سیاست کو سیاست ہی رہنے دیں
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان پورے ایوان کے قائد ہیں صرف حکومتی حلیفوں کے نہیں۔
سیاست کسی دور میں عوام کی حقیقی خدمت کا ذریعہ تھی اور بعض مخلص سیاستدان سیاست کو عبادت کا درجہ بھی دیتے تھے،کیونکہ عوام کی خدمت کی اپنی اہمیت ہے اورکہنے والے کہتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت بھی عبادت سے کم نہیں۔ مگر اب لگتا ہے کہ عوام کی خلوص سے خدمت کا دور اور سیاست ختم ہوچکی اور اب سیاست میں ترجیح جھوٹ، کرپشن اور اقربا پروری ہے جس کا واضح ثبوت آج کی سیاست اور موجودہ سیاستدان ہیں جن کے منہ پرکچھ ہوتا ہے اور عملی کردار مختلف ہوتا ہے اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے سب کچھ کیا جاتا ہے۔
27 سال قبل کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے عمران خان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر کینسر میں مبتلا ان کی والدہ کے انتقال کے بعد انھیں خود پتا نہیں تھا کہ انھیں ملک میں کینسر اسپتال بنانے کے بعد 1997 میں سیاست میں آنا پڑے گا۔
عمران خان نے ملک کے عوام کو ایک معیاری کینسر اسپتال بناکر دینے کی جو کوشش کی تھی وہ سیاست کی بجائے حقیقی عوامی خدمت تھی مگر عوام کی اس خدمت سے زیادہ وہ کچھ کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے ملک کی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور وہ سمجھتے ہوں گے کہ عوام نے انھیں جس طرح اسپتال کی تعمیر کے لیے عطیات دیے وہ عوام انھیں سیاست میں بھی ووٹ دیں گے۔ عمران خان کے سیاست میں آنے سے قبل نواز شریف سمیت کسی سیاستدان سے عداوت تک نہیں تھی بلکہ نواز شریف نے انھیں اسپتال کے لیے زمین اور سہولتیں دی تھیں۔
عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد ان سے بعض لوگوں کو بڑی توقعات تھیں اسی لیے ملک کے بعض مخلص اور نامور سیاستدانوں نے ان کی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی مگر جلد بددل ہوکر وہ انھیں چھوڑ گئے تھے اور 2011 تک ان کی سیاست کو عوامی مقبولیت نہ مل سکی تھی۔ عمران خان نے 1999 کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی بھی حمایت کی تھی اور ایک بار قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
2008 کے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ تبدیل کرنے پر عمران خان میاں نواز شریف سے ناراض ہوئے کہ نواز شریف نے یوٹرن لے کر الیکشن میں حصہ لیا تھا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر وفاق اور مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں حکومت بنائی تھی۔ عمران خان دونوں پارٹیوں پر کڑی تنقید کرتے رہے اور آصف زرداری اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے مگر 2011 تک عوام نے ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیا مگر لاہور کے کامیاب جلسے سے انھیں تقویت ملی اور دونوں بڑی پارٹیوں سے تنگ آئے یا مفادات کے حصول میں ناکام سیاستدانوں نے عمران خان کو اپنی نئی امید سمجھ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی اور بے روزگاری اور کرپشن سے نالاں عام لوگوں اور خصوصاً نوجوانوں نے عمران خان کے جلسوں میں آنا شروع کیا اور 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بننے میں نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ تیسرے بڑے صوبے کے پی کے میں انھیں سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں اور انھوں نے جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاؤ کی پارٹی سے مل کر حکومت بنائی اور ملک گیر سطح پر عمران خان کو مقبولیت حاصل ہونے لگی مگر ان کی توجہ پنجاب اور دونوں بڑی پارٹیوں کی کرپشن پر زیادہ تھی اور دونوں پر بڑی تنقید ان کی ترجیح رہی۔
عمران خان کی سیاست کا محور نواز شریف اور آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانا تھا جس کی وجہ سے عوام بھی تیسری جماعت پر اعتماد پر مجبور ہوئے اور انھوں نے عمران خان کی تقاریر سے متاثر ہوکر انھیں اقتدار میں دیکھنے کی خواہش کی جب کہ پی ٹی آئی کے پی کے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب سے اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی تھی۔ کے پی کے میں پہلے جمہوری وطن پارٹی کے وزیروں پرکرپشن کے الزام میں برطرف کیا مگر چند ہی ماہ بعد اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کرپشن الزامات پر نکالے گئے وزیر دوبارہ حکومت میں شامل کرلیے جس سے لوگوں کا عمران خان پر اعتماد متاثر ہوا۔
پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے مگر پنجاب کے بغیر عمران خان کی وفاقی حکومت کو مسائل پیش آتے، جس کی وجہ سے انھیں چند ووٹوں کی اکثریت اور ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور بی این پی مینگل کی حمایت حاصل کرواکر وزیر اعظم بنوایا گیا، اس لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی انھیں منتخب کرنے کی بجائے سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتے ہیں جو عمران خان کو انتہائی ناگوارگزرتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان معمولی اکثریت سے وزیر اعظم ہیں اور حلیفوں کے ہاتھوں انھیں اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنی مرضی کے خلاف بعض باتیں بھی ماننی پڑ رہی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ان کا اپوزیشن سے رویہ سخت اور سمجھ میں نہ آنے والا ہے جب کہ گیلانی حکومت میں ان کا رویہ بہتر تھا جب کہ دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم نواز شریف بھی اپوزیشن کے ساتھ غیر جمہوری اور سیاسی دشمنوں جیسا رویہ نہیں رکھتے تھے اور اپوزیشن رہنماؤں سے ملتے رہتے تھے مگر وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن سے دشمنوں جیسا رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سمیت پی پی اور جے یو آئی رہنماؤں سے ہاتھ ملانا تک پسند نہیں کرتے۔ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ اہم سرکاری بریفنگ میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے جب کہ ماضی میں آصف زرداری کے خلاف انتہائی سخت اور قابل اعتراض بیانات دینے والے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ایوان میں آصف زرداری سے ملتے رہے ہیں اور بلاول زرداری نے ماضی میں نواز شریف کے خلاف سخت بیانات دیے تھے مگر وہ بھی جیل جاکر نواز شریف کی عیادت کرچکے ہیں۔
2013 کے الیکشن سے چند روز قبل عمران خان جلسے میں گر کر زخمی ہوگئے تھے تو نواز شریف نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم منسوخ کردی تھی بلکہ عمران خان کی عیادت بھی کی تھی۔ نواز شریف اب اپنے کیے یا نہ ماننے کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ان کی حکومت میں عمران خان کے اسلام آباد میں 126 دنوں کے دھرنے میں حکومتی سختی نہیں ہوئی تھی اور اب یہ حال ہے کہ نواز شریف کو جیل جاتے ہوئے اظہار یکجہتی کرنے والے (ن) لیگی کارکنوں پر بھی مقدمات بنائے گئے ہیں جنھوں نے کسی سرکاری عمارت کو دھرنوں کے دنوں جیسا نقصان نہیں پہنچایا مگر پنجاب حکومت سے یہ بھی گوارا نہ ہوا۔
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان پورے ایوان کے قائد ہیں صرف حکومتی حلیفوں کے نہیں۔ وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں جنھیں قومی اسمبلی میں (ن) لیگ اور پی پی نے وزیر اعظم تسلیم کیا تھا مگر بعد میں وہ متنازعہ ہوگئے اور اپوزیشن دشمنی میں سلیکٹڈ وزیر اعظم اس لیے کہلوا رہے ہیں کہ انھوں نے اپوزیشن کو اس کا حق نہیں دیا۔ اسے غیر ملکی مہمانوں سے ملنے تک نہیں دیا۔ وہ اپوزیشن کو خود مشتعل کرکے سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں اور انھیں دھرنا دینے کے لیے کنٹینر اورکھانا فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم کا رویہ غیر جمہوری اور جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے انھیں سیاست کو سیاست تک ہی رکھنا ہوگا اور سیاسی دشمنی سے گریز کرنا ہوگا۔