باتیں نہ بنائیں حوصلہ بڑھائیں ہمّت بندھائیں

ملازمت پیشہ خواتین کا عیب جُو اور نکتہ چیں عورتوں سے شکوہ

ملازمت پیشہ خواتین کا عیب جُو اور نکتہ چیں عورتوں سے شکوہ۔ فوٹو: فائل

''یہ تمھاری بہو نظر نہیں آرہی۔ خیریت تو ہے؟'' فہمیدہ خالہ کو گھر آئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا، لیکن نادیہ نظر نہیں آئی تو انھوں نے اس کی ساس سے پوچھ ہی لیا۔

''نادیہ نے نوکری کر لی ہے، شام کو ہی گھر واپس آتی ہے۔'' ان کا جواب سن کر فہمیدہ خالہ نے عجیب سا منہ بنایا اور بولیں۔

''ایک تو یہ آج کل کی لڑکیوں کو کوئی خیال ہی نہیں بیچاری ساسوں کا، اب گھر کا سارا کام تم ہی سنبھالتی ہوگی۔'' انھوں نے فوراً ہم دردی جتائی۔

''ارے میں کیوں سنبھالوں گی، وہی کرتی ہے آکر۔ میں نے تو کہا نہیں ہے نوکری کرنے کو۔'' ساس نے بھی جھٹ اپنا دل ہلکا کر لیا۔

''بھئی سچ ہے، تم کیوں کرو، جس کی اصل ذمہ داری ہے وہی نبھائے۔ اب میں کل ہی ایک بیان سن رہی تھی، مولوی صاحب کہہ رہے تھے آج کل کی ماؤں کے پاس گھر داری اور بچوں کے لیے وقت ہی نہیں، نوکریاں کرتی ہیں تاکہ پیسہ کمائیں زیادہ سے زیادہ اور اپنے فیشن پورے کریں۔'' فہمیدہ خالہ کو تو جیسے موقع ہی مل گیا تھا نادیہ کے خلاف ان کے کان بھرنے کا۔

یہ چند مکالمے ایک سماجی رویے اور سوچ کے عکاس ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آج کے اس دور میں بھی ہمارے معاشرے میں عورت کا اپنے کنبے کی کفالت اور خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا نہ معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے طعنے دیے جاتے ہیں اور ایسی عورت کو نہایت تکلیف دہ باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عیب جُو اور روایتی سوچ کی حامل عورتیں نوکری کرنے والی کسی بھی خاتون کے بارے میں یہ فرض کر لیتی ہیں کہ اسے آزاد رہنا پسند ہے، اسے شوہر کی خدمت، بچوں کی دیکھ بھال اور گھرداری سے کوئی دل چسپی نہیں بلکہ وہ اپنے شوق پورے کرنے کے لیے کمانے نکلی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملازمت پیشہ کوئی بھی عورت گھر میں رہنے والی عورت سے زیادہ کام کرتی ہے۔


ہمارے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں کوئی عورت گھر سے باہر نکلنے، دفتری کاموں کا بوجھ اور مختلف قسم کا دباؤ برداشت کرنے کے بعد جب گھر لوٹتی ہے تو ہمّت نہ ہونے کے باوجود بھی اسے گھر کے کئی کام نمٹانا ہی پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود اسے سسرال میں، عزیزوں اور جاننے والوں سے تکلیف دہ باتیں سننا پڑتی ہیں۔ پاس پڑوس کے لوگوں کے سوالات اور باتیں بھی اس کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ یہ کچھ اس قسم کی باتیں ہوسکتی ہیں۔ کیا شوہر کی تنخواہ کم ہے؟ تمھارے جانے کے بعد ساس بچے سنبھال لیتی ہیں؟ کیا گھر کی صفائی اور کھانا پکانے کا شوق نہیں ہے تمھیں؟ ساس باتیں تو سناتی ہوں گی؟

ان کا جواب دینا ضروری بھی نہیں، مگر یہ سب سن کر کسی عورت کے لیے صبر اور ضبط کرنا آسان ہوتا ہو گا؟ اس کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکتا ہے۔ کیا کسی ملازمت پیشہ عورت کے پاس ایسے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے ہوں گے کہ آخر اس نے کیوں گھر کی چار دیواری سے قدم باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ سفر کی تکلیف اٹھانے اور دفتر کے مسائل اور ذمہ داریوں میں الجھ کر وہ کتنی خوش ہے۔ اس کے پاس سب باتوں کا جواب ہوتا ہے اور نوکری کرنے کی ایک وجہ نہیں بلکہ اس کے پاس لمبی فہرست ہوسکتی ہے جس میں اس کا اپنا ذکر کہیں نہیں ہوتا، مگر اسے کوئی حقیقی غم گسار، کوئی ہم درد، کوئی راز داں میسر آئے تو وہ اپنے دل کی بات اس کے سامنے رکھے ناں۔

مردوں کے مقابلے میں عورت زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہے۔ اسے اپنے شوہر اور سسرال کا بھرم بھی رکھنا پڑتا ہے کہ اب وہ اسی گھر میں بہو، بیوی بن کر رہ رہی ہے۔ یہ اس کا بھی گھر ہے اور یہ لوگ اس کے اپنے ہیں۔ ان کی عزت اور بھرم رکھنے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی عزت اور بھرم رکھ رہی ہے۔ اسی لیے شوہر کی کم تنخواہ کا کسی کو بتاتے ہوئے اس کا دل دکھتا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے اور بچوں کے لیے دن رات ایک کررہا ہے، وہ محنت کرتا ہے، تکلیف اٹھاتا ہے، مگر منہگائی کے اس دور میں گزارہ مشکل ہو رہا ہے۔

اس کی نظر میں شادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کا ہر طرح اور ہر موقع پر ساتھ دیا جائے، وہ خوشی اور غم بانٹنے کے علاوہ شوہر کا معاشی میدان میں بھی ساتھ دینا چاہتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے اور مانتی ہے کہ گھر اور بچے اس کی بھی ذمہ داری ہیں اور اگر وہ پڑھی لکھی ہے اور باعزت طریقے سے کوئی روزگار، نوکری کرسکتی ہے تو اسے ضرور کرنا چاہیے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات، فرمائشیں تو اپنے بابا کے گھر چھوڑ کر آگئی، مگر اپنی اولاد کو وہ سب دینا چاہتی ہے جس سے ان کا احساسِ محرومی دور ہوسکے اور ان کی ضروریات بہتر انداز سے پوری ہو سکیں۔ جب وہ دیکھتی ہے کہ اس کا بچہ کسی دوسرے بچے کے ہاتھوں میں کوئی کھلونا دیکھتا ہے تو اسے بھی اس کی چاہ ہوتی ہے اور تب وہ اپنی تنخواہ میں سے اس کی فرمائش پوری کرتی ہے اور خوشی سے نہال ہو جاتی ہے۔ غور کریں تو اس طرح جہاں کوئی عورت ایک طرف اپنی اولاد کی کوئی خوشی پوری کرتی ہے، وہیں دراصل اس کے شوہر کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔

ایک عورت کڑوی کسیلی باتیں سنتی، طعنے اور طنز سہتی ہوئی جب بھر جاتی ہے تو اس کا دل چاہتا ہے کہ سوال کرنے والوں سے پوچھے کہ وہ کن بچوں کو سنبھالنے اور ان کی تربیت کی بات کررہے ہیں، انھیں کن بچوں کی پروا ہے؟ ان بچوںکی جنھیں اس نے خود نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا، جن کی ضروریات پوری کرنے لیے وہ راتوں کی نیند حرام کرتی رہی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ پوچھوں یہ لوگ کس گھر کی صفائی اور اس کے کاموں کے لیے ہلکان ہوئے جارہے ہیں؟ یہ وہی گھر تو ہے جس کے لیے اس نے اپنے شفیق باپ، اپنی غم خوار ماں اور پیارے بہن بھائیوں سے دوری اختیار کر لی۔ کیا یہ اسی گھر کی بات کررہے ہیں جس میں وہ ایک بیوی، بہو بن کر قدم رکھ چکی ہے۔ وہ اپنے دفتر میں فکرمند رہتی ہے کہ بچوں نے کھانا کھایا ہو گا یا نہیں، کہیں وہ امی (ساس) کو تنگ تو نہیں کررہے۔ انھیں کھیل کود کے دوران چوٹ تو نہیں لگی ہو گی۔ اسے ان سب باتوں کی فکر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کسی کے بتانے اور سکھانے کی بات نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ یہ لوگ اس کی مجبوری سمجھیں۔ اس کا احساس کریں اور صرف اس کی ہمّت بندھائیں۔

صرف بچوں کی تعلیم ہی پر بات کر لیں۔ ایک ماں جب اپنی اولاد کے سہانے مستقبل کا خواب لے کر کسی نام ور نجی اسکول میں داخلے کے لیے چکر لگاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے وہ یونیفارم، کتابیں کاپیوں کے ساتھ اس کی ماہانہ فیس ادا نہیں کرسکتی اور اسے مشورہ دیا جاتا ہے کہ سرکاری اسکول کا منہ دیکھے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی کارکردگی سے ہم سبھی واقف ہیں۔ ایسے میں ایک معاشی طور پر مستحکم عورت ہی کوئی اہم قدم اٹھا سکتی ہے۔ وہ اپنی تنخواہ آگے کرتی ہے اور یوں نہ صرف بچوں کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے بلکہ شوہر سے ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی پورا کردیتی ہے۔ بدلے میں وہ اپنے شوہر اور گھر والوں سے صرف ایک پُرخلوص مسکراہٹ، شاباشی ایک حوصلہ افزا جملہ چاہتی ہے اور بس!

گھر میں مہمانوں کی اچانک آمد پر ان کی تواضع، چھوٹے موٹے کام نکل آنا اور تقریبات میں سلامی دینا ہو تو یہی عورت آگے بڑھتی ہے۔ یہ شوہر کو مشکل سے نکال لیتی ہے اور گھر کا بجٹ متاثر نہیں ہونے دیتی۔ اپنے دفتر سے چھٹی کا دن وہ بھی گھر کے مردوں کی طرح آرام کرنے کی خواہش رکھتی ہے، مگر ایسا ہوتا نہیں بلکہ اس روز وہ کچن میں سب کی فرمائشیں پوری کرتی نظر آتی ہے، گھر کے بہت سے کام نمٹاتی ہے اور مہمان آجائیں تو ان کی خاطر مدارت بھی کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویہ تبدیل کریں اور کسی کی زندگی میں بے جا مداخلت نہ کریں۔ عیب جوئی اور تاک جھانک کے بجائے اپنی توانائیاں تعمیری کاموں میں صَرف کریں۔ اگر آپ کسی کی ہمّت نہیں بندھا سکتے، اسے حوصلہ نہیں دے سکتے تو اس سے سوالات بھی نہ کریں۔ جس طرح ایک باشعور، پڑھی لکھی اور سمجھ دار عورت اپنے فرائض و وظائف، کاموں اور ذمہ داریوں سے واقف ہے، اسی طرح اپنے مسائل، پریشانیوں اور مشکلات بھی وہی سمجھ سکتی ہے۔
Load Next Story