ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا نویں قسط

کراچی کی جتنی آبادی ہے، اس سے زیادہ لوگ ملک کے دیگر حصوں سے اس شہر میں گھومنے آتے ہیں

کراچی کے لوگ چٹ پٹی چیزیں بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہم نے گنگناتے ہوئے سمندر کو الوداع کیا اور واپسی کا راستہ اپنایا۔ کراچی پاکستان کا وہ خوبصورت شہر ہے جہاں سے ہر سال عید کے چاند کی خوشخبری پورے ملک کو موصول ہوتی ہے۔ ملک کی بلند و بالا عمارتیں بھی کراچی کی قسمت میں ہیں۔ اکثر عید کے چاند کا اعلان ان بلند عمارتوں سے چاند کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگز بھی ضرور پڑھیے:

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (تیسرا حصہ)

ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (چوتھی قسط)

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پانچویں قسط)

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (چھٹی قسط)

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (ساتویں قسط)

ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (آٹھویں قسط)

کراچی کے لوگ چٹ پٹی چیزیں بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ بریانی اس شہر میں کھائی جاتی ہے۔ کراچی میں ہر علاقے کے روایتی کھانے آرام سے مل جاتے ہیں۔ بلوچستان کی سجی سے لے کر پنچاب کی کڑاہی تک کراچی کے ریسٹورینٹس میں دستیاب ہے، صرف آرڈر کرنا ہوتا ہے۔ کراچی میں گوشت کا کاروبار بہترین اور منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔ کراچی کی ہر گلی محلے میں گوشت فروش آپ کو ضرور ملیں گے۔ سبزی فروش بھی کراچی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ ان کے آسمان سے چھوتے ہوئے ریٹ ہر شخص کو زمیں پر گرا دیتے ہیں۔

کراچی کی جتنی آبادی ہے، اس سے زیادہ لوگ ملک کے دیگر حصوں سے اس شہر میں گھومنے آتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہر سال اس شہر میں پولیو کے کیسز بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔ کراچی میں سب سے مہنگا کاروبار صحت کا ہے۔ یہاں بڑے بڑے اسپتالوں میں غریب لوگ دیکھنے کو ملیں گے۔ اسپتالوں میں فیسوں کی بھرمار اور غیر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویہ لوگوں کو قبرستان تک پہنچا دیتی ہیں۔ مجھے کئی اسپتالوں میں جانے کا اتفاق ہوا، ہر جگہ انسانیت کی تذلیل ہوتی نظر آتی ہے۔

غریب لوگ مر رہے ہیں، اور ڈاکٹر اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ کراچی کے ڈاکٹروں نے انسان کے ہر عضو کا الگ اسپتال کھول رکھا ہے۔ پائوں سے لے کر دانت تک ہر چیز کا الگ ڈاکٹر کے ساتھ الگ کلینک ملے گا۔

سرکاری اسپتالوں کی حالت اتنی اچھی نہیں، جتنی پرائیوٹ اسپتالوں کی ہے۔ کراچی کے اسپتالوں میں ہر روز لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے، نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے۔ میں نے ایک عجیب بات بھی سنی کہ کراچی کے بیشتر اسپتال ایم پی، ایم این اے کے آشیرباد سے چلتے ہیں۔


کراچی میں زیادہ تر لوگ پان کھانے کے بھی شوقین ہیں، حتیٰ کہ کراچی والوں کی ایک نسل پان اور گٹکے میں ڈوب گئی۔ لوگ پان اور گٹکا کھا کر مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں، مگر پان کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ قوال حضرات اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے پہلے پان منہ میں ڈال لیتے ہیں اور پھر اپنی تیز آواز سے لوگوں کو مدہوش کردیتے ہیں۔ سننے والے بھی پان کھاتے رہتے ہیں اور واہ واہ کرتے رہتے ہیں۔

کراچی کے مختلف علاقوں کو آپس میں ملانے کےلیے لمبی اور بڑی سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ ان سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں اور لمبی قطاریں دیدہ زیب ہیں۔ کسی کراسنگ پل پر چڑھ کر یہ منظر دیکھا جائے تو حیرت زدہ آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ آخر اس شہر میں اتنی گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں اور کہاں پر جاتی ہیں؟ یہ وہ شہر ہے جہاں سب سے زیادہ حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال دو ہزار لوگ اسی شہر میں حادثات میں لقمہ اجل بنتے ہیں۔ جن حادثات کی روک تھام کےلیے مناسب حکمت عملی آج تک مرتب نہیں کی گئی۔

