میں آزاد ہوں
ماں کی تلاش میں سرگرداں بچے کو اُس کی نانی نے ایک سندھی میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا۔
ساٹھ سال کی عمر میں بھی وہ آٹھ سالہ بچے کی طرح معصوم دکھائی دیتا تھا۔اُس کی آنکھیں ہر وقت کسی کو تلاش کرتی رہتی تھیں، ایک دن پوچھ ہی لیا کہ کسے تلاش کرتے رہتے ہیں؟ انتہائی دھیمے انداز میںآہستہ آہستہ آنکھیں اٹھاکر اُس نے جواب دیا تھا '' اپنی ماں کو تلاش کر رہا ہوں '' اُسے خوابوں میں اپنی ماں نظر آتی تھی جو اُس کے پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی انتقال کر گئی تھی اور وہ اپنے والد کے ساتھ دھوبی گھاٹ میں کپڑے دھونے کی مزدوری پر جانے لگا تھا۔
ماں کی تلاش میں سرگرداں بچے کو اُس کی نانی نے ایک سندھی میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا۔ وہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دھوبی گھاٹ پہنچ جاتا اور اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ماں کے ہیولے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے دن گزار دیتا۔ بچے کا نام رحیم بخش تھا، جس کے ساتھ پڑوس میں رہنے والے نیپالی خاندان نے'' آزاد'' کا اضافہ کردیا تھا اور وہ آزاد کے نام سے ہی مشہور ہوگیا ۔
سندھی میڈیم اسکول سے چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد اُس نے آتما رام پریتم داس اسکول سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی مگر اُس کے بعد نانی کے مالی حالات بگڑنے لگے تو اُس نے محلے کے ایک گیراج میں دن کے وقت نوکری کر لی، پڑھائی کو ترک نہ کیا اور ایک آنہ لائبریری سے کتابیں لا کر پڑھنے لگا۔ وقت نے اسے ایک اور اسکول کا راستہ دکھایا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ محنت مزدوری بھی جاری رہی اور وہ بلوچی زبان کے پندرہ روزہ رسالے ''زمانہ '' کے لیے سندھی اور اردو زبان کے مضامین ترجمہ کرنے لگا۔
زندگی کے کڑے شب و روز کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد اُس نے عبداللہ ہارون کالج میں داخلہ لیا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں دن بھر کام کرنے اور حمام سے میلے کچیلے کپڑے بدلنے کے بعد ایک شام جب وہ کالج پہنچا تو اسے خبر ملی کہ معروف شاعر فیض احمد فیضؔ کو اس کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا ہے۔ اُس وقت معروف دانشور م ر حسان اس کالج کے وائس پرنسپل اور نامور شاعر دلاور فگار اردو کے استاد تھے۔ بس پھر کیا تھا وہ بچہ جو دھوبی گھاٹ میں اپنی ماں کو تلاش کرتا رہتا تھا، معاشرے میں جمہوریت، ادب ، موسیقی، شاعری اور بلوچی زبان کی ترویج و ترقی کی تلاش میں نکل پڑا ، مگر جوان ہونے کے بعد بھی وہ ماں کی کمی شدت سے محسوس کرتا رہا۔
اپنے آس پاس رہنے والے انقلابی نوجوانوں کی طرح وہ بلوچستان کی سیاسی تبدیلیوں سے بھی بے خبر نہیں تھا ۔ اُس کے پڑوس میں چاکیواڑہ آباد تھا جس کی مناسبت سے معروف ادیب محمد خالد اختر نے ''چاکیواڑہ میں وصال'' کے نام سے اردو ادب کو ایک بہترین ناول دیا۔ اس اسٹاپ کو '' ٹرام پٹہ '' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا جہاں ماضی میں ٹرام چلتی تھی اور اُس کی کمپنی میں وہ ملازمت بھی کر چکا تھا۔ قریب ہی معروف بلوچ دانشور اور سیاسی رہنما لال بخش رند مرحوم کا وہ گھر بھی موجود تھا جس کے قریب سے گزرتے ہوئے بلوچ قوم پرستوں اور بائیں بازوکی سیاست سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاست دانوں کا سر ادب سے جھک جاتا ہے۔
بلوچستان پر فوج کشی کی گئی تو رحیم بخش آزاد کے نام سے سیاسی ، سماجی اور ادبی حلقوں میں متعارف ہونے والے اس نوجوان نے پیپلز پارٹی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا ، مگر بعد کے دنوں میں اُس کی ہمدردیاں اسی پارٹی کے ساتھ رہیں۔ اس کی تحریریں بھی اس بات کا ثبوت دیتی رہیں اور بھٹو کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی حالات بھی اس کی بہت بڑی وجہ کہے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر فیروز احمد کے رسالے'' پاکستان فورم '' اور سندھی و بلوچی کے رسائل کے ساتھ وابستگی بھی اُس کی زندگی کے اہم ادوار میں شامل رہی ۔
لگ بھگ پچیس سال قبل عبد الرحمن نقاش اور احمد سلیم کے بعد جب وہ کراچی سے چھپنے والے مزدوروں، خواتین اور اقلیتوں کے ترجمان ماہنامہ ''جفاکش'' کا ایڈیٹر مقرر ہوا تو اس کے سیاسی ، سماجی اور ادبی خیالات میں مزید وسعت آئی لیکن چند برس کے بعد اپنی آزادانہ طبیعت کی وجہ سے اُس کا دل اس ذمے داری سے بھی اچاٹ ہوا تو اُس نے اسی ادارے میں مزدروں کی فلاح و بہبود کا کام سنبھال لیا اور ہمیں ''جفاکش '' کا ایڈیٹر مقررکر دیا گیا ۔
رحیم بخش آزاد نے بلوچی زبان و ادب کے سلسلے میں جو خدمات انجام دیں اُن کی فہرست بہت طویل ہے۔1960کی نصف دہائی میں فیض احمد فیضؔ کے مشورے پرکالج میںبلوچی زبان کے شاعروں کو جمع کر کے انھوں نے بہت بڑے مشاعرے کا انعقاد کیا۔ فیض احمد فیضؔ ہی کے کہنے پر انھوں نے بلوچ لوک فنکاروں کو اکٹھا کر کے کالج کے سالانہ میلے میں مدعوکیا اور بعد میں ان فنکاروں کو آرٹس کونسل اور پریس کلب میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
رحیم بخش کالج کے زمانے سے ہی طفیل عباس کی چین نواز کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہو گئے تھے۔ انھوں نے عبد اللہ ہارون کالج میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا یونٹ بھی قائم کیا اور عمر بھر بائیں بازوکے خیالات کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ بچپن میں دھوبی گھاٹ سے جس مشقت کی ابتدا ہوئی وہ کے ایم سی کی نوکری سے ہوتے ہوئے، فشری ، پی آئی اے،شپ بریکنگ کے شعبے اور گدون امازئی تک پہنچ گئی، مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری اورکراچی کے سینما ورکروں، پورٹ ورکروں اور ٹینری ورکروں کی ٹریڈ یونین بنا کر دم لیا۔
جب بھی ان کے گھرجانا ہوا وہ کوئی نئی کتاب پڑھتے یا آرٹ فلم دیکھتے پائے گئے۔ ہمیں بھی اُن کے ساتھ کئی آرٹ فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا جن میں ''میں آزاد ہوں'' نامی فلم بھی شامل تھی۔ اُن کا جنازہ اٹھا تو ہمیں لگا جیسے وہ کفن سے ہاتھ نکال کر کہہ رہے ہوں '' میں آزاد ہوں '' اور ہم سامنے کھڑے سوچ رہے تھے کہ ہاں یہ درست ہے کہ آپ زندگی کی قید سے آزاد ہو گئے، مگر اُن بائیس کروڑ انسانوں کا کیا ہو گا جو پوری قوت کے ساتھ اجتماعی قیدکی جانب دھکیلے جا رہے ہیں۔