اپوزیشن نے جام کمال حکومت کے خاتمے کیلئے رابطے بڑھا دیئے

بعض سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں نمبر آف گیم کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں نمبر آف گیم کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI/GOLD COAST:
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عید الفطر کے بعد بلوچستان سمیت ملک بھر میں مرکزی و صوبائی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان مختلف سیاسی محفلوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اس سیاسی گفتگو و بحث کو چیئرمین نیب کے اسکینڈل نے مزید تقویت بخشی ہے۔

سیاسی محفلوں میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش پائی جاتی ہے اور خود سیاستدان بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جبکہ ملکی معیشت بھی دن بدن خرابی کی طرف گامزن ہے۔ سیاسی جماعتیں بیانات کی حد تک تو اپنا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں جس کے باعث عوام بھی اُن سے مایوس ہوگئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی گھمبیر صورتحال اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔

عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جا رہی ہے جس میں اپوزیشن جماعتیں آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گی۔ بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر پر اپوزیشن جماعتوں کے اجتماع نے حکومتی حلقوں میں پہلے ہی کھلبلی مچادی ہے جبکہ بلوچستان کی سیاست میں بھی گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بھی اے پی سی کی دعوت ملنے پر شرکت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں اُن کی جماعت کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی تاہم وہ مصروفیات کی بناء پر اس افطار ڈنر میں شریک نہیں ہو سکے اب اے پی سی میں شرکت کی دعوت ملی تو وہ ضرور جائیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اُن کا 6 نکاتی معاہدے کیلئے ایک سال کا وقت دیا گیا تھا 9 ماہ ہوچکے ہیں اب صرف 3 ماہ رہ گئے ہیں ان9 ماہ میں6 نکات میں سے مائنس6 پر بھی کام نہیں ہوا وقت پورا ہونے پر اگر حکومت نے کچھ نہیں کیا تو ہم بھی انہیں خداحافظ کہہ دیں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بقول سردار اختر جان مینگل ابھی معاہدے پر عملدرآمد کیلئے3 ماہ باقی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں عید کے فوراً بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے حکمت عملی طے کرنے جارہی ہیں ایسے میں بی این پی کیلئے فیصلہ کرنا ایک بار پھر مشکل ہوگا کہ آیا وہ اپوزیشن جماعتوں کی احتجاجی تحریک میں حکومت کی مخالفت میں جائے گی یا پھر تین ماہ کا انتظار کرتے ہوئے نیوٹرل رہے گی۔ اسی طرح بی این پی بلوچستان میں اپنی اپوزیشن کی اتحادی جماعت جے یو آئی (ف) و دیگر ساتھ ملکر عید کے بعد جام حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا پہلے ہی اعلان کرچکی ہے ۔


بعض سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں نمبر آف گیم کا آغاز بھی ہوچکا ہے متحدہ اپوزیشن نمبر پورے کرنے کیلئے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض پارلیمانی ارکان سے رابطے میں ہونے کا بھی دعویٰ کر رہی ہے ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عید کے بعد صوبائی بجٹ پیش ہونے کے فوراً بعد بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی گیم شروع ہونے کے قوی امکانات دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ بعض سیاسی شخصیات اس حوالے سے''وارم اپ'' بھی ہو رہی ہیں۔ سیاسی مبصرین سردار اختر مینگل کے بعد سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کو بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال میں نواب محمد اسلم رئیسانی بھی آگے آسکتے ہیں جس کیلئے بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن کے بعض ارکان کام بھی کر رہے ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا؟ کیونکہ ٹک مارک والی سائیڈ سے ابھی تک ان کے نام پر ٹک مارک نہیں ہوا؟

بعض سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال ابھی بھی مضبوط ہیں اُن کے خلاف اپوزیشن جماعتیں اگر تحریک عدم اعتماد بھی لاتی ہیں تو وہ ناکامی سے ہمکنار ہوگی گو کہ اپوزیشن جماعتیں نمبر آف گیم میں لگی ہوئی ہیں لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ کی اکثریت اُن کے ساتھ ہے۔ ان مبصرین کے مطابق اگر کوئی تبدیلی آئی بھی تو ''وزارت اعلی'' کا تاج پھر بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے ہی کسی رکن کے سر پر سجے گا؟۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے متحدہ اپوزیشن کو رام کرنے کیلئے پی ایس ڈی پی پر زیادہ توجہ مرکوز کردی ہے اور اسے مزید بہتر بنانے پر دن رات ایک کر رہے ہیں اُن کے بعض قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے اپوزیشن جماعتوں سے بھی تجاویز مانگی ہیں جن کی روشنی میں پی ایس ڈی پی کو مزید بہتر بنایا جائے گا اور اپوزیشن جماعتوں کے اس حوالے سے تحفظات کو دور کیا جائے گا۔

جام کمال کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت اے این پی نے صوبائی حکومت کی جانب سے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے نوٹیفکیشن کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کا لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق جاری نوٹیفکیشن لیویز فورس ایکٹ2010ء سے متصادم ہے بلکہ ایسے میں صوبائی اسمبلی سے ترمیم کئے بغیر3 اضلاع کوئٹہ، لسبیلہ اور گوادر کی لیویز فورس کا پولیس میں انضمام سے متعلق جاری کردہ یہ نوٹیفکیشن بھی غیر قانونی ہے اس لئے اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ بلوچستان حکومت کے اس اقدام کی اپوزیشن جماعتوں نے مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا جبکہ حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی نے اس فیصلے کے حوالے سے اعتماد میں نہ لینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اے این پی نے جنوری2019ء میں صوبے کے بعض بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی تھی جو کہ اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے منظور کر لی گئی تھی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اپوزیشن جماعتوں سے پہلے حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کر کے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم بنا لیا ہے۔
Load Next Story