چپل مافیا اور سرکاری چپل
ہم نے سرکاری ملازمین اور سرکاری اداروں کا تو سن رکھا تھا لیکن ’سرکاری چپل‘ کا سن کر حیرت کی انتہا نہ رہی
آپ نے دنیا میں زمینی یا آسمانی آفتوں کی وجہ سے بہت سی اقسام کے متاثرین کا سن رکھا ہوگا، اور ممکن ہے کہ قارئین میں سے کسی نے ان کی امداد و تعاون کی مد میں اپنا جیب خرچ بھی ان کی خدمت میں پیش کیا ہو۔ لیکن آج ایک ایسے متاثرہ طبقے کی داستان آپ کے پیشِ خدمت ہے جس کی امداد اور تعاون میں بہت کم لوگ حصہ لیتے ہیں۔ اس متاثرہ تھکے ہارے شخص کو ننگے پاؤں مسجد کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر یہ تصور کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ شاید کوئی بھیک مانگنے والا بے چینی کی حالت میں کھڑا ہے۔
آج کل تو رمضان کا بابرکت مہینہ ہے، مسلمانوں کا رخ مساجد اور خانقاہوں کی طرف دوسرے مہینوں کی نسبت کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جہاں یہ بات دیکھنے کو ملی وہیں چپل مافیا نے بھی اپنا رخ مساجد کی طرف کرلیا ہے۔ اس بابرکت مہینے میں جہاں مساجد میں مسلمانوں کو یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں چپل مافیا ان کی توجہ اور یکسوئی میں روڑے اٹکانے میں مصروف رہتی ہے۔ جو شخص جتنے مہنگے جوتے پہن کر آیا ہے، اس کی توجہ اتنی ہی ان پر ہے۔
اکثر نماز کے بعد آپ کو مسجد کے دروازے پر چند لوگ ایسے ضرور ملتے ہوں گے جو کسی کی تلاش میں ہوتے ہیں، ہر گزرتے شخص کے پاؤں کی طرف بڑی حسرت سے تکتے ہیں۔ اگر مطلوبہ شخصیت تک ان کی رسائی ہوجائے تو پھر اس کے تمام نقشے اور حلیے کی خوب خبر لیتے ہیں، اور اس شخص کو ہمیشہ یاد بھی رکھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ شخص نہ ملے جس کی جستجو میں انہوں نے تمام نمازیوں کے پیروں کا دیدار کیا، تو وہ ایک بے حال بھکاری سے بھی زیادہ مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر یا تو وہ ننگے پاؤں اپنے گھر کا سفر شروع کردیتے ہیں (یہ جذبہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے)، یا پھر اپنی ناقص عقل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دروازے پر پڑے کسی اور انسان کے جوتوں کو اپنے تلووں میں دبائے نکل جاتے ہیں، جو ایک نہایت ہی بری بات ہے۔
بہرحال، یہ کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ رمضان کے علاوہ بھی بڑی مساجد میں ہر نماز میں اور خصوصاً جمعے کی نماز میں بھی ایسے متاثرین سے ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
ایک اور صاحب کسی متاثر کی بڑی بے دردی سے گفتگو سنا رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ ایک شخص نے کہا حضرت بڑی پریشانی ہے جوتے آگے رکھیں تو نماز نہیں ہوتی اور پیچھے رکھیں تو جوتے نہیں ہوتے، مسئلے کا کوئی حل بتائیے۔ کسی صاحب نے اس کا ایک بہت ہی جامع حل بیان کیا، آپ بھی اس پر عمل کر کے اپنے جوتوں کو محفوظ کرسکتے ہیں: ایک جوتا ایک جگہ رکھیے اور دوسرا جوتا دوسری جگہ۔
لیکن جوتے بچانے کی یہ کوشش بعض مرتبہ سرکاری چپلوں کو جنم دیتی ہے (البتہ ایسا بہت کم ہوتا ہے) کیونکہ آپ کا الگ رکھا جوتا اگر کسی کے پاؤں میں لگ گیا تو وہ کسی دوسرے چپل سے مل کر ایک نیا جوتوں کا جوڑا بن سکتا ہے جسے ہر انسان آسانی سے نہیں پہن سکتا۔ اس سے پہلے ہم نے سرکاری ملازمین کا سن رکھا تھا، سرکاری اداروں کا سن رکھا تھا، لیکن جب بعض حضرات نے نئی متعارف ہونے والی سرکاری چپل کی اصطلاح سنائی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
پہلے پہل تو یہ سوجھی کہ شاید سرکار نے کوئی نیا شعبہ قائم کیا ہے، جو متاثرین چپل کی بے بسی کو سامنے رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے؛ اور یہ شعبہ کسی اسپتال میں موجود شعبہ حادثات کی سی خدمات انجام دیتا ہے، یعنی متاثرین چپل کو فوری امداد فراہم کرکے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہوئے، ان کو ایک ہی جوڑے میں مختلف قسم کے ڈیزائن اور نمبر کے جوتے فراہم کرتا ہے۔ کچھ جوتوں کی تو ناک بھی کٹی ہوتی ہے، جو پہننے والے کے جذبات کا خوب امتحان لیتے ہیں۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شعبہ اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیا گیا ہے، یا خود ہی قائم ہوگیا ہے، جس میں آپ کو بہت سے چپل میسر ہوتے ہیں، اور اگر کوئی قریب قریب ڈیزائن کا چپل مل جائے تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہوگی ورنہ ایک پیلا تو دوسرا کالا، ایک گلابی تو دوسرا بھورے رنگ کا، ایک 6 نمبرکا تو دوسرا 9 نمبرکا۔ غرض یہ کہ ہر قسم کے جوتے اس شعبے میں بہ آسانی میسر ہوتے ہیں۔
اس شعبے سے واسطہ کچھ عرصہ قبل اپنے جوتوں کے گم ہوجانے پر پڑا تھا جب میں مسجد سے باہر نکلا تو اسٹال لگا تھا جس پر بہت سی چیزیں دستیاب تھیں سوائے جوتوں کے۔ اس لیے سوچا کہ جو لوگ مساجد کے باہر سٹال لگاتے ہیں، ان کے کاروبار میں مزید ترقی کے پیش نظر ان کو ایک مفید مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں لوگوں کو مساجد میں ننگے سر جانے سے بچانے کی خاطر اپنے اسٹال میں خوبصورت ٹوپیاں اور رومال رکھتے ہیں، وہیں اگر وہ لوگوں کو ننگے پاؤں نکلنے سے بچانے کی خاطر جوتوں کے بھی چند جوڑے اپنے اسٹال میں رکھ لیا کریں تو کاروبار میں تو بڑھوتری آئے گی ہی، ساتھ ہی ساتھ خدمت خلق کا ایک عظیم فرض بھی ادا ہو جائے گا۔
بات ہو رہی تھی چپل مافیا کی، جو ایک معاشرے میں پیدا ہونے والی بہت بڑی برائی ہے۔ اس میں جہاں چپل مافیا کا دخل ہے وہیں متاثرہ شخص بھی اس غلط حرکت کا مرتکب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف سے بچانے کی خاطر کسی دوسرے کے چپل پہن کر چلا جاتا ہے، ایسی حرکت پر ہمیں سوچنا ہوگا۔
اگر آپ ہمت کرکے سرکاری چپل کی طرف بڑھیں تو یقیناً ان جوتوں کو پہن کر کسی مارکیٹ سے گزرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن یہ اس رسوائی سے کم ہے جو ہم کسی دوسرے کے جوتے پہن کر نکلیں اور وہ مسجد کے باہر پکڑ کر ہم سے جوتے لے کر ہمیں سب کے سامنے رسوا کردے۔ یہ بھی یاد رہے کہ وہ سرکاری چپل پھر واپس بھی کیجیے گا کہ کل کسی دوسرے کی ضرورت بھی پوری ہوسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج کل تو رمضان کا بابرکت مہینہ ہے، مسلمانوں کا رخ مساجد اور خانقاہوں کی طرف دوسرے مہینوں کی نسبت کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جہاں یہ بات دیکھنے کو ملی وہیں چپل مافیا نے بھی اپنا رخ مساجد کی طرف کرلیا ہے۔ اس بابرکت مہینے میں جہاں مساجد میں مسلمانوں کو یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں چپل مافیا ان کی توجہ اور یکسوئی میں روڑے اٹکانے میں مصروف رہتی ہے۔ جو شخص جتنے مہنگے جوتے پہن کر آیا ہے، اس کی توجہ اتنی ہی ان پر ہے۔
اکثر نماز کے بعد آپ کو مسجد کے دروازے پر چند لوگ ایسے ضرور ملتے ہوں گے جو کسی کی تلاش میں ہوتے ہیں، ہر گزرتے شخص کے پاؤں کی طرف بڑی حسرت سے تکتے ہیں۔ اگر مطلوبہ شخصیت تک ان کی رسائی ہوجائے تو پھر اس کے تمام نقشے اور حلیے کی خوب خبر لیتے ہیں، اور اس شخص کو ہمیشہ یاد بھی رکھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ شخص نہ ملے جس کی جستجو میں انہوں نے تمام نمازیوں کے پیروں کا دیدار کیا، تو وہ ایک بے حال بھکاری سے بھی زیادہ مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بصورت دیگر یا تو وہ ننگے پاؤں اپنے گھر کا سفر شروع کردیتے ہیں (یہ جذبہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے)، یا پھر اپنی ناقص عقل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دروازے پر پڑے کسی اور انسان کے جوتوں کو اپنے تلووں میں دبائے نکل جاتے ہیں، جو ایک نہایت ہی بری بات ہے۔
بہرحال، یہ کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ رمضان کے علاوہ بھی بڑی مساجد میں ہر نماز میں اور خصوصاً جمعے کی نماز میں بھی ایسے متاثرین سے ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
ایک اور صاحب کسی متاثر کی بڑی بے دردی سے گفتگو سنا رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ ایک شخص نے کہا حضرت بڑی پریشانی ہے جوتے آگے رکھیں تو نماز نہیں ہوتی اور پیچھے رکھیں تو جوتے نہیں ہوتے، مسئلے کا کوئی حل بتائیے۔ کسی صاحب نے اس کا ایک بہت ہی جامع حل بیان کیا، آپ بھی اس پر عمل کر کے اپنے جوتوں کو محفوظ کرسکتے ہیں: ایک جوتا ایک جگہ رکھیے اور دوسرا جوتا دوسری جگہ۔
لیکن جوتے بچانے کی یہ کوشش بعض مرتبہ سرکاری چپلوں کو جنم دیتی ہے (البتہ ایسا بہت کم ہوتا ہے) کیونکہ آپ کا الگ رکھا جوتا اگر کسی کے پاؤں میں لگ گیا تو وہ کسی دوسرے چپل سے مل کر ایک نیا جوتوں کا جوڑا بن سکتا ہے جسے ہر انسان آسانی سے نہیں پہن سکتا۔ اس سے پہلے ہم نے سرکاری ملازمین کا سن رکھا تھا، سرکاری اداروں کا سن رکھا تھا، لیکن جب بعض حضرات نے نئی متعارف ہونے والی سرکاری چپل کی اصطلاح سنائی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
پہلے پہل تو یہ سوجھی کہ شاید سرکار نے کوئی نیا شعبہ قائم کیا ہے، جو متاثرین چپل کی بے بسی کو سامنے رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے؛ اور یہ شعبہ کسی اسپتال میں موجود شعبہ حادثات کی سی خدمات انجام دیتا ہے، یعنی متاثرین چپل کو فوری امداد فراہم کرکے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہوئے، ان کو ایک ہی جوڑے میں مختلف قسم کے ڈیزائن اور نمبر کے جوتے فراہم کرتا ہے۔ کچھ جوتوں کی تو ناک بھی کٹی ہوتی ہے، جو پہننے والے کے جذبات کا خوب امتحان لیتے ہیں۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شعبہ اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیا گیا ہے، یا خود ہی قائم ہوگیا ہے، جس میں آپ کو بہت سے چپل میسر ہوتے ہیں، اور اگر کوئی قریب قریب ڈیزائن کا چپل مل جائے تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہوگی ورنہ ایک پیلا تو دوسرا کالا، ایک گلابی تو دوسرا بھورے رنگ کا، ایک 6 نمبرکا تو دوسرا 9 نمبرکا۔ غرض یہ کہ ہر قسم کے جوتے اس شعبے میں بہ آسانی میسر ہوتے ہیں۔
اس شعبے سے واسطہ کچھ عرصہ قبل اپنے جوتوں کے گم ہوجانے پر پڑا تھا جب میں مسجد سے باہر نکلا تو اسٹال لگا تھا جس پر بہت سی چیزیں دستیاب تھیں سوائے جوتوں کے۔ اس لیے سوچا کہ جو لوگ مساجد کے باہر سٹال لگاتے ہیں، ان کے کاروبار میں مزید ترقی کے پیش نظر ان کو ایک مفید مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں لوگوں کو مساجد میں ننگے سر جانے سے بچانے کی خاطر اپنے اسٹال میں خوبصورت ٹوپیاں اور رومال رکھتے ہیں، وہیں اگر وہ لوگوں کو ننگے پاؤں نکلنے سے بچانے کی خاطر جوتوں کے بھی چند جوڑے اپنے اسٹال میں رکھ لیا کریں تو کاروبار میں تو بڑھوتری آئے گی ہی، ساتھ ہی ساتھ خدمت خلق کا ایک عظیم فرض بھی ادا ہو جائے گا۔
بات ہو رہی تھی چپل مافیا کی، جو ایک معاشرے میں پیدا ہونے والی بہت بڑی برائی ہے۔ اس میں جہاں چپل مافیا کا دخل ہے وہیں متاثرہ شخص بھی اس غلط حرکت کا مرتکب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف سے بچانے کی خاطر کسی دوسرے کے چپل پہن کر چلا جاتا ہے، ایسی حرکت پر ہمیں سوچنا ہوگا۔
اگر آپ ہمت کرکے سرکاری چپل کی طرف بڑھیں تو یقیناً ان جوتوں کو پہن کر کسی مارکیٹ سے گزرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن یہ اس رسوائی سے کم ہے جو ہم کسی دوسرے کے جوتے پہن کر نکلیں اور وہ مسجد کے باہر پکڑ کر ہم سے جوتے لے کر ہمیں سب کے سامنے رسوا کردے۔ یہ بھی یاد رہے کہ وہ سرکاری چپل پھر واپس بھی کیجیے گا کہ کل کسی دوسرے کی ضرورت بھی پوری ہوسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