نیا پنجاب عید کے بعد پنجاب کابینہ میں اہم تبدیلیاں ہوں گی

پنجاب حکومت کی ابتک کی کارکردگی عوام کیلئے تو غیر تسلی بخش ہی ہے۔


رضوان آصف May 29, 2019
پنجاب حکومت کی ابتک کی کارکردگی عوام کیلئے تو غیر تسلی بخش ہی ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے عید کے بعد وفاقی کابینہ اور پنجاب کابینہ میں اہم تبدیلیاں کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے کئی ''سرپرائز'' اور''اپ سیٹ'' سامنے آ سکتے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں اسد عمر اور پنجاب کابینہ میں عبدالعلیم خان اور فیاض الحسن چوہان کی واپسی کا بھی حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

پنجاب حکومت کی ابتک کی کارکردگی عوام کیلئے تو غیر تسلی بخش ہی ہے لیکن اب تو عمران خان سمیت جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی جیسے مرکزی رہنماوں کو بھی سنجیدہ تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، میڈیا اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر طنز وتنقید کے حملے کرتے ہوئے عثمان بزدار بارے ''ناکام ترین وزیر اعلی'' کا تاثر قائم کردیا ہے اور یہ تاثر اسقدر مضبوط اور موثر ہو چکا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب جو چند اچھے کام کرتے ہیں وہ بھی دکھائی نہیں دیتے۔

عثمان بزدار کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور اتحادیوں سمیت کابینہ اراکین کے ہاتھوں ''یرغمال'' بننے کی چند اہم وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ عثمان بزدار خود کو ''غیر محفوظ''سمجھتے ہیں، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ان کا انتخاب کپتان کی اولین ترجیح نہیں تھا۔

یہی بات عثمان بزدار کو شاید اندر سے خائف رکھتی ہے کہ کپتان چاہے جتنے بھی اعلان کرے کہ وزیر اعلی پنجاب کو تبدیل نہیں کروں گا لیکن کپتان کے مزاج کا کسی کو علم نہیں کب تبدیل ہو جائے بالخصوص اسد عمر کی ''ہنگامی'' رخصتی کے بعد تو عثمان بزدار مزید پریشان ہو گئے ہوں گے۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اس وقت تحریک انصاف کے درجنوں ایسے رہنما موجود ہیں جو تحریک انصاف کی تنظیم کے حوالے سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں سردار عثمان بزدا ر تحریک انصاف میں ''نویں نکور'' ہیں اور الیکشن سے چند ماہ قبل ہی انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی ،اس وجہ سے بھی وزیر اعلی پنجاب ان رہنماوں کے سامنے خود کو ''کمزور'' سمجھتے ہیں ،تیسری وجہ حکومت کے اتحادی ہیں۔

چوہدری پرویز الہی روز اول سے ہی عثمان بزدار کے بہت بڑے حمایتی ہیں اور جب بھی وزیر اعلی پنجاب کی تبدیلی کا معاملہ میڈیا میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے تو چوہدری برادران ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار مسلم لیگ ق کو اپنے لئے ''حفاظتی ڈھال'' سمجھتے ہیں۔ عثمان بزدار کیلئے ایک مسئلہ ان کی کابینہ کے اکثریتی اراکین کی ناقص بلکہ تباہ کن کارکردگی ہے۔اس وقت پنجاب کابینہ میں 33 وزراء، 5 مشیر اور 5 معاون خصوصی شامل ہیں۔

تسلی بخش اور نمایاں دکھائی دینے والی کارکردگی کی جائزہ لیا جائے تو گنتی پانچ یا چھ سے آگے نہیں بڑھتی۔ وزیر ہاوسنگ پنجاب میاں محمود الرشید ، وزیر قانون راجہ بشارت، وزیر زراعت نعمان لنگڑیال، وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت، وزیر صنعت میاں اسلم اقبال اپنے محکموں میں مکمل سنجیدگی اور لگن کے ساتھ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ نوجوان وزراء میں وزیر ایکسائز حافظ ممتاز بھی اچھا کام کر رہے ہیں لیکن انہیں عمران خان کی ''سادگی پالیسی'' اور''پروٹوکول فری'' حکومت کی پالیسی پر عملدرآمد کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس اس وقت کپتان کی ''واچ لسٹ'' میں سر فہرست ہیں اور ممکنہ طور ان کے محکموں میں ردوبدل ہو سکتا ہے۔ وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری چند ہفتے قبل تک گرم پانیوں میں غوطے کھا رہے تھے اور محسوس ہو رہا تھا کہ کابینہ سے فراغت یا محکمہ تبدیلی میں سے کوئی ایک کام ضرور ہوگا لیکن انہوں نے وزیر اعلی پنجاب پر بھرپور''محنت'' کے نتیجہ میں خود کو محفوظ کر لیا ہے اور اب انہیں کوئی''خطرہ'' نہیں ہے۔ وزیر جنگلات سبطین خان پرانے پارلیمنٹرین ہیں لیکن اس مرتبہ بھی ان کی بحیثیت وزیر کارکردگی پاسنگ مارکس سے بھی کم ہے لیکن ان کی وزارت کو خطرہ اس لیئے دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ جہانگیر خان ترین کے قریبی عزیز ہیں۔

