بہت دیرکردیتے ہیں
بہت دیرکردی ہم نے ریاست کی نفسیات اور سائنس کو سمجھنے میں،اپنی تاریخ کوترتیب دینے میں، اپنے بیانیے کوصحت مندبنانے میں۔
بہت دیرکردیتے ہیں ہم اور اسی طرح گاڑی چھوٹ جاتی ہے یا پھر دوڑتے ہوئے چڑھنے کے چکر میں پلیٹ فارم پر بیگ کھل جاتے ہیں۔کچھ اندرکچھ باہر رہ جاتا ہے۔ ہمارے حالات تو اس وقت بھی اچھے نہ تھے جب آپ نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر فقط تین مہینوں کی درآمدات کے لیے باقی بچے تھے۔
ہم نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو اہمیت نہ دی۔ سعودی عرب سے ، چین سے ڈالر لیے پھر بھی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوتے گئے اور جا کرکہ آخر ڈھائی مہینوں کے لیے باقی بچے۔ جب ہمیں کڑے فیصلے کرنے تھے ہم اس وقت بھی مرغی کے انڈے بیچنے کی باتیں کررہے تھے ۔ پھر ہم نے قوم کو گیس کے ذخیروں کے پیچھے لگادیا اوراب پاکستان کی تاریخ کے ان دس مہینوں میں جتنے قرضے اس حکومت نے لیے ہیں اتنے کسی نے بھی نہیں لیے۔ روپے کی قیمت بے تحاشہ گری مگر پھر بھی برآمدات نہ بڑھیں ۔ افراط زر نے اپنے سارے دروازے کھول دیے ۔ نہ محصولات بڑھیں، باوجود اس کے کہ دو تین منی بجٹ بھی آچکے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس یونیورسٹی بنے گا، بزنس کلاس میں سفر نہ کریں گے ۔ صدر پاکستان خود لائن میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لے رہے تھے،لیکن پھر بھی حکومت کے اخراجات کم نہ ہوئے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ستمبر میں ہوچکا تھا، مگر اسد عمرکے دماغ میں کوئی ''مغروری'' تھی یا پھر شاید یہ کسی معجزے کے انتظار میں تھے۔کوئی گیس اور معدنیات کے ذخیرے نکل آئیں گے۔ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔ اور پھر جو ان کا سلیکٹیڈ احتساب ہے، اس نے معشیت کا بھٹہ بٹھا دیا۔
انھوں نے دیرکی اور انھوں نے اندھیرا کیا۔ لگ بھگ 18 ارب ڈالرکا کرنٹ اکائونٹ ڈفیسٹ پچھلے مالی سال میں تھا جوکہ 1.5 ارب ڈالر ماہانہ ہمارے زرمبادلا کوکم کررہا تھا۔ وہ روپے کی قدر کم نہ کرتے کہ اس سستے روپے سے باہرکی چیزیں خریدیں ، ڈالر خریدیں اور ڈالر کو پہیے لگائیں۔ ہماری درآمدات ایک جھٹکے سے آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔ ڈار صاحب کہتے ہیں یہ سب سی پیک کی وجہ سے ہے۔ درآمدات میں زیادہ حجم مشینری کا ہے جس سے انفرا اسٹکچر بہتر ہوگا۔ بیروزگاری کم ہوگی شرح نمو بڑھے گی۔ قرضوں کے ان پیسے سے وہ شرح نموکو 5.25 پر لے کر آگئے مگر قرضے کہاں جاتے رہے۔ بے دریغ ڈالر کے قرضے لیے مہنگے ترین پھر اس میں چین کے بینک بھی شامل ہوگئے۔ یہ قرضے لمبی مدت والے نہ تھے ، چھوٹی مدت والے تھے اور اب آنے والے مالی سال میں لگ بھگ سات ارب ڈالر چاہیئیں قرضوں کی اقساط دینے کے لیے تو آیندہ دو سال میں 27 ارب ڈالر اور ہونے چاہیئیں۔
کچھ بھی ہوا ہمارا درآمداتی بل پانچ سے چھ ارب کم ہوا ، پچھلے مالی سال کی نسبت یہ اور بھی کم ہوگا۔ ہماری برآمدات بڑھیں گی۔ ہمارے تارکین وطن کے بھیجے ہوئے پیسے بھی بڑھیں گے۔ مگر اتنی دیرکیوں کردی مہربان آتے آتے جس کا خمیازہ اس دیس کے غریبوں کو بھگتنا پڑا ۔مہنگائی اور بیروزگاری کی شکل میں۔غیر نقینی کا عالم ہے۔دس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بیروزگار ہوگئے۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ غربت کی لکیرکے نیچے چلے گئے۔ نہ یہ ریاست مدینہ بناسکے ، نہ جناح کا پاکستان۔ نہ کرپشن کو روک سکے نہ اقرباء پروی کو۔ یہ آئے وہ گئے ، وہ گئے یہ آئے ۔ وہی رسم روا ہے۔ تبدیلی کہیں نہیں ۔ بدتری ہے کہ آنگن سجا کے بیٹھی ہے۔
