دیسی نسل کی چڑیا پکڑنے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا

مافیا کے کارندے چوراہوں اورمارکیٹوں کے باہرمنتوں مرادوں اور صدقے کے طورپر معصوم پرندوں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں

پکڑی گئی چڑیوں میں سے 35 فیصد بھوک، پیاس، خوف اورگرمی میں ایک سے دوسرے مقام تک پنجروں میں منتقلی کے دوران مرجاتی ہیں

دیسی و گھریلوچڑیا (اسپارو) کو پکڑنے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا،شہر کے دورافتادہ مضافاتی علاقوں اور اندرون سندھ کے اضلاع میں معصوم پرندوں کو دھوکے سے پکڑنے کا کارروبار جاری ہے، رمضان میں پرندوں کا شکار کرنے والی مافیا زور و شور سے سرگرم ہو جاتی ہے،شہر بھر کے چوراہوں اور مارکیٹوں اور شاپنگ پلازہ کے باہرمنتوں مرادوں جبکہ صدقے کے طورپر پرندوں کو آزادکرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

پاکستان میں سالانہ 10 لاکھ پرندوں کو قید اور پھر صدقہ کے نام پرآزاد کیا جاتا ہے، پکڑے جانے والے ان پرندوں میں 35فیصد بھوک، پیاس،خوف ، ڈر اور شدید دھوپ وگرمی کے دوران ایک مقام سے دوسرے مقام تک تنگ پنجروں میں منتقلی کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں، محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے رواں سال کے شروع میں ان روایتی چڑیوں کے بے دریغ شکار اور معدومیت کے خطرے کے پیش نظر برسوں سے جاری پرمٹ منسوخ کر کے ان کے شکار پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، ذرائع کے مطابق گھروں اور انسانی آبادیوں کے قرب وجوار میں پائی جانے والی دیسی نسل کی گھریلو چڑیوں کا چھوٹے بڑے جال کے ذریعے گھیر کر پکڑنے کا دھندہ بڑھ گیا ہے۔

خصوصاً ماہ رمضان میں مختلف مرادوں و منتوں جبکہ صدقے کے لیے ان معصوم و بے زبان پرندوں کو قید کرنے والی مافیا کا دھندا بے لگام ہو جاتا ہے جو انھیں شہر بھر کی مختلف پرندہ مارکیٹوں میں سپلائی کرتے ہیں اور بعدازاں انفرادی طور پر مختلف افراد انھیں خرید کر شہر بھر کے چوراہوں و سگنل جبکہ بھیڑ والی جگہوں پر چھوٹے پنجروں میں فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں دیسی گھریلو نسل کی چڑیوں کو دیگر جنگلی حیات یا پرندوں کی طرح گھروں میں پالنے کا رواج نہیں ہے ان کے شکار کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ قید کے بعد پیسوں کے عوض آزاد فضائوں میں رہا کر دیا جائے۔

قیدکیے گئے پرندوںکے بچے بھوک کی وجہ سے مرجاتے ہیں

خوراک کا جھانسہ دے کر ٹریپ کرکے پکڑے جانے والے ان پرندوں میں 35 فیصد بھوک، پیاس، دھوپ، ڈر، گرمی کے دوران اونچے نیچے راستوں پرایک جگہ سے دوسری جگہ شدید گرمی کے دوران منتقلی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں،اور اس قید وآزادی کے چکر میں ان پرندوں کے گھونسلوں میں موجود بچے چیل کووں اور بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

مضافاتی علاقوں میں ننھی منی چڑیوں کو دھوکے سے پکڑا جاتا ہے

شہر کے مضافاتی علاقوں اور اندورن سندھ میںچڑیوں کو دھوکے سے پکڑا جاتا ہے،پابندی کے باوجود اسپارو نامی دیسی چڑیا کے شکاراور کاروبار جاری ہے، چڑیوں کو دام میں پھانسنے کے لیے شکاری خاص جال لگاتے ہیں جس کے اندر ان کے من پسند حشرات ،کیڑے اور دانہ موجود ہوتا ہے جسے فضائوں میں اڑتی ہوئی چڑیا تاڑ لیتی ہے اور اس دانے کو کھانے کے لیے اترتے ہی صیاد کے دام میں پھنس جاتی ہیں۔

شکاری سڑکوں پر راہ گیر اور گاڑی سوار افراد سے بھائو تائو کر کے پرندوں کو آزاد کرتے ہیں ویسے تو یہ دھنداپورے سال جاری رہتا ہے مگر رمضان میں اس میں تیزی آجاتی ہے،رمضان میں شہری پرندوں کو زیادہ آزاد کراتے ہیں، یہی نفسیات ان مافیاز کو ان پرندوں کو قید کرنے کے لیے اکساتی ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ پرندوں کو پہلے قید کیا جاتا ہے، پھر انھیں صدقے کے نام پر آزاد کیا جاتا ہے۔


