بہلاوے یا زرعی اصلاحات
زرعی اصلاحات سے نوجوان زندگی کی شاہراہ پر چلنے کے قابل ہو جائیں گے اور زرعی انڈسٹری پر کام کرنا ہو گا۔
ان دنوں اخبارات میں عجیب و غریب خبریں آ رہی ہیں جن کو پڑھ کر ایک بے روزگار اور ناامید انسان وقتی طور پر خود کو آسودہ حال اور پرامید سمجھنے لگے گا۔ مثلاً ایک ہفتہ ہوا تقریباً کہ نیا پاکستان کے نام سے نمایاں یہ خبریں ہوئیں۔ نیا پاکستان کے تحت 60 لاکھ ملازمتیں، اربوں ڈالرکے تعمیراتی منصوبے، 20 سے 25 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری۔ کاش کہ ایسا ہی ہو جائے، ہم بھی دعا گو ہیں۔
وزیر اعظم صاحب کی کابینہ نے کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے یقینا وزیر اعظم کا ساتھ دیا مگر 6 ارب سے کچھ زیادہ رقم کے لیے تو عوام پر جو ٹیکس کا بوجھ پڑ گیا ہے وہی سنبھالے نہیں سنبھل پا رہا تو پھر اتنی بڑی رقم کا شرح سود کیا ہو گا؟ اور ادائیگی کیسے ہو گی کیونکہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر ہمیں چین کے قرض کی تفصیل بتانی پڑی اور آئے دن ٹیکس در ٹیکس کی عوام سے وصول یابی کے منصوبے لیکن ترقیاتی منصوبوں اور سود کی واپسی کا کوئی منصوبہ زیر بحث نہیں۔ قرض لینا کوئی بری بات نہیں مگر شرعی حیثیت سے اس کی ممانعت ہے لیکن آدھی دنیا سے زیادہ اسی قرض میں ڈوبی ہوئی ہے۔
رہ گیا پاکستان تو یہ سود کے گرداب میں پھنس چکا ہے۔ لہٰذا اس کو اپنے معدنی اور زمینی وسائل پر تکیہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اگر منصوبہ بندی نہ کی گئی اور سود کی بنیاد پر یوں ہی کام چلتا رہا تو اقتصادی طور پر ملک اپاہج ہونے کا خطرہ ہے اور پھر دوبارہ غیر ملکی تسلط قائم ہونے کا احتمال ہے۔ ابھی وہ گیس اور بجلی کے ریٹ اور ٹیکس کا املا لکھ رہے ہیں پھر یہ داخلہ اور خارجہ پالیسی کا ڈکٹیشن دیں گے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت ملک کئی اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔
ایک طرف بھارت میں نریندرمودی کی حکومت قائم ہو چکی ہے جو انتہا پسند ہندوؤں کا لیڈر ہے دوسری جانب افغانستان میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ایران سے تعلقات میں گرم جوشی نظر نہیں آتی جب کہ افغان بارڈر پر خصوصاً شمالی وزیرستان پر بد امنی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر حملے کی خبریں ایک منفی اطلاع ہے۔ امید ہے تدبیر کو استعمال کر کے اس مسئلے کو جلد حل کر لیا جائے گا تاکہ چھوٹے چھوٹے رخنے ملک میں بے چینی پیدا نہ کر سکیں۔ کیونکہ داخلی استحکام ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے، البتہ ایسے موقع پر جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ ٹیکس ضرورت کے تحت ملک میں لگایا جاتا ہے اور آج بھی ضروری ہے۔
مگر قرض کی واپسی اور ٹیکس کس حد تک ممکن ہے کیونکہ لوگوں کی آمدنی پر ہی ٹیکس لگے گا اور جب آمدنی کے وسائل کمزور پڑ جائیں گے اور سکت باقی نہ رہے گی تو عوام کی بے چینی انتشار کا پیش خیمہ ہے جو مخالف قوتیں استعمال کر سکتی ہیں اور ایسی صورت میں پورا پلان سبوتاژ ہو سکتا ہے لہٰذا منصوبہ بندی میں ممکنات کے منفی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ملازمتیں ایسی کمپنیوں کے ہاتھوں میں نہیں جس سے معیشت کو مختلف خانوں میں ڈالا جا سکے۔
ایک تو تعلیم کی کمی دوسرا یہ کہ ریکارڈ سے بچاؤ۔ لہٰذا بار بار انھی لوگوں پر ٹیکس کا وزن بڑھایا جاتا ہے جو ٹیکس دے رہے ہیں۔ سیلز ٹیکس ہر فرد پر یکساں لاگو ہے۔ چاہے اس کی آمدنی دس لاکھ ہو یا دس ہزار۔ ان حالات میں جب کہ پاکستان میں Documented دستاویزی آمدنی آیندہ دس برس بھی ممکن نہیں۔ پاکستان میں کالا دھن فروغ پاتا رہے گا۔ خصوصاً بڑے پروجیکٹس فیکٹری اور تعمیراتی منصوبہ، مزدوری، سریے کی کٹائی لوڈنگ ان لوڈنگ وغیرہ اس لیے پاکستان کی حکومتوں کو محض محصولات پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ محصولات کی زیادتی سے پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے فیول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی تو غیر ملکی سرمایہ نہ آئے گا۔ کیونکہ عالمی منڈی میں وہ قیمتیں دوسری مصنوعات کے مدمقابل ٹھہر نہ سکیں گی۔
اس لیے پاکستانی ٹیکسٹائل گزشتہ ایک دہائی سے ایکسپورٹ میں زوال پذیر ہے جب کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل پروڈکٹس تقریباً امریکا کے ہر بڑے شہر کے چین اسٹور میں موجود ہے۔ پاکستانی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل پروڈکٹس کا روپے کی قدر کم ہونے پر بھی ڈیمانڈ میں اضافہ نہ ہوا کیونکہ کسٹمر انڈین یا بنگلہ دیشی پروڈکٹس پر شفٹ ہو چکا تھا۔ لہٰذا قرض اور پھر قرض آنے والوں کے لیے عذاب چھوڑنا اچھی بات نہیں۔ جیسا کہ ایام گزشتہ کے حکمرانوں نے کیا اور اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سڑکوں پر نہ آئیں گے کیونکہ آمر حکومت سنبھال لیں گے جب کہ یہ ایسی ہی بے لگام الزام تراشیاں ماضی میں کرتے رہے۔ جب کہ ان کے دوسرے ساتھی ون یونٹ کی کہانی سنانے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا یہ تصور کرنا کہ یہ سڑکوں پر آئیں گے خاصا مشکل ہے۔ کیونکہ ان کا ماضی بھی کوئی روشن نہیں۔
رہ گئی (ن) لیگ جو فوجی حکومت کا خواب دکھا رہی ہے وہ اس لیے کہ تحریک چلانا ان کے بس کی بات نہیں۔ ایسی ڈوبی ہوئی معیشت کو چلانا آسان نہیں۔ یہ خود بھی اگر موقع ملے تو بھی عنان حکومت ہاتھ میں نہ لیں گے۔ اب حکومت نعروں سے نہ چلے گی اور نہ کسی اور خطرہ کی بنیاد پر اب ٹھوس منصوبہ بندی پر کام کرنا ہو گا، نہ عوام کو اب کسی بہلاوے یا مستقبل کے حسین خواب سے بہلایا جاسکتا ہے کیونکہ پانی عوام کے سر کے قریب آن پہنچا ہے۔
حکومت کو فوری ریلیف کے منصوبے بنانے ہوں گے۔ حکومت کو فوری طور پر زرعی اصلاحات کا فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ ملک میں اناج کے ذخائر میں اضافہ اور ایکسپورٹ میں نئے انداز اپنائے جائیں۔ کیونکہ ملک میں سپر مارکیٹوں میں امپورٹڈ آئٹم کا بازار گرم ہے۔