قرضے اتارنے کے لیے کچھ نہ کچھ اب آپ کو بیچنا پڑے گا۔ یہ ڈالر میں لیے قرضے مشکل اس لیے ہوتے ہیں کہ آپ کے پاس ڈالر دینے کے لیے ہوتے نہیں ہیں اور پھر جس طرح سری لنکا نے اپنا پورٹ سوسال کے لیے چین کو لیز پر دے دیا۔ایسے بہت سے افریقی ممالک بھی ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں۔
ہماری آزادی ، ہمارے ڈالر میں لیے قرضوں نے تحلیل کردی ۔ ہم نے جو امریکا سے دوریاں دریافت کی تھیں اب پھر قربتوں میں تبدیل ہورہی ہیں اور جو قربتیں ہم نے چین سے استوارکی تھیں وہ آہستہ آہستہ دوریوں کی طرف جا رہی ہیں کہ قرضے سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں وہ سی پیک کے نام پر ہوں یا ورلڈ بینک یا کسی اورکے، سب کے سب ادا کرنے ہوتے ہیں۔
خان صاحب کی منطق کا کیا کیجیے۔ کہتے تھے کہ میں قرضے نہیں لوں گا کہ کیا کبھی جناح نے قرضے لیے تھے۔ خان صاحب کے لیے عرض ہے اس وقت ڈالرایک روپے کا تھا اور ملک پرکوئی قرضہ بھی نہ تھا۔ وہ اور زمانا تھا ریاست مدینہ اور زمانہ تھا اور خان صاحب کا زمانہ مختلف ۔ قرضے لینا کسی لحاظ سے برا نہیں اور نا ہی روپے کی قدر گرانا۔ مگر جو ڈالر ہے وہ غیر ضروری کاموں میں ضایع ہو ا، روز روپیہ گرے بے چینی کو ہوا دے گا ۔ یہ ملک کی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کرے گا ۔ بھوک اور افلاس بڑھی گی اور پھر اس طرح حالات بدتر ہوجائیں گے ۔
جمہوریت ہو یا آمریت ہو ۔ جنرل مشرف سے لے کر آج کی حکومت تک کوئی بھی معاشی حوالے سے ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا ۔ قرضے لیتے گئے ، خرچے کرتے گئے ۔ ساتھ ساتھ ٹیکس چوری ہوتے رہے۔ بلیک اکانومی بڑھتی رہی ۔ رتو ڈیرو جیسے کئی اندوہناک واقعات اچانک جنم نہیں لیتے۔ یہ اند ر ہی اند رکہیں پک رہے ہوتے ہیں۔
لیکن پھر بھی آگے کا راستہ انھیں راستوں سے نکلتا ہے۔ یہ زرداری ہو یا نواز شریف یا خان صاحب۔ بھلے رتو ڈیرو والے پھر بھی کیوں نہ ووٹ انھیں کو دیں جنہوں نے ان کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ یہی ڈگر جس سے آگے جانا ہوگا ۔ ہمارے شرفا ء ہی دراصل اس ملک کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ ان کو یہی لوگ باہر نکالیں گے۔ آج اگر جمہوریت کا سفر مستقل مزاجی سے رواں ہوتا تو اسی ووٹرکا شعور اور بہتر ہوتا اورآج ہم نے اگر ہندوستان کی طرح پچاس کی دہائی میں آئین دے دیا ہوتا ۔
ہم نے اس کے برعکس بیانیہ دیا ایک ایسا بیانیہ جو حقیقت پر مبنی نہ تھا۔ ہم نے تاریخ کو مسخ کیا اور پھر ایک دن امریکا کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گئے۔ پھر ہم نے سمجھا ہم خود ہی بڑی طاقت ہیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ بم تو اب بھی ہمارے پاس ہے لیکن زرمبادلہ نہیں ۔ جب ہم نے ایٹمی دھماکا کیا اہمیں ڈالر اکائونٹ مجمند کرنے پڑے ، مگر ہندوستان کو یہ نہیں کرنا پڑا۔
اب ہماری معیشت گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ہے ۔ کرے کوئی اور بھگتے کوئی اور۔ قرضے لیں حکمران ، عیاشیاں کریں حکمران ، سونا لاکرز میں رکھیں حکمران اور ڈالر اکائونٹ میں رکھیں حکمران اور اب ان قرضوں کو اتارے گا کون ؟ غریب عوام !اپنے گرتے ہوئے روپے کی صورت میں ، مہنگائی کی صورت میں ، مندی کی وجہ سے بیروزگاری کی صورت میں۔
آج چین اور امریکا میں سرد جنگ تیز ہونے جا رہی ہے ، یہ جنگ معاشی جنگ ہے ۔ یہ سرد جنگ اس سرد جنگ سے مختلف ہے جو امریکا کی سویت یونین سے ہوئی تھی ۔ وہ معاشی طور پر بیٹھ گیا تھا۔ امریکا نے اسے معاشی اعتبار سے ہرایا تھا۔ ہماری معیشت اسی سویت یونین کی طرح ہورہی ہے۔ ہمیں یہ جنگ جیتنی ہوگی ۔ یہ جنگ ہم تب ہی جیت سکتے ہیں جب نیشنل قیادت پراسزکرکے سامنے آئے ۔ ادارے مضبوط ہوں جو جس کا کام ہو وہ کرے ۔ دوسروں کی مداخلت نہ ہو۔ ۔
ہمیں ایک جھٹکے سے امریکا چین کے اثر رسوخ سے نکال سکتا ہے ، مگرہمارے چینی بھائیوں نے بھی اتنے سارے قرضے ہمارے اوپر چڑھا دیے ۔ سامراج کی اس بستی میں قرضے ہی وہ ہتھیار ہیں جس سے قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے ، یہ عجیب منطق تھی کہ ہم نے چین سے لیے کچھ قرضے چھپا کر رکھے تھے وہ ہم ریکارڈ پر نہیں لائے اور اب آئی ایم ایف کو بتا دیے۔
بہت دیر کردی ہم نے ریاست کی نفسیات اور سائنس کو سمجھنے میں ، اپنی تاریخ کو ترتیب دینے میں، اپنے بیانیے کو صحت مند بنانے میں۔ یہی تھی وہ کڑوی گولی جو ہمیں پہلے لینی تھی ، یہی راستہ تھا ۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا تھا اور اس کے بغیر بھی یہی کچھ کرنا تھا ، جب درآمدات بڑھ جائیں اور بر آمدات کم ہوں تو اپنی کرنسی کی قدر کم کی جاتی ہے۔ مگر جس نااہلی اور نالائقی کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا اس کی سزا اس ملک کے غریبوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
ہم نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو اہمیت نہ دی۔ سعودی عرب سے ، چین سے ڈالر لیے پھر بھی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوتے گئے اور جا کرکہ آخر ڈھائی مہینوں کے لیے باقی بچے۔ جب ہمیں کڑے فیصلے کرنے تھے ہم اس وقت بھی مرغی کے انڈے بیچنے کی باتیں کررہے تھے ۔ پھر ہم نے قوم کو گیس کے ذخیروں کے پیچھے لگادیا اوراب پاکستان کی تاریخ کے ان دس مہینوں میں جتنے قرضے اس حکومت نے لیے ہیں اتنے کسی نے بھی نہیں لیے۔ روپے کی قیمت بے تحاشہ گری مگر پھر بھی برآمدات نہ بڑھیں ۔ افراط زر نے اپنے سارے دروازے کھول دیے ۔ نہ محصولات بڑھیں، باوجود اس کے کہ دو تین منی بجٹ بھی آچکے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس یونیورسٹی بنے گا، بزنس کلاس میں سفر نہ کریں گے ۔ صدر پاکستان خود لائن میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لے رہے تھے،لیکن پھر بھی حکومت کے اخراجات کم نہ ہوئے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ستمبر میں ہوچکا تھا، مگر اسد عمرکے دماغ میں کوئی ''مغروری'' تھی یا پھر شاید یہ کسی معجزے کے انتظار میں تھے۔کوئی گیس اور معدنیات کے ذخیرے نکل آئیں گے۔ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔ اور پھر جو ان کا سلیکٹیڈ احتساب ہے، اس نے معشیت کا بھٹہ بٹھا دیا۔
انھوں نے دیرکی اور انھوں نے اندھیرا کیا۔ لگ بھگ 18 ارب ڈالرکا کرنٹ اکائونٹ ڈفیسٹ پچھلے مالی سال میں تھا جوکہ 1.5 ارب ڈالر ماہانہ ہمارے زرمبادلا کوکم کررہا تھا۔ وہ روپے کی قدر کم نہ کرتے کہ اس سستے روپے سے باہرکی چیزیں خریدیں ، ڈالر خریدیں اور ڈالر کو پہیے لگائیں۔ ہماری درآمدات ایک جھٹکے سے آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔ ڈار صاحب کہتے ہیں یہ سب سی پیک کی وجہ سے ہے۔ درآمدات میں زیادہ حجم مشینری کا ہے جس سے انفرا اسٹکچر بہتر ہوگا۔ بیروزگاری کم ہوگی شرح نمو بڑھے گی۔ قرضوں کے ان پیسے سے وہ شرح نموکو 5.25 پر لے کر آگئے مگر قرضے کہاں جاتے رہے۔ بے دریغ ڈالر کے قرضے لیے مہنگے ترین پھر اس میں چین کے بینک بھی شامل ہوگئے۔ یہ قرضے لمبی مدت والے نہ تھے ، چھوٹی مدت والے تھے اور اب آنے والے مالی سال میں لگ بھگ سات ارب ڈالر چاہیئیں قرضوں کی اقساط دینے کے لیے تو آیندہ دو سال میں 27 ارب ڈالر اور ہونے چاہیئیں۔
کچھ بھی ہوا ہمارا درآمداتی بل پانچ سے چھ ارب کم ہوا ، پچھلے مالی سال کی نسبت یہ اور بھی کم ہوگا۔ ہماری برآمدات بڑھیں گی۔ ہمارے تارکین وطن کے بھیجے ہوئے پیسے بھی بڑھیں گے۔ مگر اتنی دیرکیوں کردی مہربان آتے آتے جس کا خمیازہ اس دیس کے غریبوں کو بھگتنا پڑا ۔مہنگائی اور بیروزگاری کی شکل میں۔غیر نقینی کا عالم ہے۔دس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بیروزگار ہوگئے۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ غربت کی لکیرکے نیچے چلے گئے۔ نہ یہ ریاست مدینہ بناسکے ، نہ جناح کا پاکستان۔ نہ کرپشن کو روک سکے نہ اقرباء پروی کو۔ یہ آئے وہ گئے ، وہ گئے یہ آئے ۔ وہی رسم روا ہے۔ تبدیلی کہیں نہیں ۔ بدتری ہے کہ آنگن سجا کے بیٹھی ہے۔
قرضے اتارنے کے لیے کچھ نہ کچھ اب آپ کو بیچنا پڑے گا۔ یہ ڈالر میں لیے قرضے مشکل اس لیے ہوتے ہیں کہ آپ کے پاس ڈالر دینے کے لیے ہوتے نہیں ہیں اور پھر جس طرح سری لنکا نے اپنا پورٹ سوسال کے لیے چین کو لیز پر دے دیا۔ایسے بہت سے افریقی ممالک بھی ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں۔
ہماری آزادی ، ہمارے ڈالر میں لیے قرضوں نے تحلیل کردی ۔ ہم نے جو امریکا سے دوریاں دریافت کی تھیں اب پھر قربتوں میں تبدیل ہورہی ہیں اور جو قربتیں ہم نے چین سے استوارکی تھیں وہ آہستہ آہستہ دوریوں کی طرف جا رہی ہیں کہ قرضے سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں وہ سی پیک کے نام پر ہوں یا ورلڈ بینک یا کسی اورکے، سب کے سب ادا کرنے ہوتے ہیں۔
خان صاحب کی منطق کا کیا کیجیے۔ کہتے تھے کہ میں قرضے نہیں لوں گا کہ کیا کبھی جناح نے قرضے لیے تھے۔ خان صاحب کے لیے عرض ہے اس وقت ڈالرایک روپے کا تھا اور ملک پرکوئی قرضہ بھی نہ تھا۔ وہ اور زمانا تھا ریاست مدینہ اور زمانہ تھا اور خان صاحب کا زمانہ مختلف ۔ قرضے لینا کسی لحاظ سے برا نہیں اور نا ہی روپے کی قدر گرانا۔ مگر جو ڈالر ہے وہ غیر ضروری کاموں میں ضایع ہو ا، روز روپیہ گرے بے چینی کو ہوا دے گا ۔ یہ ملک کی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کرے گا ۔ بھوک اور افلاس بڑھی گی اور پھر اس طرح حالات بدتر ہوجائیں گے ۔
جمہوریت ہو یا آمریت ہو ۔ جنرل مشرف سے لے کر آج کی حکومت تک کوئی بھی معاشی حوالے سے ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا ۔ قرضے لیتے گئے ، خرچے کرتے گئے ۔ ساتھ ساتھ ٹیکس چوری ہوتے رہے۔ بلیک اکانومی بڑھتی رہی ۔ رتو ڈیرو جیسے کئی اندوہناک واقعات اچانک جنم نہیں لیتے۔ یہ اند ر ہی اند رکہیں پک رہے ہوتے ہیں۔
لیکن پھر بھی آگے کا راستہ انھیں راستوں سے نکلتا ہے۔ یہ زرداری ہو یا نواز شریف یا خان صاحب۔ بھلے رتو ڈیرو والے پھر بھی کیوں نہ ووٹ انھیں کو دیں جنہوں نے ان کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ یہی ڈگر جس سے آگے جانا ہوگا ۔ ہمارے شرفا ء ہی دراصل اس ملک کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ ان کو یہی لوگ باہر نکالیں گے۔ آج اگر جمہوریت کا سفر مستقل مزاجی سے رواں ہوتا تو اسی ووٹرکا شعور اور بہتر ہوتا اورآج ہم نے اگر ہندوستان کی طرح پچاس کی دہائی میں آئین دے دیا ہوتا ۔
ہم نے اس کے برعکس بیانیہ دیا ایک ایسا بیانیہ جو حقیقت پر مبنی نہ تھا۔ ہم نے تاریخ کو مسخ کیا اور پھر ایک دن امریکا کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گئے۔ پھر ہم نے سمجھا ہم خود ہی بڑی طاقت ہیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ بم تو اب بھی ہمارے پاس ہے لیکن زرمبادلہ نہیں ۔ جب ہم نے ایٹمی دھماکا کیا اہمیں ڈالر اکائونٹ مجمند کرنے پڑے ، مگر ہندوستان کو یہ نہیں کرنا پڑا۔
اب ہماری معیشت گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ہے ۔ کرے کوئی اور بھگتے کوئی اور۔ قرضے لیں حکمران ، عیاشیاں کریں حکمران ، سونا لاکرز میں رکھیں حکمران اور ڈالر اکائونٹ میں رکھیں حکمران اور اب ان قرضوں کو اتارے گا کون ؟ غریب عوام !اپنے گرتے ہوئے روپے کی صورت میں ، مہنگائی کی صورت میں ، مندی کی وجہ سے بیروزگاری کی صورت میں۔
آج چین اور امریکا میں سرد جنگ تیز ہونے جا رہی ہے ، یہ جنگ معاشی جنگ ہے ۔ یہ سرد جنگ اس سرد جنگ سے مختلف ہے جو امریکا کی سویت یونین سے ہوئی تھی ۔ وہ معاشی طور پر بیٹھ گیا تھا۔ امریکا نے اسے معاشی اعتبار سے ہرایا تھا۔ ہماری معیشت اسی سویت یونین کی طرح ہورہی ہے۔ ہمیں یہ جنگ جیتنی ہوگی ۔ یہ جنگ ہم تب ہی جیت سکتے ہیں جب نیشنل قیادت پراسزکرکے سامنے آئے ۔ ادارے مضبوط ہوں جو جس کا کام ہو وہ کرے ۔ دوسروں کی مداخلت نہ ہو۔ ۔
ہمیں ایک جھٹکے سے امریکا چین کے اثر رسوخ سے نکال سکتا ہے ، مگرہمارے چینی بھائیوں نے بھی اتنے سارے قرضے ہمارے اوپر چڑھا دیے ۔ سامراج کی اس بستی میں قرضے ہی وہ ہتھیار ہیں جس سے قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے ، یہ عجیب منطق تھی کہ ہم نے چین سے لیے کچھ قرضے چھپا کر رکھے تھے وہ ہم ریکارڈ پر نہیں لائے اور اب آئی ایم ایف کو بتا دیے۔
بہت دیر کردی ہم نے ریاست کی نفسیات اور سائنس کو سمجھنے میں ، اپنی تاریخ کو ترتیب دینے میں، اپنے بیانیے کو صحت مند بنانے میں۔ یہی تھی وہ کڑوی گولی جو ہمیں پہلے لینی تھی ، یہی راستہ تھا ۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا تھا اور اس کے بغیر بھی یہی کچھ کرنا تھا ، جب درآمدات بڑھ جائیں اور بر آمدات کم ہوں تو اپنی کرنسی کی قدر کم کی جاتی ہے۔ مگر جس نااہلی اور نالائقی کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا اس کی سزا اس ملک کے غریبوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