ایکسچینج ریٹ طویل مدت تک کنٹرول میں نہیں رکھا جاسکتا
روپے کی قدر میں 32 فیصد کمی حکومت کو سنجیدہ اصلاحات کا موقع فراہم کرتی ہے
ISLAMABAD:
گذشتہ ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر اور امریکی کرنسی کا 32 فیصد مہنگا ہوکر 115 سے 152 روپے تک پہنچ جانا لمحۂ بحران ہے۔ اس بحران نے حکومت کو سنجیدہ اصلاحات کرنے اور ہر کسی کو بہتر تفہیم کا موقع فراہم کیا ہے۔ ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ ڈالر کی خرید کے لیے مقامی کرنسی کے جتنے زیادہ یونٹ درکار ہوں گے وہ اتنی ہی کمزور ہوگی۔
حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک عرصے تک 1 پاکستانی روپے کی قدر 2 جاپانی ین کے برابر تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پاکستانی کرنسی جاپانی ین سے طاقت ور تھی۔ کرنسی کے طاقت وَر ہونے کا انحصار پیداواری سطح اور پیداوار پر ہوتا ہے۔ روپے کی بے قدری کا الزام بڑھتی ہوئی درآمدات کو بھی دیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ لگژری اشیاء کی درآمدات محدود کردی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بیشتر بنیادی ضرورت کی اشیاء درآمد کرتا ہے کیوں کہ یہ مقامی طلب کے مطابق ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔
ایک اور تصور یہ ہے کہ روپے کی قدر گرانے سے برآمداتی حجم وسیع ہوگا، مگر ایک سال کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ روپے کی مسلسل بے قدری کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوپایا اگرچہ کچھ درآمدات میں کمی ضرور واقع ہوئی۔ چناں چہ یہ فارمولا بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزی کونسل کے رکن اسد زمان نے لکھا ہے کہ کنٹرول پالیسی غلط ہے اور اس میں بنیادی اقتصادی حقائق سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ پرائس کنٹرول کی حکمت عملی مختصر مدت کے لیے کارگر ہوسکتی ہے مگر آخرکار معاشیات کے بنیادی حقائق کارفرما ہوکر ہم سے کنٹرول چھین لیتے ہیں۔ چناں چہ ایکسچینج ریٹ کو طویل مدت کے لیے کنٹرول میں نہیں رکھا جاسکتا۔
گذشتہ ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر اور امریکی کرنسی کا 32 فیصد مہنگا ہوکر 115 سے 152 روپے تک پہنچ جانا لمحۂ بحران ہے۔ اس بحران نے حکومت کو سنجیدہ اصلاحات کرنے اور ہر کسی کو بہتر تفہیم کا موقع فراہم کیا ہے۔ ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ ڈالر کی خرید کے لیے مقامی کرنسی کے جتنے زیادہ یونٹ درکار ہوں گے وہ اتنی ہی کمزور ہوگی۔
حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک عرصے تک 1 پاکستانی روپے کی قدر 2 جاپانی ین کے برابر تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پاکستانی کرنسی جاپانی ین سے طاقت ور تھی۔ کرنسی کے طاقت وَر ہونے کا انحصار پیداواری سطح اور پیداوار پر ہوتا ہے۔ روپے کی بے قدری کا الزام بڑھتی ہوئی درآمدات کو بھی دیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ لگژری اشیاء کی درآمدات محدود کردی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بیشتر بنیادی ضرورت کی اشیاء درآمد کرتا ہے کیوں کہ یہ مقامی طلب کے مطابق ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔
ایک اور تصور یہ ہے کہ روپے کی قدر گرانے سے برآمداتی حجم وسیع ہوگا، مگر ایک سال کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ روپے کی مسلسل بے قدری کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوپایا اگرچہ کچھ درآمدات میں کمی ضرور واقع ہوئی۔ چناں چہ یہ فارمولا بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزی کونسل کے رکن اسد زمان نے لکھا ہے کہ کنٹرول پالیسی غلط ہے اور اس میں بنیادی اقتصادی حقائق سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ پرائس کنٹرول کی حکمت عملی مختصر مدت کے لیے کارگر ہوسکتی ہے مگر آخرکار معاشیات کے بنیادی حقائق کارفرما ہوکر ہم سے کنٹرول چھین لیتے ہیں۔ چناں چہ ایکسچینج ریٹ کو طویل مدت کے لیے کنٹرول میں نہیں رکھا جاسکتا۔