ایڈیسن سے جاپانیوں کا عشق
بلب کے موجد سے منسوب یادگار پر ہر سال لائٹ فیسٹیول منایا جاتا ہے، جانیے کیا ہے اس محبت کی وجہ؟
تھامس ایلوا ایڈیسن کی شہرۂ آفاق ایجاد بلب نے ہماری دنیا کے اندھیروں کو دور کرکے اسے جگمگاتی روشنیوں سے بھر دیا۔
اگر ایڈیسن دنیا میں رہنے والے لوگوں کے گھروں کو روشن بلب کا روشن تحفہ نہ دیتا تو شاید دنیا آج بھی تاریک رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈیسن آج بالخصوص جاپان میں بڑی عزت و تکریم کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ کلیولینڈ بیسڈ اخبار The Plain Dealer لکھتا ہے کہ جاپانی لوگوں کی بڑی تعداد بڑے احترام اور پیار سے ایڈیسن کے بچپن کے گھرکا وزٹ کرتی ہے جو امریکی ریاست اوہایو کے شہر میلان میں واقع ہے۔
ایڈیسن کا جاپانیوں سے محبت کا رشتہ تھا۔ اس ملک کے گوشے گوشے میں آپ کو ایڈیسن کے عاشق اور ان سے پیار کرنے والے مل جائیں گے، لیکن ان سے خاص طور سے کیوٹو کمشنری میں واقع Yawata سٹی کے شہری بہت پیار کرتے اور عقیدت رکھتے ہیں۔ اس شہر کی Iwashimizu Hachiman نامی خانقاہ کے مقام پر ایڈیسن کی یاد میں ایک بڑی یادگار تعمیر کی گئی ہے اور اس پہاڑ کے دامن میں جہاں یہ خانقاہ واقع ہے، وہاں ایک چھوٹا سا شاپنگ ڈسٹرکٹ بھی واقع ہے جسے سب ''ایڈیسن اسٹریٹ'' کہہ کر پکارتے ہیں جہاں ایڈیسن کا کانسی سے بنایا ہوا ایک مجسمہ بھی لگایا گیا ہے۔ Yawata Cityاصل میں میلان کا ایک سسٹر سٹی بھی ہے جہاں ایڈیسن پیدا ہوا تھا اور 1980 کے عشرے کی ابتدا سے ہی یہاں دونوں مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان خوشی اور پیار سے تحائف کے تبادلے بھی کیے گئے ہیں۔
اس کا نام ہے:Iwashimizu Hachiman Shrine bamboo grove یعنی ''اس مقام پر واقع خانقاہ میں بانس کے جھنڈ''بانس سے بنے ہوئے درختوں کا یہ کنج Iwashimizu Hachimangu نامی خانقاہ کے قریب کیوٹو میں واقع ہے۔
اس علاقے کے بانس سے ابتدا میں روشنی کے بلب کے لیے فلامنٹ بنائے جاتے تھے۔ بعد میںایڈیسن نے 1878 میں incandescent یا دہکتے ہوئے روشنی والے بلب کے ساتھ تجربات کرنے شروع کردیے تھے۔ اس incandescent لیمپ یا بلب نے ایک پتلے سے دھاتی مٹیریل کے ذریعے بجلی استعمال کرتے ہوئے اس سے حرارت پیدا کرنی شروع کردی جسے فلامنٹ کہا جاتا تھا۔ یہ فلامنٹ اتنا گرم ہوتا ہے کہ پھر روشن ہوکر چمکنے لگتا ہے۔ بعد میں متعدد موجد حضرات نے اس incandescent lamp کو اور بھی زیادہ بہتر اور پرفیکٹ بنانے کی کوشش کی، لیکن ان کے تیار کردہ سبھی بلب زیادہ عرصے تک نہ چل سکے۔ دوسرے کچھ لوگوں نے جو بلب بنائے، وہ تجارتی بنیاد پر اچھے خاصے مہنگے ثابت ہوئے اور اسی لیے یہ عام لوگوں میں مقبول نہ ہوسکے۔
پھر بھی لوگ اپنی کوششوں میں لگے رہے اور انہوں نے ایک بار پھر موٹا تار استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے نتیجے میں ایک بار پھر لاگت میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن زیادہ کرنٹ گزارنے کے لیے موٹے تار کی ضرورت تو تھی، مگر بڑھتی ہوئی لاگت راستے میں مزاحم ہوتی رہی اور اس طرح یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ فلامنٹ کے لیے اچھا مٹیریل تلاش کرنا ایڈیسن کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، لیکن وہ اپنی کوششوں میں مسلسل لگا رہا اور آخر کار اس نے یہ مسئلہ حل کر ہی لیا۔
ایڈیسن سمجھ چکا تھا کہ کرنٹ کے بہاؤ کو کم رکھنے کے لیے اسے ایک ایسا مٹیریل درکار ہوگا جس میں high resistanceہو یعنی یہ زیادہ قوت مزاحمت رکھتا ہو۔ فلامنٹ کی زندگی کو وسعت دینے کے لیے ایسا مٹیریل چاہیے ہوگا جو حرارت یا گرمی میں پائے دار ہو۔ چناں چہ ایڈیسن نے ہزاروں کی تعداد میں مٹیریل ٹیسٹ کرنے کے بعد جن میں پلاٹینم سے لے کر داڑھی کے بال تک شامل تھے، ایڈیسن نے یہ دریافت کر ہی لیا کہ وہ جس طرح کا فلامنٹ تلاش کررہا تھا، ایسی خصوصیات صرف کاربن سے تیار کردہ فلامنٹ میں ہیں۔
چناں چہ وہ اس کے لیے ایک carbonized cotton سے تیار کردہ فلامنٹ کا دھاگا تیار کرے گا۔ اس نے یہ کام کردیا تو یہ بلب ریکارڈ کم و بیش چودہ گھنٹے تک جلتا رہا۔ چناں چہ ایڈیسن نے یہ فارمولا فوری طور پر اپنے پیٹنٹ پراپلائی کردیا جہاں اس نے یہ بھی بتایا کہ کاربن فلامنٹ مختلف مٹیریلز سے بنایا جاسکتا ہے جیسے کاٹن اور لینن تھریڈ، لکڑی کے splint، کوائل بنائے ہوئے مختلف کاغذ وغیرہ۔
اس کے بعد بھی ایڈیسن اپنے تجربات کرتا رہا اور اس کے لیے اس نے مختلف نامیاتی مٹیریل استعمال کیے جیسے کاربنائزڈ اشیاء مگر یہ سب کام اس نے اپنی لیباریٹری میں کیا تھا۔ اس نے ماہرین حیاتیات سے بھی رابطہ کیا اور انہیں مختلف استوائی پودوں کے فائبر یا ریشے بھجوائے۔ اس نے اپنے ورکرز کو دنیا بھر میں مختلف مقامات پر تعینات کردیا جن کا کام یہی تھی کہ وہ مذکورہ فلامنٹ کے لیے مطلوبہ پرفیکٹ مٹیریل تلاش کرتے رہیں۔
ایڈیسن نے یہ تخمینہ بھی لگایا کہ اس کو 6,000 سے کم سبزیوں کی بڑھوتری کا جائزہ لینا ہوگا چناں چہ وہ مسلسل ایسے فلامنٹ کی تلاش میں لگارہا جو اس کی مطلوبہ طلب پوری کردے۔
ایڈیسن کے ایک ساتھی ورکر ولیم ایچ مور نے 1880 میں اسے بانس کے درختوں سے کچھ نمونے لے کر بھیجے جو کیوٹو میں Iwashimizu Hachiman Shrine کے قریب اُگ رہے تھے۔ بانس کے یہ درخت چین اور جاپان میں بڑی تعداد میں اگتے ہیں جہاں کھوکھلے بانس کے تنے بانسریاں بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان سے مختلف آرٹس اینڈ کرافٹس میں مختلف کام لیے جاتے ہیں۔ یہ بانس بہت عمدہ فشنگ راڈ کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک بار ایڈیسن نے خود بھی اس بانس کو مچھلی کے شکار کے دوران بہ طور فشنگ راڈ استعمال کیا تھا۔ چناں چہ اسے یاد آگیا کہ اس نے یہ فشنگ راڈ تیار کرنے کے دوران اس کے ریشے چیک کیے تھے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ایڈیسن کو اس بانس کی افادیت کا اندازہ ہوگیا اور اس طرح کاربنائزڈ بانس سے ایک نہایت شان دار قسم کا فلامنٹ تیار کرلیا گیا۔
یہ فلامنٹ تیار کرنے کے لیے ایک سنگل بانس کے ٹکڑوں کو لمبائی میں نہایت عمدہ پتلی پٹیوں میں کاٹا گیا اور پھر انہیں مطلوبہ انداز سے موڑا گیا، تاکہ اسے بلب کے اندر فٹ کیا جاسکے۔ انہیں پاؤڈر کی شکل میں موجود کاربن سے کور کردیا گیا اور پھر اسے ایک بھٹی کے اندر نہایت زبردست درجۂ حرارت پر گرمی سے گزارا گیا، وہ بھی کئی گھنٹوں تک اور پھر اسے ٹھنڈا کیا گیا۔ اس سارے کام کے دوران بانس کی یہ باریک پٹیاں اپنی شکل سے بدل گئیں اور ایک خالص کاربن اسٹرکچر بن گئیں، اب یہ شیشے سے تیار کردہ بلب میں لگائے جانے کے لیے تیار تھیں۔
تاہم بانس سے تیار کردہ یہ فلامنٹ بانس میں دو جوائنٹس کے درمیان ہوسکتا تھا۔ اب یہ مسئلہ فلامنٹ کی لمبائی کے آڑے آگیا اور اس کی وجہ سے اس فلامنٹ کی روشنی اور چمک بھی ماند پڑگئی۔ روشنی کے بلب جو کاربنائزڈ بمبو فلامنٹ سے بنائے گئے تھے، وہ ایک موم بتی سے زیادہ روشنی نہیں دیتے تھے، لیکن اس وقت وہ اس سے زیادہ نہیں جلتا تھا۔ کچھ ایسے ہی بلب جو ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے تیار کیے تھے، وہ 1,200 سے زیادہ گھنٹوں تک جلتے رہے۔
Iwashimizu Hachiman Shrineکاربن فلامنٹ روشن بلب تیار کرنے میں ایک غالب مٹیریل بن گیا۔ اور یہ کام ٹنگسٹن فلامنٹ کے تیاری تک ہوا تھا۔ یہ زیادہ عرصے تک چلتا تھا اور کاربن فلامنٹ سے زیادہ روشنی بھی دیتا تھا۔
ابتدائی ٹنگسٹن فلامنٹ ایک ہنگری کی کمپنی Tungsramنے 1904 میںبنائی تھی۔ پھر 1911 تک ایڈیسن کی کمپنی جنرل الیکٹرک بھی ٹنگسٹن کی طرف شفٹ ہوگئی تھی۔
1931 میں ایڈیسن کی موت واقع ہوگئی تو تین سال بعد تھامس ایلوا ایڈیسن مونومنٹ بھی Iwashimizu Hachimangu میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ خانقاہ ماؤنٹ اوٹوکویاما پر تعمیر کی گئی تھی۔ 1964 میں ایڈیسن کی بیٹیMadeleine Edison Sloane نے Iwashimizu Hachimangu کا دورہ کیا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ہر سال ایڈیسن کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر ایک لائٹ فیسٹیول اس مقام پر یعنی اس یادگار پر منایا جاتا ہے جس میں روایتی بانس سے تیار کردہ لالٹینیں روشن کی جاتی ہیں اور امریکا کا قومی ترانہ بھی بجایا جاتا ہے۔
اگر ایڈیسن دنیا میں رہنے والے لوگوں کے گھروں کو روشن بلب کا روشن تحفہ نہ دیتا تو شاید دنیا آج بھی تاریک رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈیسن آج بالخصوص جاپان میں بڑی عزت و تکریم کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ کلیولینڈ بیسڈ اخبار The Plain Dealer لکھتا ہے کہ جاپانی لوگوں کی بڑی تعداد بڑے احترام اور پیار سے ایڈیسن کے بچپن کے گھرکا وزٹ کرتی ہے جو امریکی ریاست اوہایو کے شہر میلان میں واقع ہے۔
ایڈیسن کا جاپانیوں سے محبت کا رشتہ تھا۔ اس ملک کے گوشے گوشے میں آپ کو ایڈیسن کے عاشق اور ان سے پیار کرنے والے مل جائیں گے، لیکن ان سے خاص طور سے کیوٹو کمشنری میں واقع Yawata سٹی کے شہری بہت پیار کرتے اور عقیدت رکھتے ہیں۔ اس شہر کی Iwashimizu Hachiman نامی خانقاہ کے مقام پر ایڈیسن کی یاد میں ایک بڑی یادگار تعمیر کی گئی ہے اور اس پہاڑ کے دامن میں جہاں یہ خانقاہ واقع ہے، وہاں ایک چھوٹا سا شاپنگ ڈسٹرکٹ بھی واقع ہے جسے سب ''ایڈیسن اسٹریٹ'' کہہ کر پکارتے ہیں جہاں ایڈیسن کا کانسی سے بنایا ہوا ایک مجسمہ بھی لگایا گیا ہے۔ Yawata Cityاصل میں میلان کا ایک سسٹر سٹی بھی ہے جہاں ایڈیسن پیدا ہوا تھا اور 1980 کے عشرے کی ابتدا سے ہی یہاں دونوں مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان خوشی اور پیار سے تحائف کے تبادلے بھی کیے گئے ہیں۔
اس کا نام ہے:Iwashimizu Hachiman Shrine bamboo grove یعنی ''اس مقام پر واقع خانقاہ میں بانس کے جھنڈ''بانس سے بنے ہوئے درختوں کا یہ کنج Iwashimizu Hachimangu نامی خانقاہ کے قریب کیوٹو میں واقع ہے۔
اس علاقے کے بانس سے ابتدا میں روشنی کے بلب کے لیے فلامنٹ بنائے جاتے تھے۔ بعد میںایڈیسن نے 1878 میں incandescent یا دہکتے ہوئے روشنی والے بلب کے ساتھ تجربات کرنے شروع کردیے تھے۔ اس incandescent لیمپ یا بلب نے ایک پتلے سے دھاتی مٹیریل کے ذریعے بجلی استعمال کرتے ہوئے اس سے حرارت پیدا کرنی شروع کردی جسے فلامنٹ کہا جاتا تھا۔ یہ فلامنٹ اتنا گرم ہوتا ہے کہ پھر روشن ہوکر چمکنے لگتا ہے۔ بعد میں متعدد موجد حضرات نے اس incandescent lamp کو اور بھی زیادہ بہتر اور پرفیکٹ بنانے کی کوشش کی، لیکن ان کے تیار کردہ سبھی بلب زیادہ عرصے تک نہ چل سکے۔ دوسرے کچھ لوگوں نے جو بلب بنائے، وہ تجارتی بنیاد پر اچھے خاصے مہنگے ثابت ہوئے اور اسی لیے یہ عام لوگوں میں مقبول نہ ہوسکے۔
پھر بھی لوگ اپنی کوششوں میں لگے رہے اور انہوں نے ایک بار پھر موٹا تار استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے نتیجے میں ایک بار پھر لاگت میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن زیادہ کرنٹ گزارنے کے لیے موٹے تار کی ضرورت تو تھی، مگر بڑھتی ہوئی لاگت راستے میں مزاحم ہوتی رہی اور اس طرح یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ فلامنٹ کے لیے اچھا مٹیریل تلاش کرنا ایڈیسن کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، لیکن وہ اپنی کوششوں میں مسلسل لگا رہا اور آخر کار اس نے یہ مسئلہ حل کر ہی لیا۔
ایڈیسن سمجھ چکا تھا کہ کرنٹ کے بہاؤ کو کم رکھنے کے لیے اسے ایک ایسا مٹیریل درکار ہوگا جس میں high resistanceہو یعنی یہ زیادہ قوت مزاحمت رکھتا ہو۔ فلامنٹ کی زندگی کو وسعت دینے کے لیے ایسا مٹیریل چاہیے ہوگا جو حرارت یا گرمی میں پائے دار ہو۔ چناں چہ ایڈیسن نے ہزاروں کی تعداد میں مٹیریل ٹیسٹ کرنے کے بعد جن میں پلاٹینم سے لے کر داڑھی کے بال تک شامل تھے، ایڈیسن نے یہ دریافت کر ہی لیا کہ وہ جس طرح کا فلامنٹ تلاش کررہا تھا، ایسی خصوصیات صرف کاربن سے تیار کردہ فلامنٹ میں ہیں۔
چناں چہ وہ اس کے لیے ایک carbonized cotton سے تیار کردہ فلامنٹ کا دھاگا تیار کرے گا۔ اس نے یہ کام کردیا تو یہ بلب ریکارڈ کم و بیش چودہ گھنٹے تک جلتا رہا۔ چناں چہ ایڈیسن نے یہ فارمولا فوری طور پر اپنے پیٹنٹ پراپلائی کردیا جہاں اس نے یہ بھی بتایا کہ کاربن فلامنٹ مختلف مٹیریلز سے بنایا جاسکتا ہے جیسے کاٹن اور لینن تھریڈ، لکڑی کے splint، کوائل بنائے ہوئے مختلف کاغذ وغیرہ۔
اس کے بعد بھی ایڈیسن اپنے تجربات کرتا رہا اور اس کے لیے اس نے مختلف نامیاتی مٹیریل استعمال کیے جیسے کاربنائزڈ اشیاء مگر یہ سب کام اس نے اپنی لیباریٹری میں کیا تھا۔ اس نے ماہرین حیاتیات سے بھی رابطہ کیا اور انہیں مختلف استوائی پودوں کے فائبر یا ریشے بھجوائے۔ اس نے اپنے ورکرز کو دنیا بھر میں مختلف مقامات پر تعینات کردیا جن کا کام یہی تھی کہ وہ مذکورہ فلامنٹ کے لیے مطلوبہ پرفیکٹ مٹیریل تلاش کرتے رہیں۔
ایڈیسن نے یہ تخمینہ بھی لگایا کہ اس کو 6,000 سے کم سبزیوں کی بڑھوتری کا جائزہ لینا ہوگا چناں چہ وہ مسلسل ایسے فلامنٹ کی تلاش میں لگارہا جو اس کی مطلوبہ طلب پوری کردے۔
ایڈیسن کے ایک ساتھی ورکر ولیم ایچ مور نے 1880 میں اسے بانس کے درختوں سے کچھ نمونے لے کر بھیجے جو کیوٹو میں Iwashimizu Hachiman Shrine کے قریب اُگ رہے تھے۔ بانس کے یہ درخت چین اور جاپان میں بڑی تعداد میں اگتے ہیں جہاں کھوکھلے بانس کے تنے بانسریاں بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان سے مختلف آرٹس اینڈ کرافٹس میں مختلف کام لیے جاتے ہیں۔ یہ بانس بہت عمدہ فشنگ راڈ کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک بار ایڈیسن نے خود بھی اس بانس کو مچھلی کے شکار کے دوران بہ طور فشنگ راڈ استعمال کیا تھا۔ چناں چہ اسے یاد آگیا کہ اس نے یہ فشنگ راڈ تیار کرنے کے دوران اس کے ریشے چیک کیے تھے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ایڈیسن کو اس بانس کی افادیت کا اندازہ ہوگیا اور اس طرح کاربنائزڈ بانس سے ایک نہایت شان دار قسم کا فلامنٹ تیار کرلیا گیا۔
یہ فلامنٹ تیار کرنے کے لیے ایک سنگل بانس کے ٹکڑوں کو لمبائی میں نہایت عمدہ پتلی پٹیوں میں کاٹا گیا اور پھر انہیں مطلوبہ انداز سے موڑا گیا، تاکہ اسے بلب کے اندر فٹ کیا جاسکے۔ انہیں پاؤڈر کی شکل میں موجود کاربن سے کور کردیا گیا اور پھر اسے ایک بھٹی کے اندر نہایت زبردست درجۂ حرارت پر گرمی سے گزارا گیا، وہ بھی کئی گھنٹوں تک اور پھر اسے ٹھنڈا کیا گیا۔ اس سارے کام کے دوران بانس کی یہ باریک پٹیاں اپنی شکل سے بدل گئیں اور ایک خالص کاربن اسٹرکچر بن گئیں، اب یہ شیشے سے تیار کردہ بلب میں لگائے جانے کے لیے تیار تھیں۔
تاہم بانس سے تیار کردہ یہ فلامنٹ بانس میں دو جوائنٹس کے درمیان ہوسکتا تھا۔ اب یہ مسئلہ فلامنٹ کی لمبائی کے آڑے آگیا اور اس کی وجہ سے اس فلامنٹ کی روشنی اور چمک بھی ماند پڑگئی۔ روشنی کے بلب جو کاربنائزڈ بمبو فلامنٹ سے بنائے گئے تھے، وہ ایک موم بتی سے زیادہ روشنی نہیں دیتے تھے، لیکن اس وقت وہ اس سے زیادہ نہیں جلتا تھا۔ کچھ ایسے ہی بلب جو ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے تیار کیے تھے، وہ 1,200 سے زیادہ گھنٹوں تک جلتے رہے۔
Iwashimizu Hachiman Shrineکاربن فلامنٹ روشن بلب تیار کرنے میں ایک غالب مٹیریل بن گیا۔ اور یہ کام ٹنگسٹن فلامنٹ کے تیاری تک ہوا تھا۔ یہ زیادہ عرصے تک چلتا تھا اور کاربن فلامنٹ سے زیادہ روشنی بھی دیتا تھا۔
ابتدائی ٹنگسٹن فلامنٹ ایک ہنگری کی کمپنی Tungsramنے 1904 میںبنائی تھی۔ پھر 1911 تک ایڈیسن کی کمپنی جنرل الیکٹرک بھی ٹنگسٹن کی طرف شفٹ ہوگئی تھی۔
1931 میں ایڈیسن کی موت واقع ہوگئی تو تین سال بعد تھامس ایلوا ایڈیسن مونومنٹ بھی Iwashimizu Hachimangu میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ خانقاہ ماؤنٹ اوٹوکویاما پر تعمیر کی گئی تھی۔ 1964 میں ایڈیسن کی بیٹیMadeleine Edison Sloane نے Iwashimizu Hachimangu کا دورہ کیا تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ہر سال ایڈیسن کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر ایک لائٹ فیسٹیول اس مقام پر یعنی اس یادگار پر منایا جاتا ہے جس میں روایتی بانس سے تیار کردہ لالٹینیں روشن کی جاتی ہیں اور امریکا کا قومی ترانہ بھی بجایا جاتا ہے۔