نرم قوانین نے مافیاکے حوصلے بلند کر دیے ، عبدالقیوم چنا
محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے انسپکٹر عبدالقیوم چنا کے مطابق ان چڑیوں کے شکار کیلیے پہلے پرمٹ جاری کیے جاتے تھے جن میں ایک دن میں 15 سے 25 چڑیوں کو پکڑنے کی اجازت ہوتی تھی،تاہم رواں سال جنوری میں ان تمام پرمٹس کو منسوخ کردیا گیا ہے عبدالقیوم چنا کا کہنا ہے کہ نرم قوانین نے اس مافیا کے حوصلے بلند کیے ہیں اگر اس سنگین نوعیت کے معاملے کے حوالے سے سخت سزائوں پر عمل شروع کر دیا جائے تو اس روایتی نسل کے ماحول دوست پرندے کی بقا ممکن ہے ۔

جھرکی اور پدی نسل کی چڑیا زیادہ پکڑی جاتی ہیں وائلڈ لائف انسپکٹر
وائلڈ لائف گیم انسپکٹرریڈ پارٹی حیدرآباد اور میرپور خاص اعجاز نوندھانی کے مطابق ڈسٹرکٹ دادو، میہڑ، رادھن سینا روڈ جبکہ ننگر پارکر دیسی چڑیا جسے سندھی میں جھرکی کہتے ہیں،جبکہ ایک اور نسل کی چڑیا پدی کو جالوں کے ذریعے پکڑنے کے ان گنت واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے مادہ چڑیا کو تو منتوں مرادوں اور صدقے کے لیے پکڑا جاتا ہے، جبکہ چڑے (جھرک) کا شکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ اسے مقامی طبیب و حکما اس کے گوشت کو براہ راست غذا یا پھر جڑی بوٹیوں کے ملاپ سے بننے والی دوائوں کو جنسی طاقت میں اضافے لیے استعمال کرتے ہیں۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے کارروائیوں میں 7600 ہزار چڑیاں تحویل میں لیں
محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے رواں ماہ کے دوران 2 مختلف کارروائیوں کے دوران چڑیوں کی بھاری تعداد کو تحویل میں لیا جس میں سے ایک کارروائی اندورن سندھ کی گئی جس میں گاڑیوں پر لدے پنجروں کے ذریعے فروخت کے لیے لے جائی جانے والی 7 ہزار چڑیاں قبضے میں لی گئیں، جبکہ چندروز قبل ایمپریس مارکیٹ صدر میں 2 دکانوں پر چھاپہ مار کارروائی کے دوران 600 چڑیاں تحویل میں لی گئیں، جنھیں بعدازاں ملیر کے باغیچوں میں آزاد کردیا گیا۔

دیسی چڑیا ایشیائی ممالک ،یورپ اورامریکا میں بھی پائی جاتی ہے
محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ کے مطابق مشہوردیسی چڑیا پاکستان کے علاوہ ایشیا، یورپ اور امریکا میں بھی پائی جاتی ہے جس کا تعلق پیٹرو ڈومیسٹکس گروہ سے ہے، تاہم ان کی اقسام قدرے مختلف ہیں،برصغیر میں چڑیا ایک عام پرندہ ہے، جسے گھریلو چڑیا بھی کہا جاتا ہے عام طورپر یہ چڑیا اورچڑے چھوٹی جسامت جبکہ ان کا رنگ گندمی اوربھورا ہوتا ہے اس کی دم چوڑی جبکہ چونچ باریک اور مضبوط ہوتی ہے اس کو گھریلو چڑیا اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ اکثر و بیشتر گھروں میں بسیرا کرتی ہیں، گھریلو چڑیا عام طورپر ہجرت نہیں کرتیں بلکہ یہ انسانی آبادی کے قریب خود کو محدود رکھتی ہے ، ان چڑیوں کے گھونسلے عمارت کی چھتوں، بالکونیوں جبکہ درختوں پر ہوتے ہیں چڑیوں کی غذائوں میں مختلف قسم کے پھولوں کے بیج یا پھر دانہ دنکا جبکہ چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔

پرندے چھوٹے پنجروںمیں ٹھونسنے سے مرجاتے ہیں

پرندوں کو پکڑنے کے بعد بے دردی سے چھوٹے سائز کے پنجروں میں ٹھونس دیا جاتا ہے،ایک ایک پنجرے میں ہزاروں کی تعداد میں چڑیوں کو بند کرنے کی وجہ سے بیشتر کی موت واقع ہوجاتی ہے اس بے دریغ شکار کی وجہ سے دیسی چڑیا اور دیگر جنگلی پرندے تیزی سے ختم ہورہے ہیں، عموما ان چڑیوں کو پکڑنے والا مافیا پہلے اپنے مقصد کے لیے علاقے کا انتخاب کرتے ہیں جو ایک کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہوتا ہے اس کے بعد یہ شکاری کئی روز تک اس جگہ پر دانہ وغیرہ پھینکتے رہتے ہیں اور دور سے بیٹھ کر ان کی ریکی کرتے ہیں پھر اگلے مرحلے میں مٹی کی رنگت والا انتہائی باریک جال بچھا کے چلے جاتے ہیں،جس کا سرا کافی فاصلے پر ان شکاریوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے پھر جھٹ پٹے کے وقت یعنی جب صبح پو پھٹ رہی ہوتی ہے اس وقت یہ جال پر دانہ دنکا چگنے میں مصروف سیکڑوں چڑیوں پر ہاتھ میں پکڑے لوہے کے تار کے ذریعے جال کو الٹ دیتے ہیں اور یوں یہ معصوم پرندے صیاد کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔
Load Next Story