ہمیشہ کسی شے کی کمی کا احساس رہتا ہے لیاقت علی عاصم
شاعری میں اظہار جمالیاتی ہونا چاہیے، فلیپ لکھوانے کا قائل نہیں ، معروف شاعر، لیاقت علی عاصم کی کہانی
وہ ایک طوفانی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔
زمین سے آسمان تک ایک پردہ سا تن گیا۔ لہریں ہوائوں کے رتھ پر سوار ہوئیں، جن کی زد میں آنے والا ایک بحری جہاز منوڑا کے ساحل پر پھنس گیا۔ حادثات کی اس دنیا میں امید کا اکلوتا سہارا ''سگنل ٹاور'' تھا، جہاں اس رات فقط ایک شخص موجود تھا۔ ایک شاعر!
لیاقت علی عاصم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ٹاور پر تنہا تھے، اور ایک بھاری ذمے داری اُن پر آن پڑی۔ اُنھوں نے فوراً شپنگ آفس میں واقعے کی اطلاع پہنچائی۔ طوفانی بارش میں امدادی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بالآخر صبح تک وہ جہاز نکال لیا گیا۔ جب صورت حال قابو میں آگئی، سمندر شانت ہوا، تب ایک شخص نے ان سے سوال کیا،''کس کے بیٹے ہو؟'' جواب میں اُنھوں نے اپنے والد، حاجی علی کا نام لیا، جو علاقے کی جانی مانی شخصیت تھے۔ پوچھنے والے نے کاندھا تھپتھپایا۔ ''حاجی علی کا بیٹا ہی یہ کام کرسکتا تھا!'' اُس پل کیا احساسات تھے، اِس کا اندازہ ایک بیٹا ہی لگا سکتا ہے۔
اِس شاعر کی کہانی کا آغاز ساحل سے ہوتا ہے کہ گھر سے چند قدم دور ہی لہریں موسیقی ترتیب دیا کرتی تھیں، سمندر زندگی کا جزو تھا۔ باقاعدگی سے وہاں جانا ہوتا۔ دوستوں کے ساتھ ساحل سمندر پر وہ امتحان کی تیاری کیا کرتے تھے۔ والد سے فٹ بال کا شوق وراثت میں ملا تھا۔ گیند کا تعاقب بھی ریت ہی پر ہوتا۔ پھر ساحلی علاقے سے اٹھ کر شہر میں آن بسے، مگر سمندر سے ناتا نہیں ٹوٹا۔
پرانے مضامین اور استعاروں کو نئی جہت عطا کرنے والے لیاقت علی عاصم کا شمار اپنی نسل کے نمایاں شعرا میں ہوتا ہے۔ ناقدین ان کی غزلوں کو رفت اور رفتار کی غزلیں قرار دیتے ہیں۔ ان کا پختہ اور جمالیاتی تقاضوں پر پورا اترنے والا کلام چھے مجموعوں میں سمویا جاچکا ہے۔ انٹرنیٹ نے بھی اُن کے کلام کی ترویج میں مثبت کردار ادا کیا۔ یوں تو کئی لوگوں نے اُن سے اصلاح لی، مگر اُنھوں نے کسی کو باقاعدہ شاگرد نہیں کیا۔ اصلاح کا عمل غلطیوں کی نشان دہی تک محدود رہا۔ کبھی مصرع درست نہیں کیا۔ اپنے پیشہ ورانہ سفر میں وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے منسلک رہے۔
اُن کے اجداد کا تعلق ہندوستان کے ساحلی علاقے، کوکن سے ہے۔ مادری زبان (کوکنی) مراٹھی کی ایک بولی ہے۔ والد، حاجی علی شرگائوں کر نے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے فوراً بعد مغرب کا رخ کیا۔ کراچی کے ساحلی علاقے، منوڑا میں ڈیرا ڈالا، اور کے پی ٹی میں ملازم ہوگئے۔ کوکنی برادری کے کئی افراد نے آنے والے برسوں میں اس علاقے میں سکونت اختیار کی۔ یہیں لیاقت علی عاصم نے 14 اگست 1951 کو آنکھ کھولی۔ ایک بہن، آٹھ بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ پرورش میں والدہ کے ساتھ بڑی بہن اور بڑی بھابی کا کلیدی کردار رہا۔ ایک معنوں میں بہ یک وقت تین مائوں نے اُنھیں پالا۔ خاصے شرارتی تھے، مگر شرارتیں بے ضرر ہوتیں۔ گو انتہائی لاڈپیار میں پلے بڑھے، مگر عجیب بات ہے کہ گھر میں سب سے زیادہ اداس بھی وہ ہی رہا کرتے۔ شاید یہ اندر کا شاعر تھا، جو اداسی کی صورت اپنی موجودگی کا پیغام دے رہا تھا۔ برادری کے بزرگ کوکنی بولتے تھے، مگر ان کے گھر میں اردو زیادہ برتی جاتی۔ باقاعدگی سے اردو اخبار آیا کرتا تھا۔ والد کے بے حد قریب تھے۔ کہتے ہیں،''وہ بہت ہی حلیم الطبیع انسان تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی فعال رہے۔ جب اُن کے انتقال پر لوگ روتے دھوتے آئے، تب پتا چلا کہ وہ کس طرح فلاحی کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے۔''
والد کے انتقال کے سمے کچھ یوں خیال کو شعر میں سمویا:
بسترِ مرگ پر تھی اِک دنیا
اور تم مر گئے کمال کیا
آٹھویں تک تعلیم منوڑا سے حاصل کی۔ کھارادر کے ایک اسکول سے 68ء میں، سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال آوارہ گردی کی نذر ہوا۔ پھر اسلامیہ کالج کا حصہ بن گئے۔ انٹر کے بعد اپنا بوجھ خود ڈھونے کی خواہش پر 320 روپے ماہ وار پر کے پی ٹی میں ملازم ہوگئے، اور سگنل ٹاور پر ذمے داری سنبھال لی۔ روشنی کو پیغامات کے قالب میں ڈھالنے کا فن سیکھنے کے لیے چھے ماہ کا کورس ہوتا تھا، جو اُنھوں نے ڈیڑھ ماہ میں پاس کر لیا۔ دو برس وہاں ملازمت کی۔ اُسی زمانے میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا۔ خواہش تھی کہ یونیورسٹی میں پڑھا جائے۔ شعبۂ صحافت میں داخلہ نہیں ہوا، تو عارضی طور پر شعبۂ اردو کا حصہ بن گئے۔ پھر وہیں دل لگ گیا۔ اُسی مضمون میں ماسٹرز کیا۔ بڑے بھائی کی مالی معاونت کے طفیل اُن برسوں میں ملازمت کے جھمیلوں سے دور رہے۔ نظریاتی جھکائو لیفٹ کی جانب تھا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان سے دوستی ضرور تھی، مگر باقاعدہ اُس جماعت کے رکن نہیں بنے۔
ماسٹرز تو بہ آسانی کر لیا، مگر ملازمت کے لیے بڑے دھکے کھانے پڑے۔ درخواستیں جمع کرواتے، انٹرویوز دیتے، ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرتے، مگر بے روزگاری ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیتی۔ اُس زمانے میں گزر بسر کے لیے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ پھر منوڑا کے ایک فوٹو گرافر نے اُنھیں پورٹریٹ بنانے کی تجویز پیش کی۔ بتاتے ہیں، رنگ بچپن سے اُن کے دوست ہیں کہ گھر میں سب ہی آرٹسٹ تھے۔ برش کو برتنا وہ خوب جانتے تھے۔ سیاحت کی غرض سے اندرون و بیرون ملک سے نیول کیڈٹ منوڑا آیا کرتے تھے، اور اِس نقطۂ نگاہ سے آرٹسٹ کے لیے خاصے امکانات تھے۔ انھوں نے پیش کش قبول کرلی۔ آرڈرز ان تک پہنچ جاتے، اور وہ پورٹریٹ تیار کرکے ان صاحب کے حوالے کر دیتے۔ اِس کام سے اچھی یافت ہوجاتی۔
خاصی بھاگ دوڑ کے بعد بالآخر 80ء میں وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی ہوگئے۔ یہ قصّہ خاصا دل چسپ ہے۔ کہتے ہیں، پریشانی کے اس زمانے میں ایک دوست نے اُنھیں ڈاکٹر ابوالخیرکشفی سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ براہ راست تقاضا کرنے کے وہ قائل نہیں تھے، سو ایک غزل لکھ کر بھیج دی، جس کے دو اشعار کچھ یوں تھے:
فکرِ معاش دن یہ دکھائے تو کیا کروں
ماں کی دعا بھی کام نہ آئے تو کیا کروں
تاریکی سارے گھر کی مسلط ہو ذہن پر
اور چاند مجھ کو چھت پر بلائے تو کیا کروں
کشفی صاحب نے دوسرے ہی روز اردو ڈکشنری بورڈ پہنچنے کی ہدایت کر دی۔ پہلے کارڈ نویسی کرتے رہے۔ پھر پرانے مسودوں کی ایڈیٹنگ شروع کی۔ 90ء میں ایڈیٹر کا منصب سنبھالا، اور2011 میں اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس زمانے میں ادارے سے منسلک ہوئے تھے، ''تاریخی اردو لغت'' کی تیسری جلد پر کام ہورہا تھا۔ بائیسویں اور آخری جلد بھی اُن کی موجودگی میں شایع ہوئی۔ الغرض اپنے کیریر میں وہ اس لغت کی بیس جلدوں کی تیاری میں شامل رہے۔ خدمات کے اعتراف میں ادارے کی جانب سے تعریفی سند اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔
پیشہ ورانہ سفر کے بعد شعری سفر پر بات شروع ہوئی۔ ان کے بہ قول، گھر کے ماحول اور موسیقی سے شغف نے اُنھیں شعر کہنے کی راہ سُجھائی۔ 65ء کی جنگ میں خندق کھودنے کے تجربے سے گزرے، جس نے اندر کے شاعر کو اظہار کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ پہلی غزل تب ہی کہی۔ اِس ضمن میں اسکول کے استاد، عبدالجبار ہاشمی کی حوصلہ افزائی خوب کام آئی۔ استاد نے اُنھیں داغ کو پڑھنے کا مشورہ دیا کہ داغ زبان کا شاعر ہے۔ نویں کے استاد، عبدالماجد نے بھی راہ نمائی کی۔ آنے والے برسوں میں سر نہوڑاے شعر کہتے رہے۔ کسی سے اصلاح نہیں لی۔ اپنا کلام کسی کو دکھاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ابتدا میں نظمیں کہیں، رباعیات کا بھی تجربہ کیا، پھر اظہار کی خواہش نے غزل کے قالب میں ڈھلنا شروع کر دیا۔ تخلص تو عاصم ہی تھا، مگر عندلیب شادانی سے متاثر ہو کر عاصم شادانی کے نام سے بھی لکھا۔ پھر لیاقت علی عاصم ہوگئے۔
70ء میں اُن کی غزل ایک مؤقر اخبار کے ادبی صفحے پر شایع ہوئی۔ پھر ''اوراق'' میں اُن کی شاعری نے جگہ پائی۔ اب وہ جراید میں تخلیقات بھیجنے لگے۔ پنڈی سے شایع ہونے والے غزلوں کے ایک انتخاب میں بھی اُن کی تخلیق جگہ پانے میں کام یاب رہی۔ سینیرز کا جو حلقہ میسر آیا، وہ سحر انصاری، نصیرترابی، جون ایلیا، انور شعور، عبید اﷲ علیم، سلیم کوثر، جمال احسانی اور صابر ظفر جیسے کہنہ مشق شعرا پر مشتمل تھا۔
مشاعرے
پڑھنے کا باقاعدہ آغاز تو 74ء میں ہوا، مگر پہلا مشاعرہ اُنھوں نے ایس ایم کالج کی طرف سے پڑھا تھا۔ دراصل بھٹو صاحب کے زمانے میں ''دور اصطلاحات'' کے زیر عنوان این ای ڈی کالج میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ راغب مراد آبادی اس کے میزبان تھے۔ پروین شاکر کا بھی، اُن کے مطابق، وہ پہلا مشاعرہ تھا۔
مشاعرے تو وہ پڑھتے رہے، مگر اِس عمل میں تسلسل کا فقدان رہا۔ سبب یہ تھا کہ محفل رات گئے تک جاری رہتی، مگر منوڑا جانے والی آخری لانچ اپنے مخصوص وقت پر روانہ ہوجاتی تھی۔ 82ء میں وہ کیماڑی منتقل ہوگئے۔ پھر ناگن چورنگی کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ اِس وقت بھی وہیں مقیم ہیں۔ شہری علاقے کا حصہ بننے کے بعد مشاعرے پڑھنے کے عمل میں تیزی آگئی اور انہوں نے کراچی کے ممتاز شعرا صف میں جگہ پائی۔ مشق سخن کا سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔
مجموعوں کی اصل تعداد تو چھے ہے، مگر وہ 88ء میں شایع ہونے والے اپنے دوسرے مجموعے ''آنگن میں سمندر'' کو اپنی پہلی کاوش گردانتے ہیں۔ اِس کتاب میں اُن کے فن کی بابت عبیداﷲ علیم، احمد ہمدانی اور حسنین جعفری کے مضامین شامل تھے۔ ''آنگن میں سمندر'' اُن کا اکلوتا مجموعہ ہے، جس پر کسی کی رائے درج ہے کہ وہ فلیپ لکھوانے کے قائل نہیں۔
پہلا مجموعہ ''سبد گل'' اُس زمانے میں شایع ہوا، جب وہ شعر تو کہہ رہے تھے، مگر چھپنے چھپانے کا سلسلہ شروع نہیںہوا تھا۔ یہ مجموعہ دراصل اُن کی غزلوں کا انتخاب تھا، جسے ایک دوست، محمد صادق راز میرٹھی نے کتابی شکل دی۔ اب اُس کی کوئی کاپی ان کے پاس نہیں۔
96ء میں تیسرا مجموعہ ''رقص وصال'' شایع ہوا، جو اکلوتا مجموعہ ہے، جس کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ باقی مجموعوں کی تقریبات کیوں نہیں ہو سکیں؟ اِس کا سبب وہ اپنی کم آمیزی اور کسی حلقے سے عدم وابستگی کو قرار دیتے ہیں۔ ''اگر کوئی کہتا، تو تقریب ہوجاتی۔ مگر کسی نے کہا نہیں، پھر مجھے اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ قارئین کا ردعمل ہمیشہ مثبت رہا، اور میرے لیے یہی کافی تھا۔'' اگلا مجموعہ ''نشیب شہر'' تھا۔ 2011 میں ''دل خراشی'' کے زیر عنوان پانچویں کتاب آئی، جس میں شامل شاعری ایک خاص احساس کے تحت تخلیق ہوئی تھی، سو کتاب میں اپنا ایک مضمون شامل کرنا انھوں نے ضروری جانا۔ 2012 میں ''باغ تو سارا جانے ہے'' شایع ہوئی۔ اب کلیات لانے کا ارادہ ہے۔ اِس بار بھی ''فلیپ'' لکھوانے کی خواہش نہیں۔
جس زمانے میں لیاقت علی عاصم نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا، نثری نظم کا شہرہ تھا، مگر اُنھوں نے اِس صنف میں طبع آزمائی نہیں کی۔ کہتے ہیں،''میں نثری نظم کا قائل ہوں، مگر میرا ذہن اُس وقت بہت روایتی تھا۔ پھر غزل نے باندھ رکھا تھا۔ میں موسیقی کا آدمی تھا، اور موسیقی کا آدمی ردھم سے باہر نہیں جاسکتا۔'' اِس صنف کے وہ قائل ضرور ہیں، مگر چند سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ ''جب آپ مادرپدر آزادی حاصل کر لیتے ہیں، قافیے، ردیف، وزن، کسی شے کی پابندی نہیں، اگر تب بھی آپ کی تخلیق میں شاعری نہیں ہے، تو پھر نثری نظم کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔''
کیا شاعری کی کلاسیکی ہیئت عصری مسائل کا وزن ڈھو سکتی ہے؟ اُن کے بہ قول،''عصری مسائل کے لیے نظم بہتر صنف ہے۔ غزل میں اشارے کنائے ہوتے ہیں، مگر غزل کا مستقبل موجود ہے۔ اب جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں، اگر وہ میں غزل ہی میں کہہ لیتا ہوں، تو نظم کی ضرورت کیا رہ جائے گی! دیکھیں، اگر شاعر اچھا ہے، تو وہ کسی بھی صنف میں لکھ سکتا ہے۔''
اُن کا ادبی نظریہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''شاعری میں آپ کا اظہار جمالیاتی ہونا چاہیے۔ اس میں خوب صورتی اور سلیقہ ہو۔'' شاعری کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں،''شاعری ایک خوب صورت سی بات ہے، یا وہ بات ہے، جسے خوب صورتی سے لکھا گیا۔''
تخلیق کاروں کو ناقدری اور بے قیمتی کی شکایت، اُن کے مطابق، ہر زمانے میں رہی ہے، جس کا سبب وہ گروہ بندیوں اور حالیہ برسوں میں مطالعے کے گھٹتے رجحان کو قرار دیتے ہیں۔ اپنے متعلق کہنا ہے،''میری کتابیں اس طرح تو قارئین تک نہیں پہنچیں، جسے دیگر پاپولر شعرا کی پہنچیں، مگر مجھے قارئین کی جانب سے اچھا ردعمل ملا، خصوصاً انٹرنیٹ کے طفیل میرے کلام کی رسائی میں اضافہ ہوا۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں، البتہ میڈیا سے ضرور شکوہ ہے، جس نے ادب کو پروموٹ کرنے میں سنجیدگی نہیں برتی۔'' ان کے مطابق مطالعے کا رجحان کم ضرور ہوا ہے، مگر پڑھنے والے نایاب نہیں ہوئے، اب بھی کتب میلوں میں رش ہوتا ہے۔
زندگی کا خوش گوار لمحہ وہ تھا، جب خود کو بہ طور شاعر والد کے سامنے ظاہر کیا۔ دُکھ بھرے لمحات بھی کئی آئے۔ ہمیشہ کسی شے کی کمی کا احساس رہتا ہے۔ غم، اپنوں کی جدائی سے نتھی ہیں۔
عام طور سے شلوار قمیص میں نظر آتے ہیں۔ سی فوڈ سے رغبت ہے۔ بارش کا موسم بھاتا ہے۔ 81ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں سے دوستانہ روابط رہے۔ گھر والوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی کہ گھر اور پیشہ ورانہ ذمے داریاں میں ہمیشہ توازن رکھا۔ شاعری میں وہ غالب کے مداح ہیں۔ سینیرز میں جون ایلیا کو سراہتے ہیں۔ فکشن میں منٹو اور بیدی کا نام لیتے ہیں۔ مہدی حسن اور امانت علی کی آواز بھاتی ہے۔ فلموں میں ''کل ہو نہ ہو'' اچھی لگی۔ شاہ رخ خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ نہیں۔ خواہش ہے کہ ''منسٹری آف ایجوکیشن'' کو ''منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ لٹریچر'' میں ڈھالا جائے کہ فروغ ادب اداروں کی ذمے داری ہے۔
تذکرہ ''تاریخی اردو لغت'' کا۔۔۔
تین عشروں تک لیاقت علی عاصم اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی رہے۔ تاریخی اردو لغت کی تیاری میں وہ شامل تھے۔ بتاتے ہیں، 58ء میں قائم ہونے والے اس ادارے نے ستر کی دہائی میں ایک ایسی لغت پر کام شروع کیا، جس میں الفاظ کے معنوں کے ساتھ اُن کی سند اور تاریخ بھی ہو۔ بیس جلدیں اُن کی موجودگی ہی میں تیار ہوئیں۔ اُنھوں نے اِسے ''اپ ڈیٹ'' کرنے کا سلسلہ بھی شروع کروا دیا تھا۔ توقع تھی کہ ریٹائرمینٹ کے بعد حکومت اِس ضمن میں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے گی، مگر ایسا نہیں ہو، جس کا انھیں قلق ہے۔
تاریخی اردو لغت کی خصوصیات زیر بحث آئیں، تو عاصم صاحب بتانے لگے،''اسے انسائیکلوپیڈیا کے طرز پر مرتب کیا گیا۔ اس میں بے پناہ معلومات ہے۔ ادبی ذایقہ ہے۔ اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کسی اور لغت میں آپ کو نثری نظم کی تعریف نہیں ملے گی، مگر ہماری لغت میں مل جائے گی۔ ہم نے فقط وہ ہی لفظ لیے، جو لکھے جارہے ہیں۔ جو بولے جارہے ہیں، ان کی سند کہاں سے لائیں؟ ہم نے اِعراب الفاظ پر بھی لگائے، اور ساتھ قوسین میں بھی دیے۔'' تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی شے خامیوں سے مبرا نہیں ہوتی۔ ''یقینی طور پر اس میں چند خامیاں ہوں گی کہ مختلف ادوار میں مختلف افراد اس منصوبے کی دیکھ ریکھ کرتے رہے، مگر اس کی خوبیاں خامیوں پر غالب ہیں۔''
اُن کے مطابق تاریخی اردو لغت جیسے وسیع اور وقیع کام کی نہ صرف اردو، بلکہ دنیا کی کئی زبانوں میں مثال نہیں ملتی۔ ''صرف فرانس میں اتنے بڑے پیمانے پر لغت مرتب کی گئی، جسے مسلسل اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے۔''
اس لغت کا کیا ردعمل رہا؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''اس منصوبے کی تشہیر ہمارے ادارے کا کام نہیں تھا، یہ ذمے داری وزارت تعلیم کی تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ اسے بہت اچھا ردعمل ملا۔ اداروں کے ساتھ ادب کے قارئین اور محققین نے اسے خریدا۔ پورے سیٹ کی قیمت ساڑھے نو ہزار روپے ہے۔ ادارے سے خریدی جائے، تو آدھی قیمت پر مل جاتی ہے۔
''فیس بک'' باتوں کا بازار ہے!
انٹرنیٹ کی اہمیت کے وہ قائل ہیں۔ ''فیس بک'' پر خاصے فعال ہیں۔ اپنے اشعار باقاعدگی سے پوسٹ کرتے ہیں۔ ''فیس بک'' کو وہ باتوں کا بازار قرار دیتے ہیں، جسے لوگ اپنی تشہیر کے لیے برتتے ہیں۔
''ایک نقطۂ نگاہ سے تو یہ تنہا اور اداس لوگوں کا مرکز ہے، جہاں وہ ایک دوسرے کا غم بانٹتے ہیں۔ ہاں، کئی ایسے ہیں، جنھیں اصولاً شعر نہیں کہنا چاہیے، مگر ہم کسی کو روک نہیں سکتے۔ کوئی برا اور فضول کام کرنے سے بہتر ہے کہ انسان شعر کہہ لے۔'' یہاں سے رومن اسکرپٹ کے بڑھتے استعمال پر بات نکلی۔ کہنا ہے،''میں بھی رومن میں لکھتا ہوں، مگر اِس کا سبب میری نااہلی اور تکنیکی کم زوری ہے۔ البتہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ اردو رسم الخط کو خطرہ ہے۔ یہ باقی رہے گا۔ میں رومن اسکرپٹ برتنے والوں سے یہی کہوں گا کہ وہ تلفظ کا خاص خیال رکھیں۔ لفظ کی ہجے اس طرح لکھیں کہ پورا تلفظ آجائے۔
زمین سے آسمان تک ایک پردہ سا تن گیا۔ لہریں ہوائوں کے رتھ پر سوار ہوئیں، جن کی زد میں آنے والا ایک بحری جہاز منوڑا کے ساحل پر پھنس گیا۔ حادثات کی اس دنیا میں امید کا اکلوتا سہارا ''سگنل ٹاور'' تھا، جہاں اس رات فقط ایک شخص موجود تھا۔ ایک شاعر!
