جنھیں احساس نے سولی پر چڑھا رکھا ہے
استاد رحیم بخش آزاد نے 50 سال تک لیاری میں ترقی پسندوں کی شمع روشن کیے رکھی۔
سہ پہر کا وقت ہے،کراچی میں گرمی پڑ رہی ہے۔ لیاری کے علاقے سنگولین کی چھوٹی سڑک پر ان گنت افراد جمع ہیں۔ یہ سب استاد رحیم بخش آزاد کو خدا حافظ کہنے کے لیے آئے ہیں ۔ان لوگوں میں غریب، مزدور، ٹھیلے والے، اساتذہ، صحافی، طالب علم، ڈاکٹر، ادیب ، شاعر اور سیاسی کارکن سب شامل ہیں۔ استاد رحیم بخش آزاد نے 50 سال تک لیاری میں ترقی پسندوں کی شمع روشن کیے رکھی۔ رحیم بخش آزاد کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے لیاری کے عوام کے حقوق کے لیے بے لوث لڑائی لڑی ۔ آزاد کی زندگی انتہائی سخت اور مشکل تھی۔
وہ اپنی زندگی میں صحافی، ادیب اور سیاسی کارکن و مزدور رہنما سب کچھ رہے اورموت کے دھانے پر بھی پہنچ کر انھوں نے استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد سے رشتہ برقرار رکھا۔رحیم بخش آزاد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، وہ بچپن میں ماں باپ سے محروم ہوئے۔ رحیم بخش آزاد 1942ء میں دھوبی گھاٹ کے علاقے میں پیدا ہوئے مگر زندگی کا بیشتر حصہ سنگولین میں گزارا۔ آزاد نے مرزاآدم خان سندھی اسکول سے پرائمری کا امتحان پاس کیا۔
آٹھویں جماعت تک آتما رام پریم داس روڈ پر واقع گورنمنٹ سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم رہے۔ آزاد کو ابتدائی عمر سے ہی غربت سے لڑنا پڑا۔ انھوں نے مختلف نوعیت کے کام کیے۔ یوں کچھ عرصے کے لیے تعلیم کا سلسلہ رک گیا، مگر انھیں بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس شوق کو پورا کرنے کے لیے آزاد نے پاپولر سیکنڈری اسکول گارڈن میں داخلہ لیا اور میٹرک کی سند حاصل کی۔ سٹی کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا، عبداللہ ہارون کالج میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اس وقت عظیم شاعر فیض احمد فیضؔ کالج کے پرنسپل تھے۔
ڈاکٹر م احسان وائس پرنسپل کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ عبداللہ ہارون کالج میں ترقی پسند اساتذہ اور طلبہ کا ایک ہجوم جمع ہوا رہتا تھا۔ ممتاز مؤرخ رمضان بلوچ نے اپنی کتاب '' بلوچ روشن چہرے '' میں رحیم بخش آزاد کے بارے میں لکھا ہے کہ رحیم بخش آزاد کو جوانی میں ہی اپنے علاقے میں ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کے گھر کے سامنے بلوچی زبان کے شاعر و ادیب مراد آوارنی کا گھر تھا جہاں ادبی محفلیں سجتی تھیں۔ یوں آزاد صاحب کچھ عرصہ بعد بلوچی زبان میں شاعری کی طرف راغب ہوئے اور اس ادبی ماحول کا حصہ بن گئے۔ رحیم بخش آزاد نے بلوچی کے علاوہ سندھی اور اردو زبانوں میں مضامین اور افسانے لکھے۔
رحیم بخش آزاد جب عبداللہ ہارون کالج کے طالب علم تھے تو انھوں نے کارل مارکس کے نظریات کا مطالعہ شروع کیا اور پھر ایک سچے کامریڈ بن گئے اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے ۔ اس وقت معراج محمد خان این ایس ایف کے قائد تھے۔ آزاد نے اسی زمانے میں اردو غزل لکھی۔ جب ایک مشاعرے میں آزاد نے اپنی نئی غزل پڑھی تو فیض احمد فیضؔ نے اس غزل کو مشاعرے کی سب سے بہترین غزل قرار دیا ۔
رمضان بلوچ اپنی یاد داشتوں کو سنوارتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 60ء کی دہائی کے درمیانی حصے میں جب نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما غوث بخش بزنجو نے صدر ایوب خان کے سابق وزیر محمود ہارون کی مدد سے صوبائی اسمبلی کی ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو انتخاب کے بعد نیشنل عوامی پارٹی میں خلیج پیدا ہوئی اور یوسف نسکندی کی قیادت میں ایک گروپ نیپ سے دور ہوا اور کمیونسٹ پارٹی پروچائنا میں شامل ہوا، رحیم بخش آزاد اس گروپ کا حصہ تھے۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی چین نواز کی قیادت طفیل عباس کر رہے تھے۔ آزاد نے طفیل عباس کی قیادت میں مزودر تحریک میں حصہ لیا۔ انھوں نے سینما ورکرز ایمپلائز یونین، پورٹ ورکرز اور ٹینری روڈ ورکرز یونین کی بنیاد رکھی۔ رحیم بخش آزاد لیاری میں پیپلز پارٹی منظم کرنے والے کارکنوں میں سے ایک تھے۔
وہ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کراچی کے سیکریٹری جنرل معراج محمد خان کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے ۔ جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو کراچی میں سائٹ اور لانڈھی میں مزدور تحریکوں کوکچلا گیا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے وہاں فوجی آپریشن شروع ہوا تو رحیم بخش آزاد پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے۔ انھوں نے امریکا میں مقیم پاکستانی دانشور ڈاکٹر اقبال احمد کے ساتھ کام کیا۔ رحیم بخش آزاد ڈاکٹر اقبال کو ہشت نگر کی کسان تحریک سے روشناس کرانے کے لیے سرحد گئے۔
رسول بخش پلیجو کے حلقہ اثر میں شامل ہوئے۔ جب امریکا سے آئے ہوئے دانشور ڈاکٹر فیروز احمد نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی سے رسالہ ''پاکستان فورم'' کا اجراء کیا تو آزاد اس کے معاون ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ یہ جنرل ضیاء کے جبرکا دور تھا ۔ خفیہ پولیس کے اہلکار پاکستان فورم کے گرد منڈلاتے رہتے۔ ڈاکٹر فیروز اور رحیم بخش آزاد دیگر کارکنوں کا تعاقب کیا جاتا اور ہراساں کرنے کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے، مگر رحیم بخش آزاد ڈاکٹر فیروز کے ساتھ سیسہ پلائی دیوارکی طرح جڑے رہے۔ جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پاکستان فورم پر پابندی لگا دی تو ڈاکٹر فیروز احمد کو واپس امریکا جانا پڑا۔ رحیم بخش آزاد نے پاکستان فورم میں ملکی صورتحال، بین الاقوامی منظرنامہ میں ہونے والی تبدیلیوں اور مزاحمتی تحریکوں اور بلوچ ادب کے بارے میں معلوماتی مفید مضامین لکھے۔ آزاد پھر ادارۂ امن و انصاف کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالہ ''جفاکش'' کے مدیر ہو گئے۔
ان کی ادارت میں یہ رسالہ مزدوروں، کسانوں اور اقلیتوں کا حقیقی ترجمان بن گیا۔ رحیم بخش آزاد نے اس رسالہ میں بلوچ ادب کے علاوہ اور مختلف موضوعات پر اچھے اور دلکش مضامین لکھے۔ یہی وجہ تھی کہ جفاکش جلد ہی ملک میں مقبول ہوا مگر طالع آزما قوتوں کو جفاکش کا یہ کردار قبول نہیں تھا۔ ایک دن صبح نامعلوم مسلح افراد جفاکش کے دفتر میں گھس آئے اور اندھادھند فائرنگ کر دی۔ یوں اسلم مارٹن سمیت کئی کارکن شہید ہوئے۔ رحیم بخش آزاد خوش قسمتی سے تھوڑی دیر بعد دفتر پہنچے تو ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ آزاد نے اپنے حواس برقرار رکھے، انھوں نے پولیس کو اطلاع دی ۔ ایمبولینسوں کو بلایا۔ پھر یہ رسالہ بند ہو گیا۔ رحیم بخش آزاد مسلسل کوشش کرتے رہے کہ جفاکش دوبارہ شائع ہو جائے مگر ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔
رحیم بخش آزاد 80ء کی دہائی میں پروفیسر جمال نقوی کی قیادت میں متحرک کمیونسٹ پارٹی کے فعال رکن بن گئے۔ رحیم بخش آزاد نے بلوچی زبان کی ترقی کے لیے دن رات کام کیا۔ وہ بلوچی زبان کے رسالے سے بلوچستان کے ادارتی بورڈ کے رکن اور سندھی زبان کے رسالے تحریک کے ادارتی بورڈ کے رکن رہے۔ پروفیسر نور محمد بلوچ جو نوجوانی میں رحیم بخش آزاد کے ساتھ کام کرتے رہے تھے کا کہنا ہے کہ آزاد بلوچستان اور بلوچ ادب کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ آزاد کے 5 بیٹے اور 6 بیٹیاں ہیں مگر انھوں نے ہمیشہ اپنے نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دی اور ہمیشہ اسلم خواجہ اور واحد بلوچ کو اپنا نظریاتی بیٹا قرار دیا وہ انسانی حقوق کمیشن میں بھی فعال رہے ۔
ایچ آر سی پی کے کارکن عبدالحئی، خضرحبیب ، ڈاکٹر بدر سومرو اور اسد اقبال بٹ آزاد کے انتقال سے ایک دن پہلے اسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گئے۔ آزاد پرجوش تھے۔ انھوں نے اس موقعے پر ''ساتھیو بڑھتے چلو'' کا نعرہ لگایا۔ اگرچہ آزاد کی آوازکمزور تھی مگر آزاد کا جوش وخروش ڈیوٹی نرس کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ آزاد نے سنگولین میں اپنے گھر میں 50 سال تک باقاعدگی سے ادبی، سیاسی، نظریاتی مجالس کا اہتمام کیا۔ ان مجالس سے سیکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔ان میں سے کچھ لوگ تو ایمانداری سے مظلوم طبقات کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ اب یہ سنگولین کا گھر ویران ہے۔ استاد رحیم بخش آزاد کی یادیں ہی سب کا سرمایہ ہیں۔ شاعر نے آزاد کے لیے ہی کہا تھا:
انھیں کیا خاک سزا دیں گے زمانے والے
جنھیں احساس نے سولی پر چڑھا رکھا ہے