سفید ہاتھی
امریکا نے پاکستان کے ساتھ ہراس سطح کاتعاون رکھا جوایک کلائنٹ اسٹیٹ کے ساتھ رکھاجاتاہے۔
KARACHI:
ساری قوم پرستی اوراعلیٰ اخلاقی اقدار،تھوڑے سے عرصے میں ریت بن کرہاتھ سے پھسل گئیں۔ایک دم ٹھک کی آوازآئی،بائیس کروڑکے عوام پرمشتمل ملک دیوارسے جالگا۔یک لخت،معلوم ہواکہ دنیاکے تمام معاشی نظام کی باگ ڈور توواشنگٹن میں ہی ہے۔وہ حقیقت جس کاادراک ہندوستان،ساؤتھ کوریااورجاپان بہت شدت سے کرچکے تھے،ایک دم،ہمارے سامنے بھی جن بن کرکھڑی ہوگئی۔ ہر طرف واویلامچ گیاکہ ملکی معیشت بیٹھ گئی ہے۔پاکستانی کرنسی کوفقیربناکرسب کے سامنے کھڑاکردیاگیا۔
اب کیا ہوگا۔ہائے یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ہرطرف گریہ کی آوازیں بلندہونے لگیں۔تمام اداروں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔پھرکسی سیانے نے بتایاکہ جناب،اصل معاشی طاقت تودنیامیں اب بھی سفیدہاتھی ہی ہے۔جب چاہے،جہاں چاہے کسی بھی ملک کومکھی کی طرح پیس سکتاہے۔تھوڑی سی عقل ٹھکانے آئی۔چنانچہ امریکا کے نچلی سطح کے معاشی ماہرکوہاتھ پیرجوڑکرپاکستان لایاگیا۔خزانے کی کنجیاں سپرد کر دی گئیں اوراسے مکمل مالیاتی فیصلوں کی حدتک خودمختاری دے دی گئی۔میری نظرمیں توخیریہ تاخیری فیصلہ تھا۔ مگر شائد معاملہ بہترہوجائے۔جسکی اُمیدحددرجہ کم ہے۔
امریکا نے پاکستان کے ساتھ ہراس سطح کاتعاون رکھا جوایک کلائنٹ اسٹیٹ کے ساتھ رکھاجاتاہے۔ہماری اشرافیہ نے ان کے حکم پرہرکام کیا۔ملک کوفائدہ بھی ہوا اور بھرپور نقصان بھی۔مگرمعذرت کے ساتھ۔یہ نقصان بھی ہم نے پیسے لے کرخریداتھا۔دراصل خودمختاری،فکری آزادی ، معاشی ترقی کے الفاظ اصل میں ہمارے لیے موجودہی نہیں ہیں۔ ہمارے لچھن،زندگی گزارنے کاطریقہ،خرچ کرنے کے آداب کسی بھی طریق سے مہذب نہیں ہیں۔
دوڈھائی برس سے مسلسل لکھ رہاہوں کہ امریکا سے اپنے تعلقات کو ہر قیمت پراچھے بنائیے۔اس کے ساتھ انتہائی طاقتورمالیاتی ، اقتصادی،سیاسی،سماجی اورعسکری معاملہ رکھیے۔ لکھتارہاکہ یہ پالیسی ہمارے قومی مفادمیں ہے۔ پرنہیں، اسکوایک عجیب سے زاویہ سے پرکھاگیا۔وہ یہ کہ اگرہم چین کے دوست ہیں توہمیں امریکا سے بے اعتنائی اختیارکرنی چاہیے۔ہماری ترقی کاضامن دراصل چین ہی ہے۔ سرکاری سطح پریہ بھی کہاگیاکہ اب ہمیں امریکا کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے تعلقات بجھیںبھی رہیں توکوئی مضائقہ نہیں۔
سب سے پہلے تویہ مانیے کہ ڈالردنیاکی طاقت ور ترین کرنسی ہے اوریہ امریکی ہے۔یہ پاکستان میں نہیں چھپتی اور نہ چھپ سکتی ہے۔اس کی ضرورت پاکستان کوبھی ہے،روس کو بھی اورچین کوبھی ۔مگرہمارے سیاسی اکابرین نے کمیشن، رشوت اورچوربازاروں کاوہ قرضی بازارقائم کیاکہ آج پاکستان دنیاکاسب سے مقروض ملک ہے بلکہ قلاش ریاست ہے۔ہم میں سے کوئی اس المیہ پرایک غیرجانبدار کمیشن بنانے کے لیے تیارنہیں۔کیایہ قیامت نہیں کہ کسی کونہیں معلوم کہ سی پیک کی سڑکوں پرجب چینی ٹرک سفرکرینگے توپاکستان کوکتنے ڈالرمعاوضہ ملے گا۔کسی سیاسی جادوگرسے پوچھ لیجیے۔آپکوکسی قسم کاکوئی بھی تخمینہ دینے سے قاصررہے گا۔ہرکوئی مبالغے میں قلابے ملائے گاکہ سی پیک گیم چینجر ہے۔مگرکیسے۔پاکستان کی معیشت کوکتنا معاوضہ ملے گا۔ اس پرچپ ہوجائینگے۔سوال پرہوسکتاہے کہ آپکوغداری کا تمغہ بھی مل جائے۔اگرخدانخواستہ یہ پوچھ لیں کہ سڑکیں تو چین استعمال کرے گا۔قرض لے کرانھیں بنانے کی کیا ضرورت تھی اورہے۔
اگرچین ہمارااتناہی ہمدردہے تواپنے فائدے کی سڑکیں اورموٹرویزخود بنائے ۔ اس پرتویقین فرمائیے کہ آپ سوفیصد میرصادق بن جائیں گے۔یعنی نہ ہمارے پاس اس چیزکاجواب ہے کہ سی پیک سے پاکستان کوکتنی زائد آمدنی ہوگی۔نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ہم قرض لے کرچینی معاشی ترقی کومزیدتیزترکرنے میں کیوں اتنے مصرہیں۔ہماری ملکی بقاء اورترقی کہاں گئی۔اگررزاق داؤد نے سی پیک کے متعلق سوال کیاکہ اس کے معاہدوں پرنظرِثانی ہونی چاہیے تواسکاجینادوبھرکردیاگیا۔اگرکوئی معمولی ساوزیرہوتاتواب تک گھرجاچکاہوتا۔مگرکیایہ سوال جائزنہیں ہے۔اگریہی سوال غیرملکی مالیاتی ادارے پوچھیں توکہاجاتاہے کہ یہ ہمارے قومی رازہیں۔ان کاسودانھیں ہوسکتا۔
صاحب، سودا تو بہت پہلے ہوچکا۔اب توصرف اورصرف ہڈیاں فروخت ہو رہی ہیں۔بلکہ معاشی گودابک رہاہے۔معلوم نہیں کہ اگرہم زندہ قوم ہیں توپھرمردہ ملک کیسے ہوتے ہونگے۔بہرحال عرض کرناچاہتاہوں کہ بڑے آرام سے امریکا اورچین سے روابط میں توازن رکھاجاسکتاہے۔دونوں کودرست رکھا جا سکتاہے۔ایسے ہی جیسے،سعودی عرب ،پاکستان کا دوست بھی اورانڈیاکاتجارتی حلیف بھی۔اسرائیل کے ساتھ بھرپور طریقے سے رابطے میں بھی ہے اور فلسطینیوں پربھی ہاتھ پھیرتارہتاہے۔
بے بسی کی انتہادیکھیے کہ چینی باشندے،ہماری نوجوان لڑکیوں سے شادی کاڈرامہ رچاکران سے چین میں پیشہ کروارہے ہیں۔بیسیوں لوگ گرفتارکیے گئے ہیں۔مگرایک دانشورفرمارہے تھے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔یہ پاک چین دوستی کے خلاف سازش ہے۔کیاماتم کرنے کامقام نہیں کہ ابھی توچین باقاعدہ پاکستان پرقابض نہیں ہوااوریہ تماشے شروع ہوچکے ہیں۔جب یہ عملی طورپرہمارے وائسرائے بن جائینگے توپھرکیاگُل کھلائیں گے۔ غیرمتعصب بات کررہاہوں۔
امریکا نے ہمارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کوشہریت دی۔مال ودولت سے نوازا۔ کاروبار اوربہترین روزگارمہیاکیے۔مگرہم یہ احسان بھی نہیں مانتے۔ احسان کالفظ شائدسخت ہو۔یہ سچ بھی تسلیم نہیں کرتے۔مجھے بتائیے،جہاں ایک بھی پاکستانی کوچین میں شہریت، روزگار یامقامی کاروباردیاگیاہو۔اگرآپکے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں تومجھے ضروربتائیے گا۔اپنابیانیہ تبدیل کرلوں گا۔عرض کرنے کامقصدصرف سادہ ساہے کہ امریکا کوبہترین دوست بنانے میں ہماراقومی مفاد ہے۔ اس پرکسی قسم کاکوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرناچاہیے۔
بین الاقوامی تعلقات کوبغیرکسی جذباتیت اورتعصب سے دیکھنااورپرکھنااصل امتحان ہے۔اس کوشش میں ہندوستان سبقت لے گیاہے۔امریکا نے ہندوستانی شہریوں اور تاجروں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔انھیں امریکی ویزہ بڑی سہولت اورعزت سے مل جاتاہے۔مگرپاکستانی شہریوں کے لیے امریکی ویزہ مشکل سے مشکل تربنا دیا گیا ہے۔ دس دن پہلے،وزارت داخلہ کے افسران کے ویزہ کو انکار کیا گیاہے۔اس بے عزتی کوہم نے خاموشی سے برداشت کر لیاہے۔اس لیے کہ ہم لوگوں کوبتانانھیں چاہتے کہ اس انکارکی وجوہات کیاہیں۔
دراصل پاکستان دنیامیں وہ واحدملک ہے جوپاکستانی شہریوں کوواپس نہیں لے رہا۔وہ شہری جوامریکا میں جرائم میں ملوث رہے ہیں اورجوہرطرح سے ننگ وطن ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جب امریکا یہ کہتاہے کہ آپ اپنے جرائم پیشہ شہریوں کوواپس لے لیں توہم انکارکردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ امریکی سفارت خانے نے لوگوں کے ویزوں میں دشواریاں پیداکرنی شروع کردی ہیں۔جوہمارے لیے کوئی اچھی خبرنہیں ہے۔
کیایہ المیہ نہیں،کہ ہمارے اہم ترین سیاستدان، عید سے لے کرچھٹیاں اورکاروبارسے لے کرصحت کے معاملات تک غیرممالک میں طے کرناپسندکرتے ہیں۔ ان کا پاکستان سے کیاتعلق ہے۔کم ازکم میری سمجھ سے تو بالکل بالاترہے۔اس مشکل ترین صورتحال میں، ہمارے اکابرین،امریکا سے بہترتعلقات قائم کرنے کاکوئی جتن نہیں کررہے۔ہمارے وزیراعظم کی اب تک وائٹ ہاؤس میں ایک بھی نشست طے نہیں ہوپائی۔ زمینی حقائق تو صرف یہ ہیں کہ سفیدہاتھی نے ابھی ہمیں دیکھ کر سونڈ ہلائی ہے اورہم عملاًگرچکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں طاقت سے کچل دے۔قومی مفادمیں دنیاکی سُپرپاورکے غصہ کو ٹھنڈاکیجیے۔ان سے تعلقات کو ہرقیمت پراچھا بنائیے۔ شائدآئی ہوئی قیامت تھوڑی دیرکے لیے ٹل جائے!
