کراچی والوں کو غلام بنانے کے لئے ریاستی اداروں کا استعمال کیا جارہا ہے فاروق ستار

پولیس نے ان علاقوں سے کتنے افراد کو گرفتار کیا جہاں سے راکٹ داغے جاتے ہیں، فارو ستار


ویب ڈیسک August 29, 2013
کراچی میں انسان تو انسان درآمدی اور برآمدی مال سے بھرے کنٹینرز تک اغوا کئے جارہے ہیں، فاروق ستار۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے ایک مرتبہ پھر 90 کے عشرے کی سیاست کا آغاز کردیا ہے جب کہ کراچی والوں کو غلام بنانے کے لئے ریاستی اداروں کا استعمال کیا جارہا ہے نہ تو صوبے میں اچھی حکمرانی ہے اور نہ ہی معاملات کو شفاف انداز میں چلایا جارہا ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر ایم کیو ایم کے دیگر ارکان کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے فاروق ستارنے کہا کہ گزشتہ رات کراچی میں ایم کیو ایم کے سیکڑوں کارکنوں کے گھروں پر بلاجواز چھاپے مارے گئے اور 100 سے زائد کارکنوں اور عام شہریوں کو گرفتار کرلیا گیاجس میں کچھی برادی کے افراد بھی شامل ہیں ،ان گرفتاریوں کو کسی بھی طور پر غیر جانبدارانہ اور آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس قسم کے اقدام سے یہ لگتا ہے کہ سندھ کے وڈیرے اور جاگیرادار اب کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف آواز اٹھانے پر اپنے ہاریوں کی طرح غلام بنانے کے لئے ریاستی اداروں کا استعمال کررہے ہیں۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ لیاری میں کچھی برادری کے ہزاروں لوگوں نے بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے ظلم سے تنگ آکر ملیر، ٹھٹھہ اور بدین سمیت سندھ کے دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی کی۔ حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب حسین ہارون کو ان کے تحفظ کی ضمانت دی لیکن ان کی واپسی کے چند ہی گھنٹوں کے بعد ایک بار پھر اسی طرح راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، ان حالات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت سندھ ، پولیس اور اس کے تحت کام کرنے والی رینجرز کراچی کے لوگوں کی جان ، مال ، عزت اور آبرو کی حفاظت میں ناکام ہوچکی ہیں جس کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے آخری چارہ کار کے طور پر افواج پاکستان کو بلانے کا مطالبہ کیا کیونکہ پولیس اور رینجرز گولہ بارود اور راکٹ حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے عوام کے بنیادی حقوق یا عدلیہ کے اختیارات معطل کرنے کی بات نہیں کی بلکہ ایک جمہوری اور آئینی مطالبہ کیا ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما نے مزید کہا کہ وہ وفاقی وزیر داخلہ کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ان کے خدشات کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی،ان کی جماعت کراچی میں جرائم پیشہ افراد، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے خلاف ہر اس ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کرتی ہے جسے نیک نیتی اور غیر جانبداری سے کیا جائے، گزشتہ رات گرفتار ہونے والوں میں ایم کیو ایم کا کوئی بھی ایسا کارکن شامل نہیں تھا جس پر کوئی مقدمہ درج ہو یا وہ قانون شکنی کا مرتکب ہوا ہو، اس صورت حال میں وہ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پولیس نے ان علاقوں سے کتنے افراد کو گرفتار کیا جہاں سے راکٹ داغے جاتے ہیں۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات ہونے والی گرفتاریاں حکمرانوں کی آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں ، جس کا مقصد سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں انسان تو انسان درآمدی اور برآمدی مال سے بھرے کنٹینرز تک اغوا کئے جارہے ہیں جن کو تاوان کی ادائیگی کے بعد چھوڑا جاتا ہے اور اس سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ طلحہ محمود کے بھائی بھی نہیں بچ سکے، جنہوں نے سابق دور حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک سے اپنا کنٹینر چھڑوانے کی درخواست کی تھی، اس بات کو سپریم کورٹ میں بھی آنا چاہئے تاکہ پتہ لگ سکے کہ بندرگاہ سے کون کنٹینر چراتا ہے ، کون اس کا تاوان وصول کرتا ہے اور اس کے پیسے کہاں کہاں تک جاتے ہیں ، اگر گمراہ کن باتوں کے بجائے حقائق کو منظر عام پر لایا گیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ کراچی میں پاکستان کو داؤ پر لگایا جارہا ہے، صوبے میں نہ اچھی حکمرانی ہے نہ ہی معاملات کو شفاف انداز میں چلایا جارہا ہے۔ یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو ختم کرکے تعلیم کا قتل کردیا گیا اور اگر ہم ان کے سامنے اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کو ہونے دیں اور ان تمام اقدام کو برداشت کرلیں تو شائد ہمارے خلاف کارروئیاں بھی بند ہوجائیں گی ، ماضی میں بھی ہم نے ایک اچھے حلیف کی طرح سابق حکومت کے سامنے تمام معاملات کو رکھا تھا لیکن اب اپوزیشن میں رہ کر ہم زیادہ موثر انداز میں اپنی آواز کو بلند کررہے ہیں جسے حکمرانوں کو برداشت کرنا ہوگا اور اگر انہوں نے اپنی حرکتیں جاری رکھیں تو پیپلزپارٹی جو اب صرف سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے آئندہ انتخابات میں نوابشاہ اور لاڑکانہ تک ہی محدود ہوسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