لیاقت علی عاصم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ٹاور پر تنہا تھے، اور ایک بھاری ذمے داری اُن پر آن پڑی۔ اُنھوں نے فوراً شپنگ آفس میں واقعے کی اطلاع پہنچائی۔ طوفانی بارش میں امدادی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بالآخر صبح تک وہ جہاز نکال لیا گیا۔ جب صورت حال قابو میں آگئی، سمندر شانت ہوا، تب ایک شخص نے ان سے سوال کیا،''کس کے بیٹے ہو؟'' جواب میں اُنھوں نے اپنے والد، حاجی علی کا نام لیا، جو علاقے کی جانی مانی شخصیت تھے۔ پوچھنے والے نے کاندھا تھپتھپایا۔ ''حاجی علی کا بیٹا ہی یہ کام کرسکتا تھا!'' اُس پل کیا احساسات تھے، اِس کا اندازہ ایک بیٹا ہی لگا سکتا ہے۔
اِس شاعر کی کہانی کا آغاز ساحل سے ہوتا ہے کہ گھر سے چند قدم دور ہی لہریں موسیقی ترتیب دیا کرتی تھیں، سمندر زندگی کا جزو تھا۔ باقاعدگی سے وہاں جانا ہوتا۔ دوستوں کے ساتھ ساحل سمندر پر وہ امتحان کی تیاری کیا کرتے تھے۔ والد سے فٹ بال کا شوق وراثت میں ملا تھا۔ گیند کا تعاقب بھی ریت ہی پر ہوتا۔ پھر ساحلی علاقے سے اٹھ کر شہر میں آن بسے، مگر سمندر سے ناتا نہیں ٹوٹا۔
پرانے مضامین اور استعاروں کو نئی جہت عطا کرنے والے لیاقت علی عاصم کا شمار اپنی نسل کے نمایاں شعرا میں ہوتا ہے۔ ناقدین ان کی غزلوں کو رفت اور رفتار کی غزلیں قرار دیتے ہیں۔ ان کا پختہ اور جمالیاتی تقاضوں پر پورا اترنے والا کلام چھے مجموعوں میں سمویا جاچکا ہے۔ انٹرنیٹ نے بھی اُن کے کلام کی ترویج میں مثبت کردار ادا کیا۔ یوں تو کئی لوگوں نے اُن سے اصلاح لی، مگر اُنھوں نے کسی کو باقاعدہ شاگرد نہیں کیا۔ اصلاح کا عمل غلطیوں کی نشان دہی تک محدود رہا۔ کبھی مصرع درست نہیں کیا۔ اپنے پیشہ ورانہ سفر میں وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے منسلک رہے۔
اُن کے اجداد کا تعلق ہندوستان کے ساحلی علاقے، کوکن سے ہے۔ مادری زبان (کوکنی) مراٹھی کی ایک بولی ہے۔ والد، حاجی علی شرگائوں کر نے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے فوراً بعد مغرب کا رخ کیا۔ کراچی کے ساحلی علاقے، منوڑا میں ڈیرا ڈالا، اور کے پی ٹی میں ملازم ہوگئے۔ کوکنی برادری کے کئی افراد نے آنے والے برسوں میں اس علاقے میں سکونت اختیار کی۔ یہیں لیاقت علی عاصم نے 14 اگست 1951 کو آنکھ کھولی۔ ایک بہن، آٹھ بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ پرورش میں والدہ کے ساتھ بڑی بہن اور بڑی بھابی کا کلیدی کردار رہا۔ ایک معنوں میں بہ یک وقت تین مائوں نے اُنھیں پالا۔ خاصے شرارتی تھے، مگر شرارتیں بے ضرر ہوتیں۔ گو انتہائی لاڈپیار میں پلے بڑھے، مگر عجیب بات ہے کہ گھر میں سب سے زیادہ اداس بھی وہ ہی رہا کرتے۔ شاید یہ اندر کا شاعر تھا، جو اداسی کی صورت اپنی موجودگی کا پیغام دے رہا تھا۔ برادری کے بزرگ کوکنی بولتے تھے، مگر ان کے گھر میں اردو زیادہ برتی جاتی۔ باقاعدگی سے اردو اخبار آیا کرتا تھا۔ والد کے بے حد قریب تھے۔ کہتے ہیں،''وہ بہت ہی حلیم الطبیع انسان تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی فعال رہے۔ جب اُن کے انتقال پر لوگ روتے دھوتے آئے، تب پتا چلا کہ وہ کس طرح فلاحی کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے۔''
والد کے انتقال کے سمے کچھ یوں خیال کو شعر میں سمویا:
بسترِ مرگ پر تھی اِک دنیا
اور تم مر گئے کمال کیا
آٹھویں تک تعلیم منوڑا سے حاصل کی۔ کھارادر کے ایک اسکول سے 68ء میں، سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال آوارہ گردی کی نذر ہوا۔ پھر اسلامیہ کالج کا حصہ بن گئے۔ انٹر کے بعد اپنا بوجھ خود ڈھونے کی خواہش پر 320 روپے ماہ وار پر کے پی ٹی میں ملازم ہوگئے، اور سگنل ٹاور پر ذمے داری سنبھال لی۔ روشنی کو پیغامات کے قالب میں ڈھالنے کا فن سیکھنے کے لیے چھے ماہ کا کورس ہوتا تھا، جو اُنھوں نے ڈیڑھ ماہ میں پاس کر لیا۔ دو برس وہاں ملازمت کی۔ اُسی زمانے میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا۔ خواہش تھی کہ یونیورسٹی میں پڑھا جائے۔ شعبۂ صحافت میں داخلہ نہیں ہوا، تو عارضی طور پر شعبۂ اردو کا حصہ بن گئے۔ پھر وہیں دل لگ گیا۔ اُسی مضمون میں ماسٹرز کیا۔ بڑے بھائی کی مالی معاونت کے طفیل اُن برسوں میں ملازمت کے جھمیلوں سے دور رہے۔ نظریاتی جھکائو لیفٹ کی جانب تھا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان سے دوستی ضرور تھی، مگر باقاعدہ اُس جماعت کے رکن نہیں بنے۔