اس ملک میں سب سے زیادہ فلاحی تنظیمیں کراچی میں موجود ہیں، جو لوگوں کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ انہی فلاحی تنظیموں سے کئی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں کراچی میں مختلف چیزوں کے ذریعے لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں، جن میں ایمبولینس سروس سے لے کر دو وقت کا کھانا بھی شامل ہے۔ یہی فلاحی تنظیمیں عید پر غریبوں میں کپڑے، جوتے اور راشن تقسیم کرتی ہیں۔ باب الاسلام کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم عبدالستار ایدھی نے اس شہر کے قسمت میں لکھ دی ہے، جبکہ اس کے علاوہ چھیپا، الخدمت بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔

پورے ملک میں سب سے زیادہ صحافت کراچی میں کی جاتی ہے۔ کراچی میں صحافیوں کی کمی نہیں۔ سب سے زیادہ اخبارات اور پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کے ہیڈ آفس بھی اسی شہر میں ہیں، جو پوری دنیا تک پل پل کی خبریں پہنچاتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں سب سے زیادہ پریس کلب کے ممبران بھی اسی شہر کی میں ہیں۔



کراچی کی قسمت میں لائبریریوں کا بڑا خزانہ موجود ہے، جس سے ہزاروں لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ آج کل کتابوں کا رواج دوبارہ عام ہوتا جارہا ہے۔ لوگ اب انٹرنیٹ کے دور میں بھی بہت سی معلومات حاصل کرنے کےلیے کتابیں ڈھونڈھتے ہیں۔ کراچی کے ہر تعلیمی ادارے میں ایک پبلک لائبریری موجود ہے۔

اس وقت دنیا کی بیشتر آبادی دریا، جھیلوں ، تالابوں اور چشموں کے گرد و نواح میں آباد ہے۔ دنیا میں اس وقت صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ پوری دنیا کے دریا، کنویں، ندیاں، آلودگی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ آج بھی کراچی کی بیشتر آبادیوں کو صاف اور پینے والا پانی میسر نہیں۔ بلا شبہ زندگی پانی کی مرہون منت ہے۔ کراچی کے کچھ دوستوں کے بقول ہماری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینیئروں کو فون کرنے اور ان سے شکایتیں کرنے میں گزرا ہے۔

باب الاسلام کا ایک خوبصورت اور تاریخی مقام منوڑہ بھی ہے، جہاں سے انگریز کراچی میں داخل ہوئے تھے اور اس شہر پر اپنا قبضہ جمایا تھا۔ اس شہر سے وہ آگے بڑھتے رہے اور پورے ہندوستان پر قبضہ کرگئے اور ہم پر سو سال تک حکمرانی کی۔ یہاں تاریخی لائٹ ہاؤس ہے جو بحری جہازوں کو راستہ دکھاتا ہے۔

کراچی کی خوبصورت جگہوں میں کئی پارک شامل ہیں، جن میں الہ دین پارک، ہل پارک اور عسکری پارک بہت مشہور ہیں۔ سننے میں آیا ہے ہل پارک جنرل ایوب خان نے تعمیر کیا تھا۔ یہ پارک پہاڑی پر موجود ہے۔ اس پارک میں داخل ہونے کے بعد آپ کو پہاڑ کی چڑھائی محسوس ہوگی۔ ہل پارک سرکاری پارک ہے۔ اس پارک میں مجھے کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ جب بھی گیا وہاں پر کسی ڈرامہ یا فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔

کراچی کا دوسرا مشہور پارک الہٰ دین پارک ہے۔ اس پارک میں پارکنگ ایریا سے لے کر ہر جگہ پر داخل ہونے کا ٹکٹ لینا لازمی ہوتا ہے۔ اس پارک میں بچوں اور بڑوں کےلیے بہت سی تفریحات ہیں۔ چھوٹے بچوں کےلیے تفریح زیادہ ہے، جبکہ بڑوں کےلیے بھی جھولوں سے لے کر ہوٹل تک سب کچھ میسر ہے۔ اس جگہ پر کھانے پینے کی اشیاء بہت مہنگی ملتی ہیں۔



کراچی کا ایک اور پارک پچھلے چند سال مشہور ہوا اور وہ پارک پرانی سبزی منڈی کے خاتمے کے بعد بنایا گیا۔ وہ ہے عسکری پارک۔ یہ پارک فیملی پارک بھی ہے اس پارک میں گزشتہ سال جھولا گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد اس کی مقبولیت میں کمی آئی اور ایک عرصہ تک یہ پارک عوام کے لیے بند رہا۔ ہم نے کراچی کے مختلف خوبصورت مقامات دیکھنے کے بعد باب الاسلام کے سب بڑے شہر کراچی کو الوداع کیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story