پھیکی مبارکباد

ہوتا کچھ بھی نہیں اور ہر طرف مبارک ہو، مبارک ہو کی ہاہاکار سنائی دینے لگتی ہے


اکرم ثاقب May 30, 2019
لوگوں نے مبارک باد دینا مشغلہ بنالیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

زمانہ بدلہ، روایات بدلیں اور ہر کام کا انداز بھی بدل گیا۔ پرانے وقت کی روایات کو ہم نے منفی انداز سے اپنایا کہ ان کا حلیہ ہی تبدیل کردیا۔ پہلے یہ روایات جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے تھیں، لیکن اب یہ عجیب و غریب پہلوؤں کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ ان سے ان کی روح چھین لی۔ رسم و رواج کی ایسی کی تیسی کردی کہ اب ہر خوشی اور غم یکساں ہوگیا ہے۔ خوشی بھی رسمی رہ گئی ہے اور غم بھی۔ افسوس کا اظہار بھی قابل افسوس ہوگیا ہے اور خوشی بھی بددلی بن چکی ہے۔ پہلے لوگ بغیر سوشل میڈیا کے خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ اس میڈیا نے آکر عجیب و غریب بدعات شروع کردی ہیں۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔

دو دوست تھے، اتفاق سے ایک اندھا ہوگیا اور ایک بہرہ۔ اندھا بہت بیمار پڑگیا تو بہرے نے اس کی عیادت کا ارادہ کیا۔ اپنی بات کا جواب چونکہ وہ سن نہیں سکتا تھا تو اس نے اپنے سوالنامہ کے جوابات بھی تیار کرلیے۔ اس بہرے نے پہلا سوال تیار کیا کہ میں اپنے دوست سے پوچھوں گا کہ کیسے ہو اور وہ کہے گا ٹھیک ہوں، تو میں جواب میں کہوں گا شکر ہے رب کا۔ پھر اس سے پوچھوں گا کہ کھاتے کیا ہو۔ وہ کہے گا کہ حلوہ یا دلیہ وغیرہ، تو میں کہوں گا شاباش، نرم غذا ہے کھایا کرو۔ آخر میں اس کی بیوی کے بارے پوچھوں گا کہ وہ کیسی ہے، تو اندھا جواب دے گا کہ اچھے گھرانے کی اچھی عورت ہے، گھر سنبھال رکھا ہے اور مجھے بھی۔ تو میں کہوں گا، مبارک ہو۔ یہ تیاری کرکے وہ اندھے کے پاس جاپہنچا۔

بہرہ: سناؤ دوست کیسے ہو؟

اندھا: مر رہا ہوں۔

بہرہ: شکر ہے۔ کھاتے کیا ہو؟

اندھا: کھانا کیا ہے روکھی سوکھی مل جائے تو ٹھیک ورنہ فاقہ۔

بہرہ: بہت اچھا، شاباش نرم غذا ہے کھایا کرو۔

بہرہ: میری بھابی کی سناؤ، وہ کیسی ہے؟

اندھا: وہ تو کب کی مجھے چھوڑ کر کسی دوسرے کے پاس چلی گئی۔

بہرہ: مبارک ہو!

پہلے لوگ صرف عید کے تہوار کی مبارک دیتے تھے۔ عید کارڈ بھیجے جاتے تھے۔ امیر گھرانوں میں سالگرہ مبارک ہوتی تھی اور شادی بھی نکاح والے دن مبارک ہوتی تھی۔ جب سے یہ موبائل آیا ہے، مبارک باد میں ڈالر کی قیمت کی طرح اضافہ ہوگیا ہے اور خلوص سیاستدانوں کے اور صحافیوں کے اخلاق کی طرح ختم ہوگیا ہے۔لازم ہے آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ آپ کے موبائل فون پر ایسی بے شمار مبارک بادیں آتی ہوں گی، جو آپ کے خیال میں بھی مبارک باد نہیں بنتی ہوں گی۔ کیونکہ یار لوگ بلاامتیاز ہر بات کی مبارک دے رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا مشغلہ بن چکا ہے کہ دوسروں کو اور کچھ نہیں تو مبارک باد ہی دے دی جائے۔ یہ خیال ہی نہیں کرتے کہ ہوسکتا ہے وصول کنندہ کو کوئی سنجیدہ مسئلہ درپیش ہو، وہ بہت زیادہ پریشان ہو۔ ہم نے تو بس مبارک باد دینے کی عادت بطور رسم اپنا لی ہے۔ خود تاش کھیل رہے ہوتے ہیں اور جمعہ مبارک سب کو لکھ بھیجتے ہیں۔

اب رمضان المبارک ہی میں مشاہدہ کرلیں۔ چاند کی پہلی سے آخری تاریخ تک پہلا روزہ مبارک، دوسرا روزہ مبارک کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ جب یہ کام سب نے شروع کرلیا تو جدت پسندوں نے ہر سحری مبارک لکھنا شروع کردیا۔ کسی نے یہ بھی نقل کرلیا تو افطاری مبارک۔ پھر اعتکاف مبارک کا پیغام بھی سب کو دیا۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اعتکاف کی مبارک باد ہر کسِ ناقص کو دی جاتی ہے، مگر معتکف بس چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ ہاں عشروں کی مبارک الگ سے ہوتی ہے۔ انتیسویں روزے کو ہی پیشگی عید مبارک کے پیغامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔ ایک نمونہ ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہی لوٹ کر بار بار اسکرین پر جگمگا رہا ہوتا ہے۔ اس مبارک باد کی بھرمار نے مبارک باد کو بھی ٹی وی کے اشتہاروں کی بھرمار کی طرح بے جان کردیا ہے۔

رسم بڑھ گئی، مگر اصل ختم ہوگئی۔ ہم مبارک پڑھ کر نہ ہی بھیجنے والے کو یاد کرتے ہیں اور نہ ہی خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے دوست نے ہمیں یاد کیا اور یاد رکھا ہے۔ بس ہم بھی اسی بددلی سے پیکیج کروا کر واپس مبارک باد کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔

یہ تو تھی صرف رمضان پیکیج کی بات۔ قبل از رمضان اور بعد از رمضان بھی ہر صبح مبارک سے شروع ہوکر اس لامتناہی سلسلے کا فیض جاری و ساری رہتا ہے۔ جس طرح سے ہم مشین کو جذبات کے اظہار کےلیے استعمال کررہے ہیں، مشین نے بھی اپنا جادو دکھا دیا ہے۔ اس نے ہم سے ایسا انتقام لیا ہے کہ ہمیں مشینی بنادیا ہے۔ ہوتا کچھ بھی نہیں اور ہر طرف مبارک ہو، مبارک ہو کی ہاہاکار سنائی دینے لگتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