چیئرمین ایف بی آر نے موجودہ ٹیکس نظام کو ملکی معیشت کیلیے سنگین خطرہ قرار دیدیا 

ملک کے 22 کروڑ لوگوں میں سے 20 لاکھ سے بھی کم لوگ ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں، چیئرمین ایف بی آر


ویب ڈیسک May 31, 2019
ملک میں 20 لاکھ سے بھی کم لوگ ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں، چیئرمین ایف بی آر فوٹو: فائل

چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو شبر زیدی نے ٹیکس نظام کو ناقابل عمل قراردیتے ہوئے موجودہ ٹیکس نظام کو ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیدیا۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے وزیراعظم عمران خان کو ملکی معیشت کو درپیش خطرے سے تحریری طور پر آگاہ کرتے ہوئے 2 صفحات پر مشتمل خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ نظام آنے والی نسلوں کے لیے پائیدار نہیں ہے، ٹیکس وصولی کا نظام جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی کم ٹیکس اکٹھا کررہاہے، حقیقی آمدنی کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کیا جارہا ہے جب کہ ملک میں بڑے پیمانے پرغیر ٹیکس شُدہ دولت جمع ہوچکی ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کاروباری لوگوں اور اداروں کی بڑی تعداد ٹیکسیشن سسٹم میں شامل ہونے سے گریزاں ہے، ملک کے 22 کروڑ لوگوں میں سے 20 لاکھ سے بھی کم لوگ ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں، آبادی میں سے صرف ایک فیصد لوگ پوری ریاست کا بوجھ اٹھارہے ہیں، ملک میں صنعتی کنکشن رکھنے والوں کی تعداد 3 لاکھ 41 ہزارہے، ان میں سے صرف 40 ہزار افراد سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، رجسٹرڈ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتی ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے 31 لاکھ تاجروں میں سے 90 فیصد ٹیکس سسٹم سے باہر ہیں، 85 فیصد سے زائد ٹیکس ملک کی 300 کمپنیاں ادا کرتی ہیں، 75 فیصد سے زائد ٹیکس مینوفیکچرنگ سیکٹر سے اکٹھا کیا جارہا ہے جب کہ ملک کا مینوفیکچرنگ سیکٹر اور صنعتی شعبہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ روز وزیراعظم نے اپنے پیغام میں انہی معلومات کو بنیاد بنایا جو چئیرمین ایف بی آرنے فراہم کی تھیں، وزیراعظم نے قوم کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ کوئی بھی ملک اپنےعوام کی خدمت نہیں کر سکتا جب تک وہاں کے لوگ ٹیکس نہ دیں، 22 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک فیصد پاکستانی ٹیکس فائلر ہیں، یعنی ایک فیصد پاکستانی 22 کروڑ عوام کا بوجھ اٹھا رہے ہیں جو ناممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں