فسطائیت کا عروج انسان کا زوال
ہٹلر کی نسل پرستی کا جنون دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جرمنی پر امریکا کا فوجی حصار اب بھی موجود ہے۔
اگر فسطائیت کو لغوی معنی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے خاصے وسیع و عریض معنی ہیں، یعنی ظلم، زیادتی، امرا کا استبدادی طریقہ کار، بادشاہت کا طرہ امتیاز، اشرافیہ کا چھوٹی اور مغلوب ذاتوں کے ساتھ رویہ، رعب دبدبہ، انسانی اصولوں کے خلاف اور انسانی اقدار کو مسخ کرنے کے رسم و رواج، حکمرانوں، نوابوں، سرداروں کا جاہ و جلال جو اپنے سے کم حیثیت لوگوں سے روا رکھا جاتا ہے اور آج بھی گاؤں دیہات اور گھروں میں کام کرنے والی کتنی ہی عورتیں ان رویوں سے دل برداشتہ ہیں، رہ گیا چند لوگوں کا معاملہ تو یہ استثنیٰ تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ یہ دنیا کبھی بھی صاحبان حق، فرض شناس اور رحم دل لوگوں سے خالی نہیں رہی، فرعونیت جب عروج پر تھی تو حضرت موسیٰ نے اسے ختم کیا اور پھر جب موسیٰ کی امت بے راہ رو ہونے لگی تو حضرت عیسیٰ نے اصلاح امت کی مگر ہر دور میں انسانی تہذیب، فن و حرفت، حکمت آگے بڑھتی رہی۔ اگر دیکھا جائے تو جدید اصطلاح جو ہٹلر، مسولینی کی شکل میں تاریخ عالم پر نمودار ہوئیں تو ان کو فسطائی قوت کے طور پر یاد کیا جاتا رہا۔
ہمارے آخری نبی حضرت محمد کے دور میں جب عرب میں طاغوتی قوتیں سر اٹھانے لگیں تو مالک ارض و سما نے انھیں اس دنیا کی رہنمائی اور انسانی عظمت کا چراغ دے کر بھیجا اور اس کرہ ارض پر ایک سیاہ فام بلال حبشی سے یہ اذان دلائی جس کی ابتدا یوں کی کہ ''اﷲ اکبر'' یعنی پرستش اور قدم بوسی کے لیے کوئی شخص لائق رکوع و سجود نہیں، صرف خدا کی ذات بڑی ہے، ہر شخص برابر ہے۔ یہ برابری اور برادری کا سبق تاریخ میں پہلا سبق تھا جس سے تہذیب و تمدن نے اپنا نیا سفر شروع کیا۔ قابل تعظیم وہ انسان ہے جو کردار اور شرافت میں افضل ہے مگر لائق عبادت نہیں۔ غرض قدیم اور جدید کی جنگ آج سے نہیں بلکہ قدیم ہے اور جدیدیت کے تقاضے بدلتے رہیں گے مگر اخلاقی انسانی اقدار، سچائی اور اس کے ساتھ انسانی عظمت کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ استبدادی قوتوں کو اور ان کے ماننے والوں اور عمل کرنے والوں کے لیے انگریزی زبان نے فاشسٹ کی اصطلاح وضع کی اور اس فلسفے پر عمل کرنے والوں کے خیالات کو فاشزم سے تعبیر کیا جانے لگا۔
درحقیقت یہ جنگ بلند بینی اور تنگ نظری کے درمیان رسہ کشی کی جنگ ہے اور یہ جنگ بڑی پیچیدہ جنگ ہے کیونکہ اس کا معاشرت سے بڑا گہرا تعلق ہے اور اس کے اثرات پوری سوسائٹی پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اسی برصغیر میں لڑکیوں کی تعلیم کو برا سمجھا جاتا تھا خصوصاً مسلمان لڑکیوں کو محض ابتدائی تعلیم اور قرآن شریف پڑھایا جاتا تھا۔ 1830 کے بعد انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے قدم جمانے شروع کیے تو انھوں نے دو طرفہ جنگ چھیڑی، ایک تو فوجی دوسری جانب لوگوں کی ذاتی آزادی کو ابھارا تاکہ نوابی اور جاگیرداری سماج میں جکڑے لوگوں کو ان نوابوں، راجاؤں کے خلاف سازش تیار کرنا۔ ہندوؤں میں ستی کی رسم رائج تھی، ایک تاریخی حوالہ : جب راجہ داہر کی بیوی کو معلوم ہوا کہ محمد بن قاسم کو واپس بلا لیا گیا ہے اور سندھ کا نیا گورنر آرہا ہے تو اس نے شہر کی تقریباً آٹھ سو عورتوں کو اپنے ساتھ نذر آتش کردیا تھا، گوکہ 1850 تک یہ رسم مقبول نہ تھی مگر زبردستی مرد کی موت کے بعد اس کے ساتھ عورت کو نذرآتش کیا جاتا تھا۔
انگریز جہاں قبضہ کرتے تھے یہ رسم متروک کرتے جاتے تھے اور ملک کی خاموش ہندو عورتوں کی اکثریت انگریزوں کی حامی بنتی جارہی تھی۔ گویا غلط رسم و رواج کو روکنے والوں پر یقیناً ترقی پسندی کی اصطلاح لاگو ہوتی ہے، لوگ جینا چاہتے ہیں، خوشی، ترقی اور اچھی زندگی چاہتے ہیں۔ جب برصغیر میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو 1857 سے تقریباً دس بارہ برس قبل امریکا کے صدر ابراہام لنکن نے غلامی کے قانون کو ختم کردیا تو اشرافیہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ فوجی بغاوت بھی ہوئی مگر ابراہام لنکن نے عوامی اور فوجی قوت سے اس جنگ کو فتح میں تبدیل کردیا۔ ایسے رہنما ہی ملک کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ اصلاحات اور ترقی پسندی کے بنیادی اصول اور باریک بینی سے ان کا مطالعہ ہی عوامی شعور کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی سمت لے جاتا ہے۔ سماجی، معاشرتی اصلاحات ہی معاشی اصلاحات کا پیش خیمہ ہے۔ بدامنی، نسل پرستی، مباحثوں کا خاتمہ اور استدلال کی موت، درحقیقت معاشرے کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
جرمنی کو ہی دیکھ لیں، ہٹلر کی نسل پرستی کا جنون دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جرمنی پر امریکا کا فوجی حصار اب بھی موجود ہے۔ ماضی کے آئینے پر گو کہ کافی گرد جمع ہوگئی ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ تو دکھائی دے رہا ہے اور آپ کو سرسید احمد خان اور مرزا غالب کی فکر کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ غالب میں قدامت پرستی کتنی تھی اور سرسید احمد خان میں کس قدر اور زاویہ نگاہ کا اندازہ یہ الگ بات ہے کہ شاعر ہونے کے ناتے غالب کو ان کا فکری مقام ہمارے ملک میں نہ ملا، جو ان کا حق تھا۔
غالب سرسید احمد خان کی فکری تربیت کے استاد تھے، انگریزوں کے خوشامدی نہ تھے ورنہ غربت میں ان کی زندگی عشرت میں نہ گزرتی بلکہ وہ میر انیس کے اس مصرع کی تصویر تھے، سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو۔ سرسید احمد خان نے جب اپنی تصنیف ''آثار الصنادید'' مکمل کرلی تو غالب کے پاس پہنچے کہ اس پر کوئی تبصرہ فرمادیں۔ مسلمانوں کی بنائی ہوئی قدیم عمارتیں، نمونہ جات، محلات اور کیا کیا تعریفیں تھیں۔ غالب نے ایک جائزہ لیا اور فرمایا کہ سید صاحب آپ کو کیا ہوگیا ہے، دیکھتے نہیں ریل کی پٹریاں پڑ رہی ہیں، دخانی انجن (Steam Engine) چلنے کو ہیں، ان کے مقابلے میں یہ عمارتیں کجا، ترقی کا راستہ اختیار کیجیے، نئے اذہان پیدا کیجیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کا مرکزی خیال غالب نے سرسید کو عطا کیا بلکہ انگریزی تعلیم کی روشنی کی طرف اشارہ کیا جس کو طنزاً اکبر الہ آبادی نے یوں کہا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
گو کہ اکبر کا شعر طنز کا مرقع ہے مگر اس شعر سے معاشرتی تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے، اس میں تہذیبی اور تعلیمی ارتقا کا احساس نمایاں ہے مگر ہم اگر غالب کے اس شعر کی روح کا تجزیہ کریں تو غالب کی جدیدیت اور ترقی پسندی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے تو کلیسا میرے آگے
غالب کے لیے یہ بڑا کٹھن دور تھا کہ کس طرح وہ انگریزی کی ریل کی پٹریاں، کیبل سسٹم، تار گھر اور رسل و رسائل کی ترقی سے خود کو دور رکھیں، اس کے بعد ہی سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی جانب رجوع کیا اور جدید دور کی تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کیا، گویا ایک شاعر کیسے کسی رہنما کو قائل کرتا ہے تو رہنما کیسے ترقی پسندی کا سفر طے کرتا ہے۔ ملک سے مباحثوں کا الوداع ہونا، تخربی سیاست اور زر پرستی کی تحریکوں کا زور پکڑنا غریبوں کی زندگی کو نئے اقسام کی غلامی میں جکڑ دینا، یہ سب سرمایہ دارانہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ ابھی چند روز قبل بھارت نے 35 سے 40 ارب ڈالر کے راشن کارڈ غریبوں میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگر جب عمل کی باری آئی تو رقم نصف کردی گئی، غرض سرمایہ دارانہ جمہوریت عوام کو کچھ دینے سے قاصر ہے۔ رہ گیا پاکستان، یہاں تو جمہوری حکومتیں عوام کو پانی اور بجلی دینے سے قاصر ہے، دوسرا ستم یہ کہ فاشزم کی پرورش میں مصروف عمل ہے جو جماعتیں خود کو جمہوریت پسند ترقی پسند کہلاتی ہیں وہ حقیقت میں اس پر عمل پیرا نہیں بلکہ پھر طرفہ تماشا یہ کہ ان کو حیرانی ہے کہ دہشت گردی کون کر رہا ہے۔
اس دور میں عورتوں کو ڈرا کر نوشہرہ جیسے شہر میں انتخابی عمل سے خواتین کو محروم کردیا جاتا ہے جو کبھی امن کا گہوارہ تھا، باقاعدگی سے کھلے عام دھمکی دی جاتی ہے کہ عورتیں ووٹ نہ ڈالیں اور الیکشن کمیشن ووٹنگ جاری رکھتا ہے اور نتائج کا اعلان بھی کردیا جاتا ہے۔ ان بڑھتے ہوئے فسطائی خیالات کے خلاف انجمن ترقی پسند مصنفین سندھ کا یونٹ خاصا سرگرم نظر آرہا ہے۔ چھوٹے بڑے جلسوں کا انعقاد، ادبی نشستوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ہفتہ 24 ستمبر حیدر آباد سندھ پریس کلب میں ایک بڑا ادبی اجتماع فاشزم کے موضوع پر ڈاکٹر مظہر حیدر نے منعقد کرایا، جس کا اہتمام تاج بلوچ نے کیا، پشاور، کراچی، سندھ کے شہروں اور ملتان کے قلم کار شریک ہوئے، مقالات اور نمایاں مضامین پڑھنے والوں میں پشاور سے سلیم راز، کراچی سے مسلم شمیم، ڈاکٹر جمال نقوی قابل ذکر تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قلم کا پرچم شہروں میں کب لہراتا ہے اور فسطائیت کا عفریت قلم کی نوک سے سر کب قلم ہوتا ہے؟ ابھی تو فاشزم کے شیدائی گورکنوں کے ساتھ رقص کناں ہیں۔
ہمارے آخری نبی حضرت محمد کے دور میں جب عرب میں طاغوتی قوتیں سر اٹھانے لگیں تو مالک ارض و سما نے انھیں اس دنیا کی رہنمائی اور انسانی عظمت کا چراغ دے کر بھیجا اور اس کرہ ارض پر ایک سیاہ فام بلال حبشی سے یہ اذان دلائی جس کی ابتدا یوں کی کہ ''اﷲ اکبر'' یعنی پرستش اور قدم بوسی کے لیے کوئی شخص لائق رکوع و سجود نہیں، صرف خدا کی ذات بڑی ہے، ہر شخص برابر ہے۔ یہ برابری اور برادری کا سبق تاریخ میں پہلا سبق تھا جس سے تہذیب و تمدن نے اپنا نیا سفر شروع کیا۔ قابل تعظیم وہ انسان ہے جو کردار اور شرافت میں افضل ہے مگر لائق عبادت نہیں۔ غرض قدیم اور جدید کی جنگ آج سے نہیں بلکہ قدیم ہے اور جدیدیت کے تقاضے بدلتے رہیں گے مگر اخلاقی انسانی اقدار، سچائی اور اس کے ساتھ انسانی عظمت کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ استبدادی قوتوں کو اور ان کے ماننے والوں اور عمل کرنے والوں کے لیے انگریزی زبان نے فاشسٹ کی اصطلاح وضع کی اور اس فلسفے پر عمل کرنے والوں کے خیالات کو فاشزم سے تعبیر کیا جانے لگا۔
درحقیقت یہ جنگ بلند بینی اور تنگ نظری کے درمیان رسہ کشی کی جنگ ہے اور یہ جنگ بڑی پیچیدہ جنگ ہے کیونکہ اس کا معاشرت سے بڑا گہرا تعلق ہے اور اس کے اثرات پوری سوسائٹی پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اسی برصغیر میں لڑکیوں کی تعلیم کو برا سمجھا جاتا تھا خصوصاً مسلمان لڑکیوں کو محض ابتدائی تعلیم اور قرآن شریف پڑھایا جاتا تھا۔ 1830 کے بعد انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے قدم جمانے شروع کیے تو انھوں نے دو طرفہ جنگ چھیڑی، ایک تو فوجی دوسری جانب لوگوں کی ذاتی آزادی کو ابھارا تاکہ نوابی اور جاگیرداری سماج میں جکڑے لوگوں کو ان نوابوں، راجاؤں کے خلاف سازش تیار کرنا۔ ہندوؤں میں ستی کی رسم رائج تھی، ایک تاریخی حوالہ : جب راجہ داہر کی بیوی کو معلوم ہوا کہ محمد بن قاسم کو واپس بلا لیا گیا ہے اور سندھ کا نیا گورنر آرہا ہے تو اس نے شہر کی تقریباً آٹھ سو عورتوں کو اپنے ساتھ نذر آتش کردیا تھا، گوکہ 1850 تک یہ رسم مقبول نہ تھی مگر زبردستی مرد کی موت کے بعد اس کے ساتھ عورت کو نذرآتش کیا جاتا تھا۔
انگریز جہاں قبضہ کرتے تھے یہ رسم متروک کرتے جاتے تھے اور ملک کی خاموش ہندو عورتوں کی اکثریت انگریزوں کی حامی بنتی جارہی تھی۔ گویا غلط رسم و رواج کو روکنے والوں پر یقیناً ترقی پسندی کی اصطلاح لاگو ہوتی ہے، لوگ جینا چاہتے ہیں، خوشی، ترقی اور اچھی زندگی چاہتے ہیں۔ جب برصغیر میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو 1857 سے تقریباً دس بارہ برس قبل امریکا کے صدر ابراہام لنکن نے غلامی کے قانون کو ختم کردیا تو اشرافیہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ فوجی بغاوت بھی ہوئی مگر ابراہام لنکن نے عوامی اور فوجی قوت سے اس جنگ کو فتح میں تبدیل کردیا۔ ایسے رہنما ہی ملک کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ اصلاحات اور ترقی پسندی کے بنیادی اصول اور باریک بینی سے ان کا مطالعہ ہی عوامی شعور کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی سمت لے جاتا ہے۔ سماجی، معاشرتی اصلاحات ہی معاشی اصلاحات کا پیش خیمہ ہے۔ بدامنی، نسل پرستی، مباحثوں کا خاتمہ اور استدلال کی موت، درحقیقت معاشرے کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
جرمنی کو ہی دیکھ لیں، ہٹلر کی نسل پرستی کا جنون دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جرمنی پر امریکا کا فوجی حصار اب بھی موجود ہے۔ ماضی کے آئینے پر گو کہ کافی گرد جمع ہوگئی ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ تو دکھائی دے رہا ہے اور آپ کو سرسید احمد خان اور مرزا غالب کی فکر کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ غالب میں قدامت پرستی کتنی تھی اور سرسید احمد خان میں کس قدر اور زاویہ نگاہ کا اندازہ یہ الگ بات ہے کہ شاعر ہونے کے ناتے غالب کو ان کا فکری مقام ہمارے ملک میں نہ ملا، جو ان کا حق تھا۔
غالب سرسید احمد خان کی فکری تربیت کے استاد تھے، انگریزوں کے خوشامدی نہ تھے ورنہ غربت میں ان کی زندگی عشرت میں نہ گزرتی بلکہ وہ میر انیس کے اس مصرع کی تصویر تھے، سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو۔ سرسید احمد خان نے جب اپنی تصنیف ''آثار الصنادید'' مکمل کرلی تو غالب کے پاس پہنچے کہ اس پر کوئی تبصرہ فرمادیں۔ مسلمانوں کی بنائی ہوئی قدیم عمارتیں، نمونہ جات، محلات اور کیا کیا تعریفیں تھیں۔ غالب نے ایک جائزہ لیا اور فرمایا کہ سید صاحب آپ کو کیا ہوگیا ہے، دیکھتے نہیں ریل کی پٹریاں پڑ رہی ہیں، دخانی انجن (Steam Engine) چلنے کو ہیں، ان کے مقابلے میں یہ عمارتیں کجا، ترقی کا راستہ اختیار کیجیے، نئے اذہان پیدا کیجیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کا مرکزی خیال غالب نے سرسید کو عطا کیا بلکہ انگریزی تعلیم کی روشنی کی طرف اشارہ کیا جس کو طنزاً اکبر الہ آبادی نے یوں کہا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
گو کہ اکبر کا شعر طنز کا مرقع ہے مگر اس شعر سے معاشرتی تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے، اس میں تہذیبی اور تعلیمی ارتقا کا احساس نمایاں ہے مگر ہم اگر غالب کے اس شعر کی روح کا تجزیہ کریں تو غالب کی جدیدیت اور ترقی پسندی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے تو کلیسا میرے آگے
غالب کے لیے یہ بڑا کٹھن دور تھا کہ کس طرح وہ انگریزی کی ریل کی پٹریاں، کیبل سسٹم، تار گھر اور رسل و رسائل کی ترقی سے خود کو دور رکھیں، اس کے بعد ہی سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی جانب رجوع کیا اور جدید دور کی تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کیا، گویا ایک شاعر کیسے کسی رہنما کو قائل کرتا ہے تو رہنما کیسے ترقی پسندی کا سفر طے کرتا ہے۔ ملک سے مباحثوں کا الوداع ہونا، تخربی سیاست اور زر پرستی کی تحریکوں کا زور پکڑنا غریبوں کی زندگی کو نئے اقسام کی غلامی میں جکڑ دینا، یہ سب سرمایہ دارانہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ ابھی چند روز قبل بھارت نے 35 سے 40 ارب ڈالر کے راشن کارڈ غریبوں میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگر جب عمل کی باری آئی تو رقم نصف کردی گئی، غرض سرمایہ دارانہ جمہوریت عوام کو کچھ دینے سے قاصر ہے۔ رہ گیا پاکستان، یہاں تو جمہوری حکومتیں عوام کو پانی اور بجلی دینے سے قاصر ہے، دوسرا ستم یہ کہ فاشزم کی پرورش میں مصروف عمل ہے جو جماعتیں خود کو جمہوریت پسند ترقی پسند کہلاتی ہیں وہ حقیقت میں اس پر عمل پیرا نہیں بلکہ پھر طرفہ تماشا یہ کہ ان کو حیرانی ہے کہ دہشت گردی کون کر رہا ہے۔
اس دور میں عورتوں کو ڈرا کر نوشہرہ جیسے شہر میں انتخابی عمل سے خواتین کو محروم کردیا جاتا ہے جو کبھی امن کا گہوارہ تھا، باقاعدگی سے کھلے عام دھمکی دی جاتی ہے کہ عورتیں ووٹ نہ ڈالیں اور الیکشن کمیشن ووٹنگ جاری رکھتا ہے اور نتائج کا اعلان بھی کردیا جاتا ہے۔ ان بڑھتے ہوئے فسطائی خیالات کے خلاف انجمن ترقی پسند مصنفین سندھ کا یونٹ خاصا سرگرم نظر آرہا ہے۔ چھوٹے بڑے جلسوں کا انعقاد، ادبی نشستوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ہفتہ 24 ستمبر حیدر آباد سندھ پریس کلب میں ایک بڑا ادبی اجتماع فاشزم کے موضوع پر ڈاکٹر مظہر حیدر نے منعقد کرایا، جس کا اہتمام تاج بلوچ نے کیا، پشاور، کراچی، سندھ کے شہروں اور ملتان کے قلم کار شریک ہوئے، مقالات اور نمایاں مضامین پڑھنے والوں میں پشاور سے سلیم راز، کراچی سے مسلم شمیم، ڈاکٹر جمال نقوی قابل ذکر تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قلم کا پرچم شہروں میں کب لہراتا ہے اور فسطائیت کا عفریت قلم کی نوک سے سر کب قلم ہوتا ہے؟ ابھی تو فاشزم کے شیدائی گورکنوں کے ساتھ رقص کناں ہیں۔