وزیرستان واقعے سے متعلق تقریر پر قومی اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی
علی محمد خان کا محسن داوڑ اور علی وزیر کی قومی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ
ISLAMABAD:
شمالی وزیرستان واقعے سے متعلق وزیر مملکت علی محمد خان کی تقریر پر قومی اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔
حکومتی ارکان نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور اس کے ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر حزب اختلاف نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نشستوں سے کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی محمد خان کی تقریر پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی نشست پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج میں حصہ لیا۔
خرم دستگیر نے ایس پی طاہر داوڑ کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے حوالے سے حقائق نہیں بتائے گئے، حکومت بتائے کہ ایک ایس پی کو دو صوبوں سے گزار کرکیسے افغانستان لے جایا گیا، طاہر داوڑ ایک بہادر افسر تھا، حکومت انکے قتل پرخاموش کیوں ہے؟۔
شہریار آفریدی نے جواب دیا کہ پچھلے ادوار میں پختون قوم کو 1979 سے پہلے والی شناخت بتانا ضروری قرار دیا گیا، ہم نے وہ مسائل حل کیے جو سابق حکومتوں میں پختونوں سے روا رکھے گئے، طاہر داوڑ کی لاش این ڈی ایس نے حکومت کی بجائے منظور پشتین کو دی،قومیت کے نام پر یہاں کسی کو دکانداری چمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، طاہر داوڑ کے قتل کے حوالے سے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرائیں،آگاہ کیا جائے گا۔
وزیر مملکت علی محمد خان نے اس معاملے پر جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیٹے کی لاش افغانستان کے پٹھو کے حوالے کی گئی، اس ایوان کے ارکان اسمبلی ریاست پاکستان کو للکارتے ہیں۔ علی محمد خان نے وزیرستان واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن کی وجہ سے فساد پھیلا انہیں ایوان میں رہنے کا کوئی حق نہیں، ان کی رکنیت منسوخ کی جائے، ان کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کی لاشیں گریں، ان کے جلسوں میں پاکستانی پرچم کو نہیں جانے دیا جاتا، ایسے لوگوں کو پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
علی محمد خان کی تقریر پر ایوان میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے صورتحال کشیدہ ہوتے دیکھ کر قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔
شمالی وزیرستان واقعے سے متعلق وزیر مملکت علی محمد خان کی تقریر پر قومی اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔
حکومتی ارکان نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور اس کے ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر حزب اختلاف نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نشستوں سے کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی محمد خان کی تقریر پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی نشست پر کھڑے ہو گئے اور احتجاج میں حصہ لیا۔
خرم دستگیر نے ایس پی طاہر داوڑ کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے حوالے سے حقائق نہیں بتائے گئے، حکومت بتائے کہ ایک ایس پی کو دو صوبوں سے گزار کرکیسے افغانستان لے جایا گیا، طاہر داوڑ ایک بہادر افسر تھا، حکومت انکے قتل پرخاموش کیوں ہے؟۔
شہریار آفریدی نے جواب دیا کہ پچھلے ادوار میں پختون قوم کو 1979 سے پہلے والی شناخت بتانا ضروری قرار دیا گیا، ہم نے وہ مسائل حل کیے جو سابق حکومتوں میں پختونوں سے روا رکھے گئے، طاہر داوڑ کی لاش این ڈی ایس نے حکومت کی بجائے منظور پشتین کو دی،قومیت کے نام پر یہاں کسی کو دکانداری چمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، طاہر داوڑ کے قتل کے حوالے سے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرائیں،آگاہ کیا جائے گا۔
وزیر مملکت علی محمد خان نے اس معاملے پر جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیٹے کی لاش افغانستان کے پٹھو کے حوالے کی گئی، اس ایوان کے ارکان اسمبلی ریاست پاکستان کو للکارتے ہیں۔ علی محمد خان نے وزیرستان واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن کی وجہ سے فساد پھیلا انہیں ایوان میں رہنے کا کوئی حق نہیں، ان کی رکنیت منسوخ کی جائے، ان کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کی لاشیں گریں، ان کے جلسوں میں پاکستانی پرچم کو نہیں جانے دیا جاتا، ایسے لوگوں کو پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
علی محمد خان کی تقریر پر ایوان میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے صورتحال کشیدہ ہوتے دیکھ کر قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