زرعی اصلاحات سے نوجوان زندگی کی شاہراہ پر چلنے کے قابل ہو جائیں گے اور زرعی انڈسٹری پر کام کرنا ہو گا۔ اس عمل سے 6 ماہ میں نتائج آنے شروع ہو جائیں گے۔ ملک سے مایوسی کے بادل جلد چھٹ جائیں گے نہ ملک میں ایسی بے بنیاد خبروں سے مایوسی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور منفی ردعمل کے زیادہ مواقع مل سکتے ہیں۔ اسی لیے دنیا میں بے بنیاد خبروں کا کوئی وجود نہیں۔
وزیر اعظم صاحب کی کابینہ نے کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لیے یقینا وزیر اعظم کا ساتھ دیا مگر 6 ارب سے کچھ زیادہ رقم کے لیے تو عوام پر جو ٹیکس کا بوجھ پڑ گیا ہے وہی سنبھالے نہیں سنبھل پا رہا تو پھر اتنی بڑی رقم کا شرح سود کیا ہو گا؟ اور ادائیگی کیسے ہو گی کیونکہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر ہمیں چین کے قرض کی تفصیل بتانی پڑی اور آئے دن ٹیکس در ٹیکس کی عوام سے وصول یابی کے منصوبے لیکن ترقیاتی منصوبوں اور سود کی واپسی کا کوئی منصوبہ زیر بحث نہیں۔ قرض لینا کوئی بری بات نہیں مگر شرعی حیثیت سے اس کی ممانعت ہے لیکن آدھی دنیا سے زیادہ اسی قرض میں ڈوبی ہوئی ہے۔
رہ گیا پاکستان تو یہ سود کے گرداب میں پھنس چکا ہے۔ لہٰذا اس کو اپنے معدنی اور زمینی وسائل پر تکیہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اگر منصوبہ بندی نہ کی گئی اور سود کی بنیاد پر یوں ہی کام چلتا رہا تو اقتصادی طور پر ملک اپاہج ہونے کا خطرہ ہے اور پھر دوبارہ غیر ملکی تسلط قائم ہونے کا احتمال ہے۔ ابھی وہ گیس اور بجلی کے ریٹ اور ٹیکس کا املا لکھ رہے ہیں پھر یہ داخلہ اور خارجہ پالیسی کا ڈکٹیشن دیں گے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت ملک کئی اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔
ایک طرف بھارت میں نریندرمودی کی حکومت قائم ہو چکی ہے جو انتہا پسند ہندوؤں کا لیڈر ہے دوسری جانب افغانستان میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ایران سے تعلقات میں گرم جوشی نظر نہیں آتی جب کہ افغان بارڈر پر خصوصاً شمالی وزیرستان پر بد امنی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ چیک پوسٹوں پر حملے کی خبریں ایک منفی اطلاع ہے۔ امید ہے تدبیر کو استعمال کر کے اس مسئلے کو جلد حل کر لیا جائے گا تاکہ چھوٹے چھوٹے رخنے ملک میں بے چینی پیدا نہ کر سکیں۔ کیونکہ داخلی استحکام ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے، البتہ ایسے موقع پر جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ ٹیکس ضرورت کے تحت ملک میں لگایا جاتا ہے اور آج بھی ضروری ہے۔
مگر قرض کی واپسی اور ٹیکس کس حد تک ممکن ہے کیونکہ لوگوں کی آمدنی پر ہی ٹیکس لگے گا اور جب آمدنی کے وسائل کمزور پڑ جائیں گے اور سکت باقی نہ رہے گی تو عوام کی بے چینی انتشار کا پیش خیمہ ہے جو مخالف قوتیں استعمال کر سکتی ہیں اور ایسی صورت میں پورا پلان سبوتاژ ہو سکتا ہے لہٰذا منصوبہ بندی میں ممکنات کے منفی پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ملازمتیں ایسی کمپنیوں کے ہاتھوں میں نہیں جس سے معیشت کو مختلف خانوں میں ڈالا جا سکے۔
ایک تو تعلیم کی کمی دوسرا یہ کہ ریکارڈ سے بچاؤ۔ لہٰذا بار بار انھی لوگوں پر ٹیکس کا وزن بڑھایا جاتا ہے جو ٹیکس دے رہے ہیں۔ سیلز ٹیکس ہر فرد پر یکساں لاگو ہے۔ چاہے اس کی آمدنی دس لاکھ ہو یا دس ہزار۔ ان حالات میں جب کہ پاکستان میں Documented دستاویزی آمدنی آیندہ دس برس بھی ممکن نہیں۔ پاکستان میں کالا دھن فروغ پاتا رہے گا۔ خصوصاً بڑے پروجیکٹس فیکٹری اور تعمیراتی منصوبہ، مزدوری، سریے کی کٹائی لوڈنگ ان لوڈنگ وغیرہ اس لیے پاکستان کی حکومتوں کو محض محصولات پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ محصولات کی زیادتی سے پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے فیول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی تو غیر ملکی سرمایہ نہ آئے گا۔ کیونکہ عالمی منڈی میں وہ قیمتیں دوسری مصنوعات کے مدمقابل ٹھہر نہ سکیں گی۔
اس لیے پاکستانی ٹیکسٹائل گزشتہ ایک دہائی سے ایکسپورٹ میں زوال پذیر ہے جب کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل پروڈکٹس تقریباً امریکا کے ہر بڑے شہر کے چین اسٹور میں موجود ہے۔ پاکستانی ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل پروڈکٹس کا روپے کی قدر کم ہونے پر بھی ڈیمانڈ میں اضافہ نہ ہوا کیونکہ کسٹمر انڈین یا بنگلہ دیشی پروڈکٹس پر شفٹ ہو چکا تھا۔ لہٰذا قرض اور پھر قرض آنے والوں کے لیے عذاب چھوڑنا اچھی بات نہیں۔ جیسا کہ ایام گزشتہ کے حکمرانوں نے کیا اور اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سڑکوں پر نہ آئیں گے کیونکہ آمر حکومت سنبھال لیں گے جب کہ یہ ایسی ہی بے لگام الزام تراشیاں ماضی میں کرتے رہے۔ جب کہ ان کے دوسرے ساتھی ون یونٹ کی کہانی سنانے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا یہ تصور کرنا کہ یہ سڑکوں پر آئیں گے خاصا مشکل ہے۔ کیونکہ ان کا ماضی بھی کوئی روشن نہیں۔
رہ گئی (ن) لیگ جو فوجی حکومت کا خواب دکھا رہی ہے وہ اس لیے کہ تحریک چلانا ان کے بس کی بات نہیں۔ ایسی ڈوبی ہوئی معیشت کو چلانا آسان نہیں۔ یہ خود بھی اگر موقع ملے تو بھی عنان حکومت ہاتھ میں نہ لیں گے۔ اب حکومت نعروں سے نہ چلے گی اور نہ کسی اور خطرہ کی بنیاد پر اب ٹھوس منصوبہ بندی پر کام کرنا ہو گا، نہ عوام کو اب کسی بہلاوے یا مستقبل کے حسین خواب سے بہلایا جاسکتا ہے کیونکہ پانی عوام کے سر کے قریب آن پہنچا ہے۔
حکومت کو فوری ریلیف کے منصوبے بنانے ہوں گے۔ حکومت کو فوری طور پر زرعی اصلاحات کا فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ ملک میں اناج کے ذخائر میں اضافہ اور ایکسپورٹ میں نئے انداز اپنائے جائیں۔ کیونکہ ملک میں سپر مارکیٹوں میں امپورٹڈ آئٹم کا بازار گرم ہے۔
زرعی اصلاحات سے نوجوان زندگی کی شاہراہ پر چلنے کے قابل ہو جائیں گے اور زرعی انڈسٹری پر کام کرنا ہو گا۔ اس عمل سے 6 ماہ میں نتائج آنے شروع ہو جائیں گے۔ ملک سے مایوسی کے بادل جلد چھٹ جائیں گے نہ ملک میں ایسی بے بنیاد خبروں سے مایوسی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور منفی ردعمل کے زیادہ مواقع مل سکتے ہیں۔ اسی لیے دنیا میں بے بنیاد خبروں کا کوئی وجود نہیں۔