جہاں گشت ان ہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا

وہ مجھے کبھی کسی کے حوالے نہیں کرے گا، اس لیے کہ میں خود کو اس کے حوالے کرچکا ہوں …


وہ مجھے کبھی کسی کے حوالے نہیں کرے گا، اس لیے کہ میں خود کو اس کے حوالے کرچکا ہوں …

قسط نمبر46


ہم سب سے کچھ کھو سا گیا ہے !... کہیں گم ہوگئی ہے وہ!... یوں لگتا ہے... سب کچھ تو ہے لیکن وہ نہیں ہے!... اور اگر وہ نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں ہے...! ہم در بہ در خاک بہ سر... اُسے تلاش کرتے پھرتے ہیں... ہلکان ہوگئے ہیں... تھک گئے ہیں ہم... پر وہ ہمیں نہیں ملتی... اب ہم اسے کہاں ڈھونڈیں! بہت مشکل ہوگیا ہے جینا... سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہ ہونے کا احساس... کتنا جان لیوا ہے یہ اور کتنا بے مایا بھی ... بس سانس کی آمد و رفت جاری ہے۔

کیا زندگی صرف سانسوں کی آمد و رفت ہی کو کہتے ہیں، واقعی! لیکن ہم تو اسے جینا کہہ رہے ہیں ... اور پھر نعرہ زن بھی ہیں کہ جیسے چاہو جیو، لیکن ہمارے بھیتر سے کوئی کراہتا ہے اور ہمیں اس کی آواز صاف سناتی دیتی ہے ... کچھ نہیں بہت محرومی ہے! اور المیہ یہ کہ کھوجنے پر بھی نہیں معلوم کہ اتنے ہنگاموں میں، مَیلوں میں، بازاروں میں، اتنے سارے لوگوں کے درمیان بھی تنہائی، اداسی، مایوسی، گھٹن اور اتنی کہ لوگ اس سے تنگ آکر پھندے پر جُھول جاتے ہیں۔ جہاں دل کے لیے موت مشینوں کی حکم رانی ہو کہ احساس مروت کو کچل دیتے ہوں آلات، عجب کیا اس میں کہ اب انسان خود اک مشین میں ڈھل گیا ہے۔ پتا ہے آپ کو کہ وہ کمی کیا ہے، تو سنیے وہ ہے زندگی کا حقیقی رس اور چس... پھر کیا کریں ہم! کہاں سے لائیں اسے! بازار میں تو وہ ملتی نہیں کہ چلو چاہے کتنی مہنگی ہی سہی خرید لائیں اسے... اور جو بازار میں ملتی ہے اس سے تو مرض اور بڑھتا جاتا ہے تو اب ہم کیا کریں...! بس ایک گردش ہے... ایک گرداب ہے... اور ہم اس میں پھنس سے گئے ہیں... کیسے نجات حاصل کریں اس سے ... ہم زندگی کے بوجھ تلے دب گئے ہیں... کراہ رہے ہیں... ہمارے نالے بلند ہوتے ہیں اور دم توڑ دیتے ہیں... پکار پکار کر ہم نڈھال ہوگئے ہیں... پر اس کا پتا نہیں ملتا... بہت اذیت ناک صورتِ حال ہے یہ۔

بچپن سے دیکھتا چلا آیا ہوں... ہزاروں سے ملا ہوں... ملتا رہتا ہوں... اور زندگی رہی تو ملوں گا بھی... میں نے لوگوں سے بہت پوچھا: آپ خوش ہیں۔۔۔۔ مسرور ہیں؟ رسماً تو سبھی کا جواب ہوتا ہے: ہاں ہم بہت خوش ہیں۔۔۔۔ سب کچھ تو ہے ہمارے پاس۔ لیکن ان کے چہرے پر لکھی اداسی۔۔۔۔ ناآسودگی اور محرومی پکارتی ہے: نہیں۔۔۔۔ نہیں جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔ کہاں خوش ہیں ہم۔۔۔۔ کہاں مسرور ہیں۔۔۔۔ بس زندگی کے نام پر زندہ ہیں۔۔۔۔ چل پھر رہے ہیں۔۔۔۔ خوش کب ہیں ہم... ہم سب خود کو دھوکا دے رہے ہیں... کہ بہت خوش ہیں ہم۔

ہاں یہ بہت زیادتی ہوگی... نہیں زیادتی نہیں بددیانتی ہوگی کہ میں نے بہت کم بل کہ بہت ہی کم لوگوں کو خُوش دیکھا ہے... حقیقی مسرت میں ڈوبا ہوا... اور حیرت ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا... ہاں کچھ بھی نہیں... تن کا کپڑا، پیسہ پائی لیکن وہ خوش تھے... مسرور تھے۔ خوشی مسکراہٹ بن کر ان کے چہرے پر رقص کر رہی تھی، بل کہ نُور بن کر چمک رہی تھی... بہت شانت تھے وہ... بہت پُرسکون... ایسا لگتا تھا کہ ہفت اقلیم کی دولت ہے ان کے پاس اور تھا کچھ بھی نہیں... بس اﷲ دے اور بندہ لے! ... نہ رہنے کے لیے مکان ... نہ سونے کے لیے گدّا ... نہ اوڑھنے کے لیے چادر ... نہ پہننے کے لیے ڈھنگ کے کپڑے ... سماج میں کوئی نام... نہ دعویٰ نہ کچھ اور ... بس مست ملنگ لوگ ... روکھی سوکھی کھا کر ...رب کا شکر ادا کرنے والے ... اور نہ ملے تو پھر بھی خوش ... عجیب لوگ تھے وہ ... کچھ تواب بھی ہیں فقیر کے آس پاس۔ ان میں سے ایک وہ بھی تھے جو مجھے ایک سڑک پر چلتے ہوئے ملے تھے، اور کر کیا رہے تھے، چلیے بتاتا ہوں۔

میں بہت دیر سے ان کا پیچھا کر رہا تھا... ایک بڑا سا تھیلا کاندھے پر لٹکائے ہوئے وہ بہت انہماک و توجہ سے کاغذ چنتے ہوئے چلے جا رہے تھے اور میں ان کے پیچھے تھا ... مست ملنگ، سفید ریش بوڑھا آدمی... نہ جانے وہ کتنی مرتبہ جُھکا ہوگا ... ہر پل وہ جھک کر کاغذ اٹھاتا اور اپنے تھیلے میں ڈال لیتا ... میں صبح سے اس کے پیچھے چل چل کر تھک گیا تھا ... لیکن وہ بہت توانا تھا ... پھر دوپہر ہوگئی تھی... اس نے اپنا تھیلا ایک فٹ پاتھ پر رکھا اور چھپر ہوٹل سے ایک نان لیا ... پھر خاموشی سے سر جھکائے اسے چبانے لگا ... سوکھی روٹی کھانے کے بعد اس نے پانی پیا ... اور پھر وہ لمحہ آیا جب میں دنگ رہ گیا ...! ویسے تو ایسے لمحات فقیر نے بہت دیکھے ہیں، لیکن ایسا لمحہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ... بالکل بھی نہیں۔ میں اسے اب بھی محسوس کرتا ہوں۔ بیان کیسے کردوں وہ لمحہ ... بس وہ محسوس کرتا ہوں ... وہ لمحہ بس محسوس ہی کیا جاسکتا ہے ... وہ اپنے جمع کیے ہوئے کاغذ کے تھیلے پر بیٹھ گیا اور پھر اس کے دونوں ہاتھ اپنے رب کے حضور بلند ہوئے ... وہ بہت انہماک سے کچھ مانگ رہا تھا۔ میرے اندر کے تجسس نے انگڑائی لی ... میں اس کے بالکل قریب جا پہنچا ... اب میں اس کی آواز سن سکتا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ پشتو میں اپنے پالن ہار سے مخاطب تھا اور کتنی عاجزی سے کہہ رہا تھا: ''شُکر ہے میرے مولا ... میرے اﷲ تُو تو بہت اچھا ہے ...کتنا خیال ہے تجھے میرا ... واہ واہ... آج تو بہت مزہ آیا... بس مجھے تیری رضا چاہیے ...دیکھ تُو نے مجھے کتنا اچھا رکھا ہوا ہے ... ہر چیز وافر ...ہر نعمت دی ہے تُو نے...''

بس اسی طرح کی باتیں ... میں بہت دیر تک اس بابا کی باتیں سنتا رہا ... کیا انہماک تھا اس کا ... پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے اور اٹھ کھڑا ہوا ...مجھے اپنے قریب پا کر اسے حیرت ہوئی تھی ...مجھے یاد ہے دعا مانگتے ہوئے تو وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا ... ہاں وہ واپس لوٹ آیا تھا۔

''بابا آپ بہت خوش ہیں...؟'' میں نے پشتو میں ان سے پوچھا۔ میرا سوال ان کے سامنے تھا ... اور وہ مجھے دیکھ رہے تھے، جی بہت پیار سے، کتنا نُور تھا ان کے چہرے پر ... سفید ریش... خوب صورت بوڑھا مسکرایا تو یوں لگا جیسے ساری کائنات مسکرا رہی ہو ... میں اپنے جواب کا منتظر تھا... اور پھر میرا سوال آسودہ ہوگیا...

''ہاں میں بہت خوش ہوں ... بہت زیادہ...''

میرا ''کیوں'' پھر ان کے سامنے تھا۔

''بس خوش ہوں ... اس لیے کہ میرا رب مجھے سنبھالے ہوئے ہے ... اس عمر میں بھی میں صحت مند ہوں ... محنت سے روزی کماتا ہوں ... ہاتھ نہیں پھیلاتا ...اور یہ ساری طاقت و توانائی مجھے میرا رب ہی تو دیتا ہے ... اور مجھے یقین کامل ہے وہ مجھے کبھی کسی کے حوالے نہیں کرے گا ...کبھی نہیں ...اس لیے کہ میں خود کو اس کے حوالے کرچکا ہوں ...جو اس کے حوالے ہوجائے اسے کوئی فکر نہیں ہوتی ... بس اسی لیے میں خوش ہوں ... کوئی غم نہیں ہے مجھے، نہ کوئی فکر۔''

میں ان سے اور باتیں بھی کرنا چاہتا تھا کہ پھر ان کا ہاتھ اٹھا اور میرے سر پر پھیر کر وہ بغیر کچھ سنے رخصت ہوگئے... ہاں وہ بہت خوش تھے ... اور کچھ بھی نہیں تھا ان کے پاس ... ہوٹل سے لی ہوئی روٹی... جسے وہ سوکھی کھا رہے تھے... اور پانی پی کر بھی خوش تھے اور ہم!!! سمجھ میں اب بھی نہیں آیا کیا آپ کو ، جناب مخبر صادقؐ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ محنتی، ہاتھ سے رزق کمانے والا رب تعالی کا دوست ہے۔ جان گئے ناں آپ اس سفید ریش کچرا چننے والے بابا کے اطمینان کا راز، جی محنتی ہے رب تعالی کا سنگی دوست۔

جب نیا سال شروع ہوا تو میں ایک اور پاگل کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ...وہ بھی میرا دوست ہے۔ عجیب سی باتیں کر رہا تھا وہ... کہنے لگا: ''کب خوش ہوں گے لوگ...''

میں نے کہا ''خوش تو ہیں ...دیکھ نہیں رہے... آتش بازی... دھوم دھڑکّا... موج میلہ... مستی، خوشی اور سرشاری...''

تو کہنے لگا: ''یہی تو کہہ رہا ہوں کہ یہ خوش نہیں ہیں ... مسرور نہیں ہیں ... اداکاری کر رہے ہیں ... خود کو بہلا رہے ہیں ... دھوکا دے رہے ہیں خود کو...''

''تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے آخر؟ میں نے پوچھا! تب وہ بولا:

''تُو بہت بھولا ہے... بہت بے وقوف ہے... پاگل آدمی! ... دیکھ اگر انسان خوش ہو تو اسے کوئی کہے آؤ خوشی منائیں تو وہ معلوم ہے کیا کہے گا؟''

میں نے کہا ''نہیں مجھے تو نہیں معلوم''

تو کہنے لگا: ''ابے موٹی عقل والے اتنی سی بات تیرے بھیجے میں نہیں آرہی... وہ کہے گا: ''بھائی مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تو ویسے ہی خوش ہوں ... جو لوگ ایسی جگہوں پر جاتے ہیں ...وہ اپنی دُکھ بھری زندگی چاہے وہ کتنی ہی پرآسائش ہو ... دو چار گھڑیاں اپنی افسردہ زندگی کو مصنوعی خوشی سے ہم کنار کرنے جاتے ہیں اور پھر افسردہ ہوجاتے ہیں۔ تُو خود ہی تو کہہ رہا تھا... لوگ تجھ سے میوزک شو ...ڈرامے ...مستی نائٹ کے کارڈ مانگتے رہتے ہیں۔''

''ہاں یہ تو ہے۔''

''تو یار وہ خوش نہیں ہیں ناں... ایک ایک پاس کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ... ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں ...بس چند گھڑیاں خوش رہنے کی خاطر اور وہ بھی مصنوعی...''

نہ جانے وہ کیا کہہ رہا تھا...! میں خاموش ہوگیا۔

لیکن ایک بات مجھے معلوم ہے۔ میں نے ان لوگوں سے دریافت بھی کیا ہے ...وہ کیوں خوش ہیں ... ان میں سے ایک کی بات مجھے کبھی نہیں بھولتی ... بُھول ہی نہیں سکتا میں وہ بات: '' دیکھو حقیقی مسرت اور سچی خوشی کو کہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے... اسے کھوجنے کی ضرورت نہیں ہے ...وہ تو آپ کے اندر ہے ...بس اس کی جھاڑ پونچھ کرنے کی ضرورت ہے ...وہ آپ کے اندر سے پھوٹتی ہے ... بس چھوٹا سا کام کرنا ہوگا ... آپ اپنی خوشیاں دوسروں میں بانٹنا شروع کردیں ...آپ کی خوشی کو پَر لگ جاتے ہیں ...خود کو خلقِ خدا کے لیے وقف کردیں تو خوشی اترائے پھرتی ہے اور آپ کے اندر سے خوشی کی پھوار آپ کو شانت کرنے لگتی ہے ... دوسروں کے دکھ کو سکھ میں بدلنے سے خوشی کے قہقہے گونجنے لگتے ہیں ...بس خالقِ حقیقی کے بندوں کے ساتھ جینا سیکھو ... خود کو بھول جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گا ... کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا ...اپنی خوشی دوسروں کو دے کر تو دیکھو... خود بدل جاؤ گے اور پھر خود سے کہو گے: اوہو... کتنی زندگی ضایع کردی میں نے ... کتنا تھک گیا ہوں میں ...خوشیوں کو کھوج کھوج کر ... وہ تو میرے اندر تھیں...!

بات ختم ہوگئی ... ہاں چلتے چلتے ایک بات یاد آگئی ... ایک اداسی اور ہوتی ہے ...وہ بڑے نصیب سے ملتی ہے... اسے اب کسی اور وقت پر رکھتے ہیں ...انتظار کرتے ہیں اس کا ... یہ دوسری دنیا کا قصہ ہے... پھر کریں گے بات۔

وہ سڑک کے کنارے بیٹھا ہوا خوشی سے جھوم رہا تھا ... کسی نے آکر اسے کہا: ''جناب کچھ خبر بھی ہے آپ کو ... انسان چاند پر پہنچ گیا۔''

وہ یک دم ہمہ تن گوش ہو گیا اور کہنے لگا: اچھا انسان چاند پر پہنچ گیا ...! واہ واہ ... کیا بات ہے جی...'' اور پھر بہت اشتیاق سے معلوم کرنے لگا:

''چاند پر کیا ملا انسان کو؟''

تو بتانے والے نے بتایا: ''کچھ نہیں بس چند گڑھے پتھر وغیرہ ... اور تھا ہی کیا وہاں۔''

تب اس کا قہقہہ گونجا اور وہ کہنے لگا: کیا بات کی تم نے... اتنی محنت کے بعد بھی پتھر گڑھے!'' اور پھر سب نے سنا ... معلوم ہے وہ کیا کہہ رہا تھا:

تجھ کو تو ملے قریۂ مہتاب میں گڑھے

ہم کو تو پتھروں میں بھی رعنائیاں ملیں

وہ تھا خوش ...بہت خوش تھا وہ ... ہم بھی کھوج ہی لیں گے مسرت کو ... خوشیوں کو ...سانوں کی مالا چلتی رہی تو بات کرتے رہیں گے ہم ... رب نے چاہا تو میرا آپ کا ساتھ رہے گا۔ خوش رہیے... آباد رہیے ...دل شاد رہیے سدا۔

دیکھیے آپ نے ماہ رمضان المبارک میں بھوک پیاس برداشت کی۔ آپ نے اپنی راتیں رب کا کلام سننے اور پڑھنے میں گزاریں۔ کس لیے؟ اس لیے ناں کہ آپ اور ہم اور ہم سب کا رب ہم سے راضی ہو جائے۔ ہم سب نے اپنی حیثیت کے مطابق خلق خدا کی خبر گیری کی۔ داد رسی کی۔ سب کچھ دیا بھی رب کا ہے۔ اور ہم نے پھر اسے لوٹایا بھی۔ جب سب کچھ اس کا ہے تو پھر ہم نے کیا کمال کیا۔ لیکن میرا رب کتنا بلند و بالا عظمت و شان والا ہے کہ آپ نے مخلوق کی خدمت کی اور وہ آپ کا نگہبان بن گیا۔ اور جس کا وہ نگہبان بن جائے پھر اسے کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی۔ قطعاً نہیں رہتی۔

ہم انسان ہیں۔ خطا کار ہیں۔ ہم لاکھ چاہیں کہ دل آزاری نہ کریں۔ کسی کی عزت نفس پامال نہ کریں۔ کسی کو دکھ نہ دیں۔ لیکن ہو جاتی ہے غلطی۔ لیکن انسان وہ ہے جو اپنی غلطی کو مانے اور جس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معذرت کرے۔ وہ انسان جو تائب ہو جائے وہی منزل پر پہنچتا ہے۔

عید کے پر مسرت موقع پر ہم سب کو چاہیے کہ رنجش ختم کردیں۔ ہوجاتی ہے غلطی، آخر انسان ہے، کوئی فرشتہ تو ہے نہیں۔ سو معاف کردیں انھیں، گلے سے لگائیں جو روٹھ گئے ہیں انھیں منائیں۔ اس دکھ بھری زندگی میں دن ہی کتنے ہیں کہ ہم اسے جہنم بنا لیں۔ میرا ایک بہت پاگل سا دوست ہے بہت باکمال لیکن بالکل چٹّا ان پڑھ۔ میرا رب اسے سلامت رکھے۔ ہر وقت ایک ہی بات کرتا ہے: ''دو دناں دی چاندنی، تے فیر اندھیری رات''

ایک دن ہم نے پوچھا: رب سے معافی کیسے مانگیں تو کہا بہت آسان ہے۔ اس کے بندوں کو معاف کرو اور پھر رب سے کہو۔ میں تو تیرا بندہ ہوکر تیری مخلوق کو معاف کرتا ہوں۔ تُو تو ہم سب کا رب ہے۔ ہمیں معاف کردے۔ سو معاف کردیے جاؤ گے جو کسی بندے بشر کو معاف نہ کرے۔ اُسے کیسے معاف کردیا جائے گا۔

آپ سب بہت خوش رہیں۔ میرا رب آپ کی زندگی سکون و آرام سے بھر دے۔ آپ سدا مسکرائیں آپ کی زندگی میں کوئی غم نہ آئے۔ بہار آپ کا مقدر بن جائے۔ ہر شب، شب مسرت بن جائے۔ فقیر آپ سب کو کہتا ہے عید مبارک

کیا عجب ہے کہ ہمیں جس کی ضرورت بھی نہ تھی

بیچ کر خُود کو وہ سامان خریدا ہم نے

بند ہونے کو دکاں ہے تو خیال آیا ہے

فائدہ چھوڑ کے نقصان خریدا ہم نے

عبداللطیف ابُوشامل
[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں