چین امریکا تجارتی جنگ

اس تجارتی جنگ کے شروع ہونے کے کئی ماہ بعد دونوں ملکوں کو احساس ہوا کہ ہم صحیح سمت میں نہیں بڑھ رہے۔


عبد الحمید May 31, 2019

2016ء میں امریکا کے 45 ویں صد ر منتخب ہونے سے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی الیکشن مہم کے دوران چین کی امریکا کے ساتھ تجارتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں ۔ ٹرمپ سیاست میں آنے سے پہلے ایک بہت ہی کامیاب بزنس مین اور ٹیلی وژن سے منسلک شخصیت رہے ہیں۔ وہ بزنس بھی کرنا جانتے ہیں اور میڈیا کا استعمال بھی۔

صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے چین کے تجارتی طریقوں اور پالیسیوں کے بارے میں ایک انکوائری کا آغاز کیا اور ساتھ ہی چینی اشیاء پر اربوں ڈالر کے محاصل متعارف کرا دیے ۔ چین بھی اس مخاصمتی ماحول میں پیچھے نہیں رہا اور اس نے بھی امریکی اشیاء پر درآمدی محاصل متعارف کرا دیے۔ یوں ایک تجارتی جنگ بھڑک اٹھی ۔ ایسا ماحول پیدا ہو گیا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا اور آئے دن اس میں کوئی نہ کوئی منفی عمل سامنے آ جاتا ہے۔

اس تجارتی جنگ کے شروع ہونے کے کئی ماہ بعد دونوں ملکوں کو احساس ہوا کہ ہم صحیح سمت میں نہیں بڑھ رہے، اس احساس کے پیدا ہونے کے بعد دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مزید ٹیرف (Tariff) میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ کہ معاملات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کر لیا جائے ۔ اس طر ح ایک امید پیدا ہو گئی کہ چین اور امریکا کے درمیان ڈیل ہو جائے گی لیکن یہ امید بھی صرف امید ہی رہی اور یہ مفاہمتی ماحول دیر پا ثابت نہیں ہوا۔

امریکا نے ایک دفعہ پھر ٹیرف میں مزید اضافہ کر دیا اور چینی اشیاء پر 200 ارب ڈالر کی ڈیوٹی لگا دی ۔ امریکا کی جانب سے اس ٹیرف کے متعارف کرائے جانے کے ٹھیک تین دن بعد چین نے بھی امریکی اشیاء پر 60 ارب ڈالر کا ٹیرف متعارف کرا دیا ۔ یوں تجارتی جنگ کو اور ہوا مل گئی ۔

امریکا نے جن چینی اشیاء پر ٹیرف متعارف کرایا ہے، ان میں صنعتی استعمال میں لائی جانے والی اشیاء کی ایک بڑی تعداد اور روزہ مرہ استعمال کی اشیاء جیسے ہینڈ بیگ اور ریلوے کی تیاری میں مددگار پارٹس ہیں جب کہ چین نے جن امریکی اشیاء پر ٹیرف متعارف کرایا ہے، ان میں کیمیکلز ، کوئلہ ، دوائیں میڈیکل مشینری شامل ہیں ، اس جنگ میں یہ امر انتہائی دلچسپ ہے کہ امریکا کے وہ اضلاع جہاں ری پبلکن نمایندوں کو بہت مدد ملتی ہے یا جن ریاستوں میں ری پبلکن گورنر تعینات ہیں ان علاقوں میں بننے والی امریکی اشیاء کو چین نے خاص طور پر نشانہ بنایا ہے ۔

امریکی سنسس (Census) کے ادارے سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے 2018ء تک 250 ارب ڈالر کا ٹیرف چینی در آمدی اشیاء پر متعارف کرایا اور اس کا بھی واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ اس ٹیرٹ کو 325 ارب ڈالر تک لے جا سکتا ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا ۔ کہ اس بیورو سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا چین سے 539 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا ہے ،امریکا کے ان مخاصمانہ اقدامات کے جواب میں چین نے امریکی درآمدی اشیاء پر دسمبر 2018ء تک 110 بلین ڈالر کا ٹیرٹ متعارف کرایا ہے جب کہ چین امریکا سے 150 ارب ڈالر سے کم کی اشیاء درآمد کرتا ہے۔

دسمبر 2018ء سے امریکا چین تجارتی جنگ تیز تر ہو گئی ہے، امریکا اور چین دونوں ہی اس بات کے لیے کوشاں ہو گئے ہیں کہ 5G ٹیکنالوجی کو کون پہلے متعارف کرواتا ہے ، بڑھتے ٹیرف کی وجہ سے امریکی منڈیاں چین کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں، ادھر امریکی اشیاء پر چین کے عائد کردہ ٹیرف کی وجہ سے امریکی تاجر بھی بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں، ایک طرف چینی کمپنیاں دباؤ محسوس کر رہی ہیں تو دوسری طرف امریکی کمپنیاں بے یقینی کی صور تحال سے دوچار ہیں۔