ماسٹرز تو بہ آسانی کر لیا، مگر ملازمت کے لیے بڑے دھکے کھانے پڑے۔ درخواستیں جمع کرواتے، انٹرویوز دیتے، ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرتے، مگر بے روزگاری ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیتی۔ اُس زمانے میں گزر بسر کے لیے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ پھر منوڑا کے ایک فوٹو گرافر نے اُنھیں پورٹریٹ بنانے کی تجویز پیش کی۔ بتاتے ہیں، رنگ بچپن سے اُن کے دوست ہیں کہ گھر میں سب ہی آرٹسٹ تھے۔ برش کو برتنا وہ خوب جانتے تھے۔ سیاحت کی غرض سے اندرون و بیرون ملک سے نیول کیڈٹ منوڑا آیا کرتے تھے، اور اِس نقطۂ نگاہ سے آرٹسٹ کے لیے خاصے امکانات تھے۔ انھوں نے پیش کش قبول کرلی۔ آرڈرز ان تک پہنچ جاتے، اور وہ پورٹریٹ تیار کرکے ان صاحب کے حوالے کر دیتے۔ اِس کام سے اچھی یافت ہوجاتی۔
خاصی بھاگ دوڑ کے بعد بالآخر 80ء میں وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی ہوگئے۔ یہ قصّہ خاصا دل چسپ ہے۔ کہتے ہیں، پریشانی کے اس زمانے میں ایک دوست نے اُنھیں ڈاکٹر ابوالخیرکشفی سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ براہ راست تقاضا کرنے کے وہ قائل نہیں تھے، سو ایک غزل لکھ کر بھیج دی، جس کے دو اشعار کچھ یوں تھے:
فکرِ معاش دن یہ دکھائے تو کیا کروں
ماں کی دعا بھی کام نہ آئے تو کیا کروں
تاریکی سارے گھر کی مسلط ہو ذہن پر
اور چاند مجھ کو چھت پر بلائے تو کیا کروں
کشفی صاحب نے دوسرے ہی روز اردو ڈکشنری بورڈ پہنچنے کی ہدایت کر دی۔ پہلے کارڈ نویسی کرتے رہے۔ پھر پرانے مسودوں کی ایڈیٹنگ شروع کی۔ 90ء میں ایڈیٹر کا منصب سنبھالا، اور2011 میں اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس زمانے میں ادارے سے منسلک ہوئے تھے، ''تاریخی اردو لغت'' کی تیسری جلد پر کام ہورہا تھا۔ بائیسویں اور آخری جلد بھی اُن کی موجودگی میں شایع ہوئی۔ الغرض اپنے کیریر میں وہ اس لغت کی بیس جلدوں کی تیاری میں شامل رہے۔ خدمات کے اعتراف میں ادارے کی جانب سے تعریفی سند اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔
پیشہ ورانہ سفر کے بعد شعری سفر پر بات شروع ہوئی۔ ان کے بہ قول، گھر کے ماحول اور موسیقی سے شغف نے اُنھیں شعر کہنے کی راہ سُجھائی۔ 65ء کی جنگ میں خندق کھودنے کے تجربے سے گزرے، جس نے اندر کے شاعر کو اظہار کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ پہلی غزل تب ہی کہی۔ اِس ضمن میں اسکول کے استاد، عبدالجبار ہاشمی کی حوصلہ افزائی خوب کام آئی۔ استاد نے اُنھیں داغ کو پڑھنے کا مشورہ دیا کہ داغ زبان کا شاعر ہے۔ نویں کے استاد، عبدالماجد نے بھی راہ نمائی کی۔ آنے والے برسوں میں سر نہوڑاے شعر کہتے رہے۔ کسی سے اصلاح نہیں لی۔ اپنا کلام کسی کو دکھاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ابتدا میں نظمیں کہیں، رباعیات کا بھی تجربہ کیا، پھر اظہار کی خواہش نے غزل کے قالب میں ڈھلنا شروع کر دیا۔ تخلص تو عاصم ہی تھا، مگر عندلیب شادانی سے متاثر ہو کر عاصم شادانی کے نام سے بھی لکھا۔ پھر لیاقت علی عاصم ہوگئے۔
70ء میں اُن کی غزل ایک مؤقر اخبار کے ادبی صفحے پر شایع ہوئی۔ پھر ''اوراق'' میں اُن کی شاعری نے جگہ پائی۔ اب وہ جراید میں تخلیقات بھیجنے لگے۔ پنڈی سے شایع ہونے والے غزلوں کے ایک انتخاب میں بھی اُن کی تخلیق جگہ پانے میں کام یاب رہی۔ سینیرز کا جو حلقہ میسر آیا، وہ سحر انصاری، نصیرترابی، جون ایلیا، انور شعور، عبید اﷲ علیم، سلیم کوثر، جمال احسانی اور صابر ظفر جیسے کہنہ مشق شعرا پر مشتمل تھا۔
مشاعرے
پڑھنے کا باقاعدہ آغاز تو 74ء میں ہوا، مگر پہلا مشاعرہ اُنھوں نے ایس ایم کالج کی طرف سے پڑھا تھا۔ دراصل بھٹو صاحب کے زمانے میں ''دور اصطلاحات'' کے زیر عنوان این ای ڈی کالج میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ راغب مراد آبادی اس کے میزبان تھے۔ پروین شاکر کا بھی، اُن کے مطابق، وہ پہلا مشاعرہ تھا۔
مشاعرے تو وہ پڑھتے رہے، مگر اِس عمل میں تسلسل کا فقدان رہا۔ سبب یہ تھا کہ محفل رات گئے تک جاری رہتی، مگر منوڑا جانے والی آخری لانچ اپنے مخصوص وقت پر روانہ ہوجاتی تھی۔ 82ء میں وہ کیماڑی منتقل ہوگئے۔ پھر ناگن چورنگی کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ اِس وقت بھی وہیں مقیم ہیں۔ شہری علاقے کا حصہ بننے کے بعد مشاعرے پڑھنے کے عمل میں تیزی آگئی اور انہوں نے کراچی کے ممتاز شعرا صف میں جگہ پائی۔ مشق سخن کا سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔
مجموعوں کی اصل تعداد تو چھے ہے، مگر وہ 88ء میں شایع ہونے والے اپنے دوسرے مجموعے ''آنگن میں سمندر'' کو اپنی پہلی کاوش گردانتے ہیں۔ اِس کتاب میں اُن کے فن کی بابت عبیداﷲ علیم، احمد ہمدانی اور حسنین جعفری کے مضامین شامل تھے۔ ''آنگن میں سمندر'' اُن کا اکلوتا مجموعہ ہے، جس پر کسی کی رائے درج ہے کہ وہ فلیپ لکھوانے کے قائل نہیں۔
پہلا مجموعہ ''سبد گل'' اُس زمانے میں شایع ہوا، جب وہ شعر تو کہہ رہے تھے، مگر چھپنے چھپانے کا سلسلہ شروع نہیںہوا تھا۔ یہ مجموعہ دراصل اُن کی غزلوں کا انتخاب تھا، جسے ایک دوست، محمد صادق راز میرٹھی نے کتابی شکل دی۔ اب اُس کی کوئی کاپی ان کے پاس نہیں۔
96ء میں تیسرا مجموعہ ''رقص وصال'' شایع ہوا، جو اکلوتا مجموعہ ہے، جس کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ باقی مجموعوں کی تقریبات کیوں نہیں ہو سکیں؟ اِس کا سبب وہ اپنی کم آمیزی اور کسی حلقے سے عدم وابستگی کو قرار دیتے ہیں۔ ''اگر کوئی کہتا، تو تقریب ہوجاتی۔ مگر کسی نے کہا نہیں، پھر مجھے اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ قارئین کا ردعمل ہمیشہ مثبت رہا، اور میرے لیے یہی کافی تھا۔'' اگلا مجموعہ ''نشیب شہر'' تھا۔ 2011 میں ''دل خراشی'' کے زیر عنوان پانچویں کتاب آئی، جس میں شامل شاعری ایک خاص احساس کے تحت تخلیق ہوئی تھی، سو کتاب میں اپنا ایک مضمون شامل کرنا انھوں نے ضروری جانا۔ 2012 میں ''باغ تو سارا جانے ہے'' شایع ہوئی۔ اب کلیات لانے کا ارادہ ہے۔ اِس بار بھی ''فلیپ'' لکھوانے کی خواہش نہیں۔
جس زمانے میں لیاقت علی عاصم نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا، نثری نظم کا شہرہ تھا، مگر اُنھوں نے اِس صنف میں طبع آزمائی نہیں کی۔ کہتے ہیں،''میں نثری نظم کا قائل ہوں، مگر میرا ذہن اُس وقت بہت روایتی تھا۔ پھر غزل نے باندھ رکھا تھا۔ میں موسیقی کا آدمی تھا، اور موسیقی کا آدمی ردھم سے باہر نہیں جاسکتا۔'' اِس صنف کے وہ قائل ضرور ہیں، مگر چند سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ ''جب آپ مادرپدر آزادی حاصل کر لیتے ہیں، قافیے، ردیف، وزن، کسی شے کی پابندی نہیں، اگر تب بھی آپ کی تخلیق میں شاعری نہیں ہے، تو پھر نثری نظم کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔''
کیا شاعری کی کلاسیکی ہیئت عصری مسائل کا وزن ڈھو سکتی ہے؟ اُن کے بہ قول،''عصری مسائل کے لیے نظم بہتر صنف ہے۔ غزل میں اشارے کنائے ہوتے ہیں، مگر غزل کا مستقبل موجود ہے۔ اب جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں، اگر وہ میں غزل ہی میں کہہ لیتا ہوں، تو نظم کی ضرورت کیا رہ جائے گی! دیکھیں، اگر شاعر اچھا ہے، تو وہ کسی بھی صنف میں لکھ سکتا ہے۔''
اُن کا ادبی نظریہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''شاعری میں آپ کا اظہار جمالیاتی ہونا چاہیے۔ اس میں خوب صورتی اور سلیقہ ہو۔'' شاعری کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں،''شاعری ایک خوب صورت سی بات ہے، یا وہ بات ہے، جسے خوب صورتی سے لکھا گیا۔''
تخلیق کاروں کو ناقدری اور بے قیمتی کی شکایت، اُن کے مطابق، ہر زمانے میں رہی ہے، جس کا سبب وہ گروہ بندیوں اور حالیہ برسوں میں مطالعے کے گھٹتے رجحان کو قرار دیتے ہیں۔ اپنے متعلق کہنا ہے،''میری کتابیں اس طرح تو قارئین تک نہیں پہنچیں، جسے دیگر پاپولر شعرا کی پہنچیں، مگر مجھے قارئین کی جانب سے اچھا ردعمل ملا، خصوصاً انٹرنیٹ کے طفیل میرے کلام کی رسائی میں اضافہ ہوا۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں، البتہ میڈیا سے ضرور شکوہ ہے، جس نے ادب کو پروموٹ کرنے میں سنجیدگی نہیں برتی۔'' ان کے مطابق مطالعے کا رجحان کم ضرور ہوا ہے، مگر پڑھنے والے نایاب نہیں ہوئے، اب بھی کتب میلوں میں رش ہوتا ہے۔
