بھارت لڑکیوں کے لیے جہنم
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں چند دن گزارنے والی مشائلہ کراس کے لیے یہ وقت بہت اذیت میں گزرا۔
لڑکیوں کے لیے کیا بھارت جہنم بن چکا ہے؟ اگر یہ سوال ہے تو اس کا جواب ایک امریکی طالبہ نے دیا ہے۔ خواتین کے لیے ہندوستان کو جہنم قرار دینے والی طالبہ مطالعاتی دورے پر گئی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں چند دن گزارنے والی مشائلہ کراس کے لیے یہ وقت بہت اذیت میں گزرا۔ مسلسل ہراساں کیے جانے پر دنیا کے آزاد ملک سے آنے والی نوجوان اور صحت مند لڑکی مریضہ بن گئی۔ شکاگو واپس جاکر یونیورسٹی سے چھٹی لے کر بھارت کا دورہ کرنے والی طالبہ اب اپنا نفسیاتی علاج کرا رہی ہے۔ امریکی لڑکی کو بھارتی لڑکوں نے کس طرح ہراساں کیا؟ اس بات سے پہلے ہم دو نقاب اٹھاتے ہیں۔
خواتین کی آزادی کے لیے کام کرنے والی ''حقوق نسواں'' کی چیمپئن این جی اوز اور بھارت کی نقالی کرتے الیکٹرانک میڈیا کے لیے اس میں سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ''عورت معاشرے میں کس طرح رہے گی؟'' اس ایک سوال کے گرد معاشرے پرسکون ہوتے ہیں اور ان میں خواتین کا احترام ہوتا ہے، اگر سوال کا صحیح جواب دے دیا جائے۔ اگر جواب غلط ہو تو معاشرے بے سکون اور ہیجان انگیز ہوجاتے ہیں۔ بالکل پابندی اور شتر بے مہار آزادی۔ خواتین کو کس ڈگر پر چلنا چاہیے؟ کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ افغان معاشرے کی گھٹن و حبس یا مغرب کی بے باک آزاد ہوائیں یا ان دونوں کے وسط میں کوئی راستہ ہے؟
ٹی وی پر آنے والی خواتین کے انداز کا ردعمل فوراً ہی دنیا بھر کے بڑے شہروں کے پوش علاقوں کی مارکیٹوں میں خریداری کرتی عورتوں میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ تنگ جینز، کھلے بلاؤز اور بغیر آستین والی قمیض۔ دوسری طرف فیشن شوز، ٹی وی ڈراموں، خواتین کے مارننگ شوز اور کیٹ واک میں شریک ہونے والی لڑکیاں۔ تیسری جانب ان کا بھارتی انداز کی آنکھیں بند کرکے نقل کرنا اور ان کے رنگ میں رنگنے کی بے تابیاں۔ چوتھی جانب بھارتی ناریوں کے انداز میں پہننا اوڑھنا، اٹھنا بیٹھنا، آنا جانا اور چلنا پھرنا۔ پانچویں جانب یہ خواہش روکے نہیں رکتی کہ ہر جملے میں ہندی کا ایک آدھ لفظ استعمال کرکے اپنے آپ کو لبرل، آزاد خیال، سیکولر اور روشن خیال ثابت کیا جائے۔
اس سے پہلے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور آزادی پسند خواتین اندھادھند بھارتی فلموں اور ڈراموں کی نقل کریں، لازمی ہے کہ اس امریکی لڑکی اور اس کی ساتھی طالبات کے خیالات جان لیں جو وہاں کا دورہ کرکے آئی ہیں۔ آزاد خیال ملک امریکا کی ایک یونیورسٹی کی نوجوان طالبہ اس معاشرتی رویے کو برداشت نہ کرسکی تو پاکستان کے مشرقی معاشرے میں پلنے بڑھنے والی لڑکی اسے کیسے برداشت کرسکے گی؟ پاکستانی لڑکی خواہ باہر سے کتنی ہی آزاد خیال کیوں نہ ہوجائے، اس کے اندر کا مشرقی پن اسے ایک حد سے آگے نہ جانے دے گا۔ جب بگڑے نوجوانوں کی فحش یلغار کو نہ ہندوستانی ناری برداشت کرپا رہی ہے اور نہ گوری میم تو پاکستانی لڑکی کیا برداشت کرپائے گی۔ اگر پاکستانی لڑکیاں بھارتی معاشرے کی نقل کرتی رہیں تو ہم کس طرح پاکستانی لڑکوں کو ہندوستانی اوباشوں کی نقل سے روک سکیں گے؟ آئیے دیکھیں کہ امریکی لڑکی کے ساتھ انڈین یوتھ کا کیا رویہ تھا۔
میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ مسافر بس میں اجتماعی زیادتی کے خوفناک واقعے سے چند دن قبل مشائلہ اور اس کی ساتھی طالبات نئی دہلی پہنچی تھیں۔ امریکی طالبہ نے بھارت میں قیام کے دوران پیش آنے والے ناخوشگوار تجربے کو تحریری شکل میں ویب سائٹ پر جاری کیا جسے اب تک ایک ملین لوگ پڑھ چکے ہیں۔ بھارتی شہر پونے میں آمد کے بعد پہلی رات انھیں ایک تہوار میں شرکت کا موقع ملا جہاں کچھ مرد اور خواتین رقص کر رہے تھے۔ طالبہ کے رقص میں شامل ہونے پر بھارتی نوجوانوں نے بس کو چھوڑ کر ان کی وڈیو بنانا شروع کردی۔ پونا میں ایک موقع پر ساڑھیوں کی خریداری کے دوران بھارتی نوجوانوں نے ان کو ہراساں کیا ۔
یہ ہیں آدھے واقعات جو امریکی لڑکی نے بھارتی لڑکوں کے بارے میں بیان کیے ہیں۔امریکی لڑکی کی یہ برداشت ہے۔ جب آزاد خیال اور ماڈرن ملک کی لڑکی یہ کچھ برداشت نہ کرسکی تو سوچیں کہ بھارتی ناریاں اس معاشرے میں اپنا گزارا کس طرح کرتی ہوں گی؟ اس کی ایک جھلک ہم دہلی میں میڈیکل کالج کی طالبہ سے بس میں زیادتی کے واقعے کے بعد دیکھ چکے ہیں۔ بھارتی خواتین بپھر چکی ہیں اور وہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ نوجوانوں کو لگام دی جائے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کون سا نظام ہے جو اس طرح کے نوجوانوں کے دماغ کو درست کرسکتا ہے۔ حفیظ جالندھری کے اس شعر کے بعد ہم امریکی طالبہ کی بات کو مکمل کریں گے کہ جوتوں کی خریداری اور اس کے بعد دو دن تک دو مرتبہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔
حسیں جلوہ ریز ہوں، ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطربیز ہوں تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
کالم کے شروع میں ہم نے کہا تھا کہ سماج کی پرسکونی یا ہیجان انگیزی کا انحصار اس سوال پر ہے کہ عورت معاشرے میں کس کس طرح رہے گی؟ اسی سوال کے جواب کے بعد اس کی عزت و احترام کی حدود متعین ہوں گی۔ اس سب کچھ کے بعد طے ہوگا کہ جو کوئی عورت کی بے حرمتی کرے گا اس کی چمڑی ادھیڑ دی جائے گی یا اس سے ہمدردی کی جائے گی؟ میٹھے پانی کے چشمے پر بیٹھے پیاسے جب کڑوے پانی کے سمندروں کی طرف للچائی بھری نظروں سے دیکھیں تو کوئی کیا کرے۔ آئیے! امریکی طالبہ کے مزید دو واقعات کے بعد مسئلے کے حل کی جانب آتے ہیں۔
پونا میں پون گھنٹے تک جوتوں کی خریداری کے دوران امریکی طالبہ کو بھارتی نوجوانوں نے گھیرے رکھا۔ وہ کہتی ہے کہ میں انتہائی خوفزدہ ہوگئی تھی۔ تین ماہ کے دوران بھارتی مردوں کی طرف سے ان کو دیکھ کر ناقابل برداشت نازیبا حرکات معمول کی بات تھی۔انھوں نے بتایا کہ بھارت میں قیام کے دوران انھیں اڑتالیس گھنٹے کے دوران دو مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جب صورتحال برداشت سے باہر ہوگئی تو انھیں اپنے اساتذہ کو اس سے آگاہ کرنا پڑا''۔ بھارتی نوجوان ایسا کیوں ہوگیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم شروع میں دے چکے ہیں۔ ایک طرف بھارتی فلموں میں آوارگی، فحاشی، بے باکی و عریانی اور ان کی نقل کرتی بھارتی ناریاں۔ جب وہ بے ہودہ لباس پہن کر کالجوں، دفتروں اور مخلوط پارٹیوں میں جاتی ہیں تو اس سے نوجوانوں میں ہیجان اور اشتعال پھیلتا ہے۔ فلمی اداکاراؤں کے اسٹاف اور معیار زندگی کی بدولت تو کوئی ان کے قریب نہیں آتا لیکن ان کی عقل کے بغیر نقل کرتی غریب لڑکیاں ماری جاتی ہیں۔
''مساوات مرد و زن'' کی علمبردار پاکستانی خواتین کہتی ہیں کہ عورت خواہ کیسا بھی لباس پہنے، انداز اور ''بدن بولی'' جیسی بھی ہو یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ مردوں کو اپنے آپ پر قابو پانا چاہیے۔ یاد رکھیے! مرد کی ''بدمعاش فطرت'' کو صرف دو چیزیں روک سکتی ہیں۔ اس سوال کا جواب دین فطرت سے بہتر کسی نے دیا ہے تو آزاد خیال دانشور پیش کرسکتے ہیں۔ عیسائی، ہندو، بے خدا، بدھ مت تہذیب، کہیں سے بھی دلائل لے آئیں اندازہ ہے کہ وہ ناکام ہوں گے۔
رشتے اور سزا۔ اسلام مرد کی بپھری اور بے قابو فطرت کو دو طریقے سے قابو پانے کی تجویز دیتا ہے۔ اسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے رشتوں میں جکڑ دو۔ بہتر تربیت ہے تو ٹھیک ہے اور اگر کسر رہ گئی ہے تو اس کی چمڑی ادھیڑ کر اس کا دماغ درست کردو تاکہ ارادہ رکھنے والے بھی باز آجائیں۔ مغرب کے ایجنڈے پر چلنے والی این جی اوز عورت کو مہذب اور شائستہ انداز اختیار کرنے کا مشورہ نہیں دیتیں۔ جب عورت کی بے حرمتی کرنے والا ملزم پکڑا جاتا ہے تو اس سے ہمدردی کرتی ہیں اور کوڑوں کی سزا پر تنقید کرتی ہیں۔
کیا بھارت کی نقل کرتے الیکٹرانک میڈیا اور ماڈرن خواتین شکاگو کی طالبہ مشائلہ کے بیان کو مشعل راہ بنائیں گی؟ کیا ہم بھی اپنی دوشیزاؤں کو بھارتی ناریوں کی طرح کا لباس پہنا کر اور انداز دے کر اپنے نوجوانوں میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک بھی بن جائے پاکستانی لڑکیوں کے لیے جہنم؟