وزیر سی اینڈ ڈبلیوآصف نکئی، وزیر معدنیات عمار یاسر، وزیر ہائرایجوکیشن یاسر ہمایوں، وزیر لٹریسی راجہ راشد حفیظ، وزیر لائیو سٹاک حسین بہادر دریشک، وزیر ریونیو ملک محمد انور، وزیر کھیل تیمور خان، وزیر لیبر عنصر مجید خان، وزیر پاپولیشن ویلفیئر ہاشم ڈوگر،وزیر اوقاف سعید الدین شاہ، وزیر کوآپریٹو مہر محمد اسلم، وزیر ایم پی ڈی ڈی حسین جہانیاں گردیزی، وزیر سوشل ویلفیئر محمد اجمل، وزیر سپیشل ایجوکیشن محمد اخلاق، وزیر وویمن ڈویلپمنٹ آشفہ ریاض، وزیر زکوۃ شوکت لالیکا،وزیر جیل خانہ جات زوار وڑائچ، وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب کچھی ، وزیر انسانی حقوق اعجاز اوروزیر توانائی محمد اختر کو صرف ''صوبائی وزیر''کے ٹائٹل اور پروٹوکول سے لطف اندوز نہیں ہونا چاہئے، عمران خان نے ساری زندگی جدوجہد کرتے گزار دی اور اب وہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے اسے اپنی حکومتی ٹیم سے بہتر کی بجائے بہترین کارکردگی کی امید ہے جو کہ بد قسمتی سے ابھی تک ادھوری ہے۔بڑے محکموں میں تو ہر کوئی اپنی کارکردگی دکھا ہی لیتا ہے لیکن اصل مزہ تو تب ہے جب چھوٹے محکمہ میں بھی جدت بھری اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔

اگر پنجاب کابینہ کا ہر وزیر اپنے محکمہ میں مکمل نیک نیتی، لگن اور سنجیدگی و حب الوطنی کے ساتھ کام شروع کر دے تو پنجاب کے عوام کو ایک بڑا ریلیف ملے گا اور حقیقی معنوں میں ''تبدیلی'' دکھائی بھی دے گی ۔عثمان بزدار کو اب خوفزدہ اور بلیک میل ہونا چھوڑ دینا چاہئے اور مکمل خود اعتمادی اور غیر جانبداری کے ساتھ عمران خان کی مداخلت سے قبل خود ہی کابینہ ارکان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا احتساب اور اصلاح کرنی چاہئے۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو ایک بڑا ریلیف ملنے والا ہے جب عید کے بعد تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان دوبارہ کابینہ میں شامل ہوں گے۔ عمران خان اورعثمان بزدار دونوں ہی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پنجاب کابینہ میں کارکردگی، جدت طرازی اور عملدرآمد کے حوالے سے سب سے عمدہ کارکردگی عبدالعلیم خان کی رہی ہے جنہوں نے ایک جانب نئے بلدیاتی قانون کیلئے بھرپور کام کیا اور دوسری جانب محکمہ بلدیات میں مختصر وقت میں اہم تبدیلیاں کیں۔علیم خان کی گرفتاری کے دوران پنجاب اسمبلی سے منظوری کے بعد صوبے میں نیا قانون رائج ہو چکا ہے اور اسوقت صوبے بھر کے بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر تعینات ہیں۔

تحریک انصاف کیلئے بلدیاتی ادارے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔عمران خان معیشت کے بعد اپنی دوسری بڑی ترجیح بلدیاتی اداروں کو ہی قرار دیتے ہیں اور اس طرح سے پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی کامیابی کپتان کیلئے بہت اہم ہے۔ علیم خان کے کابینہ میں واپس آنے کے بعد انکو سینئر وزیر کا عہدہ واپس ملے گا اور ساتھ ہی وہ محکمہ بلدیات اور محکمہ پی اینڈ ڈی کا چارج بھی سنبھال لیں گے۔ ماضی میں کچھ عرصہ کیلئے عثمان بزدار اور علیم خان کے درمیان بعض شرارتی اور سازشی عناصر نے خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس مرتبہ شاید یہ عناصر بھرپور کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کے درمیان اعتماد، تعاون اور احترام کا ایک نیا مضبوط رشتہ بن چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