عورت ایک معصوم حقیقت
ہم وہ قوم ہیں جو عورت کے لیے پہلے تو احتراماً جگہ خالی کرتے ہیں اورکبھی جھگڑا ہوجائے تو عورت پہ مبنی گالیاں دیتے ہیں۔
لاہور:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اس بار لکھنے سے پہلے عجب سی کیفیات سے دوچار رہی کیونکہ اس بار تحریرکا عنوان میری ذات تھی، میری ہم جنس تھی یعنی عورت، چنانچہ ہر بارکی طرح اس بار بھی جب تحریر لکھنے سے پہلے اپنے استاد محترم سے اجازت اور دْعا چاہی اور عرض کی کہ اس بار میں مشاہدہ یا مشورہ نہیں لکھنا چاہتی بلکہ اپنے قارئین سے چند سوالات کے تسلی بخش جواب چاہتی ہوں تو وہ مسکرائے اور فرمانے لگے '' ادیبوں کے قلموں میں سیاہی کم ہوگئی لیکن اس موضوع کو مکمل ضبط میں نہ لاسکے کچھ لکھنے والوں کو ناقدین کی کھلی تنقیدکا سامنا ہوا توکچھ کی تحاریر محض ادب کا نمونہ بن کر رہ گئیں ''میں نے عرض کی استاد محترم آپ رب کی اس مخلوق یعنی عورت کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے تو انھوں نے انتہائی خوبصورت مختصر مگر جامع جواب دیا کہ ''عورت تو ایک معصوم حقیقت ہے'' اور میں اْن کے اِن لفظوں میں کھو سی گئی کہ بلاشبہ ہماری زندگیوں میں درپیش تمام حقیقتیں تلخ ہیں ۔
ایسے ہی عورت بھی ایک حقیقت ہے۔چند دن قبل میں اپنے پروگرام سے پہلے بیٹھی اسکرپٹ پڑھ رہی تھی توکمرے میں ایک نرم وجیہ چہرے والی خاتون داخل ہوئیں جو میری میک اپ آرٹسٹ تھیں سر پہ اسکارف اوڑھے بہت شائستہ سی لگیں ، دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ ان کی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی اورکچھ عرصے بعد شوہرکا انتقال ہوگیا۔ مجھے یہ سن کر دکھ کے احساس نے افسردہ کردیا اور ازراہِ ہمدردی کہہ ڈالا کہ بچے چھوٹے ہونگے تو شادی کرلیں ۔ وہ مسکرائی اورکہنے لگی آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ عورت اکیلی ہے توکمزور ہی ہوگی ماشاء اللہ بچے تو اب بڑے ہوگئے ہیں۔
بیٹا یونیورسٹی اور بیٹی کالج جاتی ہے۔ میری حیرت کو جانچتے ہوئے کہنے لگیں میرے چہرے پہ پھیلا اطمینان دیکھ رہی ہو یہ میرا صبر ہے جس کو میرے اللہ نے اطمینان اور اعتماد سے بدل دیا ہے اور میں اس عورت کو سراہے بنا نہ رہ سکی کہ عورت اپنے ظاہری خال وخد سے کمزور ضرور ہے لیکن کسی بھی وجہ سے خاوندکی عدم موجودگی میں تنہا اپنے بچوں کو پال لیتی ہے۔ ہاں اسی صورت حال سے اگرکوئی مرد دوچار ہوجائے تو وہ تنہا اس ذمے داری پہ پورا نہیں اْترتا بلکہ دوسری شادی کی راہ تلاش کرتا ہے۔ بچپن سے ہمیں یہی احساس دلایا جاتاہے کہ ہمارے بھائی والد اور شوہر ہمارے تحفظ کے ضامن ہیں جوکہ بلاشبہ ایک خوش گوار احساس ہے لیکن وہ لوگ جو ان مضبوط حصاروں سے محروم ہیں ان کی حفاظت کون کرے؟ یقینا میرے قارئین کا جواب ہوگا کہ اللہ تعالی ان کا حامی وناصر ہوتا ہے توکیا ہی اچھا ہوکہ اس رب پہ ہی بھروسہ کرکے زندگی کی محرومیوں سے لڑنا سیکھا جائے۔
یہاں ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے کہ چند دن قبل اپنے ایک ساتھی کے مسئلے کے تحت تھانے جانا ہوا وہاں بیٹھے پولیس اہلکار نے تشویش ناک نظروں سے دیکھتے ہوئے بڑی با رْعب آواز میں کہا '' بی بی کیا مسئلہ ہے ؟'' میں نے چند لحظہ گردونواح کا معائنہ کیا اور ساتھ ہی اپنا صحافتی کارڈ ٹیبل پہ رکھ دیا اور یک لخت اس اہلکار کے لہجے میں تبدیلی آگئی اور میں بی بی سے میڈم ہوگئی یکدم ذہن میں فریحہ نقوی کا شعرگونجا۔
