بھارت کے اچھوت
ہندوئوں کی طرف سے انسانوں سے امتیازی سلوک بھارت کے ماتھے پر کلنک کا بدنما ٹیکا ہے۔
ایک دلت (اچھوت) کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے گھر کو تباہ کر دیا گیا اور اس کی فیملی کو، جس میں ایک دس سالہ بچہ بھی شامل تھا، اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔ اونچی ذات والے ہندوئوں کو اس کی یہ گستاخی برداشت نہیں ہو سکی تھی کہ اس نے یوم آزادی پر ایک متنازعہ پراپرٹی پر قومی پرچم لہرا دیا، جس پر انھوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا تھا۔ ہندوئوں کی طرف سے انسانوں سے امتیازی سلوک بھارت کے ماتھے پر کلنک کا بدنما ٹیکا ہے یا یہ ایک ایسا زہریلا بدبو دار پودا ہے جس نے فضا کو متعفن کر کے رکھ دیا ہے۔ واضح رہے بھارت میں ہندوئوں کی آبادی اسی فیصد تک بتائی جاتی ہے۔ اس دلت کی کہانی اس وجہ سے منظر عام پر آئی کیونکہ ایک ٹی وی چینل نے اس کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے اس کی جھلکیاں دکھا دی تھیں۔
بصورت دیگر ہزاروں دلت ہر روز اس بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہ اونچی ذات والوں کے غرور و تکبر اور ظلم کا شکار ہوتے ہیں اور ان بے چاروں کے لیے سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی۔ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ بھارتی آئین نے کسی کو اچھوت سمجھنے یا کہنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے درخواستوں' رجسٹروں اسکول کے داخلہ فارموں اور داخلے کے امتحانوں سے ذات پات کا خانہ حذف کرا دیا تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی ذات پات کے تعصب میں قطعاً کوئی کمی نہیں آئی۔ بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے دلت کو ہریجن (خدا کے بیٹے) کا نام دیا لیکن لوگوں نے ان کا اور زیادہ مذاق اڑانا شروع کر دیا لہذا انھوں نے دلت کہلوانے کا ہی فیصلہ کیا۔ یہ ایک سماجی برائی ہے یا اس کے لیے کوئی بھی وضاحت ہو ہندو معاشرے میں امتیازی سلوک کے جذبات میں قطعاً کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
حتیٰ کہ آج بھی ایک دلت دولہا بارات کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر دلہن کے گھر نہیں جا سکتا۔ دلتوں کے لیے بہت سارے راستے بند ہیں۔ جہاں تک ان کی رہائش کا تعلق ہے تو شہروں میں وہ کچی آبادیوں اور گندی بستیوں میں رہتے ہیں اور دیہات میں گائوں کی حدود سے باہر۔ جو لوگ ہندوئوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں وہ بھی دلتوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر کوئی آواز بلند نہیں کرتے حالانکہ دلت بھی ہندو ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اگرچہ ہندوتوا کا پرچار کرتی ہے اس نے بھی کبھی ذات پات کی تفریق پر تنقید نہیں کی۔ اس پارٹی کی پوری توجہ سیاست پر مرکوز ہے، معاشرتی اصلاح پر نہیں۔ غالباً اس کے پیچھے سب سے اونچی ذات کے برہمنوں کے ایک گروپ آر ایس ایس (راشٹریا سیوک سنگھ) سے ملنے والی ڈکٹیشن ہے۔ بدقسمتی سے ذات پات کے نظام نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ اگرچہ ان دونوںکا مذہب انسانوں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا رکھنے سے منع کرتا ہے۔ دونوں مساوات کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ تعصب میں ہندوئوں سے مختلف نہیں ہوتے۔
یہ دونوں بھی اچھوتوں کے ساتھ انتہائی نفرت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ ہندوئوں کے توہین آمیز اور نفرت بھرے سلوک سے تنگ آ کر اسلام یا عیسائیت قبول کر لیتے ہیں۔ تاہم اچھوتوں کو کچھ رعایات ملنے کی بھی مثال دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ سابق وزیر اعلیٰ مایا وتی نے تجویز پیش کی تھی جو خود بھی دلت ذات سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ وہ اس ضمن میں کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئیں۔ وہ سرکاری ملازمین کی ترقیوں میں کوٹہ سسٹم کا مطالبہ کر بیٹھیں۔ ان کے اس مطالبے سے ملک بھر میں شور و غوغا بلند ہوا، جو بلا جواز نہیں تھا۔ میرے خیال میں سیٹوں کو مخصوص کرنے کا کام بھرتیوں کے وقت ہونا چاہیے۔ اگر کیرئیر کے دوران اس قسم کے فیصلے کیے جائیں تو دیگر ذاتوں کے سول ملازمین کے حوصلے بھی پست ہو جائیں گے جو مقابلے کے سخت امتحان میں کامیاب ہو کر آئے ہوں۔ وہ چھوٹی ذات کے لوگ جو سول سروس میں آنے کے خواہش مند ہوں وہ بھی اس امتحان میں شرکت کرتے ہیں اور کوٹہ سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتیں' کانگریس اور بی جے پی' مایا وتی کی تجویز کردہ ترمیم کی حمایت کر رہی ہیں کیونکہ ان کی نظریں 2014ء کے انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں پر لگی ہیں۔
مخصوص سیٹوں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے کیونکہ اس کوٹہ سسٹم میں دوسرے پس ماندہ طبقوں (OBC) کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ وہ بھی ترقیوں کے ضمن میں مخصوص سیٹوں کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سے طبقے ہیں جو اس قسم کی رعایت کے خواہاں ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے پیش نظر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ عدالت عظمی نے مخصوص سیٹوں کی تعداد کی زیادہ سے زیادہ حد 49.5 فی صد مقرر کی ہے۔ اگر مایا وتی کی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہو جاتی ہے تو عدالت اسے غیر آئینی قرار دیدے گی۔ اس نوعیت کی کوئی بھی ترمیم لوک سبھا میں منظوری کے لیے بھیجی جائے گی۔ راجیہ سبھا نے اس ترمیم کو پہلے سے منظور کر لیا ہے اگرچہ سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ نے اس کی شدید مخالف کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں نے اپنا کام دکھایا ہے اور کانگریس جو حکمران جماعت ہے ترقیوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شدید زور آزمائی کے بعد خاموش ہو گئی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ لوک سبھا میں کانگریس کی اکثریت موجود نہیں لیکن اگر یہ اپنے موقف پر ثابت قدم رہتی تو اپنے حق میں ارکان کی مطلوبہ تعداد حاصل کر سکتی تھی۔
قبائلیوں اور چھوٹی ذات کے لوگوں کے لیے آئین نے مخصوص سیٹوں کی نفی کر دی ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ چھوٹی ذات کے نہایت ہونہار افراد نے تمام تر فوائد حاصل کر لیے ہیں اور یہی OBC کے ممبران کو چاہیے کہ مخصوص سیٹوں کے فوائد اور نیچے تک جانے دیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ زبان کے دھنی سیاسی رہنما ان رعایات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ خود بٹور لیتے ہیں۔ قانون کے بارے میں میرا محدود علم مجھے بتاتا ہے کہ مردم شماری کے فارم میں دیا گیا ذات (Caste) کا کالم آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔ اس میں ذات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ انھی معلومات کی بنیاد پر اقتصادی فوائد بانٹے جاتے ہیں جو آئین کی سراسر توہین ہے۔ اس کا دیباچہ کہتا ہے کہ عوام نے انڈیا کو ایک مقتدر سوشلسٹ ڈیمو کریٹک ری پبلک کی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرا اعتراض ایک اور نکتہ پر بھی ہے۔ کشوانند بھارتی کیس میں عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ آئین کے دیباچے میں دیے گئے مقاصد آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہیں۔ اگرچہ پارلیمنٹ کا انتخاب براہ راست عوام ہی کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ردوبدل نہیں کر سکتی۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ حکومت کو چنداں احساس نہیں کہ ترقیوں میں کوٹہ سسٹم متعارف کرانے سے بیورو کریسی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' یہ مقولہ تو برطانیہ کا تھا جنہوں نے ہندوستان کو ڈیڑھ سو سال تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ قوم متحد رہے، خواہ مخالف قوتیں ان کو کتنا ہی توڑنے کی کوشش کیوں نہ کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ قومی یک جہتی کونسل کا اجلاس بلائے جس کے ذمے اس قسم کے مسائل پر سوچ بچار کر کے حل نکالنا ہے۔ ذات پات جیسے مسائل پوری قوم پر مجموعی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ملک کو مزید اندھیروں میں نہیں دھکیلا جا سکتا۔ امریکا کی طرح کالوں کے مفاد میں کیے جانے والے اقدامات بہتر اور زیادہ مثبت نتائج حامل ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)