پاکستانی آٹو انڈسٹری کی غفلتیں

تمام بڑی کمپنیاں دنیا میں گاڑیاں بناتی ہیں تو تمام حفاظتی لوازمات کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں


کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں پاکستان میں حفاظتی اصولوں کو مدنظر نہیں رکھ رہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں کار انڈسٹری ایک ایسے وائٹ کالر کرائم میں ملوّث ہے جس کا ادراک قمر زمان کائرہ کے بیٹے کی افسوسناک موت کے بعد کیا جارہا ہے۔ تمام کار بنانے والی بڑی کمپنیاں غفلت کی مرتکب ہیں، جو گاڑیوں میں بنیادی حفاظتی فیچرز شامل نہیں کرتیں۔ حالانکہ یہی کمپنیاں پاکستان سے باہر تمام اصول وضوابط کا خیال رکھتی ہیں۔

اب دنیا میں ہر جگہ گاڑیوں میں ایئر بیگز فراہم کیے جاتے ہیں، جو کسی بھی قسم کے تصادم کی صورت میں گاڑی میں بھر جاتے ہیں۔ اس سے گاڑی میں سفر کرنے والے شدید چوٹ سے محفوظ رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے ہاں گاڑیوں کا فرنٹ اور اس کے بنیادی ستون اتنے مضبوط نہیں بنائے جاتے جو کسی حادثے یا تصادم کو سہہ پائیں۔ نتیجتاً ذرا سے حادثے کے بعد یہ گاڑیاں کھٹارا چھکڑوں کا منظر پیش کرتی ہیں، اور سفر کرنے والوں کی ہلاکت یا شدید چوٹ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

تہذیب یافتہ دنیا میں کمپنیاں ''کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی'' (Corporate Social Responsibility) پر عمل پیرا ہیں، جس کی رو سے کمپنیاں سماجی اور ماحولیاتی طور پر اپنی ذمے داریاں سمجھتی ہیں۔ جن میں سے ایک اہم جزو یہ ہے کہ کمپنی کی کسی بھی پروڈکٹ سے عوام کی صحت یا جان کو نقصان یا ضرر نہ پہنچے۔

دنیا میں بعض خطوں میں کارپوریٹ کمپنیاں اسکول بنوانے سے لے کر مختلف فلاحی کام سرانجام دیتی ہیں۔ پاکستان میں کار انڈسٹری سے منسلک ملٹی نیشنل کمپنیاں اس ذمے داری سے غافل ہیں، حالانکہ یہی کمپنیاں باقی ممالک میں اس کا خیال رکھتی ہیں۔

حکومتی سطح پر بیرونی سرمایہ کاری لانے پر اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ ہم ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اصول و ضوابط پر عمل کرنے اور بنیادی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا پابند نہیں بناتے۔ دوسری طرف یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کے کمزور ریگولیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ذمے داریوں سے غفلت برتتی ہیں۔

کار مینوفیکچرنگ سے متعلق تمام بڑی کمپنیاں دنیا میں گاڑیاں بناتی ہیں تو تمام حفاظتی لوازمات کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کمزور ریگولیٹری ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کمپنیوں کا سارا زور منافع کمانے پر ہے۔ یہ ایک الگ المیہ ہے کہ پاکستان میں ان چلتے پھرتے بم کے گولوں اور ٹین کے ڈبّوں کی قیمت باقی دنیا سے زیادہ ہے۔ یہ گاڑیاں ذرا سے حادثے کی صورت میں جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ان مقامی تیار شدہ (لوکل مینوفیکچرڈ/ اسمبلڈ) گاڑیوں کے مقابلے میں درآمد شدہ (امپورٹڈ) ری کنڈیشنڈ گاڑیاں پائیداری، قیمت اور سیفٹی فیچرز میں بہتر ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس انڈسٹری کو سختی سے ریگولیٹ کرے اور ان کو پابند کیا جائے کہ یہ اپنی کارپوریٹ ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوں، تاکہ ان کار حادثوں کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں۔ غفلت کی صورت میں سخت تنبیہ و تادیب کی جائے، جو کسی بھی مہذب معاشرے کا دستور ہے۔ نیز یہ سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ مستقبل میں فقط بیرونی سرمایہ کاری پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کو مقدّم رکھا جائے۔ دوسری طرف عوام کو بھی شعور دینے کی ضرورت ہے کہ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کریں اور بڑی سڑکوں پر سیٹ بیلٹ ضرور باندھیں تاکہ حادثو‎ں سے محفوظ رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں