مقاماتِ کامل شفاء اور بھی ہیں ہڑتالی ڈاکٹروں سے معذرت
خبردار! اس ’ہڈبیتی‘ کا ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ ہڑتال سے کوئی تعلق نہیں، واقعاتی مشابہت محض اتفاقی ہوگی
حیرت کی شدت اور اس میں دوسروں کو شریک کرنے کی خواہش تو یقیناً عارفانہ سطح کی ہے، جب ازلی عرفان حاصل ہوجاتا ہے؛ مگر دعوہٴ ولایت ہرگز نہیں کیوں کہ مجاہدے میں اور لوگ بھی شریک تھے۔ ایک پنجابی مسلمان ہونے کے ناتے جب سر پر پڑی تو درِ حقیقت وا ہوا، ورنہ اس سے قبل ایک جاننے والے اسی مشقِ ستم کا شکار ہوچکے تھے۔ تب اپنا معاملہ ''سانوں کیہہ'' والا تھا۔
جاننے والے کی بابت مختصراً عرض ہے کہ اسے معمول کا ایک جرثومی عارضہ لاحق ہوا۔ انگریزی طب کے معالجوں سے مایوسی اٹھانے، طبی معائنے کرانے اور ایک ماہ تکلیف سہنے کے بعد وہ ہم سے رہنمائی کے طالب ہوئے کہ کسی صاحب نظر معالج کا پتا بتایا جائے جو ہنگامی بنیادوں پر انہیں اس روگ سے چھٹکارا دلا دے۔ موصوف چونکہ معالج یاترا کرکے ہی مشورہ طلب ہوئے تھے لہٰذا اس برادری کے کسی معالج کا نام لیتے ہوئے ہم خوفزدہ ہوگئے اور انہیں اپنے ایک دوست کے حضور پیش کردیا جو خود معالج تو نہ تھے، البتہ ان کی ٹوہ میں رہتے تھے۔ یعنی طبی پیش کار (میڈیکل ریپ) کی حیثیت سے ایک عالمی درجے کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ نئے معالج کے انتخاب میں احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا بھی یہ تھا کہ عالمی سطح کی کمپنی کے نمائندے کا مشورہ حاصل کیا جائے۔ کمپنی کے نمائندے نے کسی معالج کا نام تجویز کرنے کے بجائے سادہ کاغذ پر ایک غیر ملکی گولی کا نام لکھ کر معالج زدہ مریض کو تھما دیا اور چند دنوں بعد افاقے کے متعلق بتانے کےلیے کہا۔ دو دن بعد مریض صاحب ہمارے دوست سے مل کر اس کا شکریہ ادا کرنے کےلیے بے چین ہو رہے تھے۔
کچھ دنوں بعد اہلیہ کی ڈاڑھ میں اچانک درد نمودار ہوا، جس نے ہم سب گھر والوں کو ''طبی گوریلا جنگ'' میں ملوث کر دیا۔ تمام گھریلو ٹوٹکے سرکاری وضاحتوں کی طرح بے اثر ثابت ہوئے اور درد تھا کہ بھارتی ہٹ دھرمی کی طرح بڑھتا چلا گیا۔ اتوار کا دن تھا۔ رات اسی آہ و بکا میں گزری کہ صبح ہوگی تو دانتوں کے معالج کے پاس جائیں گے۔
صبح ہوئی، دانت معالج کے پاس بھی گئے مگر درد جوں کا توں۔ شام کو ایک اور معالج۔ عارضی آرام۔ درد پھر شروع۔ اگلے دن عاجز آکر متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ ڈاڑھ ہی نکلوا دی جائے۔ اس دوران ہمارے پڑوسی بھی ڈاڑھ کانفرنس میں شریک ہوچکے تھے۔ جب صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو بولے ''آخری حل کے طور پر ایک نسخہ بتاتا ہوں، آرام نہ آیا تو پھر ڈاڑھ نکلوا لیجیے گا۔'' ہم نے ان کی بات پر اتنی ہی توجہ دی جتنی امریکا پاکستان کے واویلے پر دیتا ہے۔ مگر جب انہوں نے یہ بتایا کہ وہ خود دانتوں کی دہشت گردی بھگت چکے ہیں اور ان کی طرف سے دس ہزار ماہانہ کا بجٹ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کےلیے مختص ہوتا تھا، تو تنکے کا آخری سہارا سمجھتے ہوئے ان کی بتائی انگریزی گولی حاصل کی گئی۔ تنکے نے کشتی کا کام کیا اور ڈاڑھ درد سے ہماری گوریلا جنگ اختتام کو پہنچی۔
قدرت شاید ہمیں شفاء کا عملی فلسفہ سمجھانے پر تُلی ہوئی تھی لہٰذا حق الیقین کے مقام پر فائز ہونا ضروری تھا۔ جاننے والے کی طبی رہنمائی اور اہلیہ کی طبی معاونت کے دوران ہماری بائیں پنڈلی پر ہونے والی میٹھی میٹھی خارش بالآخر پاک بھارت تعلقات کی طرح عجیب و غریب شکل اختیار کرچکی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس بیماری کو ''چنبل'' کہتے ہیں جو قریب قریب لاعلاج ہے۔ اوسان خطا ہونا تو کوئی بڑی بات نہ تھی البتہ اپنے پیاروں کی مسلسل دلجوئی سے ہم نے خود کو اچھوت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ ہماری ماموں زاد ہمشیرہ کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں عرصہ دراز سے اس بیماری سے مزیّن چلی آرہی تھیں۔ انہوں نے انگریزی طریقہ علاج کو کارِ فضول ثابت کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ایک سرحدی گاؤں ''چنبل وال'' کے مزار پر منت مانگنے کو اس بگڑی خارش کا واحد حل بتایا۔ لاہور میں بیٹھے اپنی برہنہ پنڈلی کو دیکھ کر خود کو کوسنے کے بجائے ہم چنبل وال کے زادِ راہ کےلیے جمع تفریق کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ایک دن اسی بجٹ سازی میں غلطاں تھے کہ ہمارے ایک دفتری رفیق گویا ہوئے ''تمہیں ایک مرہم تو بتا سکتا ہوں جو تین دن میں اسے ٹھیک کر دے، مگر وہ مہنگا بہت ہے۔''
ہم اس وارفتگی سے ان کی جانب لپکے جیسے وہ ہمیں اسمِ اعظم بتانے والے ہیں۔ ''قیمت کو چھوڑیئے جناب! آپ یہاں اس کا نام لکھئے۔'' انہوں نے ملائیشیا میں تیار ہونے والے ایک مرہم کا مشکل سا نام لکھتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کے گھر میں ہمیشہ پایا جاتا ہے جو اس کی آزمودہ افادیت کی گویا سند تھی۔ ہم نے تفصیل پوچھنے کو وقت کا ضیاع سمجھا اور اُڑنے کی سی سُرعت سے دوائیوں کی دکان پر جا پہنچے۔ (دراصل مرہم کی قیمت زادِ راہ کا نصف تھی، ہمارا یہ ردعمل فطری سے زیادہ وارداتی تھا۔)
ہم حیران تھے کہ یہ کراماتی مرہم جو پہلے ہی لیپ میں اپنا چمتکار دکھا دیتا ہے، اتنی زیادہ مقدار میں کیوں فروخت کیا جاتا ہے۔ تین لیپ کی مقدار ہی کافی تھی۔ تیسرے دن ہماری متاثرہ جلد اپنی آبائی پنڈلی سے اظہار یکجہتی کررہی تھی جب کہ بقیہ مرہم ہماری ماموں زاد کی دعاؤں کی شکل میں صدقہ جاریہ بن گیا۔
واضح رہے کہ ہماری اس ہڈ بیتی کا ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ ہڑتال سے کوئی تعلق نہیں، واقعاتی مشابہت محض اتفاقی ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جاننے والے کی بابت مختصراً عرض ہے کہ اسے معمول کا ایک جرثومی عارضہ لاحق ہوا۔ انگریزی طب کے معالجوں سے مایوسی اٹھانے، طبی معائنے کرانے اور ایک ماہ تکلیف سہنے کے بعد وہ ہم سے رہنمائی کے طالب ہوئے کہ کسی صاحب نظر معالج کا پتا بتایا جائے جو ہنگامی بنیادوں پر انہیں اس روگ سے چھٹکارا دلا دے۔ موصوف چونکہ معالج یاترا کرکے ہی مشورہ طلب ہوئے تھے لہٰذا اس برادری کے کسی معالج کا نام لیتے ہوئے ہم خوفزدہ ہوگئے اور انہیں اپنے ایک دوست کے حضور پیش کردیا جو خود معالج تو نہ تھے، البتہ ان کی ٹوہ میں رہتے تھے۔ یعنی طبی پیش کار (میڈیکل ریپ) کی حیثیت سے ایک عالمی درجے کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ نئے معالج کے انتخاب میں احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا بھی یہ تھا کہ عالمی سطح کی کمپنی کے نمائندے کا مشورہ حاصل کیا جائے۔ کمپنی کے نمائندے نے کسی معالج کا نام تجویز کرنے کے بجائے سادہ کاغذ پر ایک غیر ملکی گولی کا نام لکھ کر معالج زدہ مریض کو تھما دیا اور چند دنوں بعد افاقے کے متعلق بتانے کےلیے کہا۔ دو دن بعد مریض صاحب ہمارے دوست سے مل کر اس کا شکریہ ادا کرنے کےلیے بے چین ہو رہے تھے۔
کچھ دنوں بعد اہلیہ کی ڈاڑھ میں اچانک درد نمودار ہوا، جس نے ہم سب گھر والوں کو ''طبی گوریلا جنگ'' میں ملوث کر دیا۔ تمام گھریلو ٹوٹکے سرکاری وضاحتوں کی طرح بے اثر ثابت ہوئے اور درد تھا کہ بھارتی ہٹ دھرمی کی طرح بڑھتا چلا گیا۔ اتوار کا دن تھا۔ رات اسی آہ و بکا میں گزری کہ صبح ہوگی تو دانتوں کے معالج کے پاس جائیں گے۔
صبح ہوئی، دانت معالج کے پاس بھی گئے مگر درد جوں کا توں۔ شام کو ایک اور معالج۔ عارضی آرام۔ درد پھر شروع۔ اگلے دن عاجز آکر متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ ڈاڑھ ہی نکلوا دی جائے۔ اس دوران ہمارے پڑوسی بھی ڈاڑھ کانفرنس میں شریک ہوچکے تھے۔ جب صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو بولے ''آخری حل کے طور پر ایک نسخہ بتاتا ہوں، آرام نہ آیا تو پھر ڈاڑھ نکلوا لیجیے گا۔'' ہم نے ان کی بات پر اتنی ہی توجہ دی جتنی امریکا پاکستان کے واویلے پر دیتا ہے۔ مگر جب انہوں نے یہ بتایا کہ وہ خود دانتوں کی دہشت گردی بھگت چکے ہیں اور ان کی طرف سے دس ہزار ماہانہ کا بجٹ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کےلیے مختص ہوتا تھا، تو تنکے کا آخری سہارا سمجھتے ہوئے ان کی بتائی انگریزی گولی حاصل کی گئی۔ تنکے نے کشتی کا کام کیا اور ڈاڑھ درد سے ہماری گوریلا جنگ اختتام کو پہنچی۔
قدرت شاید ہمیں شفاء کا عملی فلسفہ سمجھانے پر تُلی ہوئی تھی لہٰذا حق الیقین کے مقام پر فائز ہونا ضروری تھا۔ جاننے والے کی طبی رہنمائی اور اہلیہ کی طبی معاونت کے دوران ہماری بائیں پنڈلی پر ہونے والی میٹھی میٹھی خارش بالآخر پاک بھارت تعلقات کی طرح عجیب و غریب شکل اختیار کرچکی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس بیماری کو ''چنبل'' کہتے ہیں جو قریب قریب لاعلاج ہے۔ اوسان خطا ہونا تو کوئی بڑی بات نہ تھی البتہ اپنے پیاروں کی مسلسل دلجوئی سے ہم نے خود کو اچھوت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ ہماری ماموں زاد ہمشیرہ کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں عرصہ دراز سے اس بیماری سے مزیّن چلی آرہی تھیں۔ انہوں نے انگریزی طریقہ علاج کو کارِ فضول ثابت کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ایک سرحدی گاؤں ''چنبل وال'' کے مزار پر منت مانگنے کو اس بگڑی خارش کا واحد حل بتایا۔ لاہور میں بیٹھے اپنی برہنہ پنڈلی کو دیکھ کر خود کو کوسنے کے بجائے ہم چنبل وال کے زادِ راہ کےلیے جمع تفریق کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ایک دن اسی بجٹ سازی میں غلطاں تھے کہ ہمارے ایک دفتری رفیق گویا ہوئے ''تمہیں ایک مرہم تو بتا سکتا ہوں جو تین دن میں اسے ٹھیک کر دے، مگر وہ مہنگا بہت ہے۔''
ہم اس وارفتگی سے ان کی جانب لپکے جیسے وہ ہمیں اسمِ اعظم بتانے والے ہیں۔ ''قیمت کو چھوڑیئے جناب! آپ یہاں اس کا نام لکھئے۔'' انہوں نے ملائیشیا میں تیار ہونے والے ایک مرہم کا مشکل سا نام لکھتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کے گھر میں ہمیشہ پایا جاتا ہے جو اس کی آزمودہ افادیت کی گویا سند تھی۔ ہم نے تفصیل پوچھنے کو وقت کا ضیاع سمجھا اور اُڑنے کی سی سُرعت سے دوائیوں کی دکان پر جا پہنچے۔ (دراصل مرہم کی قیمت زادِ راہ کا نصف تھی، ہمارا یہ ردعمل فطری سے زیادہ وارداتی تھا۔)
ہم حیران تھے کہ یہ کراماتی مرہم جو پہلے ہی لیپ میں اپنا چمتکار دکھا دیتا ہے، اتنی زیادہ مقدار میں کیوں فروخت کیا جاتا ہے۔ تین لیپ کی مقدار ہی کافی تھی۔ تیسرے دن ہماری متاثرہ جلد اپنی آبائی پنڈلی سے اظہار یکجہتی کررہی تھی جب کہ بقیہ مرہم ہماری ماموں زاد کی دعاؤں کی شکل میں صدقہ جاریہ بن گیا۔
واضح رہے کہ ہماری اس ہڈ بیتی کا ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ ہڑتال سے کوئی تعلق نہیں، واقعاتی مشابہت محض اتفاقی ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