ حکومت گرانے کے عزائم پورے کرنے کے لیے تند و تیز بیانات دینے والوں نے کس قدر آسانی سے بھلا دیا کہ معیشت کو آج جن حالات کا سامنا ہے وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں، کس منہ سے موجودہ حکومت کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

حزب اختلاف ہو یا میڈیا، کسی کو پاکستان کے قومی مفاد ، معاشی استحکام اور نظام میں زمینی حقائق سے ہم آہنگ اصلاحات سے کوئی دل چسپی نہیں۔ حزب اختلاف حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے اور میڈیامیں ضمیر کا سودا کرنے والے اپنی بولیاں لگا رہے ہیں۔ ان دونوں کی زہر افشانی سے پیدا ہونے والے تاثر نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ہمارے ہمسایہ حریفوں کے ارمان بھی پورے ہورہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت نے کبھی یہ حقیقت چھپانے کی کوشش نہیں کی معیشت بہت خراب حالت میں ہے اور اس درست راہ پر ڈالنے کے لیے آیندہ برسوں میں مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے عمران خان کی میڈیا ٹیم دماغی و اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے اور عوام تک حقائق پہنچانے کے بجائے مال بنانے کی فکر میں ہے۔ ان کی میڈیا ٹیم میں وہی لوگ شامل ہیں جو وکٹ کی دونوں جانب کھیلنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ کیا وہ حزب اختلاف کے بارے میں کھل کر حقائق بتانے کی جرات رکھتے ہیں جب کہ یہ بے باکی ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتی ہو؟ وہ صرف اتنا ہی زبانی جمع خرچ کریں گے کہ عمران خان کی نظروں میں رہیں۔ ان کی اصل تگ و دو قومی مفاد نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنا ہے۔

اس سیاسی پراپیگنڈے کے بدترین نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں، صرف ایک دن میں اسٹاک مارکیٹ میں 800پوائنٹ کی گراوٹ، روپے کی قدر میں تیزی سے جاری کمی سے آغاز ہوچکا ہے۔ اچانک پیدا ہونے والی اس صورت حال کا سبب معاشی اشاریے نہیں بلکہ پاکستان کو لوٹنے والوں کے منفی پراپیگنڈے کا کیا دھرا ہے۔ حالات کو مزید بدترین سطح تک لے جانے کے بجائے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی باہمی تعاون کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو کشیدگی کے بجائے مل بیٹھنا ہوگا۔پارلیمانی جمہوریت میں حزب اختلاف کو سیاسی نظام کا اہم ترین جزو تصور کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ متبادل پیش کرنے کے بجائے صرف کیچڑ اچھالنے پر اکتفا کرتی ہے۔


حسب روایت سیاست دانوں کو ''اجتماعی مفاد'' کو اپنے ذاتی اور محدود پارٹی مفادات پر ترجیح دینا ہوگی۔ ابتداء ہی سے اسد عمر کے خلاف اپوزیشن کی ہرزہ سرائی نے ان کے درست اقدامات سے متعلق بھی عام لوگوں کے دل میں شبہ ڈال دیا۔ اب ڈاکٹر حفیظ شیخ کو آئی ایم ایف کی ملازمت کا طعنہ دے رہے ہیں، بڑی سہولت کے ساتھ یہ بھلا دیا کہ 20برس قبل وہ ادارہ چھوڑ چکے ہیں اور مشرف دور میں سندھ کے کامیاب وزیر خزانہ کے طور پر، صوبے کو خسارے سے نکال کر منافع میں لا کر، اپنی صلاحیتیں ثابت کرچکے ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وہ وزیر خزانہ مقرر ہوچکے ہیں، لیکن جب سلمان فاروقی کو اندازہ ہوا کہ وہ آصف زرداری کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے تو انھیں منصب سے ہٹا دیا گیا۔

معیشت سے متعلق پیپلز پارٹی کی حکومت کی جو بھی اچھی کارکردگی رہی وہ حفیظ شیخ ہی کے دور تک تھی۔ اس کے بعد کئی لوگ آئے، شوکت ترین نے پیپلز پارٹی کو این ایف اسی ایوارڈ دیا لیکن مایوس اور سیخ پا ہوکر کابینہ کو خیر باد کہا۔ اکاؤنٹنٹ کا پس منظر رکھنے والے یارِ عزیز اسحاق ڈار بہتری لا سکتے تھے لیکن انھوں نے ذاتی مفاد کے تحفظ میں ساری صلاحیتیں صرف کردیں، پھر احتساب سے فرار کے لیے لندن کے اسپتالوں سے ان کی تصاویر جاری ہوتی رہیں۔

''دوست ممالک'' کی جانب سے امداد، تیل اور گیس کے ذخائر ملنے کی ناپختہ امیدوں، ایک کروڑ ملازمت کے مواقع کے جادوئی وعدوں اور اسلامی فلاحی ریاستی کے قیام کے دعوؤں نے عوام کو یقین دلا دیا تھا کہ کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ عمران خان کے خلوص اور دیانت داری کی کیا بات کی جائے، ان کی میڈیا ٹیم میں ایک سے بڑھ کر ایک معمولی آدمی ہے جو حزب اختلاف کے ''مگر مچھ کے آنسوؤں'' کا پردہ چاک کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے تعاقب میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی میڈیا ٹیم سے ایسے عناصر کو نکالنا ہوگا، بہتر یہی ہے کہ ایسا کسی نشتر کے بغیر کیا جائے ، لیکن اگر ملکی مفاد میں ضروری ہو تو جراحت کرکے ایسے عناصر کا خاتمہ کیا جائے۔

صرف ایک بار انٹیلی جینس اداروں کو اپنی پوری ذمے داری انجام دیتے ہوئے قومی مفاد کے پیش نظر عمران خان کے سامنے حقائق بیان کردینے چاہییں کہ میڈیا کے بہت سے جغادری درحقیقت بھاڑے کے سپاہی ہیں اور ان کی ڈورے ہلانے والے کون ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر جو لوگ انھیں عمران خان کے قریب لائے انھیں بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ، کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے مقدمات میں قید ہونے والے اپنے لیڈروں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ایک جانب کرپٹ ''مگر مچھ کے آنسو'' بہا رہے ہیں اور دوسری جانب بندوقوں کا رُخ چیئرمین نیب کی جانب پھیر دیا گیا ہے۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال کو اپنے ضمیر اور قومی مفاد کے مطابق اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں)
Load Next Story