شام پر حملے کا خطرہ

امریکا کی جانب سے شام پر حملے کی تیاریاں جاری ہیں اور کسی بھی وقت کارروائی عمل میں آ سکتی ہے.


Editorial August 28, 2013
فوج تیار ہے جنگی ساز و سامان کو مناسب مقام پر پہنچا دیا گیا ہے. فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD: امریکا کی جانب سے شام پر حملے کی تیاریاں جاری ہیں اور کسی بھی وقت کارروائی عمل میں آ سکتی ہے۔ برونائی میں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے بات چیت کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ فوج تیار ہے جنگی ساز و سامان کو مناسب مقام پر پہنچا دیا گیا ہے، صدر اوباما کا حکم ملتے ہی شام پر حملہ کر دیا جائے گا۔ شام پر حملے کے لیے امریکی جنگی بحری جہاز خطے میں موجود ہیں جب کہ برطانیہ نے شام کے قریب جنگی طیارے' فوجی سامان جمع کرنا اور فوجی دستوں کی تربیت کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔ شام کی اپوزیشن کا بھی دعویٰ ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹے حساس ہیں اور انتہائی اہم فیصلہ متوقع ہے' دنیا وہ دیکھے گی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

امریکا اور اس کے اتحادی، اقوام متحدہ کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق کو جواز بناتے ہوئے حملے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ الزام لگا رہا ہے کہ شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ کچھ دن قبل ایران نے کہا تھا کہ اس کے پاس اس امر کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بشار حکومت کے مخالفین کی طرف سے کیا گیا ہے جنھیں امریکا اور اس کے حواری یورپی ملکوں کی طرف سے جدید ترین ہتھیار اور لاجسٹک امداد دی جا رہی ہے۔ شام میں کیمیائی ہتھیار تو استعمال ہوئے ہیں مگر یہ گومگو کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے کہ ہتھیار کس نے استعمال کیے' حکومت نے یا اس کے مخالفین نے۔ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال تو ایک بہانہ ہے امریکا اور اس کے حواری ایک طویل عرصے سے شام پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

انھوں نے عراق پر بھی حملے سے قبل اس پر مہلک اور تباہ کن ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا تھا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امریکی قبضہ کے بعد بھی عراق سے یہ ہتھیار برآمد نہ ہو سکے۔ بعد ازاں ایسی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ یہ سب امریکی ایجنسیوں کا کارنامہ تھا جو جھوٹی اطلاعات پہنچاتی رہیں۔ اب بھی شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شک و شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مغربی میڈیا کے مطابق شام پر امریکی حملے کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ شامی فوجی کمانڈرز کے بنکروں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے سمندر سے کروز میزائل چلائے جائیں گے۔ واشنگٹن پوسٹ نے سینئر امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ شام پر حملہ دو روز سے زیادہ وقت تک جاری نہیں رہے گا جب کہ حملے میں میزائل یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے بم استعمال کیے جائیں گے اور اس دوران جنگی اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا۔ شام پر حملے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادی ایک بار پھر متحد ہو گئے ہیں۔

شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ ان کا ملک حملے کی صورت میں منہ توڑ جواب دے گا۔ کیا شام کے پاس اتنی فوجی قوت اور جدید ٹیکنالوجی موجود ہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کر سکے؟ شام پر حملے سے قبل امریکا نے اسے اندرونی خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا جس نے اسے دفاعی اور معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ شامی حکومت تمام تر وسائل کے باوجود اب تک مسلح مخالف قوتوں کو شکست نہیں دے سکی ایسے میں وہ امریکا جیسی سپر پاور اور اس کے اتحادیوں کا کیسے مقابلہ کر پائے گی۔ حملے کی صورت میں شامی حکومت کے مخالف بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیں گے۔ موجودہ صورت حال میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ بشارالاسد حکومت کے دن گِنے جا چکے ہیں۔ عراق پر حملے سے قبل امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اسے اندرونی طور پر کمزور کیا جب انھیں یقین ہو گیا کہ عراق میں مقابلہ کی سکت نہیں رہی تو انھوں نے اس پر حملہ کر دیا۔

اب بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کو یقین ہو چکا ہے کہ شام میں مقابلے کی طاقت نہیں رہی اور وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔پاکستان' چین' روس' ایران' اردن' لبنان' عراق اور افغانستان سمیت 20 سے زائد ایشیائی اور عرب ممالک نے شام میں فوجی مداخلت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر شام میں مداخلت کی گئی تو خطے میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادی عراق پر حملے کے وقت بھی دیگر ممالک کے احتجاج کو خاطر میں نہ لائے تھے، اب بھی اس امر کا امکان ہے کہ وہ روس چین اور دیگر ممالک کی مخالفت کے باوجود اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ شام پر حملے سے مشرق وسطیٰ ایک اور نئے بحران میں مبتلا ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کو اس مسئلے پر غور اور امریکی جنگی جنون کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ کمزور امریکا مخالف ممالک اپنی سلامتی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو دنیا بھر کے امن کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں