لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی

مسئلے کا حل نہ نکالا تو 2025 کے بعد انتہائی خطرناک صورتحال ہوجائے گی، ماہرین

شہر میں پہلے پانی کی عمومی سطح 35 فٹ تھی جو کم سے کم 130، زیادہ سے زیادہ 164 تک پہنچ گئی۔ فوٹو: فائل

جو چیزنظر آئے وہی دکھائی دیتی ہے، سیاسی حکومتوں نے اسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے بڑے میگا پروجیکٹ بنائے لیکن لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح کو جوخطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے، کیلیے کچھ نہیں کیا۔

برسوں سے سے پاکستان بالخصوص پنجاب میں آنے والی حکومتوں نے پانی کی گرتی ہوئی صورتحال کیجانب توجہ نہیں دی ۔ دریائے راوی کا پانی بھی کم ہوگیا ، بارشی پانی کو محفوظ بنانے کے بجائے گٹروں میں پھینکا جارہا ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں ، فیکٹریاں اورواسا زمین سے پانی نکال رہے ہیں اورپینے والے پانی سے پارکس، گرین بیلڈز، گاڑیاں دھونے سمیت دیگر کاموں میں استعمال ہورہا ہے۔

واسا کی جانب سے حالیہ سروے میں 1980میں لاہور کی آبادی36لاکھ تھی جو 2018میں ایک کروڑ13لاکھ سے زائد ہوگئی ہے۔ سرکاری اورپرائیویٹ سطح پر سالانہ1496کیوبک ملین میٹر پانی نکالا جارہا ہے۔ 1980میں واسا کے125 کے قریب ٹیوب ویل تھے لیکن اس وقت 600 ٹیوب ویل 24 گھنٹے زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔

اسی طرح زراعت کے2700، کنٹونمنٹ بورڈ کے68 ،کوآپریٹیو ہائوسنگ اسکیموں کے65 ، پرائیویٹ ہائوسنگ اسکیموں کے110 ، والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے89 اورمحکمہ ریلوے کے 50 ٹیوب ویل زیرزمین پانی نکال رہے ہیں۔ لاہور میں پہلے پانی کی سطح 35 فٹ تھی جو کم سے کم 130 اورزیادہ سے زیادہ 164تک پہنچ گئی ہے۔


لاہور شہر میں سالانہ 2 میٹر زیر زمین پانی کم ہو رہا ہے۔ لاہور میں 40 سال قبل مزنگ کے علاقے میں پانی کے مسائل ظاہر ہو رہے تھے مگر اب بغیر پلاننگ ہونے والی کمرشلائزیشن اورتجارتی سرگرمیوں سے لاہور میںگلبرگ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ اچھرہ بھی شامل ہے۔

دوسرے نمبر پر ٹائون شپ، گرین ٹائون، مصطفیٰ آباد، گارڈن ٹائون اورتیسرے نمبر پر سمن آباد، علامہ اقبال ٹائون، انارکلی، مزنگ ، راوی روڈ کے علاقے شامل ہیں۔ واسا نے زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے پرحکومت پنجاب کو صورتحال سے آگاہ کیا جہنوں نے سابق جسٹس (رٹائرڈ) علی اکبر قریشی کی سربراہی میں واٹرکمیشن بنادیا ہے۔ اس بارے میں ایم ڈی واسا زاہد عزیزکا کہنا ہے کہ زیرزمین پانی کی کمی کو پوراکرنے کیلیے شارٹ اور لانگ ٹرم پالیسی بنائی ہے جس پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔

سابق جسٹس علی اکبرقریشی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2025 تک زیر زمین پانی کی سطح انتہائی حد تک کم ہوجائے گی اور اس میں بتدریج کمی ہوگی جس کو کنٹرول کرنے کیلیے حکومت پنجاب نے کمیشن بنایا دیا ہے۔ لاہور بشمول کینٹ کی آبادیوں میں موجود مساجد میں وضو کے پانی کو قابل استعمال بناکر پارکوں میں لگایا جا رہا ہے۔ پارکوں، نہری پانی ، گاڑیوں کے سروس سینٹرز میں پینے کا پانی استعمال نہیں ہوگا ۔ پانی ضائع ہونے سے بچانے کیلیے فورس تیار کی گئی ہے جو چالان کر رہے ہیں۔ تمام ہائوسنگ سوسائٹیوں کو بھی پانی ضائع ہونے سے بچانے کا پابند بنایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی سطح پر بھی کام شروع ہوچکا ہے۔ شہریوںکو بھی اس میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
Load Next Story