کراچی یا کچرا گھر
اس موضوع کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ آج کل ہر طرف سے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی انتخابات کا شور سننے میں آرہا ہے۔۔
اس موضوع کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ آج کل ہر طرف سے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی انتخابات کا شور سننے میں آرہا ہے۔ یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے، پچھلے 5 برسوں سے اس کی صدائیں بلند ہورہی ہیں مگر کسی بھی صوبائی حکومت نے اس طرف کان نہیں دھرے۔ بس زبانی بیانات اور یقین دہانیوں پر اکتفا کیا جاتا رہا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ سول حکومتوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی، نہ بلدیاتی نظام قائم کرسکی نہ ہی بلدیاتی انتخابات کروا سکی۔ جب بلدیاتی نظام ہی نہیں ہوگا تو بلدیاتی انتخابات کہاں سے کرائے جائیں گے۔ صوبائی ہائی کورٹس اور عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحبان مسلسل احکامات دے رہے ہیں کہ صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ مگر رویہ یہ ہے کہ ایک کان سے سنا دوسرے کان سے نکال دیا۔ پھر جب عدالتیں ''سو موٹو ایکشن'' لیتی ہیں تو واویلا مچتا ہے کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، یا صوبے کے امن و امان کی صورت حال خراب ہے۔
ہم بلدیاتی انتخابات کیسے کراسکتے ہیں؟ ایک صوبے کی طرف سے تو یہی یقین دہانی کرادی جاتی ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کسی وقت بھی کرانے کے لیے تیار ہے۔ اگر تیاریاں مکمل ہیں تو کراتے کیوں نہیں۔ پچھلے 5 سال کی دور حکومت میں بھی یہی کہتے رہے، لیکن بلدیاتی انتخابات کرائے نہیں۔ اور اب دوسری بار حکومت ملی پھر بھی زبانی کلامی پر تلے ہیں۔ اب دیکھیے 15 ستمبر بھی دور نہیں۔ پھر عدالتیں کیا حکم جاری کرتی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تاریخ سے قبل ہی کوئی ''آرڈر'' جاری ہوجائے۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے۔ یہ تو تھا بڑے صوبے کا حال، رہا دیگر دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا مسئلہ تو صوبہ پختونخوا نے بھی رضامندی ظاہر کی ہے بلدیاتی انتخابات کرانے کی۔ لیکن بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تو کیا کسی قسم کے بھی انتخابات نہیں ہوسکتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ صوبہ اس وقت بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ نہ جانے کس وقت بم پھٹ جائے، کس وقت میزائل مار دیا جائے، نہ جانے کس وقت خودکش حملہ ہوجائے۔ گزشتہ دونوں ہی یہ خبر ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں سنی اور دیکھی جارہی تھی کہ صوبہ بلوچستان میں 272 ٹن بارودی مواد اور ایک لاکھ کے قریب بارودی مواد سے بھرے بم اور نہ جانے کیا کیا برآمد ہوا ہے۔
اس سارے پس منظر کے بیان کرنے اور اتنی طویل تمہید باندھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے صوبہ سندھ میں ''بلدیاتی انتخابات'' تو دور کی بات ابھی تک ''بلدیاتی نظام'' کے تعین پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے ''نیا بلدیاتی نظام'' چاہیے تو کوئی کہہ رہا ہے ''1979 کا بلدیاتی نظام'' چاہیے۔ اب جب کہ یہ تنازعہ ہی طے نہیں ہو پارہا، کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہورہا تو بلدیاتی انتخابات کے متعلق کون حتمی فیصلہ کرسکتا ہے۔ جھگڑا یہ ہے کہ ''نیا بلدیاتی نظام'' بھی ایک ڈکٹیٹر (بقول معترضین کے نقطہ نظر سے) اور پرانا ''1979 کا بلدیاتی نظام'' بھی دوسرے ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا ہے۔ تو مسئلہ کیسے حل ہو؟ کیونکہ سول حکومتوں نے خود ماضی میں اس طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی اپنے اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ پھر یہ واویلا کیوں کہ ایک ڈکٹیٹر کا نظام قبول اور دوسرے ڈکٹیٹر کا نظام قبول نہیں۔ یہ کریڈٹ تو فوجی حکومتوں کو ہی جاتا ہے کہ انھوں نے بلدیاتی نظام بنائے بھی اور نافذ بھی کیے اور ان کے تحت بلدیاتی انتخابات بھی کروائے۔
یہ تو سول حکومتوں کی ناکامی ہے کہ انھوں نے بلدیاتی نظام بنایا نہ نافذ کیا اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات کروائے۔ ان اختلافات میں پڑنے کے بجائے بہتر یہی ہوگا کہ عوام سے رائے لی جائے، جس کے لیے رائے شماری کرائی جائے، جو رائے اکثریت میں ہو اسی کے تحت ''بلدیاتی نظام'' بھی نافذ کردیے جائیں اور ''بلدیاتی انتخابات'' بھی کروائے جائیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ بس، مسئلے کو الجھاؤ دینا مقصد ہے اور عدالتی حکم کو پس پشت ڈالنا ہے۔ ایک فریق برسر اقتدار ہے اور اکثریت ہے تو دوسرا فریق بھی تو اپنا بھاری مینڈیٹ رکھتا ہے اور مضبوط اپوزیشن بھی ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلانے اور اپنی ہٹ دھرمی چلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سیاست میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہوتا جس کے حل کے لیے مذاکرات نہ کیے جائیں اور مذاکرات کے نتیجے میں ہی متفقہ حل تلاش کرلیا جاتا ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے یہ حال ہورہا ہے کہ ''نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی''۔ اور شہر کراچی جوکہ سابقہ دور میں پاکستان کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا، اب صوبہ سندھ کا دارالخلافہ بن گیا۔ یہ تو پہلے ہی سکڑ چکا۔ اب مزید اسے سکیڑنے یا تباہ کرنے کی فکر میں کیوں ہو؟ یہ ملک کا دارالخلافہ نہ ہوا تو کیا ہوا، اب بھی ہمارے ملک کا ''معاشی حب'' ہے۔ ملک کی پیداوار کا 70 فیصد ریونیو (بلکہ اب تو اس سے زیادہ ہوگیا ہے) وفاق کو دیتا ہے۔ کیا اس کے باوجود اس شہر کی اہمیت کم ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہوش کے ناخن لیجیے۔ بلدیاتی نظام نافذ کیجیے (متفقہ فیصلے سے) اور بلدیاتی انتخابات کروائیے، تاکہ اس شہر کی ناگفتہ بہ حالت کو سدھارا جاسکے، جو اس وقت ترقیاتی و بلدیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے ''کچرے کا ڈھیر'' بنا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کو عوام نے مزید 5 سال حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ضرور ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات 2013 میں پیپلز پارٹی کو اتنی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ بے شک انھیں اندرون سندھ اکثریت حاصل ہوئی ہے لیکن شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھی بھاری مینڈیٹ ملا ہے جو معنی رکھتا ہے، پیپلزپارٹی کسی صورت سندھ کی دوسری بڑی پارٹی کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ پہلے تو متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی اتحادی تھے لیکن اس مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ اپوزیشن میں ہے، اس لیے پیپلزپارٹی کا رویہ بدل گیا ہے۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی میں چند ایسے سخت گیر رہنما بھی ہیں جو کسی صورت ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے اور ایم کیو ایم کو کسی قانون سازی، ترقیاتی منصوبہ بندی اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال جیسے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں۔ اگر دونوں فریقین میں اسی طرح رسہ کشی جاری رہی تو کراچی کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہی یہاں امن وامان قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہاں کوئی ترقیاتی کام ہوسکتے ہیں بلکہ موجودہ صورت حال نے کراچی کو ''کچرا گھر'' بنادیا اور اگر اب بھی عوام کو بددل کردیا گیا اور بلدیاتی کاموں کی رفتار کو سست روی کا شکار بنادیا گیا تو پھر یہ شہر ''زہریلی آلودگی'' کا شکار ہوجائے گا۔
دفاتر میں بیٹھ کر یا اسمبلیوں میں بیٹھ کر شور مچانے سے کام نہیں چلے گا۔ عمل درآمد کی پالیسی پر گامزن ہونا پڑے گا۔ کچھ عوام کو ڈلیور کرنا پڑے گا اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب کراچی کو عروس البلاد بنایا جائے۔ خالی خولی ڈینگیں مارنے، جھوٹے دعوے کرنے، عوام کو سبز باغ دکھانے کا وقت گزر گیا۔ عوام اب باشعور و بیدار ہوچکے ہیں، میڈیا آزاد ہے۔ اب سیاستدان عوام سے اپنے کرتوتوں کو چھپا نہیں سکتے۔ بات ہے سمجھنے کی۔
ہم بلدیاتی انتخابات کیسے کراسکتے ہیں؟ ایک صوبے کی طرف سے تو یہی یقین دہانی کرادی جاتی ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کسی وقت بھی کرانے کے لیے تیار ہے۔ اگر تیاریاں مکمل ہیں تو کراتے کیوں نہیں۔ پچھلے 5 سال کی دور حکومت میں بھی یہی کہتے رہے، لیکن بلدیاتی انتخابات کرائے نہیں۔ اور اب دوسری بار حکومت ملی پھر بھی زبانی کلامی پر تلے ہیں۔ اب دیکھیے 15 ستمبر بھی دور نہیں۔ پھر عدالتیں کیا حکم جاری کرتی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تاریخ سے قبل ہی کوئی ''آرڈر'' جاری ہوجائے۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے۔ یہ تو تھا بڑے صوبے کا حال، رہا دیگر دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا مسئلہ تو صوبہ پختونخوا نے بھی رضامندی ظاہر کی ہے بلدیاتی انتخابات کرانے کی۔ لیکن بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تو کیا کسی قسم کے بھی انتخابات نہیں ہوسکتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ صوبہ اس وقت بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ نہ جانے کس وقت بم پھٹ جائے، کس وقت میزائل مار دیا جائے، نہ جانے کس وقت خودکش حملہ ہوجائے۔ گزشتہ دونوں ہی یہ خبر ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں سنی اور دیکھی جارہی تھی کہ صوبہ بلوچستان میں 272 ٹن بارودی مواد اور ایک لاکھ کے قریب بارودی مواد سے بھرے بم اور نہ جانے کیا کیا برآمد ہوا ہے۔
اس سارے پس منظر کے بیان کرنے اور اتنی طویل تمہید باندھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے صوبہ سندھ میں ''بلدیاتی انتخابات'' تو دور کی بات ابھی تک ''بلدیاتی نظام'' کے تعین پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے ''نیا بلدیاتی نظام'' چاہیے تو کوئی کہہ رہا ہے ''1979 کا بلدیاتی نظام'' چاہیے۔ اب جب کہ یہ تنازعہ ہی طے نہیں ہو پارہا، کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہورہا تو بلدیاتی انتخابات کے متعلق کون حتمی فیصلہ کرسکتا ہے۔ جھگڑا یہ ہے کہ ''نیا بلدیاتی نظام'' بھی ایک ڈکٹیٹر (بقول معترضین کے نقطہ نظر سے) اور پرانا ''1979 کا بلدیاتی نظام'' بھی دوسرے ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا ہے۔ تو مسئلہ کیسے حل ہو؟ کیونکہ سول حکومتوں نے خود ماضی میں اس طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی اپنے اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ پھر یہ واویلا کیوں کہ ایک ڈکٹیٹر کا نظام قبول اور دوسرے ڈکٹیٹر کا نظام قبول نہیں۔ یہ کریڈٹ تو فوجی حکومتوں کو ہی جاتا ہے کہ انھوں نے بلدیاتی نظام بنائے بھی اور نافذ بھی کیے اور ان کے تحت بلدیاتی انتخابات بھی کروائے۔
یہ تو سول حکومتوں کی ناکامی ہے کہ انھوں نے بلدیاتی نظام بنایا نہ نافذ کیا اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات کروائے۔ ان اختلافات میں پڑنے کے بجائے بہتر یہی ہوگا کہ عوام سے رائے لی جائے، جس کے لیے رائے شماری کرائی جائے، جو رائے اکثریت میں ہو اسی کے تحت ''بلدیاتی نظام'' بھی نافذ کردیے جائیں اور ''بلدیاتی انتخابات'' بھی کروائے جائیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ بس، مسئلے کو الجھاؤ دینا مقصد ہے اور عدالتی حکم کو پس پشت ڈالنا ہے۔ ایک فریق برسر اقتدار ہے اور اکثریت ہے تو دوسرا فریق بھی تو اپنا بھاری مینڈیٹ رکھتا ہے اور مضبوط اپوزیشن بھی ہے۔ اس حقیقت کو جھٹلانے اور اپنی ہٹ دھرمی چلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سیاست میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہوتا جس کے حل کے لیے مذاکرات نہ کیے جائیں اور مذاکرات کے نتیجے میں ہی متفقہ حل تلاش کرلیا جاتا ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے یہ حال ہورہا ہے کہ ''نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی''۔ اور شہر کراچی جوکہ سابقہ دور میں پاکستان کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا، اب صوبہ سندھ کا دارالخلافہ بن گیا۔ یہ تو پہلے ہی سکڑ چکا۔ اب مزید اسے سکیڑنے یا تباہ کرنے کی فکر میں کیوں ہو؟ یہ ملک کا دارالخلافہ نہ ہوا تو کیا ہوا، اب بھی ہمارے ملک کا ''معاشی حب'' ہے۔ ملک کی پیداوار کا 70 فیصد ریونیو (بلکہ اب تو اس سے زیادہ ہوگیا ہے) وفاق کو دیتا ہے۔ کیا اس کے باوجود اس شہر کی اہمیت کم ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہوش کے ناخن لیجیے۔ بلدیاتی نظام نافذ کیجیے (متفقہ فیصلے سے) اور بلدیاتی انتخابات کروائیے، تاکہ اس شہر کی ناگفتہ بہ حالت کو سدھارا جاسکے، جو اس وقت ترقیاتی و بلدیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے ''کچرے کا ڈھیر'' بنا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کو عوام نے مزید 5 سال حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ضرور ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات 2013 میں پیپلز پارٹی کو اتنی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ بے شک انھیں اندرون سندھ اکثریت حاصل ہوئی ہے لیکن شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھی بھاری مینڈیٹ ملا ہے جو معنی رکھتا ہے، پیپلزپارٹی کسی صورت سندھ کی دوسری بڑی پارٹی کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ پہلے تو متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی اتحادی تھے لیکن اس مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ اپوزیشن میں ہے، اس لیے پیپلزپارٹی کا رویہ بدل گیا ہے۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی میں چند ایسے سخت گیر رہنما بھی ہیں جو کسی صورت ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے اور ایم کیو ایم کو کسی قانون سازی، ترقیاتی منصوبہ بندی اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال جیسے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں۔ اگر دونوں فریقین میں اسی طرح رسہ کشی جاری رہی تو کراچی کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہی یہاں امن وامان قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہاں کوئی ترقیاتی کام ہوسکتے ہیں بلکہ موجودہ صورت حال نے کراچی کو ''کچرا گھر'' بنادیا اور اگر اب بھی عوام کو بددل کردیا گیا اور بلدیاتی کاموں کی رفتار کو سست روی کا شکار بنادیا گیا تو پھر یہ شہر ''زہریلی آلودگی'' کا شکار ہوجائے گا۔
دفاتر میں بیٹھ کر یا اسمبلیوں میں بیٹھ کر شور مچانے سے کام نہیں چلے گا۔ عمل درآمد کی پالیسی پر گامزن ہونا پڑے گا۔ کچھ عوام کو ڈلیور کرنا پڑے گا اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب کراچی کو عروس البلاد بنایا جائے۔ خالی خولی ڈینگیں مارنے، جھوٹے دعوے کرنے، عوام کو سبز باغ دکھانے کا وقت گزر گیا۔ عوام اب باشعور و بیدار ہوچکے ہیں، میڈیا آزاد ہے۔ اب سیاستدان عوام سے اپنے کرتوتوں کو چھپا نہیں سکتے۔ بات ہے سمجھنے کی۔