کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
پاکستانی عوام ہکے بکے رہ گئے کہ آخر وزیر اعظم اس قدر پراُمید کیوں تھے؟
HYDERABAD:
رواں سال اپریل میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ گہرے سمندر میں پاکستان کو تیل اور گیس کے بھاری ذخائرملنے کا عمل اپنے یقینی اور تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ ''خوشخبری '' فوراًقوم کو سنا دی اور پھر تیل ایسا غائب ہوا کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا!یعنی 19مئی کو ماہرین نے یہ رپورٹ تیار کر دی کہ سمندر کی گہرائی میں جہاں سے تیل و گیس کے ذخائر نکلنے کی شنید سنائی جا رہی تھی وہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔
پاکستانی عوام ہکے بکے رہ گئے کہ آخر وزیر اعظم اس قدر پراُمید کیوں تھے؟ کیا انھیں اندھیرے میں رکھا گیایا تیل و گیس نکلے ضرور تھے مگر ہم عالمی قوانین کی زد میں آگئے اور ہمیں دبائو کے تحت سب کچھ ''دبانا'' پڑ گیا۔ کیایہ کسی گیم کا حصہ تو نہیں؟ کیوں کہ وزیراعظم اتنے وثوق سے تیل نکلنے کے حوالے سے کیسے اعلان کر سکتے ہیں؟ عوام کو حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ آج تک وطن عزیز میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 17مرتبہ کھدائی کی گئی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن ہر مرتبہ یہ امر خاموشی سے سرانجام دیا جاتا رہا۔ مگر اس مرتبہ اعلیٰ سطح اعلان کے بعد عوام کو ایک اُمید اور آس نے آن گھیرا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کی اُمیدیں آج بھی وزیرا عظم کے اُسی اعلان پر مرکوز ہیں۔
مرکوز کیوں نہ ہوں؟ اگر ہم ذاتی طور پر اس کا تجزیہ کریں تو عین اُسی وقت خطے کے حالات میں غیر یقینی تبدیلی دیکھی جاتی ہے، ایران اور امریکا یک دم آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑا خلیجی پانیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ ادھر سعودی عرب نے اگلے تین سال کے لیے پاکستان کو تیل ادھار دینے کی حامی بھر لی۔ پھر پہلی بار امریکی کمپنی بھی اٹلی کی کمپنی کے ساتھ کیکڑا ون میں تیل کی تلاش جاری کرنے میں شراکت دار بنی۔ جب تک تیل کی تلاش جاری تھی تب تک پاکستان عالمی معاشی اداروں کے شدید دبائو پر تھا۔جیسے ہی کیکڑا ون پراجیکٹ بند کیا حالات نارمل ہوگئے! سب سے اہم بات یہ کہ دنیا کی بڑی کمپنیوں نے کروڑوں ڈالر کا ٹھیکہ لے کر جہاں دنیا کا دوسرا بڑا ڈرلنگ رِگ لگایا وہ محض تخمینوں کی بنیاد پر لگایا گیا ہو گا تو یہ سراسر غلط فہمی ہے، بلاشک و شبہ کیکڑا ون میں تیل کے 100فیصد ذخائر موجود ہیں ۔
خیر یہ تو ہمارے اندیشے تھے جو شاید چلتے رہیں گے، کیوں کہ جب تک ہمیں صحیح معلومات فراہم نہیں کی جاتیں تب تک ہم عوام قیاس آرائیوں اور مفروضوں پر قائم باتوں پر یقین کرتے رہیں گے۔ لیکن اس حوالے سے میں نے انٹرنیٹ پر Ben A vanکی کتاب Earth Structure کا سرسری جائزہ لیا تو اُس میں میرے سمیت کئی پاکستانیوں کے اس خیال کی نفی ہوئی کہ تیل اور گیس کے ذخائر بہتے دریا کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر کہیں سے یہ دونوں پیداوار حاصل ہو رہی ہیں تو اس کے آس پاس ان پیداوار کا کوئی نہ کوئی منبع ضرور موجود ہوگا۔
یہ تصور درست نہیں اس لیے کہ یہ ذخائر چھوٹے بڑے ''پیالہ'' نما اسٹریکچروں، تالابوں یا جھیلوں کی صورت میں ہوتے ہیں اور کسی بھی جانب اپنا بہاؤ نہیں رکھتے۔ یہ جہاں ہوتے ہیں وہیں رہتے ہیں البتہ کسی زلزلے یا زمین کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں کہیں اور ذخیرہ کی جگہ موجود ہو تو وہاں منتقل ضرور ہو سکتے ہیں یا پھر زمین کے سارے بندھن توڑ کر زمین سے باہر نکل پڑتے ہیں۔لہٰذااگر ماہرین کے مطابق یہاں زیر زمین تیل کے تالاب موجود ہیں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن حالیہ ریسرچ (کیکڑا ون نامی علاقے میں) میں تیل وگیس کے ذخائر کی تلاش پر 10 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے بعد حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ منصوبے کوروک دیا جائے! کیا کیکڑا ون واقعی ناکام ہوا یا کوئی اور معاملہ ہے؟تیل و گیس کی تلاش کے لیے کھدائی کا فیصلہ یونہی بیٹھے بٹھائے، خواب یا تصور کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے قبل خلائی سیارے سے معلومات اکٹھا کرنے کے علاوہ بالا و زیر زمین زیادہ سے زیادہ حقائق جاننے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ کھدائی کا فیصلہ سب سے آخری اور حتمی اقدام ہوتا ہے، زمین کی سطح سے نیچے مٹی اور دیگر دھاتوں کی پرتوں کو ایکسرے کے عمل سے گزارہ جاتا ہے، جسکے نتیجے میں مذکورہ ذخائر کا حجم تک معلوم ہو جاتا ہے تاہم معیار کا اندازہ ڈرلنگ مکمل ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔لہٰذامیں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کیکڑا میں تیل موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے اس میں کامیابی کیوں نہیں ہوئی ۔
خلیجی ممالک میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر امریکی اور یورپی کمپنیوں کی ملکیت ہیں،یہ کمپنیاں ایسا گٹھ جوڑ رکھتی ہیں کہ فی الحال تیل کو اسی علاقے تک محدود رکھتے ہوئے دنیا کو مہنگے داموں تیل بیچنا چاہتی ہیں، اس لیے اگر خلیج کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی تیل نکل آیا تو خلیج کا مہنگا تیل کون خریدے گا؟ یہ مافیا کتنا طاقتور ہے اس بات کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خود امریکا بھی اپنے ہاں حاصل ہونے والا تیل استعمال نہیں کر پا رہا اور وہ بھی خلیجی ممالک سے تیل خریدرہا ہے۔ کینیڈا نے مٹی صاف کر کے تیل نکالنا شروع کیا تو وہ سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑاملک بن گیا مگر یہاں بھی لاگت زیادہ تھی چنانچہ مذکورہ مافیا نے کینیڈا کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
باراک اوباما نے جب امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا تو انھیں پہلی بریفنگ میں بتایا گیا کہ امریکا توانائی کے متبادل زیادہ پائیدار اور بڑے ذرائع کی تلاش کے قریب پہنچ چکا ہے اور جس دن نئی انرجی دنیا میں متعارف کرا دی اس دن ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے اور امریکا پر جو چودہ کھرب ڈالر کا قرض ہے وہ بوجھ بھی اتر جائے گا مگر صدر اوباما کو آٹھ سال کے دوران متبادل انرجی نہ مل سکی کیونکہ جن کمپنیوں کی تیل پر اجارہ داری تھی انھوں نے مذکورہ تحقیق کو آگے بڑھنے نہیںدیا۔
بہرکیف روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر اور عالمی اداروں کی جانب سے سخت شرائط کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان کو معاشی انارکی کی طرف لے جایا جائے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ تیل نکل آئے اور پاکستان کے ہاتھ سالانہ دس سے پندرہ ارب ڈالر جیسی لاٹری لگ جائے!؟ آج سے دس سال پہلے پنڈی گھیب میں میانوالہ ون نامی رگ لگایا گیا جو ایشیاء کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ بتایا گیا تھا۔
مذکورہ مقام پر محدود پیمانے پر سپلائی بھی شروع کی گئی اور یہاں سے تیل ریفائنری تک لے جانے کے لیے پائپ لائن بھی بچھ گئی مگر دو سال بعد اسے اچانک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ کیکڑا ون میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں اوراس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کو جو حقائق بتائے گئے،وہ بھی سو فیصد درست تھے مگر بدقسمتی سے تیل کے ذخائر تک نہیں پہنچا جا سکا، بہرحال ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور تیل کی تلاش کا سلسلہ جاری رہن چاہیے۔ ویسے ان حالات میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