ساری قوم پرستی اوراعلیٰ اخلاقی اقدار،تھوڑے سے عرصے میں ریت بن کرہاتھ سے پھسل گئیں۔ایک دم ٹھک کی آوازآئی،بائیس کروڑکے عوام پرمشتمل ملک دیوارسے جالگا۔یک لخت،معلوم ہواکہ دنیاکے تمام معاشی نظام کی باگ ڈور توواشنگٹن میں ہی ہے۔وہ حقیقت جس کاادراک ہندوستان،ساؤتھ کوریااورجاپان بہت شدت سے کرچکے تھے،ایک دم،ہمارے سامنے بھی جن بن کرکھڑی ہوگئی۔ ہر طرف واویلامچ گیاکہ ملکی معیشت بیٹھ گئی ہے۔پاکستانی کرنسی کوفقیربناکرسب کے سامنے کھڑاکردیاگیا۔
اب کیا ہوگا۔ہائے یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ہرطرف گریہ کی آوازیں بلندہونے لگیں۔تمام اداروں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔پھرکسی سیانے نے بتایاکہ جناب،اصل معاشی طاقت تودنیامیں اب بھی سفیدہاتھی ہی ہے۔جب چاہے،جہاں چاہے کسی بھی ملک کومکھی کی طرح پیس سکتاہے۔تھوڑی سی عقل ٹھکانے آئی۔چنانچہ امریکا کے نچلی سطح کے معاشی ماہرکوہاتھ پیرجوڑکرپاکستان لایاگیا۔خزانے کی کنجیاں سپرد کر دی گئیں اوراسے مکمل مالیاتی فیصلوں کی حدتک خودمختاری دے دی گئی۔میری نظرمیں توخیریہ تاخیری فیصلہ تھا۔ مگر شائد معاملہ بہترہوجائے۔جسکی اُمیدحددرجہ کم ہے۔
امریکا نے پاکستان کے ساتھ ہراس سطح کاتعاون رکھا جوایک کلائنٹ اسٹیٹ کے ساتھ رکھاجاتاہے۔ہماری اشرافیہ نے ان کے حکم پرہرکام کیا۔ملک کوفائدہ بھی ہوا اور بھرپور نقصان بھی۔مگرمعذرت کے ساتھ۔یہ نقصان بھی ہم نے پیسے لے کرخریداتھا۔دراصل خودمختاری،فکری آزادی ، معاشی ترقی کے الفاظ اصل میں ہمارے لیے موجودہی نہیں ہیں۔ ہمارے لچھن،زندگی گزارنے کاطریقہ،خرچ کرنے کے آداب کسی بھی طریق سے مہذب نہیں ہیں۔
دوڈھائی برس سے مسلسل لکھ رہاہوں کہ امریکا سے اپنے تعلقات کو ہر قیمت پراچھے بنائیے۔اس کے ساتھ انتہائی طاقتورمالیاتی ، اقتصادی،سیاسی،سماجی اورعسکری معاملہ رکھیے۔ لکھتارہاکہ یہ پالیسی ہمارے قومی مفادمیں ہے۔ پرنہیں، اسکوایک عجیب سے زاویہ سے پرکھاگیا۔وہ یہ کہ اگرہم چین کے دوست ہیں توہمیں امریکا سے بے اعتنائی اختیارکرنی چاہیے۔ہماری ترقی کاضامن دراصل چین ہی ہے۔ سرکاری سطح پریہ بھی کہاگیاکہ اب ہمیں امریکا کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے تعلقات بجھیںبھی رہیں توکوئی مضائقہ نہیں۔
سب سے پہلے تویہ مانیے کہ ڈالردنیاکی طاقت ور ترین کرنسی ہے اوریہ امریکی ہے۔یہ پاکستان میں نہیں چھپتی اور نہ چھپ سکتی ہے۔اس کی ضرورت پاکستان کوبھی ہے،روس کو بھی اورچین کوبھی ۔مگرہمارے سیاسی اکابرین نے کمیشن، رشوت اورچوربازاروں کاوہ قرضی بازارقائم کیاکہ آج پاکستان دنیاکاسب سے مقروض ملک ہے بلکہ قلاش ریاست ہے۔ہم میں سے کوئی اس المیہ پرایک غیرجانبدار کمیشن بنانے کے لیے تیارنہیں۔کیایہ قیامت نہیں کہ کسی کونہیں معلوم کہ سی پیک کی سڑکوں پرجب چینی ٹرک سفرکرینگے توپاکستان کوکتنے ڈالرمعاوضہ ملے گا۔کسی سیاسی جادوگرسے پوچھ لیجیے۔آپکوکسی قسم کاکوئی بھی تخمینہ دینے سے قاصررہے گا۔ہرکوئی مبالغے میں قلابے ملائے گاکہ سی پیک گیم چینجر ہے۔مگرکیسے۔پاکستان کی معیشت کوکتنا معاوضہ ملے گا۔ اس پرچپ ہوجائینگے۔سوال پرہوسکتاہے کہ آپکوغداری کا تمغہ بھی مل جائے۔اگرخدانخواستہ یہ پوچھ لیں کہ سڑکیں تو چین استعمال کرے گا۔قرض لے کرانھیں بنانے کی کیا ضرورت تھی اورہے۔
اگرچین ہمارااتناہی ہمدردہے تواپنے فائدے کی سڑکیں اورموٹرویزخود بنائے ۔ اس پرتویقین فرمائیے کہ آپ سوفیصد میرصادق بن جائیں گے۔یعنی نہ ہمارے پاس اس چیزکاجواب ہے کہ سی پیک سے پاکستان کوکتنی زائد آمدنی ہوگی۔نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ہم قرض لے کرچینی معاشی ترقی کومزیدتیزترکرنے میں کیوں اتنے مصرہیں۔ہماری ملکی بقاء اورترقی کہاں گئی۔اگررزاق داؤد نے سی پیک کے متعلق سوال کیاکہ اس کے معاہدوں پرنظرِثانی ہونی چاہیے تواسکاجینادوبھرکردیاگیا۔اگرکوئی معمولی ساوزیرہوتاتواب تک گھرجاچکاہوتا۔مگرکیایہ سوال جائزنہیں ہے۔اگریہی سوال غیرملکی مالیاتی ادارے پوچھیں توکہاجاتاہے کہ یہ ہمارے قومی رازہیں۔ان کاسودانھیں ہوسکتا۔
صاحب، سودا تو بہت پہلے ہوچکا۔اب توصرف اورصرف ہڈیاں فروخت ہو رہی ہیں۔بلکہ معاشی گودابک رہاہے۔معلوم نہیں کہ اگرہم زندہ قوم ہیں توپھرمردہ ملک کیسے ہوتے ہونگے۔بہرحال عرض کرناچاہتاہوں کہ بڑے آرام سے امریکا اورچین سے روابط میں توازن رکھاجاسکتاہے۔دونوں کودرست رکھا جا سکتاہے۔ایسے ہی جیسے،سعودی عرب ،پاکستان کا دوست بھی اورانڈیاکاتجارتی حلیف بھی۔اسرائیل کے ساتھ بھرپور طریقے سے رابطے میں بھی ہے اور فلسطینیوں پربھی ہاتھ پھیرتارہتاہے۔
بے بسی کی انتہادیکھیے کہ چینی باشندے،ہماری نوجوان لڑکیوں سے شادی کاڈرامہ رچاکران سے چین میں پیشہ کروارہے ہیں۔بیسیوں لوگ گرفتارکیے گئے ہیں۔مگرایک دانشورفرمارہے تھے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔یہ پاک چین دوستی کے خلاف سازش ہے۔کیاماتم کرنے کامقام نہیں کہ ابھی توچین باقاعدہ پاکستان پرقابض نہیں ہوااوریہ تماشے شروع ہوچکے ہیں۔جب یہ عملی طورپرہمارے وائسرائے بن جائینگے توپھرکیاگُل کھلائیں گے۔ غیرمتعصب بات کررہاہوں۔
امریکا نے ہمارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کوشہریت دی۔مال ودولت سے نوازا۔ کاروبار اوربہترین روزگارمہیاکیے۔مگرہم یہ احسان بھی نہیں مانتے۔ احسان کالفظ شائدسخت ہو۔یہ سچ بھی تسلیم نہیں کرتے۔مجھے بتائیے،جہاں ایک بھی پاکستانی کوچین میں شہریت، روزگار یامقامی کاروباردیاگیاہو۔اگرآپکے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں تومجھے ضروربتائیے گا۔اپنابیانیہ تبدیل کرلوں گا۔عرض کرنے کامقصدصرف سادہ ساہے کہ امریکا کوبہترین دوست بنانے میں ہماراقومی مفاد ہے۔ اس پرکسی قسم کاکوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرناچاہیے۔
بین الاقوامی تعلقات کوبغیرکسی جذباتیت اورتعصب سے دیکھنااورپرکھنااصل امتحان ہے۔اس کوشش میں ہندوستان سبقت لے گیاہے۔امریکا نے ہندوستانی شہریوں اور تاجروں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔انھیں امریکی ویزہ بڑی سہولت اورعزت سے مل جاتاہے۔مگرپاکستانی شہریوں کے لیے امریکی ویزہ مشکل سے مشکل تربنا دیا گیا ہے۔ دس دن پہلے،وزارت داخلہ کے افسران کے ویزہ کو انکار کیا گیاہے۔اس بے عزتی کوہم نے خاموشی سے برداشت کر لیاہے۔اس لیے کہ ہم لوگوں کوبتانانھیں چاہتے کہ اس انکارکی وجوہات کیاہیں۔
دراصل پاکستان دنیامیں وہ واحدملک ہے جوپاکستانی شہریوں کوواپس نہیں لے رہا۔وہ شہری جوامریکا میں جرائم میں ملوث رہے ہیں اورجوہرطرح سے ننگ وطن ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جب امریکا یہ کہتاہے کہ آپ اپنے جرائم پیشہ شہریوں کوواپس لے لیں توہم انکارکردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ امریکی سفارت خانے نے لوگوں کے ویزوں میں دشواریاں پیداکرنی شروع کردی ہیں۔جوہمارے لیے کوئی اچھی خبرنہیں ہے۔
کیایہ المیہ نہیں،کہ ہمارے اہم ترین سیاستدان، عید سے لے کرچھٹیاں اورکاروبارسے لے کرصحت کے معاملات تک غیرممالک میں طے کرناپسندکرتے ہیں۔ ان کا پاکستان سے کیاتعلق ہے۔کم ازکم میری سمجھ سے تو بالکل بالاترہے۔اس مشکل ترین صورتحال میں، ہمارے اکابرین،امریکا سے بہترتعلقات قائم کرنے کاکوئی جتن نہیں کررہے۔ہمارے وزیراعظم کی اب تک وائٹ ہاؤس میں ایک بھی نشست طے نہیں ہوپائی۔ زمینی حقائق تو صرف یہ ہیں کہ سفیدہاتھی نے ابھی ہمیں دیکھ کر سونڈ ہلائی ہے اورہم عملاًگرچکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں طاقت سے کچل دے۔قومی مفادمیں دنیاکی سُپرپاورکے غصہ کو ٹھنڈاکیجیے۔ان سے تعلقات کو ہرقیمت پراچھا بنائیے۔ شائدآئی ہوئی قیامت تھوڑی دیرکے لیے ٹل جائے!