روزہ تو میرا بھی ہے

رمضان میں معمول کے کاموں کے ساتھ سحر و افطار پر اہتمام کرنا آسان ہے؟

رمضان میں معمول کے کاموں کے ساتھ سحر و افطار پر اہتمام کرنا آسان ہے؟ فوٹو: فائل

رمضان المبارک میں یوں تو سبھی کے معمولاتِ زندگی تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن خواتین کی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ اور کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

افطاری سے سحری تک اہلِ خانہ کی فرمائش پر قسم قسم کا پکوان اور اسے ان کے سامنے پیش کرنے تک خواتین کو نہ صرف ہر فرد کی پسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے بلکہ انھیں اپنے بجٹ کی بھی فکر رہتی ہے۔ ہر روز وہ اس مشکل اور کڑے امتحان سے گزرتی ہیں اور اس موقع پر انتہائی مہارت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی بھرپور کوشش میں ہلکان ہوئی جاتی ہیں۔

ماہِ رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ عبادات کے ذریعے قربِ خداوندی اور اصلاحِ باطن کا موقع دیتا ہے، مگر جب روزے کی روحانی حیثیت اور اس کے باطنی ثمرات کو اہمیت دینے کے بجائے اس کا ظاہری استقبال زیادہ ہوجائے تو گویا ہمارے اندر پورے سال رچ بس جانے والی آلائشیں روزے کی حالت میں بھی تعفن میں اضافہ کرتی رہتی ہیں جنھیں صاف کیے بغیر ہم روزہ دار خود کو لذت کام و دہن کے حوالے کر دیتے ہیں۔

رمضان المبارک میں مختلف عبادات میں نماز بہت قیمتی ہے، لیکن اگر سحر سے لے کر افطار تک خاتونِ خانہ کو عبادات سے زیادہ اہلِ خانہ کی تواضع اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے کی فکر زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک قسم کے خوف یا دباؤ کا شکار ہو گئی ہے کہ کسی موقع پر گھر کا کوئی بھی فرد اسے سست، کاہل، غیر ذمہ دار کہہ سکتا ہے۔ وہ بے عزتی اور توہین کے خوف میں اس قدر مبتلا ہے کہ نماز میں بھی ذہنی طور پر کچن میں موجود ہے تو یقینا حقیقی معنوں میں اپنے ربّ سے رجوع نہیں کر پارہی۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہوگی کہ ہم رمضان کی برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں کو بے جا خواہشات اور زبان کی لذت کے لیے ضایع کر رہے ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس انمول اور بیش قیمت موقع کو ہم کسی غیر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے خاندانی نظام میں سخت گیر مزاج اور تکلیف دہ رویوں کی وجہ سے گنوا رہے ہیں۔ لہجے کی سختی، ترشی، ناراضی اور برہمی کا اظہار اور مسلسل دباؤ خاتونِ خانہ میں ہیجانی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور یوں دنیاوی زندگی ہی نہیں اس کی روحانی اور باطنی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ رمضان ہمیں نیکیاں اور برکتیں سمیٹنے کا زبردست موقع فراہم کرتا ہے، لیکن ہم اسے اپنی زبان کی لذت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی خواتین عبادات میں کمی کرکے کچن میں سحر و افطار کے لیے چٹ پٹے پکوان میں مصروف رہتی ہیں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم میں تو یہ مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ کیوں کہ زیادہ افراد مطلب زیادہ فرمائشیں، اتنی ہی نکتہ چینی، جو ہر دن کے ساتھ مشکلات بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں مددگار ہاتھ کم ہوتے ہیں، لیکن خامیوں اور کمی کوتاہی پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ کوئی بہو ساس کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے تو اسے کاموں سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے یا اگر بڑا بیٹا کماؤ پوت ہے تو تب بھی یہی ہوتا ہے کہ اس بیٹے کے بیوی بچے کاموں میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے، مگر دوسری اور کسی لحاظ سے کم تر یا مجبور بہو کاموں میں جتی رہتی ہے۔ دوسری طرف جن گھرانوں میں مرد سخت مزاج ہوتے ہیں اور حد سے زیادہ نکتہ چینی کے عادی ہوتے ہیں وہاں بھی شامتِ اعمال صرف گھر کی عورت ہی کی آتی ہے۔ سحر و افطار میں گویا پہلے لقمے سے آخری لقمے تک خواتین کی سانس بھی اس وقت تک اٹکی رہتی ہے جب تک تمام لوگ دستر سے اٹھ نہیں جاتے۔


چھوٹی چھوٹی بات پر بے عزتی کر دینا، شربت میں چینی کم، پکوڑوں میں نمک زیادہ، آج پودینے کی چٹنی کیوں نہیں بنائی، پھلکے کے کنارے موٹے کیوں ہیں، آج پکوڑے نہیں بنے، پکوڑے بنانے کی بھی تکلیف نہیں کی اور اس جیسی دیگر باتیں۔ یہ کہیے کہ ناگواری سی ناگواری ہے جو ہر لقمے، ہر گھونٹ کے ساتھ چلتی ہے۔ اس طرح کی لاتعداد باتیں گھر کی ذمہ دار خاتون کے کانوں میں روز کی بنیاد پر پڑتی ہیں یا رمضان میں افطار ڈنر پر مہمانوں کے سامنے وہ ایسے تکلیف دہ رویوں سے گزرتی ہیں تو خاموشی سے دستر خوان سے اٹھ جاتی ہیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ ان کی کوئی وضاحت، کوئی دلیل اور منطق کام نہیں آئے گی۔

یہ بات سبھی گھرانوں اور مردوں کے لیے نہیں ہے، مگر اس معاشرے میں بدسلوکی اور طعنہ زنی کی ایسی مثالیں کوئی انوکھی اور دور کی بات نہیں جسے بیان کرنا مشکل ہو۔ اپنے کام اور احباب کے درمیان اسی ماہِ مقدس میں اخلاق اور مروت کے پیکر مرد گھر میں عدم برداشت کی جیتی جاگتی مثال بن جاتے ہیں۔ اگر آپ بات بات پر دل آزاری اور بدسلوکی کریں گے تو کیا آپ کا روزہ، آپ کی بھوک پیاس خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو گی؟

عورت جتنی ذمہ دار ہوتی ہے اتنی ہی حساس اور کم زور بھی۔ اسے سحر و افطار اور دیگر مواقع پر کسی کمی بیشی اور فرمائش پوری نہ کرنے پر طعنہ دینا یا مار پیٹ پر اتر آنا ایک مکروہ عمل ہے۔ عین افطاری کے وقت گھر کے بڑے سے لے کر چھوٹا تک خاتونِ خانہ کو باتیں سناتا رہے اور جب وہ روز اسی قسم کی باتوں کا سامنا کرے تو یہ اس کی طبیعت کو مکدر کردیتا ہے اور ڈپریشن میں اضافہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے یا یوں کہہ لیں کہ پاکستانی گھرانوں میں عموماً یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ روزہ خاتونِ خانہ کا بھی ہے اور وہ روزے کی حالت میں، تحاشا گرمی، لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلتے ہوئے خاوند، ساس، سسر کے لیے خصوصاً عصر سے مغرب تک بغیر رکے کام میں جتی رہتی ہے۔ وہ بھوک پیاس سے اینٹھتے وجود کے ساتھ کچن میں اپنی ساری توانائی، ساری توجہ صرف اپنوں کے ہونٹوں پر ایک پیاری سی مسکراہٹ دیکھنے کے لیے صرف کر دیتی ہے۔ اور اسی وجہ سے عبادت کے لیے بھی کم وقت نکال پاتی ہے۔

ماہ صیام میں یوں تو ہر خاتون کی جان سولی پر ٹنگی رہتی ہے، مگر شادی شدہ عورت کے لیے یہ بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے کہ ان کے اہتمام سے تیار کردہ کسی آئٹم میں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے اور ان کو گھر والوں یا مہمانوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ روزے کی حقیقی روح کو دیکھا جائے تو یہ تو غم خواری، قربانی اور زبردست ایثار کا مہینہ ہے، لیکن یہ کیا کہ آپ اپنی شریکِ حیات، بہو کے لیے باعثِ آزار بن گئے۔ رمضان چٹ پٹے پکوانوں یا مشروبات کا مہینہ نہیں ہے۔ اگر دستر پر کوئی ایک آئٹم کم ہو تو یہ گناہ نہیں۔ افطار اور سحری سادہ بھی ہو سکتی ہے اور عورت کا وہ سارا وقت عبادات میں گزر سکتا ہے جو اس پر بھی فرض اور اس کی آخرت سنوارنے کے لیے ضروری ہے۔

اگر دیکھا جائے تو جس طرح روزہ رکھ کر مرد گھر سے باہر، دفاتر میں فائلوں سے نمٹتے ہیں اور سر کھپاتے ہیں، اسی روزہ کر ایک خاتون گھر کے کاموں میں الجھی رہتی ہے۔ روزہ اسے بھی لگتا ہے کیوں کہ وہ بھی سب کی طرح بھوکی پیاسی ہوتی ہے، غصے کا حق وہ بھی رکھتی ہے، کیوں کہ رمضان میں مرد اور بچے بھی مختلف چیزیں جیسے اخبار، کتابیں، گھڑی، شرٹ، تولیا، جوتے، اپنی فائل اور کاغذات وغیرہ وغیرہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد ادھر ادھر پھینک دینے اور پھیلانے کی عادت ترک نہیں کرتے اور یوں کام کئی گنا بڑھ جاتا ہے، مگر دکھ کی بات ہے کہ یہ کاموں میں سب شمار نہیں کیا جاتا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ سسرال میں شوہر، دیور سے لے کر سسر تک اور میکے میں والد سے لے کر بھائیوں تک کوئی اپنا محاسبہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتا بلکہ گھروں میں بیوی، بچیوں، بیٹیوں کو طعنے دے کر درستی کی کوشش کی جاتی ہے جو بجائے خود بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ اگر آپ روزے کی حالت میں اخلاقی اقدار کی پاس داری نہیں کر پاتے اور کسی اپنے کی غم خواری اور اس کا بوجھ کم نہیں کرتے تو یہ سب گھر کے ماحول اور رشتوں کے لیے زہر ثابت ہوسکتا ہے۔
Load Next Story