زندگی کا خوش گوار لمحہ وہ تھا، جب خود کو بہ طور شاعر والد کے سامنے ظاہر کیا۔ دُکھ بھرے لمحات بھی کئی آئے۔ ہمیشہ کسی شے کی کمی کا احساس رہتا ہے۔ غم، اپنوں کی جدائی سے نتھی ہیں۔
عام طور سے شلوار قمیص میں نظر آتے ہیں۔ سی فوڈ سے رغبت ہے۔ بارش کا موسم بھاتا ہے۔ 81ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں سے دوستانہ روابط رہے۔ گھر والوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی کہ گھر اور پیشہ ورانہ ذمے داریاں میں ہمیشہ توازن رکھا۔ شاعری میں وہ غالب کے مداح ہیں۔ سینیرز میں جون ایلیا کو سراہتے ہیں۔ فکشن میں منٹو اور بیدی کا نام لیتے ہیں۔ مہدی حسن اور امانت علی کی آواز بھاتی ہے۔ فلموں میں ''کل ہو نہ ہو'' اچھی لگی۔ شاہ رخ خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ نہیں۔ خواہش ہے کہ ''منسٹری آف ایجوکیشن'' کو ''منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ لٹریچر'' میں ڈھالا جائے کہ فروغ ادب اداروں کی ذمے داری ہے۔
تذکرہ ''تاریخی اردو لغت'' کا۔۔۔
تین عشروں تک لیاقت علی عاصم اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی رہے۔ تاریخی اردو لغت کی تیاری میں وہ شامل تھے۔ بتاتے ہیں، 58ء میں قائم ہونے والے اس ادارے نے ستر کی دہائی میں ایک ایسی لغت پر کام شروع کیا، جس میں الفاظ کے معنوں کے ساتھ اُن کی سند اور تاریخ بھی ہو۔ بیس جلدیں اُن کی موجودگی ہی میں تیار ہوئیں۔ اُنھوں نے اِسے ''اپ ڈیٹ'' کرنے کا سلسلہ بھی شروع کروا دیا تھا۔ توقع تھی کہ ریٹائرمینٹ کے بعد حکومت اِس ضمن میں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے گی، مگر ایسا نہیں ہو، جس کا انھیں قلق ہے۔
تاریخی اردو لغت کی خصوصیات زیر بحث آئیں، تو عاصم صاحب بتانے لگے،''اسے انسائیکلوپیڈیا کے طرز پر مرتب کیا گیا۔ اس میں بے پناہ معلومات ہے۔ ادبی ذایقہ ہے۔ اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کسی اور لغت میں آپ کو نثری نظم کی تعریف نہیں ملے گی، مگر ہماری لغت میں مل جائے گی۔ ہم نے فقط وہ ہی لفظ لیے، جو لکھے جارہے ہیں۔ جو بولے جارہے ہیں، ان کی سند کہاں سے لائیں؟ ہم نے اِعراب الفاظ پر بھی لگائے، اور ساتھ قوسین میں بھی دیے۔'' تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی شے خامیوں سے مبرا نہیں ہوتی۔ ''یقینی طور پر اس میں چند خامیاں ہوں گی کہ مختلف ادوار میں مختلف افراد اس منصوبے کی دیکھ ریکھ کرتے رہے، مگر اس کی خوبیاں خامیوں پر غالب ہیں۔''
اُن کے مطابق تاریخی اردو لغت جیسے وسیع اور وقیع کام کی نہ صرف اردو، بلکہ دنیا کی کئی زبانوں میں مثال نہیں ملتی۔ ''صرف فرانس میں اتنے بڑے پیمانے پر لغت مرتب کی گئی، جسے مسلسل اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے۔''
اس لغت کا کیا ردعمل رہا؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''اس منصوبے کی تشہیر ہمارے ادارے کا کام نہیں تھا، یہ ذمے داری وزارت تعلیم کی تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ اسے بہت اچھا ردعمل ملا۔ اداروں کے ساتھ ادب کے قارئین اور محققین نے اسے خریدا۔ پورے سیٹ کی قیمت ساڑھے نو ہزار روپے ہے۔ ادارے سے خریدی جائے، تو آدھی قیمت پر مل جاتی ہے۔
''فیس بک'' باتوں کا بازار ہے!
انٹرنیٹ کی اہمیت کے وہ قائل ہیں۔ ''فیس بک'' پر خاصے فعال ہیں۔ اپنے اشعار باقاعدگی سے پوسٹ کرتے ہیں۔ ''فیس بک'' کو وہ باتوں کا بازار قرار دیتے ہیں، جسے لوگ اپنی تشہیر کے لیے برتتے ہیں۔
''ایک نقطۂ نگاہ سے تو یہ تنہا اور اداس لوگوں کا مرکز ہے، جہاں وہ ایک دوسرے کا غم بانٹتے ہیں۔ ہاں، کئی ایسے ہیں، جنھیں اصولاً شعر نہیں کہنا چاہیے، مگر ہم کسی کو روک نہیں سکتے۔ کوئی برا اور فضول کام کرنے سے بہتر ہے کہ انسان شعر کہہ لے۔'' یہاں سے رومن اسکرپٹ کے بڑھتے استعمال پر بات نکلی۔ کہنا ہے،''میں بھی رومن میں لکھتا ہوں، مگر اِس کا سبب میری نااہلی اور تکنیکی کم زوری ہے۔ البتہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ اردو رسم الخط کو خطرہ ہے۔ یہ باقی رہے گا۔ میں رومن اسکرپٹ برتنے والوں سے یہی کہوں گا کہ وہ تلفظ کا خاص خیال رکھیں۔ لفظ کی ہجے اس طرح لکھیں کہ پورا تلفظ آجائے۔