فرشتہ انسانوں کے نرغے میں
اس نوعیت کے قتل ہمارے یہاں کوئی نئے نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے کارٹونسٹ اور اس کی برش قلم کو داد دیجیے جس نے بادلوں کی بلندیوں پر ایک پُرجلال شخصیت کا تخت بچھایا ہے۔ اس شخصیت کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور اس کی طرف تین ننھی بچیوں کا رخ ہے۔ ان بچیوں کے بازوؤں پر، پر لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے آگے فرشتہ ہے، درمیان میں ایک اور ننھی بچی ہے اور اس کے پیچھے زینب ہے۔
کارٹونسٹ ان سیکڑوں ہزاروں بچیوں کو نہیں دکھا سکتا تھاجو مختلف لوگوں کی ہوس کا کھاجا بن گئیں۔ ہر مرتبہ ان کے لیے انصاف طلب کیا گیا اور ہر مرتبہ وہ انصاف سے محروم رہیں۔ اگر مولانا الطاف حسین حالی حیات ہوتے تو کیا وہ ان لڑکیوں اور لڑکوں کے بارے میں کوئی مسدس نہ لکھتے جن کی زندگی چند وحشیوں نے جہنم بنا دی۔ ان میں بہت سی آج بھی زندہ ہیں اور انھیں چلتی پھرتی لاش کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اور وہ بھی ہیں جنھیں بھیڑیوں نے بے حرمت کیا، ان پر ستم توڑے گئے اور پھر پہچان لیے جانے کے خوف سے انھیں قتل کرکے کھیتوں، کھلیانوں میں پھینک دیا گیا۔
اس نوعیت کے قتل ہمارے یہاں کوئی نئے نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جتنا شور و غوغا ہے اتنا ہی ان جرائم میں اضافہ ہے۔ یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس نوعیت کے بے رحمانہ سلوک کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اس بے حرمتی کا شکار ہونے والے لڑکے آگے چل کر خود بھی دوسرے لڑکوں یا لڑکیوں کو شکار کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے جس سے نجات پانے کے لیے سماجی، سرکاری اور ہر نوعیت کی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس نوعیت کے المناک واقعات کے بارے میں آج سے نہیں سالہا سال سے ہمارے یہاں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ اس وقت مجھے اسلام آباد کا ایک ادارہ ''روزن'' یاد آیا جس نے اب سے سولہ سترہ برس پہلے اس موضوع پر بہت تفصیل اور تحقیق سے کام کیا تھا اور اس جرم کے اسباب و عوامل کا گہرائی میں جا کر کھوج لگانے کی کوشش کی تھی۔
''روزن'' نے اسلام آباد سے نکلنے والے نوجوانوں کے ایک انگریزی رسالے میں یہ مہم چلائی تھی کہ زیادتی اور بے حرمتی کا شکار ہونے والی لڑکیاں اور لڑکے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر رسالے کو اپنے آپ پر گزرنے والی افتاد کے بارے میں خط لکھیں تا کہ اس سنگین سماجی مسئلے پر روشنی پڑ سکے۔ ''روزن'' والوں کو اس بارے میں بہت کامیابی ہوئی اور اس بربریت کا شکار ہونے والی لڑکیوں اور لڑکوں نے انھیں خط لکھے۔ یہ خط جو تعداد میں 200 سے زیادہ تھے انھیں بنیاد بنا کر سماجی ماہرین اور ڈاکٹروں نے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ''تلخ سچائی'' کے نام سے ایسے سانحے کا شکار ہونے کے باوجود زندہ بچ جانے والوں کے خطوط شائع کیے گئے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔
ان دو سو خطوط میں سے ایک اس لڑکی کا ہے جو تین برس کی عمر میں اس بربریت کا شکار ہوئی۔ اس نے لکھا کہ یہ میرے گھریلو ملازم کی کارستانی تھی۔ وہ بوڑھا تھا اور ہمارے گھر میں فردِ خانہ کے طور پر شمار کیا جاتا تھا۔ میرے والدین گھر سے باہر جاتے تو مجھے اس کے سپرد کر جاتے۔ ان کا خیال تھا کہ میں اس کے ساتھ محفوظ رہوں گی۔ ایک روز جب والد دفتر میں تھے اور امی شاپنگ کے لیے گئی تھیں تو اس نے مجھ سے کہا ہم ''پولیس اور ڈاکو'' کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اس نے مجھے بے لباس کیا اور پھر میرے ساتھ وہ کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ میں اس سے بے حد خوفزدہ تھی اور اتنی چھوٹی عمر میں میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ اس نے مجھے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر میں نے اس کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ چاقو سے میرے ٹکڑے کر دے گا۔ یہ ایسی دھمکی تھی جس نے مجھے حواس باختہ کر رکھا تھا۔ میں اس سے بچنے کے کوشش کرتی لیکن وہ کسی نہ کسی طور مجھے اپنے جال میں پھنسا لیتا۔ کچھ دنوں بعد ہم دوسرے شہر منتقل ہو گئے جہاں وہ ہمارے ساتھ نہیں تھا، تب اس سے اور اس کے خوف سے میرا پیچھا چھوٹا۔ میں اب 14 برس کی ہو چکی ہوں لیکن اب بھی میرے ذہن میں وہ خوف تازہ ہے۔
