سیکولر بھارت کو شکست ہوگئی
وزیر اعظم نریندر مودی نے جو بیانات دیے وہ جذباتی تھے بدلے کا اعلان کیا جانے لگا
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی ممکنہ شکست کو مختلف چالوں اور داؤ پیچ کے ذریعے بھاری اکثریت سے کامیابی میں تبدیل کردیا۔ جس پر بھارت کے بعض حلقوں میں حیرت اور تشویش کا اظہارکیا جا رہا ہے ان کی کامیابی کو اگر لبرل، جمہوری اور سیکولر بھارت کی شکست سے تعبیرکیا جائے تو یہ حقیقت کے بہت قریب ہوگا۔ آخر کار وہ کیا جادوگری تھی کہ جنوری 2019 تک جو جماعت شکست کا خطرہ محسوس کر رہی تھی وہ 23 مئی کو تقریباً دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
اس راز سے پردہ اٹھانا ضروری ہے، بی جے پی کو سابقہ ریاستی انتخابات میں کانگریس نے جزوی شکست سے دوچارکردیا تھا۔ جس سے بی جے پی کے رہنماؤں اورکارکنوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے اب بی جے پی کو اپریل اور مئی 2019 کے عام انتخابات کی حکمت عملی تیارکرنی تھی۔ انھیں اندازہ تھا کہ اپنے کارکنوں میں حوصلہ اور جوش پیدا کرنا سب سے پہلی ضرورت تھی۔ 14 فروری کو جموں کشمیرکے ایک علاقے پلواما میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی ایک بس کو بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر لگادیا۔ پاکستان نے سرکاری سطح پر اس کی مذمت کی۔ تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن اس واقعے کی ایسی تشہیرکی گئی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ بھارتی ٹی وی اور اخبارات میں جس طرح اس کو اچھالا گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جو بیانات دیے وہ جذباتی تھے بدلے کا اعلان کیا جانے لگا۔ ایک جنگی جنون کا ماحول پیدا کیا گیا، بھارتی وزیراعظم نے جلسوں میں لوگوں کے جذبات کو خوب بھڑکایا ایسا لگتا تھا جیسے جلسوں اور میڈیا میں جنگ ہو رہی ہے۔ پھر بالا کوٹ پر بھارتی جہاز نے بم گرایا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن بھارتی میڈیا نے 300 دہشت گرد مارنے کا اس طرح دعویٰ کیا کہ پورا بھارت اس کو حقیقت تصورکرنے لگا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو اس طرح ہیرو بنایا گیا جیسے وہ انسان نہیں پوجا کرنے کے قابل مافوق الفطرت ہستی ہیں اور وہی بھارت کو ہر خطرے سے بچاسکتے ہیں۔ ہر جلسے میں وہ گھس کر مارنے کا ذکرکرتے رہے۔ نتیجے میں نریندر مودی کی ذاتی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔
اس کی آڑ میں بی جے پی کے کارکنوں اور مودی کے حامیوں میں خوب جوش پیدا کیا گیا۔ ساتھ ہی مخالفین پر دباؤ بڑھا دیا گیا۔ انھیں ملک دشمن اور پاکستان کا ایجنٹ کہا جانے لگا۔ مختلف مقامات پر تشدد کے واقعات بھی ہوئے۔اس طرح مخالفین کو خوفزدہ کرنے اور انھیں پیچھے دھکیلنے کا سلسلہ شروع کیا۔ میڈیا کو بھی اس قدر استعمال کیا گیا کہ بعض دانشوروں نے لوگوں کو ٹی وی نہ دیکھنے کا مشورہ دیا۔ اس کے باوجود انتخابات کے قریب آنے تک یہ ہیجانی کیفیت ختم ہوچکی تھی۔ مخالفین سے شدید خطرہ تھا۔
اطلاعات آرہی تھی کہ یوپی میں دو اہم علاقائی جماعتوں اور کانگریس میں اتحاد ہونے والا ہے یوپی میں لوک سبھا کی 80 نشستوں میں سے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے 71 نشستیں حاصل کی تھیں۔خطرہ تھا کہ بڑے اتحاد کی صورت میں پچاس نشستیں کم ہوجائیں گی۔ علاقائی جماعتوں کا اتحاد ہوگیا لیکن کانگریس اس سے باہر رہی۔ اصل خطرہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سے تھا ۔ دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں بھی جوش اور اتحاد تھا۔ حیرت انگیز طور پرکانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مذاکرات دہلی کی 7 نشستوں کے اتحاد کے لیے ناکام ہوگئے۔
