آگے کچھ نہ تھا
توانائی کے بحران نے پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔
KARACHI:
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنا منصب سنبھالنے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد اور عین ضمنی انتخابات سے دو روز قبل قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کم و بیش انھی باتوں کو دہرایا ہے جو اپنی انتخابی مہم کے دوران منعقدہ جلسوں کی کئی تقاریر میں متعدد بار کہہ چکے ہیں۔ دہشت گردی کی بیخ کنی، امن وامان کے قیام، عسکریت پسندوں سے مذاکرات، بلوچستان کی بدامنی، لوڈشیڈنگ کے خاتمے، انتظامی مشنری کی خامیوں، ڈرون حملوں کی روک تھام ودیگر مسائل کے حوالے سے انھوں نے قوم کو روایتی انداز میں یقین دہانیاں کراتے ہوئے کہا کہ وہ ہروز بچوں کے جنازے اٹھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ وزیر اعظم نے عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی طاقت کے استعمال یا مذاکرات ہر دو صورت میں وہ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میاں صاحب نے بلوچستان میں جاری قتل و غارت روکنے اور کراچی میں بدامنی ولاقانونیت کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار کیا۔
توانائی کے بحران نے پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے 5 سال کا ٹائم فریم دیتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت اپنی 5 سالہ آئینی مدت تک ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردے گی۔ گویا ابھی نصف عشرے تک 18 کروڑ عوام کو اندھیرے و اجالے کی آنکھ مچولی کا کھیل برداشت کرنا پڑے گا۔ عوام ایک دوسرے سے حیرت زدہ ہوکر پوچھ رہے ہیں کہ کیا واقعی پانچ سال بعد انھیں لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائے گی؟ ''کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا''۔ وزیر اعظم نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے اپنے خطاب میں بجا طور پر کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کو ماضی میں لڑی جانے والی جنگوں نے برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے عوام کو غربت، جہالت، پسماندگی کے اندھیروں سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرے۔ وزیر اعظم نے امریکی ڈرون حملوں پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے ملکی سلامتی و خودمختاری کے خلاف قرار دیا۔
اگرچہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں دہشت گردی سے لے کر توانائی بحران تک اور داخلی بحرانوں سے لے کر خارجہ امور تک بیشتر مسائل و مشکلات کا اپنی تقریر میں بڑی فکر مندی کے ساتھ تذکرہ کیا لیکن قوم کو درپیش بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی حکومت کی پالیسی اور روڈ میپ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے سنجیدہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں وزیر اعظم کی تقریر پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔وزیر اعظم کو اپنے ماضی کے حکومتی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کو درپیش مسائل کے حل کے ضمن میں ایک واضح لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہیے تھا جیساکہ قوم ان سے توقع کر رہی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمے اور توانائی کے بحران کے حل کے ضمن میں اپنے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق پہلے خطاب میں ضرور اپنی حکومت کی واضح حکمت عملی قوم کے سامنے رکھیں گے لیکن وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں اپنے دعوؤں اور وعدوں کا اعادہ کرنا ہی کافی سمجھا جس سے قوم کو مایوسی ہوئی۔
دہشت گردی اس وقت ملک کا سب سے سنگین، پیچیدہ اور خوفناک مسئلہ ہے ملک کے چاروں صوبوں بالخصوص کراچی، کوئٹہ اور پشاور کو دہشت گردی کے عفریت نے جکڑ رکھا ہے جس سے پوری قوم انجانے خوف، عدم تحفظ، اضطراب اور پریشانی میں مبتلا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے نہ صرف حوصلے بلند ہورہے ہیں بلکہ امن کے ضامن اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث شدت پسند عناصر کی خونریز کارروائیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوتا ہوا جیلوں اور میڈیا ہاؤسز پر حملوں تک پھیل گیا ہے۔ بنوں جیل اور پھر ڈی جی جیل پر حملوں سے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ قوم کو لمحہ بہ لمحہ آگاہی فراہم کرنے کے حوالے سے میڈیا جو ذمے دارانہ کردار ادا کر رہا ہے اور جس طرح دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کی جارہی ہے وہ عسکریت پسندوں کو ناگوار گزرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے اور عوام میں اپنا اعتبار واعتماد قائم کرنے والے معروف ادارے ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے کراچی میں واقع دفتر پر بھی دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے اپنا غصہ اتارا۔ صحافت کی قومی و عالمی تنظیموں کی جانب سے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا لیکن افسوس کہ آج تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جو انتظامی نااہلی کا مظہر ہے۔ ضمنی انتخابات کے دن پولنگ کے دوران تو کوئی قابل ذکر ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تاہم رات 10 بجے کے لگ بھگ کورنگی کراچی میں پاک فوج کے ٹرک پر حملہ کیا گیا جس میں دو فوجی جوان شہید ہوگئے جو یقینا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ تحریک طالبان نے اس ذمے داری کو قبول کرکے گویا وزیر اعظم کی مذاکرات کی دعوت کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔
حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے یوں تو بڑی جذباتی نظر آتی ہے جیساکہ وزیر اعظم نے بڑے دلگیر لہجے میں اپنے خطاب میں کہا کہ وہ بچوں کے جنازے اٹھتے نہیں دیکھ سکتے لیکن تین ماہ ہونے والے ہیں حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے قومی اتفاق رائے حاصل کرنے، ایک واضح سیکیوریٹی پالیسی کی تشکیل کے لیے اعلان کے باوجود، آل پارٹی کانفرنس بلانے میں کامیاب نہ ہوپائی۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں حکومت میںتذبذب کی کیفیت اور سیکیوریٹی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور ربط و تعاون کا فقدان ہے۔ بعینہ شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار کے حوالے سے مختلف حکومتی اداروں کی سطح پر اختلافات پائے جاتے ہیں ان کے نکتہ نظر میں تضاد ہے۔ حکومت مذاکرات کے ذریعے جب کہ دیگر ادارے طاقت کے ذریعے رٹ قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ بہرحال وزیراعظم نے شدت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دے کر گیند بظاہر ان کے کورٹ میں پھینک دی ہے لیکن یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔
جہاں تک توانائی کے بحران اور ملک بھر میں جاری گیس و بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے حکومت کے تمام وعدے اور دعوے اب تک نقش برآب ثابت ہوئے، 500 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے باوجود لوڈشیڈنگ میں بجائے کمی کے مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور گردشی قرضوں کا گراف دوبارہ اونچا ہوتا جارہا ہے۔ انرجی بحران کے باعث صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ نتیجتاً ملک کی معاشی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ کشکول گدائی توڑنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ عوام کے دیرینہ مسائل غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور پسماندگی کے خاتمے کے حوالے سیحکمران اپنے خطاب میں کوئی واضح پروگرام نہ دے سکے جس سے عوام کو مایوسی ہوئی۔ بہرحال وزیراعظم کا خطاب محض روایتی دعوؤں اور وعدوں سے آگے کچھ نہ تھا۔