اس نوعیت کے سانحے بچوں کا بہت دنوں تک پیچھا کرتے ہیں اور بعض حالات میں کبھی بھی ان کو اس خوف سے رہائی نہیں ملتی۔ ایسا صرف لڑکیوں کے ساتھ ہی نہیں، کم عمر لڑکوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
فرشتہ ہو، زینب یا کوئی دوسری یا تیسری بچی ان سب کے بارے میں ایک بات مشترک ہے کہ جب ان کے گھر والوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی بچی گھر سے غائب ہے اور انھوں نے پولیس میں ایف آئی آر کٹوانی چاہی تو عموماً پولیس کا رویہ نہایت لاتعلقی اور سنگ دلی کا تھا۔ فرشتہ جس کی عمر دس برس تھی، جب اس کے والد اور دوسرے رشتہ داروں نے تھانے والوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کریں تو تھانیدار پہلے تو بات کو ٹالتا رہا اور پھر دس برس کی بچی کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ وہ خود ہی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔
فرشتہ کی گمشدگی کی رپورٹ چار دن بعد علاقے کے ممبر قومی اسمبلی کے دباؤ پر درج کی گئی ۔ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ درست ہے کہ علاقے کے ایس ایچ او اور چند دوسرے پولیس والوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے کیا فائدہ۔ فرشتہ نہ صرف بے حرمتی کا شکار ہوئی بلکہ اسے تیزاب سے جلایا گیا۔ سگریٹ کے ٹوٹے اس کے بدن پر بجھائے گئے اور ناقابلِ بیان تشدد کے بعد اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔ جہاں جنگلی جانور اسے نوچتے کھسوٹتے رہے۔ فرشتہ، زینب اور ایسی دوسری بہت سی بچیاں اب اپنی قبروں میں سوتی ہیں لیکن ان کے ماں باپ اور بھائی بہن اپنے بستر پرکبھی آرام نہ کر سکیں گے۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس نوعیت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ موبائل فون پرکسی بندش کے بغیر نظر آنے والی فلمیں، ٹیلی ویژن کے بعض رقص اور ترغیب دیتے ہوئے اشتہار نوجوانوں کی خواہشوں میں اضافہ کرتے ہیں اور وہ بے بس لڑکیوں یا لڑکوں کو اپنا آسان شکار سمجھتے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھروں سے غائب ہوجانے والی بچیوں کو سرگرمی سے تلاش کرنے والے ہی ان کے قاتل ثابت ہوئے ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ فرشتہ اور اس جیسی کئی دوسری لڑکیاں رمضان کے مقدس مہینے میں غائب ہوئیں۔ اگر تحقیقات کرائی جائے تو معلوم ہو گا کہ انھیں شکار کرنے والے روزے بھی رکھ رہے تھے اور نمازیں بھی پڑھ رہے تھے ۔ اس تضاد کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کیا سبب ہے کہ ہم نہ راہ سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پر لا سکے اور نہ اپنی بچیوں اور بچوں کو یہ سمجھا سکے کہ اپنے قریبی لوگوں سے انھیں کس طرح اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔ یہ المناک بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ چھوٹی بچیاں بعض اوقات اپنے باپ، چچا، ماموں اور سگے بھائیوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ ایسی بات نہیں جس سے ہم چشم پوشی کریں، ماں، نانی، دادی اور بڑی بہنوں کو اس بارے میں بہت محتاط ہونا چاہیے اور چھوٹی بچیوں کی، گھر میں کام کرنے والی کم عمر ملازماؤں کی حفاظت بھی ان کی ذمے داری ہے۔
اس بارے میں ہندوستانی اداکار عامر خان نے بچیوں اور بچوںکی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی ہے۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کہ انھوں نے اس نہایت حساس مسئلے کو درد مندی سے سمجھا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لاکھوں بچوں کے اندر یہ شعور اجاگر کیا کہ وہ اجنبیوں کے ساتھ ساتھ غیر متوازن اور ذہنی طور پر بیمار رشتہ داروں اور قرابت داروں سے بھی خود کو کس طرح محفوظ رکھیں۔
کارٹونسٹ ان سیکڑوں ہزاروں بچیوں کو نہیں دکھا سکتا تھاجو مختلف لوگوں کی ہوس کا کھاجا بن گئیں۔ ہر مرتبہ ان کے لیے انصاف طلب کیا گیا اور ہر مرتبہ وہ انصاف سے محروم رہیں۔ اگر مولانا الطاف حسین حالی حیات ہوتے تو کیا وہ ان لڑکیوں اور لڑکوں کے بارے میں کوئی مسدس نہ لکھتے جن کی زندگی چند وحشیوں نے جہنم بنا دی۔ ان میں بہت سی آج بھی زندہ ہیں اور انھیں چلتی پھرتی لاش کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اور وہ بھی ہیں جنھیں بھیڑیوں نے بے حرمت کیا، ان پر ستم توڑے گئے اور پھر پہچان لیے جانے کے خوف سے انھیں قتل کرکے کھیتوں، کھلیانوں میں پھینک دیا گیا۔
اس نوعیت کے قتل ہمارے یہاں کوئی نئے نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جتنا شور و غوغا ہے اتنا ہی ان جرائم میں اضافہ ہے۔ یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس نوعیت کے بے رحمانہ سلوک کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اس بے حرمتی کا شکار ہونے والے لڑکے آگے چل کر خود بھی دوسرے لڑکوں یا لڑکیوں کو شکار کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے جس سے نجات پانے کے لیے سماجی، سرکاری اور ہر نوعیت کی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس نوعیت کے المناک واقعات کے بارے میں آج سے نہیں سالہا سال سے ہمارے یہاں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ اس وقت مجھے اسلام آباد کا ایک ادارہ ''روزن'' یاد آیا جس نے اب سے سولہ سترہ برس پہلے اس موضوع پر بہت تفصیل اور تحقیق سے کام کیا تھا اور اس جرم کے اسباب و عوامل کا گہرائی میں جا کر کھوج لگانے کی کوشش کی تھی۔
''روزن'' نے اسلام آباد سے نکلنے والے نوجوانوں کے ایک انگریزی رسالے میں یہ مہم چلائی تھی کہ زیادتی اور بے حرمتی کا شکار ہونے والی لڑکیاں اور لڑکے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر رسالے کو اپنے آپ پر گزرنے والی افتاد کے بارے میں خط لکھیں تا کہ اس سنگین سماجی مسئلے پر روشنی پڑ سکے۔ ''روزن'' والوں کو اس بارے میں بہت کامیابی ہوئی اور اس بربریت کا شکار ہونے والی لڑکیوں اور لڑکوں نے انھیں خط لکھے۔ یہ خط جو تعداد میں 200 سے زیادہ تھے انھیں بنیاد بنا کر سماجی ماہرین اور ڈاکٹروں نے اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ''تلخ سچائی'' کے نام سے ایسے سانحے کا شکار ہونے کے باوجود زندہ بچ جانے والوں کے خطوط شائع کیے گئے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔
ان دو سو خطوط میں سے ایک اس لڑکی کا ہے جو تین برس کی عمر میں اس بربریت کا شکار ہوئی۔ اس نے لکھا کہ یہ میرے گھریلو ملازم کی کارستانی تھی۔ وہ بوڑھا تھا اور ہمارے گھر میں فردِ خانہ کے طور پر شمار کیا جاتا تھا۔ میرے والدین گھر سے باہر جاتے تو مجھے اس کے سپرد کر جاتے۔ ان کا خیال تھا کہ میں اس کے ساتھ محفوظ رہوں گی۔ ایک روز جب والد دفتر میں تھے اور امی شاپنگ کے لیے گئی تھیں تو اس نے مجھ سے کہا ہم ''پولیس اور ڈاکو'' کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اس نے مجھے بے لباس کیا اور پھر میرے ساتھ وہ کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ میں اس سے بے حد خوفزدہ تھی اور اتنی چھوٹی عمر میں میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ اس نے مجھے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر میں نے اس کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتایا تو وہ چاقو سے میرے ٹکڑے کر دے گا۔ یہ ایسی دھمکی تھی جس نے مجھے حواس باختہ کر رکھا تھا۔ میں اس سے بچنے کے کوشش کرتی لیکن وہ کسی نہ کسی طور مجھے اپنے جال میں پھنسا لیتا۔ کچھ دنوں بعد ہم دوسرے شہر منتقل ہو گئے جہاں وہ ہمارے ساتھ نہیں تھا، تب اس سے اور اس کے خوف سے میرا پیچھا چھوٹا۔ میں اب 14 برس کی ہو چکی ہوں لیکن اب بھی میرے ذہن میں وہ خوف تازہ ہے۔
اس نوعیت کے سانحے بچوں کا بہت دنوں تک پیچھا کرتے ہیں اور بعض حالات میں کبھی بھی ان کو اس خوف سے رہائی نہیں ملتی۔ ایسا صرف لڑکیوں کے ساتھ ہی نہیں، کم عمر لڑکوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
فرشتہ ہو، زینب یا کوئی دوسری یا تیسری بچی ان سب کے بارے میں ایک بات مشترک ہے کہ جب ان کے گھر والوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی بچی گھر سے غائب ہے اور انھوں نے پولیس میں ایف آئی آر کٹوانی چاہی تو عموماً پولیس کا رویہ نہایت لاتعلقی اور سنگ دلی کا تھا۔ فرشتہ جس کی عمر دس برس تھی، جب اس کے والد اور دوسرے رشتہ داروں نے تھانے والوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کریں تو تھانیدار پہلے تو بات کو ٹالتا رہا اور پھر دس برس کی بچی کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ وہ خود ہی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔
فرشتہ کی گمشدگی کی رپورٹ چار دن بعد علاقے کے ممبر قومی اسمبلی کے دباؤ پر درج کی گئی ۔ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ درست ہے کہ علاقے کے ایس ایچ او اور چند دوسرے پولیس والوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے کیا فائدہ۔ فرشتہ نہ صرف بے حرمتی کا شکار ہوئی بلکہ اسے تیزاب سے جلایا گیا۔ سگریٹ کے ٹوٹے اس کے بدن پر بجھائے گئے اور ناقابلِ بیان تشدد کے بعد اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔ جہاں جنگلی جانور اسے نوچتے کھسوٹتے رہے۔ فرشتہ، زینب اور ایسی دوسری بہت سی بچیاں اب اپنی قبروں میں سوتی ہیں لیکن ان کے ماں باپ اور بھائی بہن اپنے بستر پرکبھی آرام نہ کر سکیں گے۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس نوعیت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ موبائل فون پرکسی بندش کے بغیر نظر آنے والی فلمیں، ٹیلی ویژن کے بعض رقص اور ترغیب دیتے ہوئے اشتہار نوجوانوں کی خواہشوں میں اضافہ کرتے ہیں اور وہ بے بس لڑکیوں یا لڑکوں کو اپنا آسان شکار سمجھتے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھروں سے غائب ہوجانے والی بچیوں کو سرگرمی سے تلاش کرنے والے ہی ان کے قاتل ثابت ہوئے ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ فرشتہ اور اس جیسی کئی دوسری لڑکیاں رمضان کے مقدس مہینے میں غائب ہوئیں۔ اگر تحقیقات کرائی جائے تو معلوم ہو گا کہ انھیں شکار کرنے والے روزے بھی رکھ رہے تھے اور نمازیں بھی پڑھ رہے تھے ۔ اس تضاد کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کیا سبب ہے کہ ہم نہ راہ سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پر لا سکے اور نہ اپنی بچیوں اور بچوں کو یہ سمجھا سکے کہ اپنے قریبی لوگوں سے انھیں کس طرح اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔ یہ المناک بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ چھوٹی بچیاں بعض اوقات اپنے باپ، چچا، ماموں اور سگے بھائیوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ ایسی بات نہیں جس سے ہم چشم پوشی کریں، ماں، نانی، دادی اور بڑی بہنوں کو اس بارے میں بہت محتاط ہونا چاہیے اور چھوٹی بچیوں کی، گھر میں کام کرنے والی کم عمر ملازماؤں کی حفاظت بھی ان کی ذمے داری ہے۔
اس بارے میں ہندوستانی اداکار عامر خان نے بچیوں اور بچوںکی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی ہے۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کہ انھوں نے اس نہایت حساس مسئلے کو درد مندی سے سمجھا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لاکھوں بچوں کے اندر یہ شعور اجاگر کیا کہ وہ اجنبیوں کے ساتھ ساتھ غیر متوازن اور ذہنی طور پر بیمار رشتہ داروں اور قرابت داروں سے بھی خود کو کس طرح محفوظ رکھیں۔