بیرونی امداد حاصل کرنے والی جماعتوں اور تنظیموں پر نظر رکھی جانی چاہیے

انٹیلی جنس ایجنسیاں صرف اپنے لیے کام کرتی ہیں، ایکسپریس فورم میں شرکا کا اظہار خیال

مجوزہ نیشنل سیکیوریٹی پالیسی پر سیاسی جماعتوں کا ایکسپریس فورم ۔ فوٹو : ظفر اسلم راجہ

نائن الیون کے بعددہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان نے فرنٹ سٹیٹ کاکردارادا کیاجس میں نہ صرف وطن عزیزکوپینتالیس ہزارسے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا بل کہ بھاری مالی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری میں بھی آنے والے سالوں میں بہ تدریج کمی واقع ہوئی اورملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچا۔

سابق صدرپرویز مشرف کے آخری پانچ سالہ دورحکومت میں پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا اوردہشت گردی کے خلاف سینہ سپر پانچ ہزار سے زائد فوجی جوان اور افسران بھی شہید ہوئے۔ گذشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اوراس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہوئی جس میں حکومت میں شامل جماعتوںمیں بالخصوص اے این پی سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنی اور اس وقت کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے سابقہ حکومت کی دہشت گردی سے نمٹنے کی پالیساں بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنائی جاتی رہیں۔



اب وہی جماعت مسلم لیگ ن خود مرکز میں پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی نسبت زیادہ مضبوط اور واضح مینڈیٹ کے ساتھ مرکز اور پنجاب میں حکومت کر رہی ہے جس کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمہ جہت جامع پالیسی بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا جا چکا ہے جب کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے مجوزہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے کچھ خد و خال گذشتہ ہفتے اپنی تفصیلی پریس کانفرنس میں قوم کے سامنے پیش کیے ان پرروزنامہ ایکسپریس کی جانب سے ملک کی سیاسی جماعتوں کی آراء اورتحفظات معلوم کرنے کی خاطر خصوصی فورم کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، پاکستان تحریک انصاف اورمجلس وحدت المسلیمین کے رہ نماؤں نے شرکت کی۔ ان کی بات چیت قارئین کی نذرہے۔

فیاض الحسن چوہان


ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے دو روز قبل سوا گھنٹہ تک لوگوںمیں ''پینک'' پیداکیا۔ 2009ء میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم قائم کی گئی مگر اس میں پہلے یہ مسئلہ درپیش رہا کہ اس کا سربراہ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک ہو یا سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی۔۔۔۔ تاہم نومبر میں وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی کہ وزیراعظم کو اس کاسربراہ ہونا چاہیے جب کہ چاروں صوبوں کو بھی اس میں نمائندگی دی جائے ۔ اسی طرح ریپڈ ریسپانس بھی نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے نام سے موجود تھی، جیسے کہ اب، وزیرداخلہ نے جوائنٹ انٹیلی جنس سیکریٹریٹ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ یہ کام پہلے بھی ہو رہا تھا اس لیے موجودہ حکومت نے کوئی نیا کام نہیں کیا بل کہ''گونگلوؤں'' سے مٹی جھاڑی ہے کہ وہ کوئی نئی قومی سلامتی لے کر آنا چاہتے ہیں، یہ سب پرانی باتیں ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے حالیہ عام انتخابات کے اگلے دن ہی حکومت کودعوت دے دی تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف متفقہ پالیسی بنائی جائے مگر حکومت کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہ آیا۔ پھربعدمیں کسی سیاسی و مذہبی جماعت سے مشاورت کیے بغیر ہی وزیرداخلہ نے بارہ مئی کی آل پارٹیزکانفرنس بلانے کی ڈیڈ لائن دے دی جس کے لیے کسی جماعت سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا اور ملبہ عمران خان پر ڈال دیا کہ ان کے لندن روانہ ہونے کی وجہ سے اے پی سی منعقد نہ کی جا سکی جوکہ سو فی صد غلط ہے۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں کچھ داؒخلی اورخارجی عوامل موجود ہیں جن پر پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی یا پھر جے یوآئی بولتی ہے اور کوئی سیاسی جماعت اس پربات نہیں کرتی۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ''را'' موساد سمیت مختلف ممالک کی سولہ سے سترہ خفیہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں، اسی وجہ سے عمران خان نے کہا کہ پہلے ہمیں کلیئرکیا جائے کیوں کہ خیبر پختون خوا میں لوگوں نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے اور پی ٹی آئی نے دہشت گردی کے خلاف واضح اور ٹھوس موقف رکھا ہے اور اس پر قائم ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے ان وجوہات کی بنیاد پر کہا ہے کہ پہلے انہیں بتایا جائے کہ سابقہ موجودہ اور موجودہ حکومتوں اور پاکستان آرمی کے دہشت گردی کے حوالے سے امریکا کے ساتھ اعلانیہ اور غیراعلانیہ کیا معاہدے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ فرقہ واریت ہو رہی ہے اور اس پرآرمی پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں، اس لیے ہمیں واضح کیا جائے مگر حکومت اس طرف نہیں آرہی، جب وزیرداخلہ نے سب کچھ پریس کانفرنس میں کہ ڈالا ہے تو پھر سیاسی قیادت سے مشاورت کہاں گئی۔۔۔۔؟ جن عینکوں کا ذکر وزیر داخلہ نے کیا ہے وہ نیٹ سے سرچ کریں تو چار سوننانوے روپے میں آسانی سے مل جاتی ہیں۔

2008,2009 اور 2011 میں اے پی سیز بلائی گئیں جس میں باقاعدہ قراردادیں منظورکی گئیں مگر ان کا کیابنا۔۔۔۔؟ آرمی چیف اے پی سی میں آ کر رٹا رٹایا جواب دیتے ہیں جس پرکسی کو بولنے کی جرات تک نہیں ہوتی۔ انہوں نے ہتھیار پھینکنے والے طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پانچ مذہبی جماعتیں کرنل قذافی سے مستقل طور پر فنڈز لیتی رہیں۔ پابندی والی یاکالعدم جماعتوں کو ملنے والی بیرونی امداد تو حکومت روک سکتی ہے مگرعطیات کی آڑ میں بین الااقوامی سطح پر جو پاکستان میں مختلف تنظیموں کو فنڈنگ ہو رہی ہے اس پرچیک ناگزیرہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی ماہرین کے نام پرغیرملکیوں کی خدمات لینے یا نہ لینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں بلیک واٹرکے پانچ ہزار افراد پریزیڈنسی کے نام پر پاکستان آئے اور وہ چکلالہ ائیربیس پر اترے، کراچی سمیت پورے ملک میں نیٹو اور امریکہ کا اسلحہ دہشت گردی میں استعمال ہو رہا ہے۔ ملک کاچیف ایگزیکٹیو فیصلہ کرے کہ یہ کام کرنا ہے کہ نہیں تو تب یہ سلسلہ بند ہو سکتا ہے ورنہ پھر اسی طرح بلیک واٹرکے لوگ کبھی ویزا لے کر اورکبھی بغیر ویزا کے پاکستان پہنچتے رہیں گے۔

علامہ امین شہیدی


مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت المسلمین نے کہا کہ پاکستان کوقائم ہوئے چھیاسٹھ برس ہوگئے ہیں اور یہ ملک اس وقت سے آج تک غیرملکی فنڈنگ سے ہی چل رہا ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون سا فنڈ کون سی تنظیم یا کوئی جماعت کن کن مقاصدکے لیے استعمال کرتی ہے بھیڑ کے گوشت اور حرام گوشت میں تمیزہونی چاہیے جو غیرملکی فنڈز غلط مقاصد کے لیے جماعتیں یا تنظمیں لیتی پائی جائیں ان پر حکومت کو نظر رکھنی چاہیے۔ ڈی آئی خان سے رہا دوسو پچاس دہشت گردوں میں سے ڈیڑھ سوکو بیرون ملک بھجوایا جا چکا ہے جو کہ امریکہ اور سیکیورٹی اداروں کی مرضی کے بغیرنہیں ہوسکتا۔

امریکہ نے جدید اسلحہ میں چپ بھی لگادی ہے جس سے اب اسلحہ جہاں بھی استعمال ہوگا اس کی مکمل مانیٹرنگ ہوسکے گی۔ یہ ڈراما تب تک چلتا رہے گاجب تک قیمت لگتی رہے گی۔ مذکورہ تمام رہ نماؤں نے ڈرون حملوں کو بند کرنے، غیرملکی امداد والی تنظیموں اور جماعتوں پر نظر رکھنے اور آڈٹ کرانے، سرنڈرکرنے والے طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں سیاسی قیادت کو''پوائنٹ سکورنگ'' کے چکرمیں نہیں پڑناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک جل رہا ہے،کراچی،کوئٹہ، خیبر پختون خوا سمیت گلگت بلتستان خون میں ڈوب رہاہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نظر نہیں آرہی ہے، ہر جگہ لاشیں گررہی ہیں، ان حملوں سے کوئی بھی فرد محفوظ نہیں۔

عوام اور ملک کو تحفظ دینے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں، مسجدوں اور دینی اداروں کوملنے والی غیر ملکی امداد اور ان کے مصرف پر حکومت کی نظر ہونی چاہیے۔کسی بھی منفی اور تخریبی کاروائیوں کے لیے حاصل کی جانے والی امداد کو بند ہونا چاہیے، ایسے دہشت گرد جو ملک کے آئین اور قانون کو نہ مانے، ان سے مذاکرات کے بہ جائے سختی سے نمٹا جائے، اگر وہ ہتھیار پھینک دیں اور حکومت کے سامنے سرنڈرکر دیں تو ان سے مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس وقت ملک کی سالمیت داؤ پر لگی ہے، غیرملکی طاقتوں کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی اور ڈرون حملے جاری ہیں جس پر ہمارے حکومت اورریاستی ادارے خاموش ہیں۔ دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ کو دہشت گردی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال صرف اور صرف ریاستی اداروں کی کم زوری اور خیانت کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔


ہمارے مسلم لیگ (ن) سے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اگر موجودہ حکومت دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نیشنل سکیورٹی پالیسی بنانا چاہتی ہے اوراداروں کو مضبوط اور مربوط بنانے کے لیے جوائنٹ انٹیلی جنس سیکریٹریٹ قائم کرنا چاہتی ہے تو یہ خوش آئیند بات ہے ہم ملک کی بقاء اور تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کی حمایت کریں گے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ یہ اعلانات صرف بیانات کی حد تک ہی نہ ہوں بل کہ ان باتوں پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے، انھوں نے کہا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ملک کے لیے نہیں اپنے اداروں کے لیے کام کرتی ہیں اس وقت سترہ خفیہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ نہیں کرتیں،آپس میں اختلافات موجود ہیں ہمیں نہ صرف ان چیزوں کو ختم کرنا ہوگا بل کہ مل کر ملک کے لیے کام کرنا ہوگا۔

یہ وقت پوائنٹ سکورنگ کا نہیں، جو بھی جماعت یا تنظیم ملکی مفاد کو نظر انداز کرکے ذاتی یا جماعتی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف پوائنٹ سکورنگ کے لیے بیانات دیتے ہیں تو یہ ملک کے ساتھ غداری ہو گی۔ بدقسمتی سے اس ملک میں اول وقت سے لے کراب تک ہمارے حکم رانوں نے خود کو ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کے سامنے پیش کیا ہے اورریاستی اداروں کاسودا کیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق گذشتہ ماہ ڈی آئی خان جیل پر حملہ کے نتیجے میں مفرور ملزمان میں سے تقریبا ڈیڑھ سو کے لگ بھگ خطرناک ملزمان کو حکومت اور سکیورٹی اداروں کے ایما پر بیرون ملک بھیج دیا گیا ہے۔

تاکہ وہ وہاں جاکر پر تشدد کی کارروائیوں میں حصہ لیں اور نام نہاد جہاد کریں۔ آج امریکہ سے ڈروں حملے روکنے کے لیے حکم ران اور امریکہ مخالف بیانات جاری کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں، اگر ملک کے حکم ران اور سکیورٹی ادارے چاہیں تو کوئی غیر ملکی طاقت پاکستان کے اندر اس طرح کی جارحیت نہیں کر سکتی۔ یہ ڈارمہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک حکم ران اپنی قیمت لگانا بند نہ کردیِں اورجب تک ہمارے ریاستی ادارے خود انحصاری اوراپنی مرضی کے مطابق قانون سازی اور فیصلے نہیں کریں گے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔

جان اچکزئی


ترجمان جمیعت علماء اسلام (ف) نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف مجوزہ پالیسی اچھی کوشش ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے مختلف سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے قائم کرنے کاچیلنج ابھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ابھی تک ملک میں بالخصوص طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے دو نظریے موجود ہیں اگرچہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادوں اور دو اے پی سیز کا اصرار مذاکراتی حل تھا لیکن یہ خلیج کم کرنا باقی ہے، دوسرا چیلنج یہ ہے کہ ابھی تک سٹیک، ہولڈرز پسندیدہ اور غیر پسندیدہ غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے منقسم ہیں، انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی میں اگر ایک طرف بامعنی مذاکرات کو مواقع فراہم کرنا چاہیے تو دوسری طرف تمام نیٹ ورکس جن میں مغربی جاسوسی نیٹ ورکس بھی شامل ہیں کوناپسندیدہ ماننا اور سمجھنا چاہیے۔

تیسرا چیلنج یہ ہے کہ سابق صدر ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وقت کی منفی خارجہ پالیسی کے براہ راست اثرات کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ایک تو مذا کرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور دوسرا دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ سے ہمیں الگ ہونا پڑے گا، چوتھا چیلنج بلوچ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے حوالے سے سیاسی اور عسکری سوچ میں فرق پایا جاتا ہے۔ انہپوں نے یاد دلایا کہ مجوزہ پالیسی میں انتظامی اقدامات لازمی ہیں لیکن پھر بھی وہ کافی نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی تنازعات مقامی روایت کے مطابق حل ہونے چاہییں اور اس مقصد کے لیے قومی جرگہ موجود ہے جس کو تمام سیاسی قیادت کی حمایت حاصل ہو چکی ہے لہٰذا کوئی بھی لمحہ ضائع کیے بغیر بات چیت کا یہ عمل شروع کر دینا چاہیے، جہاں تک انتظامی معاملات ہیں تو یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ پولیس اور دوسرے ادارے کم زور حالت میں ہیں، مورال کا مسئلہ ہے، ان کے پاس ڈسپلن، تربیت اسلحہ اور سازو سامان کی کمی ہے، اس کا مطلب ہے کہ پالیسی کو عملی جامہ پہناتے وقت اور بہت سے مسائل کا سامنا ہو گا، ملک میں سکیورٹی فورس فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے یونٹس پو مشتمل نہیں، صوبے اور مرکز کے درمیان امن و امان کے حدود کی تعین بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اٹھارہویں ترمیم نے امن و امان صوبائی حکومت کے حوالے کر دیا ہے جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنا پولیس کا کام نہیں جو کسی حد تک صحیح بھی ہے، اس کے علاوہ سیاسی اور عسکری تقسیم ماضی میں مشترکہ قومی پالیسی کے راستے میں حائل رہی ہے، آج بھی سیاسی قیادت مذاکرات پر یقین رکھتی ہے لیکن عسکری قیادت کے تحفظات بدستور اپنی جگہ ہیں۔

رہی بلوچ عسکریت پسندوں کی بات، تو اس حوالے سے بھی دو نظریات پائے جاتے ہیں، بلوچستان کی سیاسی پارٹیاں مذاکرات پر یقین رکھتی ہیں جب کہ عسکری قیادت کا خیال ہے کہ بھارت اور نیٹو فوج کے جاسوسی ادارے بلوچستان میں سرگرم ہیں اور سیاسی اضطراب سے فائدہ اٹھانے کے لیے پراکسی گروپوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، ان کی یہ دلیل بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن سیاسی عمل کے ذریعے اگر بعض عسکریت پسندوں کو الگ کیا جا سکتا ہے تو یہ بڑی قیمت نہیں ہے، ویسے بھی سیاسی اور عسکری حکمت عملی اور داو ٔپیچ کوایسی پیچیدہ صورت حال میں ایک دوسرے سے الگ کرنامسئلے کے حل کے لیے سودمند شاید نہ ہو لہٰذا دونوں قیادتوں کو اس حوالے سے خلیج کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر کراچی کی بات کی جائے تو کراچی چوں کہ ملکی معیشت کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہاں کی موجودہ صورت حال ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے، مختلف مافیا گروپس ملک کی شہ رگ کو کاٹنے پر تلی ہوئی ہیں۔



کراچی کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ فیصلہ کن اقدامات کیے بغیر وہاں پر امن کا قیام آسان نہ ہو گا، سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سو سے زائد نوگر ایریاز ختم کرنے ہوں گے اور اسی طرح غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی یقیننی بنانا ہو گی۔ ڈرافٹ پالیسی میں عدالتی نظام کی اصلاحات بہت ضروری ہیں اب بھی 12 سو سے زائد مشکوک دہشت گرد مختلف جیلوں میں موجود ہیں، کئی کئی سال کے بعد بھی ان کے کیسز عدالتوں میں نہیں گئے، پولیس کی ٹیکنیکل مہارت جس میں فرانزک بھی شامل ہے، پر خصوصی توجہ دینا چاہیے تاکہ عدالت میں پراسیکیوشن آسان ہو جائے۔ ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ عینی شاہدین کے تحفظ کے لیے جامع پروگرام کو ان اصلاحات کا حصہ ہونا چاہیے، اس حوالے سے ماضی میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، چیلنجز میں یہ بھی بڑا چلینج ہے کہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ غیر ریاستی عسکری تنظیموں کے بارے میں بھی یکساں پالیسی بنانے کی ضرورت ہو گی اور مغربی جاسوسی نیٹ ورکس، جن کا انکشاف ریمنڈ ڈیوس ڈرامے میں کیا گیا، کے خلاف بھی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی مقاصد کے لیے ان گروہوں کو ماضی میں استعمال کیا گیا، ہمسایہ ممالک، جن پر پراکسی جنگ کے الزامات ہیں، سے بھی بات چیت کرنا ہو گی۔ افغانستان میں طالبان مصالحت اور داخلی مصالحت کے لیے کوششیں تیز کرنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ 2014 ء کے بعد ہمسایہ ملک میں فاٹا کی صورت حال پیدانہ ہو اور پاکستان میں استحکام یقیننی ہوجائے، یہ بات بھی اہم ہے کہ ہماری سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہواورتمام حصوں میں ریاستی رٹ بہ حال ہواوراگرہم اپنی قربانیوں کو بھی یاد رکھیں تو ملکی سرحدوں پر تعینات پاک فوج اورپولیس کے جو جوان دہشت گردی کی کارروائیوں اوراشتعال انگیزیوں کے واقعات میں شہید ہوئے، ان کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں، جوملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، ہم آنے والی نسلوں کے قرض دار ہیں کہ ان کے لیے پُرامن اورخوش حال پاکستان چھوڑ کر جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں۔

صاحب زادہ طارق اللہ


جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈرنے ایکسپریس فورم میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پہلے دن سے ہی واضح ہے ۔ اگلے سال نیٹو افواج کو افغانستان سے نکالنے کا منصوبہ بنایاجارہاہے۔اس سے پہلے وہ ایسے حالات پیداکرناچاہتے ہیں کہ بدامنی برقرار رہے، اس لیے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرناچاہتے ہیں مگر پاکستان کو اس مذاکراتی عمل میں شامل ہونا چاہیے اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہییں کیوں کہ اصل ''فائٹرز'' افغان طالبان ہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے دوسروں کی جنگ اپنے اوپرمسلط کیے رکھی اور اب کہتے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، یہ تمام سیاسی جماعتوں کی نااہلی ہے جو 1985ء سے حکومتوں میں چلی آرہی ہے۔

حکومت اس وقت دہشت گردی کے خلاف نیشنل سیکیورٹی پالیسی بنانے کے معاملے کی بال اپوزیشن کے ''کورٹ'' میں ڈالناچاہتی ہے۔ حکومت کی پالیسی میں کنفیوژن ہے۔ جب تک افغانستان میں غیرملکی فوجیں موجود رہیں گی تو ہم اس جنگ سے نہیں نکل سکتے۔ ہماری خود مختاری متاثر ہورہی ہے۔ ڈرون حملے ملکی سالمیت کے خلاف ہیں۔ موجودہ حکومت کے پہلے اڑھائی مہینوں میں تین سو اکہتر دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم کسی کو براہ راست بلیم نہیں کرسکتے، اس میں ایجنسیاں بھی ہیں، دہشت گردی کے خلاف نیٹ ورک کم زوررہا اور قانون نافذ کرنے والے اداروںمیں مثالی کو آرڈینیشن نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی متفقہ ہونی چاہیے۔ نیکٹا اورجوائنٹ انٹیلی جنس سیکریٹریٹ میں کراچی پولیس کی طرح سیاسی بھرتیاں نہیں ہونی چاہییں۔ ان اداروں میں دیانت دار اورمثالی شہرت کے حامل افرادکوتعینات کیاجائے۔ غیر ملکی امداد لینے والی جماعتوں اورتنظیموں کے مقاصد کا حکومت پتہ کرے، جماعت اسلامی نے کبھی اپنی تاریخ میں کسی سے بھی غیرملکی امداد نہیں لی۔ جماعت اسلامی ملک و قوم کے ساتھ مخلص طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں۔ عالمی طاقتیں پاکستان میں امن فوج لانے کے لیے سب کچھ کررہی ہیں۔

سرحدوں پرغیرقانونی داخلے روکنے کے لیے انہوں نے تجویزدیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے سفارتی سطح پرکوششیں ہونی چاہییں، بلیک واٹرکے کارندوںکا پاکستان میں داخلہ بندکیاجائے۔ غیر ملکی فنڈز لینے والی جماعتوں اور تنظیموں کا پتہ کرایا جائے، تمام فنڈزکا آڈٹ بھی کیا جائے اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ پتہ چلے کہ کون سی تنظیم یاجماعت کن مقاصدکے لیے غیرملکوں سے فنڈز لیتی ہیں یا لیتی رہی ہیں۔
Load Next Story