بدلتے سیاسی منظر نامے کے تقاضے
حکومت کے کمزور ہونے کے تاثر میں کارکردگی سے زیادہ دیگر عوامل کا حصہ زیادہ لگتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں تبدیلی نظر آنی شروع ہو گئی ہے۔ کہیں نہ کہیں سے یہ تاثر ملنا شروع ہو گیا ہے کہ حکومت کے خلاف کام شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس ضمن میں ایک رائے تو یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت کی کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ کمزور ہونا فطری ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے کمزور ہونے کے تاثر میں کارکردگی سے زیادہ دیگر عوامل کا حصہ زیادہ لگتا ہے۔
چیئرمین نیب کے معاملے کا ملبہ بھی حکومت پر ہی گر رہا ہے۔ اپوزیشن بالخصوص ن لیگ نے اس معاملے میں اچھی حکمت عملی بنائی۔ انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک طرف حکومت کو بھی متنازعہ بنایا۔ دوسری طرف چیئرمین نیب کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی۔ میں سمجھتا ہوں اس معاملے پر غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اب وہ آگے چل کر کیا شکل لیتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے۔
ادھر حکومتی اتحاد میں بھی دراڑیں نظر آنے لگ گئی ہیں۔ بی این پی مینگل ناراض نظر آرہی ہے۔ ان کے بدلے بدلے سے انداز صاف بتا رہے ہیں کہ وہ اب حکومتی اتحاد چھوڑنے کی تیاری میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے ۔ مسلم لیگ (ق) بھی ناراض ہے۔ چوہدری برادران مینگل کی طرح بول نہیں رہے لیکن ان کی خاموشی بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم بھی ناراض نظر آرہی ہے۔ وہ بھی اپنی ناراضیوں کا برملا اظہار کر رہی ہے۔ ان کی اور عمران خان کی بنتی نظر نہیں آرہی ہے۔ جی ڈی اے کے علی محمد مہر کے انتقال پر عمران خان کا تعزیت کے لیے نہ جانا بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ مجھے جی ڈی اے بھی خوش نظر نہیں آرہا۔ اس تناظر میں عمران خان کے حکومتی اتحاد کا شیرازہ بکھرتا نظر آرہا ہے۔ اس منظر نامہ میں حکومت مشکل میں نظر آرہی ہے۔
اپوزیشن کے بدلے بدلے انداز بھی بتا رہے ہیں کہ ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ مریم نواز کو بولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے دس ماہ مریم نواز کو ایسی چپ لگ گئی تھی جس کی پاکستان کی سیاست میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ ن لیگ کی خاموشی صاف بتاتی تھی کہ انھیں بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن اب منظر نامہ بتا رہا ہے انھیں بولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ بھر پور سیاست کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
پی پی پی اور بلاؤل ویسے تو کیسزمیں پھنسے نظر آرہے ہیں لیکن ان کی سیاست بھی کسی اسکرپٹ کا حصہ لگ رہی ہے۔ بلاول اور زرداری نے بہت محنت کے بعد اپوزیشن کو اکٹھا کیاہے۔ بلاول کی افطاری دس ماہ کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی بن گئی۔ بلاول اور مریم کی سیاسی سوچ میں بھی ہم آہنگی لگ رہی ہے۔ دونوں بظاہر اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ دونوں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بیک چینل سے رابطہ میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے دن سے اس حکومت کو ایک دن بھی دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ تو سارے منظر نامہ پر پھولنے نہیں سما رہے ہیں۔حیرانی تو اس بات پر ہے کہ جماعت اسلامی بھی حکومت کے خلاف باہر نکلنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس تناظر میں اپوزیشن بھی عید کے بعد شو لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کی یہ تیزیاں ایسے ہی نہیں ہیں۔ کہیں نہ کہیں سے کوئی امید ہے۔ ورنہ یہ اپوزیشن تواس حکومت کے خلاف زبان کھولنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ باہر نکلنا تو دور کی بات ہے۔
حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبریں بھی سامنے آگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو ریفرنس بھیجنے کی تو بہت جلدی نظر آرہی ہے لیکن جن حکومتی ارکان کی بیرون ملک جائیدادیں سامنے آرہی ہیں ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا۔ اس تناظر میں چیئرمین نیب بھی واضح طورپر حکومت کو متنبہ کر چکے ہیں کہ نیب کے ریڈار پر آنے والے افراد کو اہم عہدے نہ دیے جائیں ۔ لیکن ان کی اس تنبیہ پر کوئی عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں کیسے بدلے منظر نامہ کی بات کر رہا ہوں۔ پوری اپوزیشن نیب کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔ آصف زرداری اور بلاول کو نیب بلا رہا ہے۔ حمزہ شہباز نیب میں پیش ہو رہے ہیں۔ نواز شریف جیل میں ہیں۔ شہباز شریف باہر ہیں۔ پھر تبدیلی کہاں ہے۔ ایسے میں عمران خان کیسے کمزور نظر آرہے ہیں۔ اس منظر نامہ کا یہی حسن ہے کہ ایک طرف نیب بھی کام کر رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت کے خلاف کام بھی شروع ہو گیا ہے۔
کیا ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ عید کے بعد کئی حکومتی شخصیات کے بارے جارحانہ انداز نظر آئیں گے۔ امید کی جا رہی ہے کہ نیب میں حکومتی ارکان کے خلاف معاملات عید کے بعد تیز ہو جائیں گے۔ عدلیہ نے اگر اپنے ججز کے خلاف ریفرنس برداشت کرنے ہیں تو حکومت کو بھی کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ مقتدر حلقوں کی اس سارے منظر نامہ پر نظر ہے۔ منظر نامہ ان کے لیے صاف ہے۔ وہ خوش ہیں۔ معاملات ان کی توقع کے مطابق چل رہے ہیں۔
مجھے ڈر ہے کہ عمران خان کسی بھی بحران کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ پاکستان کی کوئی سیاسی اکائی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ڈر ہے کہ عمران خان کی سیاسی تنہائی ان کو کھا جائے گی۔ وہ سیاسی طور پر اتنے کمزور ہیں کہ ایک دھکا بھی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ان کی طاقت صرف اور صرف نظریہ ضرورت ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی سیاسی بساط قائم ہوئی تھی۔ اب اگر ان کی کارکردگی یا اور کسی معاملے کی وجہ سے ان کو وہ حمایت اس طرح حاصل نہیں رہی ہے تو ان کے لیے سیاسی لڑائی لڑنا ممکن نہیں ہے۔
عمران خان ایک طرف اپوزیشن کو تو جیلوں میں بند کرنے کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف اپنے ایک ساتھی کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ایک طرف ان کی خواہش ہے کہ ساری اپوزیشن جیل چلی جائے ۔ دوسری طرف ان کے ساتھیوں کی طرف کوئی بھی نہ دیکھے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کا اقتدار ایک نازک شاخ کی مانند ہے۔ جس نے ہوا کا تیز جھونکا بھی برداشت نہیں کرنا ہے۔ اور لوگ آگے طوفان دیکھ رہے ہیں۔ اللہ خیر ہی کرے۔