خاتون آہن کی آنکھ میں آنسو

تھیریسا مے کا آہنی خول، جو ہوم سیکریٹری کے طور پر اس کا اثاثہ تھا، وزیراعظم بننے کے بعد گلے کا طوق بن گیا۔


Arif Anis Malik May 28, 2019
[email protected]

'میں جلد ہی اس ذمے داری سے دستبردار ہوجاؤں گی، جو میری زندگی کا حاصل ہے۔ میں برطانیہ کی دوسری خاتون وزیراعظم ہوں، مگر یقیناً آخری نہیں. میرے لیے اس سے زیادہ فخر کی کوئی بات نہیں کہ مجھے اپنے محبوب ملک کی خدمت کرنے کا موقع ملا'. یہاں پہنچ کر برطانیہ کی آئرن لیڈی کا لہجہ بھرا گیا اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ وزیراعظم تھیریسا مے نے 7 جون کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا عندیہ دے دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ کنزرویٹو پارٹی کو اپنا لیڈر چننے میں چھ سے آٹھ ہفتے لگ جائیں گے۔

2015 سے لے کر 2019 تک تھیریسا مے سے درجن کے قریب ملاقاتیں ہوئیں۔ 2015 کے اوآخر میں جب وہ بحیثیت ہوم سیکریٹری، میری طرف سے منعقدہ پاکستانی لیڈرز کی تقریب میں شامل ہوئی تو پہلی دفعہ یہ خبر بریک ہوئی کہ تھیریسا مے کی فلپ مے کی شادی میں مرحوم پاکستانی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ تب تھیریسا مے نے بہت محبت سے بینظیر مرحومہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ مسلم امہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر انھوں نے، انھیں بہت متاثر کیا۔

اسی تقریب میں، میں نے تھیریسا مے کے وزیراعظم بننے کی وہ پیشین گوئی کی جو بعد میں ریکارڈ کا حصہ بن گئی. وہ ایک سال سے کم عرصے میں، برطانیہ کی دوسری وزیراعظم بن گئیں ۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اوریکل عارف کہہ کر میرا تعارف کرایا۔ تاہم یہ ان دنوں کی بات ہے جب، بریگزٹ ووٹ کے بعد، ڈیوڈ کیمرون منظر عام سے غائب ہو چکے تھے اور پورے برطانیہ میں تھیریسا مے کا طوطی بولتا تھا۔ برطانیہ کی سب سے طویل عرصے تک ہوم سیکریٹری رہنے والی تھیریسا مے نے فولادی خاتون کے طور پر اپنا لوہا منوا لیا تھا۔

بطور وزیراعظم تھیریسا مے کی بڑی غلطیوں میں سب سے پہلی جون 2017 میں جنرل الیکشن کا انعقاد ہے جس نے ٹوری پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی اور وہ بمشکل اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ نقصان یہ ہوا کہ مخلوط حکومت بنانے کے بعد اب تھیریسا مے کی حکومت کے طوطے کی جان پارلیمنٹ کے چند اراکین کے ہاتھوں میں آگئی۔ یہ مینڈک تولنے والا کام تھا، جس میں کچھ تُلتے تو باقی پھدک کر نیچے اتر جاتے۔

تھیریسا مے کا آہنی خول، جو ہوم سیکریٹری کے طور پر اس کا اثاثہ تھا، وزیراعظم بننے کے بعد گلے کا طوق بن گیا۔ مجھے جولائی 2017 میں الیکشن سے فورا بعد ہونے والی ملاقات یاد ہے،تب ٹوری پارٹی کے تمام شرکاء کے چہروں پر یتیمی اور مردنی چھائی ہوئی تھی۔ ایک سینئر وزیر نے میرے کانوں میں سرگوشی کی، 'یہ عورت ہمیں لے ڈوبے گی۔ اس کا عام آدمی کی نبض پر کوئی ہاتھ نہیں ہے۔'

بدقسمتی سے یہ رائے، اکثریت کی رائے بن گئی۔ تھیریسا اور فلپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس وجہ سے وہ ٹھنڈے ٹھار نظر آتے تھے. اور تو اور برطانیہ کی تاریخ کے خوفناک ترین سانحے، گرین فیل ٹاور، جس کی آگ میں سیکڑوں افراد بھسم ہو گئے، نے تھیریسا مے کی عام افراد کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی ریپوٹیشن پر مزید ڈینٹ ڈال دیے۔ لوگوں نے ایک ایسی وزیراعظم کو دیکھا جو ماتھے پر تیوریاں چڑھائے، بغیر جذبات کے، متاثرین سے اظہار ہمدردی کیے جارہی تھی۔ یہ ایک طرح سے انجام کا آغاز تھا۔

تھیریسا مے کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے ہنٹر کے زور پر حکومت کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنے عوام کو کھل کر نہیں بتایا کہ اس کا جینا مرنا ان کے ساتھ ہے۔ اس کے چہرے پر چڑھی فولادی تہیں موم نہ ہو سکیں۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو بھی صرف اس وقت نکلے جب وہ استعفے کا اعلان کر رہی تھی۔ لوگوں کو حسرت ہی رہی کہ یہ آنسو عام لوگوں کے جل مرنے پر نکلتے۔ وہ کھل کر آئی ایم ساری بھی نہ کہہ سکی۔ اسے بہت کم لوگوں نے کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا۔

