بلوچستان کا مسئلہ ڈنڈے سے حل نہیں ہوگا معاشی پیکیج دیا جائے ڈاکٹر عبدالمالک
شورش کے خاتمے کیلیے سری لنکن کے بجائے برطانوی حکمت عملی اپنانا ہوگی، ڈاکٹر عبدالمالک
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیا سی اورمعاشی ہے۔
اسلام آباد کو بار بار پیغا م دیا ہے کہ صرف ڈنڈے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ معاشی پیکج دینا ہوگا، لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت اہم ہے اس کو حل کیے بغیر ہم آ گے نہیں بڑھ سکتے، بلوچ علاقوں میں نوگو ایریاز بڑھ گئے ہیں، اب وہاں لو گ طالبان کی طرح فیصلے کرنے لگے ہیں۔ ان خیلات کا اظہار انھوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس امن و امان سے متعلق تحریک التوا پر بحث کو نمٹاتے ہو ئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے حالات سادہ نہیں اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے، خطے کی صورتحال کا اثر بھی ہے، یہاںفرقہ واریت موجود ہے اور دہشت گردی بھی ہے، سب مل کر شاید اس مسئلے کو حل کرسکیں ۔
بلوچستان میں شورش کے خاتمے کیلیے سری لنکن حکمت عملی کے بجائے برطانوی حکمت عملی کواپنانا ہو گا، ہمیں مذاکرات کا عمل شروع کرنا ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پانچواں آپریشن ہے، پہلے جو 4 آپریشن ہوئے وہ آخر مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوئے۔ مذاکرات کیلیے پہلے راہ ہموار کرنا ہوگی ۔ مسخ شدہ لاشوں اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ روکنا بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 10 بلوچ اضلاع میں مائیگریشن ہو رہی ہے ، ہمارے 70 ہزار بچوں نے پڑھائی چھوڑ دی، ہمارے زمیندار رو رہے ہیں، ان کوایک گھنٹہ بجلی مل رہی ہے، یہ حقائق ہیں ہمیں ان حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا۔
اسلام آباد کو بار بار پیغا م دیا ہے کہ صرف ڈنڈے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ معاشی پیکج دینا ہوگا، لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت اہم ہے اس کو حل کیے بغیر ہم آ گے نہیں بڑھ سکتے، بلوچ علاقوں میں نوگو ایریاز بڑھ گئے ہیں، اب وہاں لو گ طالبان کی طرح فیصلے کرنے لگے ہیں۔ ان خیلات کا اظہار انھوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس امن و امان سے متعلق تحریک التوا پر بحث کو نمٹاتے ہو ئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے حالات سادہ نہیں اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے، خطے کی صورتحال کا اثر بھی ہے، یہاںفرقہ واریت موجود ہے اور دہشت گردی بھی ہے، سب مل کر شاید اس مسئلے کو حل کرسکیں ۔
بلوچستان میں شورش کے خاتمے کیلیے سری لنکن حکمت عملی کے بجائے برطانوی حکمت عملی کواپنانا ہو گا، ہمیں مذاکرات کا عمل شروع کرنا ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پانچواں آپریشن ہے، پہلے جو 4 آپریشن ہوئے وہ آخر مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوئے۔ مذاکرات کیلیے پہلے راہ ہموار کرنا ہوگی ۔ مسخ شدہ لاشوں اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ روکنا بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 10 بلوچ اضلاع میں مائیگریشن ہو رہی ہے ، ہمارے 70 ہزار بچوں نے پڑھائی چھوڑ دی، ہمارے زمیندار رو رہے ہیں، ان کوایک گھنٹہ بجلی مل رہی ہے، یہ حقائق ہیں ہمیں ان حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا۔