ادھر بنگال میں ممتا بنرجی کی جماعت اپنا قلعہ مضبوط کرکے بیٹھی تھی۔ بی جے پی نے یہاں مذہبی منافرت کو ہوا دی اور پرتشدد ہنگامے کرائے۔ الیکشن کمیشن نے صوبائی انتظامیہ سے اختیارات واپس لے لیے اس طرح مرکزی حکومت کو مکمل مداخلت کا موقع مل گیا۔ موجودہ انتخابات میں بھارتی الیکشن کمیشن کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی۔ جس نے بنگال میں مذہب کے نام کو استعمال کرنے، مذہبی تعصب کو ہوا دینے، مذہبی علامات کو جلوسوں میں کھلے عام استعمال کرنے کو مکمل نظرانداز کردیا گیا۔ آخری دن کی مہم پر پابندی اس طرح لگائی گئی کہ وزیر اعظم مودی کے دو جلسوں کے خاتمے کے بعد سے اسے لاگو کیا گیا۔ اپوزیشن کی جماعتیں احتجاج کر رہی تھیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہوگیا ہے بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ووٹنگ کی جاتی ہے، اس پر یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس میں ہیرا پھیری کی جاسکتی ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ کسی بھی حلقے کی 5 فیصد مشینوں کے نتائج اور چھپی ہوئی پرچیوں کا معائنہ کیا جائے کہ دونوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں ہے۔ جس پر اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ یہ معائنہ گنتی کے آغاز میں کیا جائے اور اگر اس میں فرق آتا ہے تو پوری پرچیوں کو گنا جائے، لیکن یہ مطالبہ رد ہوگیا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے تحفظ کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
بے شمار الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ٹرکوں، پرائیویٹ گاڑیوں میں آتی جاتی نظر آرہی تھیں۔ ووٹروں کو دھمکیاں دینے گھروں سے نہ نکلنے دینے کی شکایات عام تھیں بے شمار ووٹروں کی انگلیوں پر سیاہی پہلے ہی لگا دی گئی اور انھیں 500 روپے فی کس دے کر ووٹ دینے سے محروم کردیا گیا۔ بی جے پی کا ایک اور طریقہ یہ تھا اپنی مہم چلاؤ دوسری طرف دوسرے کی مہم کو خراب یا محدود کرو۔ اپنے ووٹ آنے دو دوسرے کے ووٹ روکو۔ اس میں بی جے پی کی تنظیم بھی کارآمد تھی۔ اس کا نیٹ ورک پولنگ بوتھ کے انتظام میں موثر تھا۔ اپوزیشن کی جماعتوں کی اکثریت غیر منظم اور بکھری ہوئی تھیں۔ انتخابات میں بی جے پی پانی کی طرح پیسہ بہا رہی تھی۔
ٹی وی چینلوں میں اپنی مرضی کی خبریں چلانا، تجزیے، جائزے میں بی جے پی کی حمایت کی ایسی موثر مہم تھی جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے دولت موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔ الیکشن کمیشن نے جن 7 مرحلوں میں انتخابات اور تاریخوں کا اعلان کیا تھا وہ بھی بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہا تھا اور بی جے پی اپنے کارکنوں کو ادھر سے ادھر لے جا رہی تھی۔ بنگال میں اردگرد کی ریاستوں سے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد کو بنگال میں لاکر انتخابی مہم میں استعمال کیا گیا تھا۔اس ساری کارروائیوں کے باوجود زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ بی جے پی کو اس طرح کی برتری حاصل نہیں تھی۔ آخری مرحلے کے خاتمے کے ساتھ ہی ایگزٹ پول دکھا کر اپوزیشن کی صفوں میں مایوسی پھیلائی گئی اور اس کی پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی ڈھیلی پڑگئی۔
پوری مہم میں مذہبی جذبات، نفرت کو ہوا دی گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں پہلے ہی اقلیتوں پر حملے انھیں خوفزدہ کرنا۔ غیر اعلانیہ طور انھیں دوسرے درجے کا شہری تصور کرنا ہندوتوا کے فلسفے کو بھارتی فلسفہ بنانا عام ہو رہا ہے کانگریس کے بڑے رہنما تک مجبور ہوگئے اور مندروں میں جاکر اپنی تصویر کھنچوانے لگے۔ بھارت کو لبرل، جمہوری اور سیکولر ملک کے طور پر ایک مقام حاصل تھا۔ جہاں ادب، شاعری، فن، فلسفہ مختلف قسم کی تہذیب اور ثقافت پروان چڑھتی ہوئی نظر آئی تھی لیکن یہ ماضی تھا۔ حال میں بھائی چارہ، رواداری اور اخلاقی اقدار بھی ختم ہو رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو 38.5 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا ہے جوکہ نتائج میں دکھایا گیا ہے اور اس 38.5 فیصد کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے غیر سرکاری طور پر سیکولر بھارت کو انتہا پسندی کی راہ پرگامزن کردیا ہے۔ وزیر اعظم مودی تو اپنے طریقے استعمال کرکے بھارتی اکثریت سے کامیاب ہوگئے لیکن انھوں نے سیکولر اور لبرل بھارت کو شکست دے دی۔ کیا بھارتی معاشرہ عدم برداشت، تقسیم اور نفرت کے فروغ کے بوجھ سے کبھی نجات حاصل کرسکے گا اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