تھیریسا مے کی کابینہ میں شامل ایک وزیر کا کہنا تھا کہ ہر ہفتے کابینہ کی میٹنگ میں جانا، دانتوں کے ڈاکٹر والی کرسی پر بیٹھنے کے برابر تھا۔ نفسیاتی تجزیے نے ایک اور دلچسپ امر کا انکشاف کیا۔ تھیریسا مے، اسکول جانے کے وقت سے ہی وزیراعظم بننے کے خبط میں مبتلا تھی. خیر یہ خبط جسے ماہرین نفسیات، دیوتا کاملپکس کہتے ہیں، بہت سے سیاست دانوں میں موجود ہوتا ہے۔ مگر بعض کو اس کی زیادتی لے ڈوبتی ہے۔ خیر تھیریسا ویسے بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور بچپن میں دوستوں کی خاص ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی۔

'تھیریسا مے کے پاس سیاست کے سواکوئی کام نہیں ہے۔ بچے ویسے نہیں ہیں، اگر وہ سیاست سے الگ ہوگئی تو مجھے حیرت ہوگی کہ کیسے جی سکے گی' ایک دفعہ ٹین ڈاؤننگ میں اس کے ساتھ کام کرنے والی اسسٹنٹ نے سرگوشی کی، شاید اسی نفسیاتی معاملے نے بریگزٹ کے حوالے سے تھیریسا مے کے تمام فارمولوں کو ناکام بنا دیا۔ بحیثیت وزیراعظم، تھیریسا مے نے بریگزٹ کے کرائسس کو حل کرنا اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا، تاہم اپنی کابینہ اور پارٹی ممبران سے دوری اور بے لچک رویے نے ہر جگہ اس کو ناکام بنا دیا۔ اپنی آخری تقریر میں اس نے پہلی دفعہ لفظ کمپرومائز استعمال کیا، گو اس نے خود مل جل کر چلنے کی ہر کوشش ناکام بنادی۔

اب ایک ملین پاؤنڈ کا سوال یہ ہے کہ برطانیہ کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ اس ضمن میں بے شمار لطیفے مارکیٹ میں آچکے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کے امیدواروں کی تعداد درجن سے زائد ہوچکی ہے۔ ٹوری امیدواروں کی نامزدگی اور ووٹنگ کے مراحل تقریباً دو ماہ کے اندر پورے ہوں گے۔ فیورٹ کے طور پر بورس جانسن کا نام لیا جارہا ہے. اگرچہ تاریخی اعتبار سے یہاں فیورٹ کم ہی وزیر اعظم بنتے ہیں۔

پاکستانی نژاد ہوم سیکریٹری ساجد جاوید، کچھ عرصہ قبل اس دوڑ میں سب سے آگے تھے۔ دو دن قبل ساجد جاوید کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے جب میں نے اسے کہا کہ ہم سب تمہیں ٹین ڈاؤننگ میں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے چہرے کے تاثرات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔'یو آر ٹو کائند:۔ ساجد نے میرا کاندھا دباتے ہوئے کہا، اس شام بات چیت کے دوران ساجد نے بہت زوردار طریقے سے اپنا مقدمہ لڑا۔ اس نے بتایا کہ برطانیہ کی ترقی کی شرح اس وقت جی سیون ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ برطانوی ایکسپورٹس اس وقت تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں اور برطانیہ کے اندر بیرونی انوسٹمنٹ پورے یورپ کی مجموعی انوسٹمنٹ سے زیادہ ہیں تاہم سنجیدہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ساجد جاوید کا سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ ووٹرز نہیں جانتے کہ وہ کس مقصد کے ساتھ کھڑا ہے۔ اب ساجد کے ہاتھ سے ٹرین چھوٹ چکی ہے اور اب فیصلہ بورس جانسن، ڈومینک راب اور جیریمی ہنٹ کے درمیان ہوگا۔ اگر لندن کا سابقہ میئر بورس جانسن اس دوڑ میں جیت گیا تو یہ ایک اور بحران کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے.

تھیریسا مے کے اقتدار پر پردہ گر پڑا ہے۔ اس آہنی اعصاب کی خاتون پر بہت سے حوالوں سے آوازیں بھی کسی جارہی ہیں. تاہم شاید ایک دعویٰ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر، کر سکتی ہے کہ

ہر داغ ہے اس دل میں، بجز داغ ندامت

تھیریسا مے، اقتدار کی کشتی کے پتوار کچھ گیارہ سال تک سنبھالے رہی، مگر کسی بھی قسم کے سکینڈل کے بغیر رخصت ہو رہی ہے۔ نہ کوئی پلاٹ بانٹنے کے قصے، نہ صوابدیدی فنڈ کے اجراء کی کہانیاں، نہ سوئٹزرلینڈ میں خفیہ بینک اکاؤنٹ، نہ مسٹر ٹین پرسینٹ شوہر ۔ یہ گورے بھی ہمیں بہانے بہانے سے زچ کیے رکھتے ہیں اور ہماری الہڑ مٹیار جمہوریت کے پسینے چھڑائے دیتے ہیں۔

برطانوی اقتدار کے ایوانوں میں میوزیکل چیئر کے اس کھیل کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کا دورہ برطانیہ خطرے میں ہے۔ دو ہفتے قبل اس دورے کے حوالے سے تیاریاں مکمل کی جارہی تھیں اور بھارتی وزیراعظم مودی کے مقابلے میں عمران خان کو بھی ویمبلے اسٹیڈیم میں بیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے روبرو لایا جا رہا تھا،تاہم تھیریسا مے کے استعفے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث ورلڈ کپ کے دوران عمران خان کا دورہ کٹھائی میں پڑگیا ہے اور اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اٹھارہ جون کے آس پاس برطانیہ کا دورہ کریں گے۔ اگلے وزیر اعظم کا بروقت انتخاب اس فیصلے کو تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