ارادہ

شاہ لوئی چلا گیا۔ لیکن اس کی موت سے پہلے ہی فرانس ایک حیرت انگیز تبدیلی سے دوچار ہو چکا تھا۔

شاہ لوئی چلا گیا۔ لیکن اس کی موت سے پہلے ہی فرانس ایک حیرت انگیز تبدیلی سے دوچار ہو چکا تھا۔ فرانس کے عوام کا خون انقلاب کی آگ بھڑکا گیا۔ ان کی شریانیں غیظ و غضب سے بھر گئیں لیکن جمہوریہ فرانس اب دیوار سے لگا کھڑا تھا اور باقی تمام یورپ اپنے بادشاہوں کے ساتھ اس کے مدمقابل غرا رہا تھا۔ فرانس کو اب یہ دکھانا تھا کہ آزادی کی حرارت سے لبریز محب وطن شہنشاہوں کے خلاف کیسے رزم آرا ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی نو زائیدہ آزادی کے لیے لڑ سکتا ہے بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے بھی لڑ سکتا ہے جو بادشاہوں اور جاگیرداروں کے جبرکا شکار ہیں۔

فرانسیسی عوام نے یورپ کی تمام قوموں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ وہ انہیں ہر عوام دشمن حکومت کا دشمن اور اپنا دوست پائیں گے۔ فرانس آزادی کا متوالا بن گیا اور آزادی کی قربان گاہ پر جان دینا اس کے ہر شہری کا خوشگوار مقصد بن گیا۔ جو ش و خروش کے ان تند و تیز لمحوں میں فرانس کے بچے بچے کی زبان پر آزادی کا ایک ولولہ انگیز گیت مچل رہا تھا۔ یہ گیت ان کے آتشیں رویے کے دھن میں گونجتا ہوا انہیں میدان جنگ کی طرف لے چلتا اور وہ تمام مشکلوں اور رکاوٹوں کو عبورکرتے چلے جاتے۔ یہ گیت آزادی آف دی رہائن کا جنگی ترانہ تھا جو اب بھی فرانسیسیوں کا ملی نغمہ ہے۔ وہ بادشاہ کی طویل عمری کے فضول گیت گانے کے بجا ئے مادر وطن کی مقدس محبت اور آزادی، محبوب ترین آزادی کے گیت گاتے تھے۔ پورے فرانس میں خوفناک قحط تھا۔ اسلحہ تو کیا کھانے کو اناج، پہننے کو کپڑا اور جوتے تک نہ تھے۔

بہت سی جگہوں پر شہریوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی فو ج کے لیے قربانی دیتے ہوئے اپنے جو تے اسے دے دیں۔ محب وطن عوام بڑی مشکل سے حاصل ہونے والا اناج اٹھا کر فوج کو دے دیتے اور خود کئی کئی روز فاقے سے رہتے۔ چمڑے کی چیزیں، باورچی خانے کے برتن، بالٹیاں، ٹوکریاں اور کئی طرح کی چیزیں فوج کو درکار تھیں۔ پیرس کی گلیوں میں لوگ یہ چیزیں اٹھائے فوج کے منتظر رہتے۔ عام لوگوں نے اسلحہ بنا نے میں مدد دینا شروع کر دی۔ قحط بہت شدید تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ فرانس، آزادی پسند فرانس، خوبصورت فرانس اگر چیتھڑوں میں ملبوس تھا تو کیا ہوا اس کے سر پر آزادی کا تا ج تھا۔ وہ اس تا ج کو در پیش خطروں کا خاتمہ چاہتے تھے۔ وہ سرحدوں پر امڈتے ہوئے دشمنوں کو روکنا چاہتے تھے۔ چنانچہ فرانس کے نوجوان مادر وطن کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرحدوں کی طر ف دوڑ پڑے۔ انہیں اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں تھی۔ انہیں فتح چاہیے تھی۔ فرانس کا تحفظ مطلوب تھا۔

کارلائل کا کہنا ہے کہ ''بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ سبھی لوگوں کا نظریہ ایک ہو۔ لوگ تو صرف ان چیزوں پر ایک جیسی سو چ رکھتے ہیں جو کھائی جا سکیں یا استعمال ہو سکیں۔ لیکن جب ان کا نظریہ اور ایمان ایک ہو جائے تو پھر ان کی تاریخ جوش و جذبے سے لبریز اور امر ہو جاتی ہے۔'' فرانس کے مردوں اور عورتوں کا یہ ایمان انہیں انقلابی بنا گیا۔ انھوں نے ان یادگار دنوں میں جو تاریخ مرتب کی، جو قربانیاں دیں ابھی تک ہمیں ولولہ بخشتی ہیں۔ ہم اگر ماضی بعید اور قریب کے سفر پر نکلیں اور یادوں کو اچھی طرح سے کھنگالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا ملک نہیں جسے کسی مرحلے پر ابتلا کا منہ دیکھنا نہ پڑا ہو ہم دنیا میں واحد قوم نہیں جو انتشار، بدامنی، جہالت، تشدد انتہا پسندی اور شورش کی لپیٹ میں ہیں ہم سے پہلے امریکا، سوویت یونین، آئس لینڈ، اسپین، فلپائن، چین، برطانیہ، ہنگری، فن لینڈ، پولینڈ، کوریا، بھارت، فرانس، بلغاریہ، چیکو سلواکیہ، جاپان، سعودی عرب، میکسیکو، ارجنٹائن اور بہت سے دیگر ممالک بھی شورشوں، لسانی و فرقہ وارانہ فسادات اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔

امریکا کی خانہ جنگی میں ریاستوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 7 لاکھ 50 ہزار فوجی ہلاک ہوئے جس میں انفراسٹرکچر، فیکٹریاں، دکانیں، ذرائع آمد و رفت اور غذائی فراہمی کے ذرائع تباہ ہو گئے لیکن انھوں نے اور دیگر قوموں نے ہمت نہیں ہاری، اپنے حوصلے پست نہیں کیے۔ اور اپنے بدترین حالات کو شکست دے دی۔


نپولین کو دنیا کی ہر چیز عظمت، طاقت، دو لت، عہدہ حاصل تھی جن کی انسان عموماً خواہش کیا کرتا ہے پھر بھی اس نے جزیرہ سینٹ ہیلنا میں کہا تھا میری زندگی میں مسرت کے مسلسل چھ دن بھی نہیں آئے۔ لیکن اندھی گونگی اور بہری ہیلن کیلر کہا کرتی تھی میں نے زندگی کو بہت حسین پایا ہے تمہارے اپنے سوا تمہیں کوئی بھی خوشی نہیں پہنچا سکتا۔ عظیم فلسفی اپکیٹیٹس کہتا ہے ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کو شش کرنی چاہیے۔ فرانسیسی فلسفی مانتیں نے یہ چوبیس الفا ظ اپنی زندگی کا ماٹو قرار دیے تھے ''انسان کو کسی حادثہ سے اس قدر ضرر نہیں پہنچتا جس قدر اس رائے سے جو وہ اس حادثے کے متعلق قائم کرتا ہے۔''

ولیم جیمز جس کا آج تک عملی نفسیات میں کوئی حریف پیدا نہیں ہو سکا وہ ہمیں بتاتا ہے کہ محض ارادہ کر کے ہم فی الفور جذبات کو نہیں بدل سکتے بلکہ اس سے ہم اپنے افعال میں تغیر پیدا کر سکتے ہیں اور جب ہمارے ا فعا ل بدل جائیں گے تو ہمارے احساسات میں خود بخود تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ جیمز لین ایلن اپنی کتاب انسان کیسے سوچتا ہے میں لکھتا ہے جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خود بخود تبدیلی پیدا ہو گئی ہے انسان میں ان چیزوں کو اپنی طر ف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے جنہیں وہ چاہتا ہے بلکہ انہیں جو کہ وہ خود ہے و ہ دیوتا جو ہماری خو اہشوں اور آرزوئوں کو تکمیل کا رو پ دیتے ہیں۔

خود ہم ہی ہیں ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کر کے ابھار کر آگے بڑھ سکتا ہے ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے اور کا میابی کی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے خیالات کو ابھار نے سے انکار کر ے گا تو وہ صرف حقیر، کمزور، ادنیٰ اور شکستہ حال ر ہے گا۔ یہ صحیح ہے کہ ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ پاکستانی قوم میں بھی تعجب خیز خوبی منفی کو مثبت میں بدل دینے کی خوبی موجود ہے اور انھوں نے ہر محاذ میں یہ ثابت بھی کیا ہے ہمارا شمار دنیا کی بہادر قوموں میں ہوتا ہے دنیا کی دیگر قوموں کی طرح آج ہم پر بھی مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ یہ ہماری آخری منزل ہر گز نہیں ہم بھی جلد ہی کامیابی، خو شحالی اور امن کی کشتی میں سوار ہو جائیں گے بس ہمیں اپنا ذہنی رویہ تبدیل کرنا ہو گا ہمیں اپنے فر سو دہ، افسردہ، پژ مردہ، بزدلانہ اور بیمار خیالات سے نجات حاصل کر نا ہو گی۔ اپنی سو چ یکسر تبدیل کرنا ہو گی، اپنے ذہنوں سے غلط خیالات خارج کر نا ہو نگے۔

دہشت گردی، غربت، جہالت، بیماریاں، بدامنی، انتہا پسندی ہر گز ہمارا مقدر اور نصیب نہیں ہے۔ اس بات پر ہمیں اعتماد ہونا چاہیے۔ بائبل میں لکھا ہے ہم اعتماد کے سہارے چلتے ہیں بینائی کے سہارے نہیں۔ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول زندگی کی جنگ میں مصروف انسانوں کے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندوق نہیں لڑتی اسے تھا منے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل بھی نہیں اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے۔

ایمرسن کہتا ہے جو آدمی ارادہ کر سکتا ہے اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پاکستان کے عوام کو بس اعتماد، ارادہ، ہمت، حوصلہ کر نا ہو گا اور فرانس کے لوگوں کی طرح قربانیوں کا جذبہ پیدا کر نا ہو گا پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طر ح ہم ایک جمہوری، خوشحال، ترقی یافتہ اور پر امن قوم میں تبدیل ہو جائیں گے۔
Load Next Story