ہزار ظالم سہی اندھیرا

’’یہ کرپشن فری معاشرہ ہے‘‘ ایسی باتیں بھی کی جاتی ہیں تو پھرکیا اس معاشرے کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے!

'' اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو'' تین ساڑھے تین سال کے ننھے بہن بھائی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے جا رہے تھے گھر کی طرف یا دکان سے '' چیجی'' لینے کہ اسی اثناء میں ایک شخص نے بہن کا ہاتھ بھائی کے ہاتھ سے چھڑوایا اور ننھی بہن کا ہاتھ پکڑکر چل دیا۔ اب وہ منظر ہے کہ جس نے میرے دل پر برچھیاں چلا کر رکھ دیں، ننھی بہن اپنے ننھے بھائی کی طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے کہ وہ اس کا ہاتھ تھام لے وہ اس اجنبی کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔

یہ سب دیکھ کر میں ہی کیا کروڑوں کا دل کیا کیا رویا ہوگا، تڑپا ہوگا ۔جانے کس تڑپتے دل کی صدا اللہ نے سن لی اور وہ وحشی، بچی کو مسجد میں چھوڑکر بھاگ گیا، یوں بہن نے بھائی کا ہاتھ پھر سے تھام لیا۔ ننھی بچیوں کے ساتھ '' واقعات '' ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں، بچیاں غائب ہوئیں اور پھر ان کی لاش ملی، مگر ایسا منظر۔۔۔۔ جوکروڑوں نے دیکھا اور اگر وہ ننھی بچی بھی ''واقعہ'' کے بعد لاش کی صورت ملتی تو وہ ننھے بہن بھائی کا ہاتھ چھڑوانا اور بہن کا بھائی کی طرف ہاتھ بڑھانا اس کی آواز تو نہیں سنی گئی مگر یقینا وہ اپنے بھائی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسے مددکے لیے کہہ رہی ہوگی۔

کیا صرف یہی واقعہ ہی بہت نہیں ہے؟ یہ سوال ہے یا پلٹ کر آنے والا جواب ہے۔ ''آوے کا آوا ہی اوت گیا ہے'' جس کا جہاں زور چل رہا ہے وہ ''برا '' کیے جا رہا ہے '' پر اَجے قیامت نہیں آئی'' اورکیا دیکھنے کو باقی ہے کہ تب قیامت آئے گی ! کہتے ہیں ''ملک داؤ پر لگا ہوا ہے'' یہ بات سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں ۔ ارے مہربانو! ملک تو قائم ہوتے ہی داؤ پر لگ گیا تھا۔ ارے قدردانو! یہ ''داؤ'' کا واویلا تو صرف عوام کے لیے ہے باقی تو سب ''خیر صلہ'' ہے۔ 72 سالوں میں جوکچھ بگڑا عوام کا بگڑا، باقی تو ''ستے خیراں'' ہیں۔ عوام پر تو قیامتیں ٹوٹتی ہی رہی ہیں مگر دوسری طرف قیامت نہیں آتی۔

تھانوں میں غریبوں پر تشدد جاری ہے۔ ان کی حیثیت سے بڑھ کر رشوت مانگی جاتی ہے اور دولت والے پولیس تھانوں میں عزت و احترام پاتے ہیں۔ وکلا ججوں پر تشدد کرتے ہیں اور عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔ایک زمانہ تھا کالے کوٹ والے حکومتوں سے ٹکراتے تھے اورآج بھی یہ کالے کوٹ والے ایسے ہی جرأت والے ہیں مگر یہ دوسرا کام پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ تین سالہ بچیوں کا اغوا اور زیادتی کے بعد لاش ! یہ واقعات روزانہ ہو رہے ہیں ۔ بلوچستان میں دھماکے ہو رہے ہیں ۔ فاٹا میں حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔ تھر آج بھی پیاسا ہے، بھوکا ہے اور بیمار ہے، بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو کا شہر لاڑکانہ ایڈزکا شکار ہے ، آج بھی غریبوں کے لیے صاف پانی نہیں ہے، آج بھی جانور اور انسان ایک ہی جگہ کا پانی پی رہے ہیں ۔ آج بھی سب کا مائی باپ شہرکراچی پانی کو ترستا ہے۔اس شہرکے غریب عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے، پانی کے لیے برتن اٹھائے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں مگر ٹینکر مافیا کو پانی مل رہا ہے ، جو دولت والے خریدتے ہیں ۔

تمام آندھیاں، سارے طوفان فقط غریبوں ہی کے لیے ہیں ، امیروں کا کچھ نہیں بگڑتا ، جالب نے بڑے جلال میں یہ مصرعے کہے تھے۔

الٰہی کوئی آندھی ''اُس'' طرف بھی چلے

پلٹ دے ان کلا داروں کی صف بھی

زمانے کو جلال اپنا دکھا دے


جلا دے تخت و تاج ان کے جلا دے

مگر صاحب کہاں! حضرت علامہ کی آرزوئیں آج بھی دھری کی دھری پڑی ہیں ۔ وہ کھیت آج بھی لہلہا رہے ہیں جن سے دہقاں کو روزی نہیں ملتی، ہر خوشہ گندم بحق قابضین محفوظ ہے، علامہ کے غریب اٹھتے ہیں، مگر دولت والے گھیرگھار کے غریبوں کو جھوٹے لارے لگا کے بٹھا دیتے ہیں۔ دولت والے ''اک مٹھی'' یعنی اکٹھے ہیں، ان دولت والوں سے کون پوچھے کہ یہ تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے اورکیسے آئی؟ کہاں اورکیسے کا ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے ''یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے'' بھئی بہت خوب۔۔۔۔اپنا سارا کیا دھرا، سارا ظلم اللہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ''کہتے ہیں یہ دولت ہمیں بخشی ہے خدا نے/ فرسودہ بہانے وہی افسانے پرانے''

''یہ کرپشن فری معاشرہ ہے'' ایسی باتیں بھی کی جاتی ہیں تو پھرکیا اس معاشرے کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے! ظلم ہوتا رہے، مظلوم روتا رہے، محل بنتے رہیں، جھونپڑے جلتے رہیں، بیرون ملک علاج ہوتے رہیں، غریب بغیر دوا دارو مرتے رہیں، عصمتیں لٹتی رہیں، محراب منبر ومینار دیکھتے رہیں، دکھاؤے کے اسکولوں میں گدھے، گھوڑے، ڈھور ڈنگر بندے رہیں، بچے گلیوں میں رلتے رہیں، چائے کے ڈھابے اور مکینکوں کے ''چھوٹے'' بنے رہیں۔ یہ کیسا کرپشن فری معاشرہ ہے؟ ہمارے اسی عہد کے قلم کار سب فضول بے کار باتیں کرتے رہے۔ اقبال، فیض، جوش، کیفی، ساحر، سردار جعفری، سبط حسن، ظہیر کاشمیری ، استاد دامن، حبیب جالب و دیگر یہ سب قلمکار امید، حوصلہ، یقین دلاتے رہے۔ سنہرے مستقبل کا پتا دیتے رہے۔ اور ہم انھی سچے قلم کاروں کے پیروکار ہیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ '' کرپشن اور انصاف '' ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

یہ جو آج میرا ملک پاکستان اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، دھماکے، قتل، اغوا۔ انھی اندھیروں میں روشنی کی ایک لہر بھی نمودار ہو رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ روشنی کی یہ لہر اندھیروں کا خاتمہ کردے گی۔ باقی یہ جھوٹے مکار دولت والے کبھی نہیں بتائیں گے کہ یہ دولت کہاں سے اورکیسے آئی، یہ مرتے مرجائیں گے مگر نہیں بتائیں گے۔ ادھر ادھر کی باتوں میں الجھائیں گے۔ جالب کے چار مصرعے اور اجازت۔

ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں

چمک اٹھیں گی وفا کی راہیں

ہزار ظالم سہی اندھیرا

سحر بھی لیکن قریب تر ہے
Load Next Story