پولیس اصلاح کی کوششیں
کراچی میں اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے پولیس کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔
آئی جی پولیس سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے پولیس کا مددگار 15 کو علیحدہ یونٹ بنانے پر توجہ دی ہے اور ایس پی محافظ کا نام تبدیل کرکے ایس پی مددگار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مددگار کی بہتری اور مالی طور خودمختار بنانے کے لیے جامع سفارشات بھی طلب کی ہیں۔
آئی جی پولیس نے اربن پولیسنگ ماڈل میں انویسٹی گیشن ماڈل،اصلاحات، ری اسٹرکچرنگ، تھانوں کا ریپڈ رسپانس میکنزم لازمی شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے پولیس کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں اور رمضان المبارک میں تو اسٹریٹ کرائم ماضی کی طرح عروج پر ہیں ،اس لیے پولیس کے مددگار 15 کو علیحدہ یونٹ بنانے کا پھر نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔
شہر میں جرائم پر قابو پانے کے لیے مسلسل نئے نئے تجربات ہوتے رہے ہیں مگر اسٹریٹ کرائم کا جن قابو میں نہیں آرہا۔ موجودہ آئی جی پولیس عوام کو شہر میں امن وامان کے قیام میں مددگار بنانے اور پولیس سے تعاون بہتر بنانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ کراچی آئی جی سندھ کا اپنا شہر بھی ہے اس لیے وہ اپنے شہر میں جرائم کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کرچکے ہیں مگر اسٹریٹ کرائم پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے جس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں تعینات اعلیٰ پولیس افسروں کا تعلق کراچی سے نہیں ہے بلکہ زیادہ کا اندرون سندھ اور باقی صوبوں سے ہے۔
پولیس کے لیے کراچی دبئی رہا ہے اور ملک بھر سے نیچے سے لے کر اعلیٰ افسران کی کوشش رہی ہے کہ انھیں کراچی میں پوسٹنگ ملے کیونکہ رشوت کے سیکڑوں چانس موجود ہیں اور کراچی میں کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں سے پولیس کو کمائی حاصل نہ ہوتی ہو جس کی وجہ سے کراچی کا چپہ چپہ پولیس کی کمائی کا گڑھ ہے۔
کراچی کی سابقہ نمایندہ جماعت ایم کیو ایم مطالبہ کرتی رہی ہے کہ کراچی پولیس میں مقامی افراد کو شامل کیا جائے کیونکہ کراچی پولیس میں مقامی لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ اندرون سندھ کے خصوصاً اندرون ملک کے پولیس اہلکاروں اور افسروں کی تعداد نمایاں ہے جو کراچی کی حقیقی صورتحال سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان کی واقفیت صرف اور صرف کمائی کے ذرائع سے ہوتی ہے اور وہ جرائم پیشہ عناصر سے قریبی روابط رکھتے ہیں اور جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر کمائی ممکن ہی نہیں ہے۔
اعلیٰ پولیس افسران، تھانیداروں اور اہلکاروں کا مستقبل کراچی سے وابستہ نہیں ہے نہ وہ کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں اور کراچی میں ہونے والے جرائم ہی ان کی اوپر کی کمائی کا واحد ذریعہ ہیں اس لیے وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ کراچی میں امن و امان برقرار رہے۔
کراچی پولیس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ نئے نئے جرائم روشناس کراتی ہے۔ کراچی میں شارٹ ٹرم اغوا کی بنیاد سی ٹی ڈی کے نچلے درجے کے افسروں نے شروع کی تھی جس کو بعد میں ڈاکوؤں نے اپنایا۔ سی ٹی ڈی پولیس پہلے کراچی کی اہم فورس سی آئی اے تھی جس کو بعد میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کا نام دیا گیا جسکے اعلیٰ افسروں نے دہشت گردی روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سپاہی سے انسپکٹر سطح کے اہلکاروں نے دہشت گردی کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا جسکی وجہ سے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں سے متعلق آئے دن شکایات میڈیا میں آنے لگیں مگر اعلیٰ سطح سے ان شکایتوں کے خاتمے پر توجہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اعلیٰ افسروں تک ان کا حصہ بھی انھی کے کارناموں سے پہنچتا ہے۔
نیوٹاؤن تھانہ پر سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف ایک بنگلے میں ڈکیتی کا مقدمہ درج ہوا تھا جس میں ایک ایس پی بھی ملوث تھا مگر اعلیٰ سطح سے اس ایس پی کا نام نکلوا دیا گیا اور ایک انسپکٹرکو قربانی کا بکرا بنا کرگرفتارکیا گیا اور ایس پی کو بچا لیا گیا تھا۔ جیکسن مارکیٹ سے اٹھائے گئے دو تاجروں کے اغوا میں بھی سی ٹی ڈی اہلکار ملوث تھے جن کی نشاندہی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہوئی تھی۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں اور سی ٹی ڈی کے خلاف شکایات میں سپاہی سے ڈی ایس پی سطح کے افسران بھی ملوث پائے گئے ہیں اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی ہوتی رہی ہے۔
پولیس کی کمائی 1992ء میں کراچی آپریشن سے ہوئی تھی اور ماورائے عدالت قتل بھی اسی دور سے شروع ہوئے تھے جن کے اہم نام بعد میں دہشت گردی میں مارے گئے اور کچھ نے معافی تلافی کرکے جان چھڑالی تھی۔ آپریشن کے دوران جرائم پیشہ افراد کم اور بے گناہوں کو زیادہ قتل کیا گیا اور آپریشن ختم ہونے کے بعد کراچی پولیس پر وہ برا وقت بھی آیا تھا جب پولیس تھانوں میں محبوس ہوکر رہ گئی تھی۔ تھانوں کے دروازے بند ملتے تھے اور پولیس اہلکار و افسران نے سول کپڑوں اور ذاتی گاڑیوں میں سفر شروع کردیا تھا کیونکہ عوام میں پولیس کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی ایسے حالات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے آئی جی سندھ رانا مقبول نے اہم کردار ادا کیا تھا جنھیں وزیر اعظم نواز شریف کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔
رانا مقبول نے ایسے حالات میں پولیس اور عوام کو قریب لانے کے لیے پولیس کمیونٹی سروس شروع کرائی تھی اور پولیس کو پابند کیا گیا تھا کہ چیکنگ کے وقت روکے جانے والوں کو سلام ضرور کریں اور پولیس موبائلوں پر لکھوایا گیا تھا کہ رات کو پٹرولنگ کے دوران شہریوں کی مدد کریں گی۔ شہریوں کو رات کے وقت موبائلوں کے ذریعے دودھ، دواؤں کی فراہمی یقینی بنوائی گئی۔ گاڑیاں خراب ہونے پر پولیس اہلکاروں کے ذریعے مدد کرنے والوں کو آئی جی نے بلاکر انعام دیا اور جس کسی گراؤنڈ میں شہریوں کی لاشیں ملتی تھیں وہاں بڑی تقریب منعقد کرا کر پولیس اور عوام کو قریب لانے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔
سندھ پولیس میں کرپشن کی وجہ سب سے کم تنخواہوں کو بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھ پولیس کی شہادتیں سب سے زیادہ اور تنخواہیں سب سے کم ہیں۔ سندھ پولیس میں رشوت وصولی کی شکایات پنجاب سے کم ہیں مگرکراچی پولیس سے متعلق شہریوں سے ناروا سلوک، بداخلاقی، غیر ذمے داری کی شکایات عام ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں بے گناہوں کی شہادتوں کے گزشتہ دنوں میں بے شمار واقعات ہوئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ کراچی پولیس پر لینڈ مافیا کی سرپرستی، سرکاری زمینوں پر قبضوں کی شکایات بھی درست ہیں جس کا ثبوت سرجانی تھانہ ہے جس کے دو ایس ایچ او اسی الزام میں معطل ہوچکے ہیں۔
کراچی پولیس سے اچھی خبر کم اور خراب خبریں بہت ہیں۔ حال ہی میں مومن آباد تھانہ کے ایس ایچ او آصف منور کی دیانت داری سامنے آئی ہے جنھوں نے گٹکا بنانے والے ایک شخص کے گھر چھاپہ مارا جو فرار ہوگیا مگر گٹکے کی بڑی تعداد میں برآمدگی ہوئی۔ پولیس نے چھاپے کے دوران گھر میں موجود کچرے سے 18لاکھ 15 ہزار روپے بھی ملے جو ایس ایچ او نے اہل محلہ کے سامنے ملزم کے گھر والوں کو واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی اور غائب نہیں کی جب کہ ایسے چھاپوں میں برآمدہ رقم پولیس غائب کردیتی ہے۔ بعد میں ملزم نے اندازے سے رقم 15 لاکھ ہونے کا بتایا جو پولیس کی دیانت داری کی اچھی مثال کہی جاسکتی ہے۔
آئی جی پولیس نے اربن پولیسنگ ماڈل میں انویسٹی گیشن ماڈل،اصلاحات، ری اسٹرکچرنگ، تھانوں کا ریپڈ رسپانس میکنزم لازمی شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم روکنے کے لیے پولیس کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں اور رمضان المبارک میں تو اسٹریٹ کرائم ماضی کی طرح عروج پر ہیں ،اس لیے پولیس کے مددگار 15 کو علیحدہ یونٹ بنانے کا پھر نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔
شہر میں جرائم پر قابو پانے کے لیے مسلسل نئے نئے تجربات ہوتے رہے ہیں مگر اسٹریٹ کرائم کا جن قابو میں نہیں آرہا۔ موجودہ آئی جی پولیس عوام کو شہر میں امن وامان کے قیام میں مددگار بنانے اور پولیس سے تعاون بہتر بنانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ کراچی آئی جی سندھ کا اپنا شہر بھی ہے اس لیے وہ اپنے شہر میں جرائم کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کرچکے ہیں مگر اسٹریٹ کرائم پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے جس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں تعینات اعلیٰ پولیس افسروں کا تعلق کراچی سے نہیں ہے بلکہ زیادہ کا اندرون سندھ اور باقی صوبوں سے ہے۔
پولیس کے لیے کراچی دبئی رہا ہے اور ملک بھر سے نیچے سے لے کر اعلیٰ افسران کی کوشش رہی ہے کہ انھیں کراچی میں پوسٹنگ ملے کیونکہ رشوت کے سیکڑوں چانس موجود ہیں اور کراچی میں کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں سے پولیس کو کمائی حاصل نہ ہوتی ہو جس کی وجہ سے کراچی کا چپہ چپہ پولیس کی کمائی کا گڑھ ہے۔
کراچی کی سابقہ نمایندہ جماعت ایم کیو ایم مطالبہ کرتی رہی ہے کہ کراچی پولیس میں مقامی افراد کو شامل کیا جائے کیونکہ کراچی پولیس میں مقامی لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ اندرون سندھ کے خصوصاً اندرون ملک کے پولیس اہلکاروں اور افسروں کی تعداد نمایاں ہے جو کراچی کی حقیقی صورتحال سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان کی واقفیت صرف اور صرف کمائی کے ذرائع سے ہوتی ہے اور وہ جرائم پیشہ عناصر سے قریبی روابط رکھتے ہیں اور جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر کمائی ممکن ہی نہیں ہے۔
اعلیٰ پولیس افسران، تھانیداروں اور اہلکاروں کا مستقبل کراچی سے وابستہ نہیں ہے نہ وہ کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں اور کراچی میں ہونے والے جرائم ہی ان کی اوپر کی کمائی کا واحد ذریعہ ہیں اس لیے وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ کراچی میں امن و امان برقرار رہے۔
کراچی پولیس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ نئے نئے جرائم روشناس کراتی ہے۔ کراچی میں شارٹ ٹرم اغوا کی بنیاد سی ٹی ڈی کے نچلے درجے کے افسروں نے شروع کی تھی جس کو بعد میں ڈاکوؤں نے اپنایا۔ سی ٹی ڈی پولیس پہلے کراچی کی اہم فورس سی آئی اے تھی جس کو بعد میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کا نام دیا گیا جسکے اعلیٰ افسروں نے دہشت گردی روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سپاہی سے انسپکٹر سطح کے اہلکاروں نے دہشت گردی کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا جسکی وجہ سے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں سے متعلق آئے دن شکایات میڈیا میں آنے لگیں مگر اعلیٰ سطح سے ان شکایتوں کے خاتمے پر توجہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اعلیٰ افسروں تک ان کا حصہ بھی انھی کے کارناموں سے پہنچتا ہے۔
نیوٹاؤن تھانہ پر سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف ایک بنگلے میں ڈکیتی کا مقدمہ درج ہوا تھا جس میں ایک ایس پی بھی ملوث تھا مگر اعلیٰ سطح سے اس ایس پی کا نام نکلوا دیا گیا اور ایک انسپکٹرکو قربانی کا بکرا بنا کرگرفتارکیا گیا اور ایس پی کو بچا لیا گیا تھا۔ جیکسن مارکیٹ سے اٹھائے گئے دو تاجروں کے اغوا میں بھی سی ٹی ڈی اہلکار ملوث تھے جن کی نشاندہی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہوئی تھی۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں اور سی ٹی ڈی کے خلاف شکایات میں سپاہی سے ڈی ایس پی سطح کے افسران بھی ملوث پائے گئے ہیں اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی ہوتی رہی ہے۔
پولیس کی کمائی 1992ء میں کراچی آپریشن سے ہوئی تھی اور ماورائے عدالت قتل بھی اسی دور سے شروع ہوئے تھے جن کے اہم نام بعد میں دہشت گردی میں مارے گئے اور کچھ نے معافی تلافی کرکے جان چھڑالی تھی۔ آپریشن کے دوران جرائم پیشہ افراد کم اور بے گناہوں کو زیادہ قتل کیا گیا اور آپریشن ختم ہونے کے بعد کراچی پولیس پر وہ برا وقت بھی آیا تھا جب پولیس تھانوں میں محبوس ہوکر رہ گئی تھی۔ تھانوں کے دروازے بند ملتے تھے اور پولیس اہلکار و افسران نے سول کپڑوں اور ذاتی گاڑیوں میں سفر شروع کردیا تھا کیونکہ عوام میں پولیس کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی ایسے حالات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے آئی جی سندھ رانا مقبول نے اہم کردار ادا کیا تھا جنھیں وزیر اعظم نواز شریف کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔
رانا مقبول نے ایسے حالات میں پولیس اور عوام کو قریب لانے کے لیے پولیس کمیونٹی سروس شروع کرائی تھی اور پولیس کو پابند کیا گیا تھا کہ چیکنگ کے وقت روکے جانے والوں کو سلام ضرور کریں اور پولیس موبائلوں پر لکھوایا گیا تھا کہ رات کو پٹرولنگ کے دوران شہریوں کی مدد کریں گی۔ شہریوں کو رات کے وقت موبائلوں کے ذریعے دودھ، دواؤں کی فراہمی یقینی بنوائی گئی۔ گاڑیاں خراب ہونے پر پولیس اہلکاروں کے ذریعے مدد کرنے والوں کو آئی جی نے بلاکر انعام دیا اور جس کسی گراؤنڈ میں شہریوں کی لاشیں ملتی تھیں وہاں بڑی تقریب منعقد کرا کر پولیس اور عوام کو قریب لانے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔
سندھ پولیس میں کرپشن کی وجہ سب سے کم تنخواہوں کو بھی قرار دیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھ پولیس کی شہادتیں سب سے زیادہ اور تنخواہیں سب سے کم ہیں۔ سندھ پولیس میں رشوت وصولی کی شکایات پنجاب سے کم ہیں مگرکراچی پولیس سے متعلق شہریوں سے ناروا سلوک، بداخلاقی، غیر ذمے داری کی شکایات عام ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں بے گناہوں کی شہادتوں کے گزشتہ دنوں میں بے شمار واقعات ہوئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ کراچی پولیس پر لینڈ مافیا کی سرپرستی، سرکاری زمینوں پر قبضوں کی شکایات بھی درست ہیں جس کا ثبوت سرجانی تھانہ ہے جس کے دو ایس ایچ او اسی الزام میں معطل ہوچکے ہیں۔
کراچی پولیس سے اچھی خبر کم اور خراب خبریں بہت ہیں۔ حال ہی میں مومن آباد تھانہ کے ایس ایچ او آصف منور کی دیانت داری سامنے آئی ہے جنھوں نے گٹکا بنانے والے ایک شخص کے گھر چھاپہ مارا جو فرار ہوگیا مگر گٹکے کی بڑی تعداد میں برآمدگی ہوئی۔ پولیس نے چھاپے کے دوران گھر میں موجود کچرے سے 18لاکھ 15 ہزار روپے بھی ملے جو ایس ایچ او نے اہل محلہ کے سامنے ملزم کے گھر والوں کو واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی اور غائب نہیں کی جب کہ ایسے چھاپوں میں برآمدہ رقم پولیس غائب کردیتی ہے۔ بعد میں ملزم نے اندازے سے رقم 15 لاکھ ہونے کا بتایا جو پولیس کی دیانت داری کی اچھی مثال کہی جاسکتی ہے۔