امریکا اس سلسلے میں کہاں تک جا سکتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا نے اپنے پڑوسی ملک کینیڈا سے کہا کہ ایک اسمارٹ فون بنانے والی کمپنی کے بانی مالک کی بیٹی جو اس ٹیلی کام کمپنی کی چیف فنانشل آفیسر بھی ہیں، ان کو گرفتار کر لیا جائے ۔ اسمارٹ فون بنانے والی کمپنی کے مالک کی بیٹی اس وقت کینیڈا میں رہائش پذیر تھیں، امریکا کے کہنے پر کینیڈا کی پولیس نے منگ کو ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے ، یہ ایک بہت ہی بیہودا الزام ہے، اس طرح اس چینی آئی ٹی کمپنی پر ایسی پابندیاں لگا دی گئی ہیں ، جس سے اس کمپنی کو بہت نقصان ہو رہا ہے اور اسے امریکی اور دوسری مغربی منڈیوں تک پہنچنے میں دشواری ہو رہی ہے۔

امریکا نے چینی آئی ٹی کمپنی کو دو ہفتے قبل اپنی ٹریڈ لسٹ سے بلیک لسٹ کر کے نکال دیا ہے، اس طر ح امریکا نے اپنی تمام فرموں کو دنیا کی سب سے بڑا نیٹ ورک رکھنے والی ٹیلی کام کمپنی کے ساتھ کسی قسم کے روابط رکھنے سے عملاً روک دیا ہے ، اس پابندی کے نتیجے میں دنیا کی دو بڑی معیشتیں رکھنے والے ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ بہت وسیع ہو گئی ہے۔

امریکا چینی آئی ٹی کمپنی کے خلاف اتنے انتہائی اقدامات کیوں اٹھا رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 5G کے متعارف ہونے سے ڈاؤن لوڈ DOWN LOAD اسپیڈ lgbps ہو جائے گی جو موجود 4G کی انتہائی اسپیڈ 55mbps سے بہت زیادہ ہے ظاہر ہے جو ملک جو کمپنی بھی 5Gکو پہلے متعارف کر ائے گی، وہ دنیا کی بیشتر ٹیلی کام مارکیٹ کو ہا تھ میں لے لی گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 5G کو متعارف کرانے والا ملک اپنی GDP میں 500 ارب ڈالر اضافہ کرنے کے قابل ہو جائے گا اور یہی وہ وجہ ہے جو امریکا کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر رہی ہے، بظاہر امریکا آئی ٹی کمپنی پر الزام لگا رہا ہے کہ اس کمپنی کے ارادے خطرناک ہیں اور یہ امریکی نیشنل سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے، چین نے پچھلے ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ نے اس کمپنی پر بہت سے الزامات لگائے ہیں۔

امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ کمپنی چینی حکومت چینی فوج اور چینی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر رہی ہے ، چین نے یہ باور کرایا ہے کہ اس قسم کی افواہیں اڑا کر مائیک پومپیو چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کر ہی رہے ہیں لیکن اس سے دونوں ممالک کے تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ چینی کمپنی کے بانی مالک نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹر ویو میں اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ وہ ڈیٹا کو کسی کے ساتھ بھی کبھی share کرے گی ، اسی طرح اس نے اس بات کی بھی سختی سے تردید کی ہے کہ یہ کمپنی چینی حکومت ، چینی فوج یا چینی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ وہ امریکی دباؤ کے آگے کبھی بھی نہیں جھکیں گے، اور یہ کہ ان کی بیٹی کی گرفتاری کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں، اگر مغرب نے اپنے دروزاے بند کر لیے تو مشرق ضرور جگ مگائے گا۔

انھوں نے کہا کہ وہ آگے بڑھتے رہنے کے لیے بہت پر امید ہیں ۔ دوسری طرف امریکا اپنے اتحادیوں کو اس بات پر ابھار رہا ہے کہ وہ چینی کمپنی کو بالکل اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ 5G کو متعارف کرا سکے کیوں کہ ایسا کرنے سے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں نیشنل سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں،امریکا کی اس چال کے زیر اثر گوگل GOOGLE نے آئی ٹی کمپنی کے ساتھ اپنے الحاق سے دوری شروع کر دی ہے ۔

یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ چینی اشیاء کی درآمد روک کر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ امریکی عوام اپنے ملک میں بنی اشیاء کی خریداری کی طرف مائل ہوں گے اور اس طرح امریکی معیشت مستحکم ہو گی ، امریکا چین تجارتی جنگ سے دونوں ممالک کی اسٹاک مارکیٹوں پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اگر یہ جنگ یوں ہی جاری رہی تو گلوبل اکانومی کمزور ہو جائے گی ، بہرحال آگے آگے دیکھیں کہ 5G کو کون متعارف کرانے میں کون سا ملک پہل کرتا ہے اور یہ تجارتی جنگ مزید کیا رخ اختیار کر تی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں