توانائی اور برآمدات
چند یوم قبل وزیراعظم محمد نواز شریف نے گڈانی میں6600 میگاواٹ پاور پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔
چند یوم قبل وزیراعظم محمد نواز شریف نے گڈانی میں6600 میگاواٹ پاور پروجیکٹ کا افتتاح کیا، گڈانی پاور پارک میں10 پاور پلانٹ تعمیر کیے جائیں گے، جن میں سے 4 یونٹ چینی کمپنیاں چلائیں گی، 14 ارب مالیت کے اس پروجیکٹ کی تعمیر میں حکومت بلوچستان بھی حصے دار ہو گی، اس منصوبے کے لیے پانچ ہزار ایکڑ اراضی بھی صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ حکومت وقت اس منصوبے میں گہری دلچسپی لیتے ہوئے خاص سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے کہ اس منصوبے کو 2 سال کی مدت میں مکمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان ہی دنوں اس بات کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ گوادر سے مغربی چین تک پاک ایران گیس پائپ لائن کو وسعت دی جائے، حکومت نے توانائی کی پیداوار میں اضافے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کے خاتمے یا اس کے دورانیے میں کمی کی خاطر 31 جولائی تک 503 ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کیے گئے تھے، حکومت کے اقتدار میں براجمان ہوتے ہی یہ بات گردش کر رہی تھی کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت نوٹ چھاپ کر کام چلائے گی لیکن یہ بات خوش آیند ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے دیگر اقدامات اٹھائے گئے کیونکہ نوٹ چھاپنے کی صورت میں افراط زر کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے لیکن اس وقت سب سے اہم مسئلہ سستی توانائی کا حصول ہے، کیونکہ اگر بجلی، گیس کی قیمت خطے کے دیگر ممالک کی نسبت مہنگی ہوئی تو برآمدات میں اضافے کے امکانات ختم ہو کر رہ جائیں گے۔
جنوری 2014 یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کا بل پیش کر دیا جائے گا۔ حکومت کو بھی توقع ہے کہ یہ بل پاس ہو جائے گا جس سے پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافے کے ساتھ لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے، لیکن اگر خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو دیگر ممالک میں توانائی کی قیمتیں سستی ہیں اور وہاں کی حکومتیں پیداواری اداروں کو سستی بجلی فراہم کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں، بھارت سستی ترین بجلی کے حصول کے لیے پاکستان کو دیے جانے والے دریائوں پر مسلسل ڈیمز کی تعمیر کر رہا ہے جو کہ سندھ طاس معاہدے کی شدید خلاف ورزی ہے۔
لیکن پاکستان کی مختلف حکومتوں نے بھی تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد کسی بھی بڑے ڈیم کی تعمیر میں انتہائی تساہل سے کام لیا ہے۔ کسی ڈیم کی تعمیر میں سیاسی مصلحتیں آڑے آ گئیں، کسی ڈیم کی تعمیر میں فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ سد راہ بن گیا۔ اس طرح وقت گزرتا گیا اور ملک میں بجلی کی قلت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اس کے ساتھ ہی گزشتہ چند سال سے گیس کی شدید قلت بھی پیدا ہوتی چلی گئی۔ جس کے باعث کئی صنعتی شہروں کے کارخانوں کو بجلی اور گیس کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑتا۔ جس کے باعث کارخانوں میں پیداواری کام تعطل کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ فیکٹریاں بند کر دی جاتیں، مزدور، کاریگر، ہنرمند آتے اور کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد مایوس لوٹ جاتے، لاکھوں افراد بیروزگار ہوتے چلے گئے، جس کے باعث ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوتے چلے گئے، اس طرح ان مزدوروں کے ایام تلخ ہوتے چلے گئے، یوں غربت اور بیروزگاری میں شدید اضافہ ہوتا رہا، ستم ظریفی یہ تھی کہ ان صنعتوں کے مالکان صنعت کار ملک میں بجلی اور گیس کی بندش سے تنگ آ کر صنعتوں سمیت دیگر ممالک میں شفٹ ہو رہے تھے۔
اگر توانائی کے مسائل حل ہو جائیں یا کم از کم بجلی اور گیس کی قلت پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی بجلی اور گیس کی قیمتیں دیگر ممالک سے مقابلتاً کم یا برابر بھی رہیں تو پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کے مواقعے بہت زیادہ ہیں، کئی ممالک ایسے ہیں جہاں کاٹن پیدا نہیں ہوتا لیکن سستی بجلی اور لیبر کے باعث ان ممالک کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات پاکستان سے زیادہ ہے، مثلاً ویتنام اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے کئی بنیادی اشیا درآمد کرنا پڑتی ہیں لیکن سستی انرجی کے باعث برآمدات کی جا رہی ہیں، نیز سستی لیبر کے باعث لاگت میں کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ پاکستان میں بجلی، گیس کی قیمت میں اضافے کے باعث لاگت بڑھ رہی ہے جس سے عالمی منڈی میں ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر برآمدات میں اضافہ کرنا مشکل ہو رہا ہے، گزشتہ کئی سال میں مختلف ممالک نے اپنی کاٹن کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے کئی ٹیکنالوجیز آ گئی ہیں جس سے کاٹن کی پیداوار بڑھ سکتی ہے لیکن شاید حکومتوں کی ترجیح میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ دنیا کے دیگر ممالک کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں مختلف زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔
ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ بعض برآمد کنندگان کا خیال ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات میں ٹیکسٹائل برآمدات 13 ارب ڈالر سے بڑھا کر 26 ارب ڈالر تک پہنچائی جا سکتی ہے، ظاہر ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے، بجلی، گیس اور دیگر اِن پُٹس کی قیمت بھی کم رہے، تا کہ پیداواری لاگت اتنی ہو کہ عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا آسان ہو۔ بصورت دیگر گزشتہ ایک عشرے میں کئی ممالک ٹیکسٹائل برآمدات میں پاکستان سے پیچھے تھے اب بہت آگے نکل چکے ہیں۔ کیونکہ جب تک بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے اس وقت تک کتنے ہی منصوبے بنا لیے جائیں کوئی کام دیا جائے مثلاً ٹیکسٹائل سستی، اکنامک زون وغیرہ وغیرہ یہ سارے منصوبے اسی وقت کارآمد ہوتے ہیں جب بنیادی مسائل حل ہوں۔ اس وقت انرجی کے مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے جائیں۔
اگرچہ اس کے لیے وقت درکار ہو گا لیکن یہ سوچا جائے کہ آیندہ چل کر برآمدی اشیا کی لاگت میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو اس سے زرعی پیداوار کی لاگت بھی اتنی بڑھ چکی ہو گی کہ عالمی اجناس کی منڈی میں بھی پاکستان کی اپنی زرعی برآمدات میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، چہ جائیکہ دیگر برآمدات میں اضافہ ممکن ہو سکے۔اس کے علاوہ اشیا کی لاگت میں اضافے کو کم کرنے کے لیے پاکستانی روپیہ کی قدر کو مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اگرچہ ڈالر نے دنیا کی کئی کرنسیوں میں ہیجانی کیفیت طاری کر رکھی ہے۔ مختلف ممالک کی کرنسیوں کو ڈالر نے دبوچ رکھا ہے اگرچہ پاکستان میں کافی عرصے سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے لیکن گزشتہ 3 ماہ میں بھارتی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں15% گر چکا ہے، انڈونیشی روپیہ اور برازیلین کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر 10% کھو چکے ہیں، ترکی کا لیرا بھی اپنی قدر 5% گر چکا ہے، پاکستانی روپیہ کی قدر میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو۔
اس وقت پاکستانی برآمدات کا سالانہ حجم 24 ارب ڈالر ہے، سابقہ حکومت نے اپنی پہلی تجارتی پالیسی میں یہ یقین دلایا تھا کہ 2012ء تک برآمدات کا حجم 45 ارب ڈالر تک لے جائیں گے لیکن اس کے لیے بنیادی لوازمات کو سستا کرنے کے بجائے ان کی قیمتوں میں اضافہ اور شدید قلت پیدا ہونے لگی جس کے باعث ملک کا برآمدی شعبہ اور صنعتیں خستہ حالی کا شکار ہو کر رہ گئیں جس کے منفی اثرات کے باعث بیروزگاری اور غربت میں شدید اضافہ ہوا، یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے لیے مراعات کا بل پاس ہونے کے امکانات ہیں، اس کے بعد برآمدات میں بہتری سے اضافہ متوقع ہے، روزگار میں بھی اضافہ ہو گا، لیکن ان امکانات اور توقعات کو پورا کرنے کے لیے اسی طرح کے بھرپور اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