مودی کی فتح یا گاندھی کے نظریات کا خون
موت بے شک ایک حقیقت ہے لیکن کوئی بھی اپنی اولاد کو بے موت مارنے کے لیے کیسے تیار ہو سکتا ہے۔
اتر پردیش کے ضلع گونڈا کے رہائشی ایک مسلم جوڑے نے اپنے نومولود بچے کا نام نریندر مودی رکھ دیا ہے۔ بچے کی والدہ میناز بیگم نے جب اپنے بچے کا یہ نام تجویزکیا تو ہرکوئی سکتے میں آگیا، خاندان بھر سے خوب مخالفت ہوئی لیکن مشتاق احمد نے اپنی بیوی کے تجویزکردہ اس نام سے اتفاق کیا۔ وہ کسی کی مخالفت کو خاطر میں نہ لائے، بیوی کی حمایت میں کھڑے ہوئے اور بالآخر بچہ، نریندرمودی کے نام سے بھارتی سرکارکے رجسٹر میں چڑھ گیا۔
سنا ہے مائیں اپنی اولاد کو لاحق خطرات کی آہٹ کہیں دور سے ہی محسوس کرلیتی ہیں اور پھر اس سے اپنی اولاد کو بچانے کے جتنے جتن بس میں ہوں کر ڈالتی ہیں۔ مودی کی دوبارہ فتح کے بعد بھارت کا شمار دنیا کے ان چند بدقسمت ممالک میں ہوگیا ہے جہاں بچوں کے مستقبل کے لیے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کا واحد سپنا اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ وہ اپنے بچوں کوکم ازکم زندہ دیکھ سکیں۔
ہندوستان کی بدنصیب سرزمین پر لاکھوں عورتوں نے مذہب کے نام پر اپنے لال کٹتے اورگودیں اجڑتی دیکھی ہیں۔ اب شاید وہ اس نام پر اپنے بچوں کو مزید بھینٹ چڑھانے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، سو مسلمان بچوں کو ہندو ناموں سے منسوب کرکے ہی گر ان کی جان بچ جائے سو، برا کیا ہے؟ ہندی اخبارات لکھتے ہیں کہ بی جے پی سے متاثر ہوکر مسلمان والدین اپنے بچوں کا نام نریندر مودی کے نام پر رکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بے چارے'' متاثر'' نہیں بلکہ وہ متاثرین ہیں جو اس خوف میں مبتلا ہیں کہ مودی کے قاتل فلسفے کے تحفظ اور بقا کے لیے ان کی اور ان کے بچوں کی جانوں کا نذرانہ وصول کیا جائے گا۔
میناز بیگم کو اپنے جگرگوشے کی زندگی کا چراغ جلائے رکھنے کا جو مناسب حل نظر آیا وہ انھوں نے اختیار تو کرلیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حل واقعی مودی کے نئے دور میں واقعی اقلیتوں کی زندگی کا ضامن بن سکے گا، کیا اس طرح کے فیصلے بھارتی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کر نے میں مددگار ثابت ہوں گے یا وہ بے چارے خود کو مطمئن کرنے کا صرف ایک جواز ڈھونڈ رہے ہیں؟
دوسری طرف، فتح کے نئے جشن کے ساتھ مودی کی نئی ڈرامے بازیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ انھوں نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نومنتخب ارکان پارلیمان کے سامنے اقلیتوں کی ہم دردی میں زور شور سے مگرمچھ کے آنسو بہائے اور اقلیتوں میں خوف کی فضا پیدا کرنے کا سارا ملبہ بڑی صفائی سے اپوزیشن پرگرا دیا۔ ان کا پورا بیان پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مودی جیسا مصلح قوم تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔گھی شکر میں لپٹے اس بیان کی قلعی کھولتا تو ان کا وہ پانچ سالہ دورِ حکومت ہے جسے واضح طور پر بھارتی تاریخ کا سیاہ دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ تسلسل سے اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے اور پھیلنے والی نفرت کے بعد، ان کا یہ بیان خود انھی کا منہ چڑا رہا ہے۔ نہ صرف مودی کے گزشتہ راج میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی گواہ پوری دنیا ہے، بلکہ حالیہ انتخابی عمل بھی قدم قدم پر اقلیتوں کے کان کھڑے کرتا رہا کہ ان کا بھارت واپس '' ہندوستان'' بننے جا رہا ہے۔
بی جے پی کی پوری انتخابی مہم انتہائی گھٹیا زبان ، بے ہودہ نعروں اور قبیح افعال سے عبارت تھی۔ بھوپال سے بی جے پی نے مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو خوف سے اقلیتوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ ملزمہ کی یہاں سے کامیابی نے بھوپال کے مسلمانوں کو جتا دیا ہے کہ اب سُکھ بھری نیند لینے کے دن ختم ہوچکے ہیں، کیونکہ چوکی دار نے بھوپال کا محافظ ایک قاتلہ کو بنا ڈالا ہے۔ مغربی بنگال کا حال بھی کچھ یہی ہے، یہاں بھی انتہاپسندی نام پر الیکشن لڑا اور جیتا گیا۔ انتخابی ہنگاموں کو بڑھانے اور ووٹ بینک کی سیاست کو ہوا دینے کے لیے موب لنچنگ (mob lynching) اپنے عروج پر رہی، ہجومی تشدد کے ذمے داروں کی جیل سے رہائی پر ان کا استقبال ہار پہنا کرکیا گیا۔ یہ اور ایسے بے شمار واقعات دیکھتے ہوئے مودی کا اقلیتوں کی ہمدردی میں رونا ہر ذی العقل کی سمجھ سے باہر ہے ۔ رونے دھونے کی ان بھونڈی کوششوں کے بعد بھی ان کے دامن پر لگے خونی داغ ذرا کم نہ ہوں گے۔
بی جے پی کے کئی راہ نما اپنے منصب کے وقار کو فراموش کرکے دھڑلے سے بھارتی مسلمانوں کو پاکستان دھکیلنے کی بات کرتے رہے، اور اب مودی جی ہیں کہ عینک کے پیچھے دھنسی آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ آخر اقلیتیں ان سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں؟ انھی کے لیے تو غالباً، غالب کہہ گئے تھے، اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا؟
قرائن ہوشیارکر رہے ہیں کہ ان کی یہ ہمدردی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔ مودی کے دوسرے دور کی ابتدا میں ہی، بیگو سرائے میں مسلم لڑکے اور لڑکی کی ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی پٹائی اور لڑکی کی عصمت دری کی کوشش نے بہت سارے خدشات پر اپنی مہر ثبت کردی ہے۔ انسانی خون بہا کر ووٹوں کی فصل کاٹی جائے تو خوش کن نتائج کی امید بھلا کیسے رکھی جائے۔ بی جے پی نے اپنی روایت قائم رکھتے ہوئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کریہ انتخابی مہم چلائی، قدم قدم پر بھارتیوں کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے نظریات کا خون کیا، اب بگڑتے حالات کی چاپ گر سنائی دے رہی ہے تو اس میں عجب کیا ہے؟ گاندھی جی کے قاتل نتھو رام کا جنم اور مرن دن منانے والی بی جے پی سے اگر کسی نے اب بھی نیک امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری نے مودی کی دوبارہ فتح کے '' سانحے'' کے بعد مسلم کمیونٹی کے نام ایک خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ'' جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے دور میں حالات خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے بہت سوچ سمجھ کر اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہم اس پر قائم ہیں۔ حالات کے دباؤ میں دین کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔'' بے شک انھوں نے کہنے کو تو اچھی بات کہہ دی، لیکن ان کی نظروں سے شاید یہ خبر نہیں گزری جس کا ذرا اوپرکیا گیا ہے کہ جان بچانے کے لیے اسلامی نام رکھنے سے بھی گریز شروع ہوچکا ہے۔
موت بے شک ایک حقیقت ہے لیکن کوئی بھی اپنی اولاد کو بے موت مارنے کے لیے کیسے تیار ہو سکتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ایک بڑی اقلیت ہونے کے باوجود بھارتی مسلمانوں کا کبھی کوئی واضح اور بھرپور سیاسی کردار نہیں رہا۔ ایک لمبے عرصے تک تو سیاست کو دین سے الگ شے قرار دے کر اس پر نظر ڈالنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا اور پھر جب عقل آئی تو وقت کافی نکل چکا تھا اور اب تو بیانات کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کو صبر کی تلقین کا وقت بھی شاید ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا حال برما کے مسلمانوں جیسا نہ ہو۔ انسانیت مزید کسی سانحے کی اب متحمل نہیں۔
سنا ہے مائیں اپنی اولاد کو لاحق خطرات کی آہٹ کہیں دور سے ہی محسوس کرلیتی ہیں اور پھر اس سے اپنی اولاد کو بچانے کے جتنے جتن بس میں ہوں کر ڈالتی ہیں۔ مودی کی دوبارہ فتح کے بعد بھارت کا شمار دنیا کے ان چند بدقسمت ممالک میں ہوگیا ہے جہاں بچوں کے مستقبل کے لیے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کا واحد سپنا اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ وہ اپنے بچوں کوکم ازکم زندہ دیکھ سکیں۔
ہندوستان کی بدنصیب سرزمین پر لاکھوں عورتوں نے مذہب کے نام پر اپنے لال کٹتے اورگودیں اجڑتی دیکھی ہیں۔ اب شاید وہ اس نام پر اپنے بچوں کو مزید بھینٹ چڑھانے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، سو مسلمان بچوں کو ہندو ناموں سے منسوب کرکے ہی گر ان کی جان بچ جائے سو، برا کیا ہے؟ ہندی اخبارات لکھتے ہیں کہ بی جے پی سے متاثر ہوکر مسلمان والدین اپنے بچوں کا نام نریندر مودی کے نام پر رکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بے چارے'' متاثر'' نہیں بلکہ وہ متاثرین ہیں جو اس خوف میں مبتلا ہیں کہ مودی کے قاتل فلسفے کے تحفظ اور بقا کے لیے ان کی اور ان کے بچوں کی جانوں کا نذرانہ وصول کیا جائے گا۔
میناز بیگم کو اپنے جگرگوشے کی زندگی کا چراغ جلائے رکھنے کا جو مناسب حل نظر آیا وہ انھوں نے اختیار تو کرلیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حل واقعی مودی کے نئے دور میں واقعی اقلیتوں کی زندگی کا ضامن بن سکے گا، کیا اس طرح کے فیصلے بھارتی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کر نے میں مددگار ثابت ہوں گے یا وہ بے چارے خود کو مطمئن کرنے کا صرف ایک جواز ڈھونڈ رہے ہیں؟
دوسری طرف، فتح کے نئے جشن کے ساتھ مودی کی نئی ڈرامے بازیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ انھوں نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نومنتخب ارکان پارلیمان کے سامنے اقلیتوں کی ہم دردی میں زور شور سے مگرمچھ کے آنسو بہائے اور اقلیتوں میں خوف کی فضا پیدا کرنے کا سارا ملبہ بڑی صفائی سے اپوزیشن پرگرا دیا۔ ان کا پورا بیان پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مودی جیسا مصلح قوم تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔گھی شکر میں لپٹے اس بیان کی قلعی کھولتا تو ان کا وہ پانچ سالہ دورِ حکومت ہے جسے واضح طور پر بھارتی تاریخ کا سیاہ دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ تسلسل سے اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے اور پھیلنے والی نفرت کے بعد، ان کا یہ بیان خود انھی کا منہ چڑا رہا ہے۔ نہ صرف مودی کے گزشتہ راج میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی گواہ پوری دنیا ہے، بلکہ حالیہ انتخابی عمل بھی قدم قدم پر اقلیتوں کے کان کھڑے کرتا رہا کہ ان کا بھارت واپس '' ہندوستان'' بننے جا رہا ہے۔
بی جے پی کی پوری انتخابی مہم انتہائی گھٹیا زبان ، بے ہودہ نعروں اور قبیح افعال سے عبارت تھی۔ بھوپال سے بی جے پی نے مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو خوف سے اقلیتوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ ملزمہ کی یہاں سے کامیابی نے بھوپال کے مسلمانوں کو جتا دیا ہے کہ اب سُکھ بھری نیند لینے کے دن ختم ہوچکے ہیں، کیونکہ چوکی دار نے بھوپال کا محافظ ایک قاتلہ کو بنا ڈالا ہے۔ مغربی بنگال کا حال بھی کچھ یہی ہے، یہاں بھی انتہاپسندی نام پر الیکشن لڑا اور جیتا گیا۔ انتخابی ہنگاموں کو بڑھانے اور ووٹ بینک کی سیاست کو ہوا دینے کے لیے موب لنچنگ (mob lynching) اپنے عروج پر رہی، ہجومی تشدد کے ذمے داروں کی جیل سے رہائی پر ان کا استقبال ہار پہنا کرکیا گیا۔ یہ اور ایسے بے شمار واقعات دیکھتے ہوئے مودی کا اقلیتوں کی ہمدردی میں رونا ہر ذی العقل کی سمجھ سے باہر ہے ۔ رونے دھونے کی ان بھونڈی کوششوں کے بعد بھی ان کے دامن پر لگے خونی داغ ذرا کم نہ ہوں گے۔
بی جے پی کے کئی راہ نما اپنے منصب کے وقار کو فراموش کرکے دھڑلے سے بھارتی مسلمانوں کو پاکستان دھکیلنے کی بات کرتے رہے، اور اب مودی جی ہیں کہ عینک کے پیچھے دھنسی آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ آخر اقلیتیں ان سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں؟ انھی کے لیے تو غالباً، غالب کہہ گئے تھے، اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا؟
قرائن ہوشیارکر رہے ہیں کہ ان کی یہ ہمدردی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔ مودی کے دوسرے دور کی ابتدا میں ہی، بیگو سرائے میں مسلم لڑکے اور لڑکی کی ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی پٹائی اور لڑکی کی عصمت دری کی کوشش نے بہت سارے خدشات پر اپنی مہر ثبت کردی ہے۔ انسانی خون بہا کر ووٹوں کی فصل کاٹی جائے تو خوش کن نتائج کی امید بھلا کیسے رکھی جائے۔ بی جے پی نے اپنی روایت قائم رکھتے ہوئے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کریہ انتخابی مہم چلائی، قدم قدم پر بھارتیوں کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے نظریات کا خون کیا، اب بگڑتے حالات کی چاپ گر سنائی دے رہی ہے تو اس میں عجب کیا ہے؟ گاندھی جی کے قاتل نتھو رام کا جنم اور مرن دن منانے والی بی جے پی سے اگر کسی نے اب بھی نیک امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری نے مودی کی دوبارہ فتح کے '' سانحے'' کے بعد مسلم کمیونٹی کے نام ایک خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ'' جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے دور میں حالات خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے بہت سوچ سمجھ کر اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہم اس پر قائم ہیں۔ حالات کے دباؤ میں دین کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔'' بے شک انھوں نے کہنے کو تو اچھی بات کہہ دی، لیکن ان کی نظروں سے شاید یہ خبر نہیں گزری جس کا ذرا اوپرکیا گیا ہے کہ جان بچانے کے لیے اسلامی نام رکھنے سے بھی گریز شروع ہوچکا ہے۔
موت بے شک ایک حقیقت ہے لیکن کوئی بھی اپنی اولاد کو بے موت مارنے کے لیے کیسے تیار ہو سکتا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ایک بڑی اقلیت ہونے کے باوجود بھارتی مسلمانوں کا کبھی کوئی واضح اور بھرپور سیاسی کردار نہیں رہا۔ ایک لمبے عرصے تک تو سیاست کو دین سے الگ شے قرار دے کر اس پر نظر ڈالنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا اور پھر جب عقل آئی تو وقت کافی نکل چکا تھا اور اب تو بیانات کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کو صبر کی تلقین کا وقت بھی شاید ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا حال برما کے مسلمانوں جیسا نہ ہو۔ انسانیت مزید کسی سانحے کی اب متحمل نہیں۔