عمران خان ہوشیار باش
سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا اور وہ سرخرو ٹھہرے۔
عمران خان صاحب کو مبارک ہو سپریم کورٹ نے ان کا یہ موقف تسلیم کر لیا کہ عدلیہ سے مستعار لیے گئے ریٹرننگ آفیسرز کے بارے میں انھوں نے جو لفظ استعمال کیا، اس کا حقیقی مطلب ''نامناسب'' تھا۔ نواز شریف کے لگائے اٹارنی جنرل صاحب نے بھی ایک حوالے سے ان کی تائید کی اور عمران خان کو معافی مانگنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا اور وہ سرخرو ٹھہرے۔ اپنی اس کامیابی کے بعد وہ سیاسی طور پر اب اپنی پوری توانائی اس مطالبے کو منوانے پر مجبور ہیں جس کے ذریعے انھوں نے قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کا نادرا کی کمپیوٹر والی مہارتوں کی مدد سے بھرپور تجزیہ چاہا ہے۔
چوہدری نثار علی خان 1985ء سے قومی اسمبلی کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ برسوں سے جمع ہوتے اپنے پارلیمانی تجربے کے ذریعے انھوں نے عمران خان کے اس مطالبے کو زور نہ پکڑنے دیا۔ بڑی ہوشیاری سے یہ تجویز پیش کر دی کہ چار نہیں کم از کم ان چالیس حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کا ازسرِ نو حساب کتاب ہونا چاہیے۔ حکمران جماعت سمیت قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ان حلقوں کی نشان دہی کریں اور پھر قومی اسمبلی ہی کی ایک خصوصی کمیٹی ان حلقوں سے آنے والے نتائج کا بے رحمانہ پوسٹ مارٹم کر ڈالے۔
وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر جب یہ فراخدلانہ تجویز پیش کی تو تحریک انصاف والے بہت خوش ہوئے۔ بالآخر معاملہ جب قومی اسمبلی کے نتائج کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے قیام تک پہنچا تو انھیں خبر ہوئی کہ چوہدری نثار علی خان تو ان کے ساتھ پنجابی والا ''ہتھ'' کر گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔ ریٹرننگ آفیسرز بھی عدلیہ سے مستعار لیے جاتے ہیں جو اپنے طور پر ایک اور آزاد ادارہ ہے۔ قومی اسمبلی خود کو کتنا ہی بالاتر کیوں نہ سمجھتی رہے اس کی بنائی کوئی کمیٹی عدلیہ یا الیکشن کمیشن سے متعلق کسی بھی فرد کو اپنے اجلاسوں میں سوالات کا جواب دینے کے لیے نہیں بلا سکتی۔
چوہدری نثار علی خان بذاتِ خود اس بات کو خوب سمجھتے ہیں۔ سابقہ اسمبلی کے ابتدائی دنوں میں وہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ اپنی اس حیثیت میں انھوں نے سپریم کورٹ کو ایک باقاعدہ چٹھی لکھی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس ادارے کی جانب سے خرچ کردہ رقوم کا آڈٹ ان کے سامنے لایا جائے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے انھیں جوابی خط لکھ کر یاد دلایا کہ اپنے آڈٹ کو قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش کر دینے کے بعد سپریم کورٹ اپنی آزادانہ حیثیت کو نقصان پہنچائے گی۔ چوہدری صاحب نے تھوڑی بہت مزاحمت کی۔ مگر بالآخر اس کمیٹی کی قیادت سے ہی مستعفی ہو گئے۔ ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن نے لی۔ وہ بے چارے بس چٹھیاں لکھتے رہے اور سابقہ قومی اسمبلی کی معیاد ختم ہو گئی۔ اب مئی 2013ء کے انتخاب میں اپنے حلقے سے بھی ہار بیٹھے ہیں۔
عمران خان کو اپنے چار قومی اسمبلی کے حلقوں کے انتخابی نتائج کا سائنسی تجزیہ کرانے کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ الیکشن ٹربیونلز کی سست روی سے تو وہ اُکتائے بیٹھے ہیں۔ کوئی نیا فورم درکار ہے۔ وہ کیسے بنے اور کون بنائے؟ اس سوال کا جواب نہیں مل رہا لیکن عمران خان اپنے جوشیلے کارکنوں کی مدد سے لاہور کی مال روڈ پر احتجاج برپا کرتے رہے تو نواز حکومت کوئی راستہ نکالنے پر مجبور ہو جائے گی۔ میڈیا ان دنوں چند کیمرہ مینوں کی تحریک انصاف کے کارکنوں کے ہاتھوں پٹائی کی وجہ سے کچھ ناراض ہے۔ مگر عمران خان جیسے مقبول رہنما جبلی طور پر جانتے ہیں کہ میڈیا میں رونق اپوزیشن جماعت ہی لگایا کرتی ہے۔ ان کے کارکن اپنے احتجاج پر ڈٹے رہے تو میڈیا والے اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعہ کو بھلا کر اپنے پروگراموں کی ریٹنگ کی خاطر تحریک انصاف کے جوشیلے رہنمائوں اور کارکنوں کی دلجوئی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
مجھے خدشہ ہے تو صرف اتنا کہ تحریک انصاف والے اپنا پورا زور کہیں قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے آئے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرانے میں ہی نہ خرچ کر ڈالیں۔ خیبر پختونخوا جیسے حساس صوبے میں ان کی حکومت ہے۔ امن و امان کا قیام ان کی صوبائی حکومت کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ وگرنہ مولانا فضل الرحمٰن جیسے ہوشیار مخالف اس صوبے کے حوالے سے وہی مطالبہ شروع کر دیں گے جو ایم کیو ایم ان دنوں کراچی کے بارے میں کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے سے میں بڑی نیک نیتی سے یہ بھی سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو میرے ایک صحافی دوست کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ ''تڑی'' نہیں لگانا چاہیے تھی کہ اگر ان کے ایجنڈے کی تکمیل میں مرکزی حکومت یا کسی اور نے رکاوٹ ڈالی تو وہ اس صوبے کی اسمبلی تڑوا کر نئے انتخابات کرا ڈالیں گے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے زیادہ تر لوگ ''فرسودہ سیاست دانوں'' کے مزاج کو ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھ پائے۔
ان سیاستدانوں کے لیے انتخاب تخت یا تختہ والا معرکہ سمجھا جاتا ہے اور وہ اسے جیتنے کے لیے سب کچھ کر دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ انتخابات کے جان کن مراحل سے گزر کر قومی یا صوبائی اسمبلی میں پہنچ جائیں تو اس کی معیاد کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے نئے انتخابات کے امکان کا بے ساختہ اظہار انھیں اچھا نہیں لگا۔ تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا حکومت میں اتحادی جماعتِ اسلامی کے سربراہ سید منور حسن نے اس پر آن دی ریکارڈ تنقید کر دی ہے۔ مگر باوثوق ذرایع نے مجھے خبر دی ہے کہ اس ضمن میں اصل ہل چل آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی میں ہوئی ہے۔ شیر پائو صاحب اقتدار کے کھیل کو خوب جانتے ہیں۔ آج کل تحریک انصاف کی جانب سے خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ بنے پرویز خٹک ان ہی کی دریافت ہیں اور کافی عرصے تک ان کے لاڈلے چیلے بھی رہے۔
اسلام آباد میں یہ افواہ کافی گرم ہے کہ نواز شریف آفتاب شیر پائو کو خیبر پختونخوا کا گورنر بنانے کے بارے میں کافی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ پہلے تو میں نے اس افواہ کو کوئی وقعت نہ دی ۔ مگر چند روز پہلے اخبار میں ایک تصویر دیکھی جس میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کابل کے صدارتی محل میں ان سے ملاقات کر رہے تھے۔ کرزئی کے حالیہ دورہ پاکستان سے پہلے ہونے والی یہ ملاقات کئی حوالوں سے بڑی معنی خیز تھی۔ شیر پائو صاحب کا ذکر آیا تو یاد مولانا فضل الرحمٰن کو بھی رکھنا پڑتا ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ نون، قومی وطن پارٹی اور جمعیتِ علمائے اسلام کی عددی قوت ذہن میں آ جاتی ہے۔ اس سے آگے اور کیا لکھوں۔ آپ مجھ سے کہیں زیادہ سمجھ دار ہیں۔ بس میرے پاس پہنچنے والی اس افواہ کی تصدیق یا تردید کرا دیجیے کہ آفتاب شیر پائو خیبر پختونخوا کے گورنر بن سکتے ہیں۔