زمانے اب تیرے مدمقابل
کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے
حال ہی میں ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کی آزادی سے متعلق عورت مارچ کیا گیا اور بینرز اٹھا کر خواتین سے متعلق مسائل کی نشاندہی کی گئی ۔ یہ آزادی مارچ کافی متنازعہ رہا اور سوشل میڈیا پہ مردوں کی جانب سے جوابات کی بوچھاڑ رہی ، جسے پڑھتے ہوئے میں نے اپنی قریبی دوست ابیہہ سے کہا کہ لگتا ہے کہ مردوں کی انا مجروح ہورہی ہے تبھی یہ سب لکھ رہے ہیں لیکن اْس کا ردعمل یکسر مختلف تھا حالانکہ وہ بھی ایک ورکنگ لیڈی ہے۔ کہنے لگی یقین کرو ہم لوگ بعض اوقات اپنی اخلاقی حدیں پار توکرجاتے ہیں لیکن بعد میں صرف شرمساری سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ معاشرے میں متوازن سوچ کا فقدان ہو رہا ہے اب اگر عورت گھرکا کام کاج سنبھالے تو اسے قیدی کہا جاتا ہے اور نوکری کی غرض سے گھر سے باہر نکلے تو آزاد خیال اور بے شرم کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔
میں اس بات پہ مسکرائی اورکہا کہ صحیح کہتی ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے دورانِ سفر ایک عورت سے ملی جوکافی اداس اور گم صْم سی تھی۔ میں نے بات کرنے کی غرض سے نام پوچھا تو اس نے آمنہ بتایا میں نے پورا نام پوچھا تو غم اور غصے سے ملے کڑوے لہجے میں کہا کہ یہی میرا پورا نام ہے اور میں ٹھٹھک سی گئی۔ اس نے پھر کہا بھاگ کر شادی کی تھی خاندان والوں نے ناتا توڑ لیا حتیٰ کہ اپنا نام تک چھین لیا جس کے لیے گھر سے بھاگی تھی اس کا نام ساتھ جوڑ لیا لیکن کچھ عرصے بعد اس نے بھی چھوڑ دیا اور اس کا نام بھی چھن گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت کا صرف گھر ہی نہیں اس کا نام بھی نہیں ہوتا اس کی ذات کی کوئی پہچان بھی نہیں ہوتی۔اس کے چہرے پر پھیلتے ملال کی لکیریں مجھ سے کہہ رہی تھیں :
یہ درد مجھے درد دیتا ہے
کہ میرے ہی شور میں میری آواز دفن ہے
ہم وہ قوم ہیں جو عورت کے لیے پہلے تو احتراماً جگہ خالی کرتے ہیں اورکبھی جھگڑا ہوجائے تو عورت پہ مبنی گالیاں دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ عورت کی مظلومیت کا رونا روتا ہے تو وہیں ایک طبقہ عورت کو ڈائن سے تشبیہ دیتا ملے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور موجودہ دورکی عورت کو اس کے صحیح مقام سے ٓآشنا کرائیں خواہ وہ گھر کو چلانے والی عورت ہو یا ملک کو چلانے والی عورت۔کیوں بھلا ہم عورت مرد میں فرق کے تنازعہ کو ہوا دیتے ہیں جب کہ اسلام نے عورت کو مقام و مرتبہ دے کر اسے معاشرے کے افراد میں برابری کا حقدار قرار دیا ہے تو کیوں عورت کو بار بار احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کمتر ہے؟ اور بھلا کیوں عورت اپنے مدار میں خوش نہیں رہتی ؟کیا معاشرہ اس بگاڑ کا سدباب نہیں کرسکتا؟کیا ہم یونہی صدیوں مرد و عورت کے درمیان تقابلے کی جنگ لڑتے رہیں گے ؟کب ہم معاشرے کے دو اہم ستون ہونے کا حق ادا کرنے لگیں گے ؟کاش ہم اس ذات عورت کو اس کی اصل پہچان دلاسکیں۔
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے