ماضی اور حال کی عیدیں
عید کا کلچر بدل چکا ہے۔
آج سے کچھ سال پہلے عید کی آمد سے چند روز قبل ہی خوشی اور غم کے مناظر کا عجیب سا امتزاج نظر آتا تھا، جہاں تمام مسلمانوں کو عید کی آمدکا بے چینی سے انتظار ہوتا وہاں رمضان المبارک جیسے مقدس اور بابرکت ماہ کے رخصت ہونے کا دُکھ بھی ہوتا کہ پتہ نہیں اگلے سال یہ بابرکت ماہ دوبارہ نصیب ہوگا کہ نہیں۔ اس مہینے کی ایک رات لیلتہ القدر کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، اس ماہ ِمقدس میں ہر نیکی کا ثواب ستر گنا زیادہ ہے، روزہ کا اجّر اللہ تعالیٰ نے خود دینے کا وعدہ کیا ہے۔
تمام مسلمانوں نے اس ماہِ مبارکہ میں اپنے نفس پر قابو رکھا، راتوں کو قیام کیا، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں صرف کیا، اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجّر ملنیِ کی اُمید پر دل خوش اور مطمین ہوتا تھا۔ عام مسلمان عہد کرتے تھے کہ وہ باقی سال بھی اسی طریقے سے زندگی گزاریں گے۔ نعت خوان ٹولیاں گلی محلوں میں پھیل کر سحری اور دوسرے اوقات میں ''الوداع رمضان'' کی شعر گوئی کرتی اور نعتیں پڑھتی تھی۔
عید سے دو تین روز قبل سے ہی گلی کوچوں میں مٹھائی کی دکانوں کو سڑک کی طرف بڑھا دیا جاتا، حلوائی ٹینٹ لگا کر پھٹے اُوپر نیچے رکھ کر اُن پر مٹھائیوں کے تھال رکھتے کہ عید کے روز لوگ اپنے عزیزواقارب کی طرف مٹھائی لیکر جانا ضروری سمجھتے تھے، اس زمانے میں بیکریوں کا موجودہ کلچر پیدا نہیں ہوا تھا، نہ ہی اس زمانے میں مشہور بیکریوں کی چین ہوتی تھی، محلوں میں مختلف چھوٹی چھوٹی بیکریاں ہوتی تھیں۔ تین چار بیکری آئٹمز ہوتی تھیں۔ بیکری کی موجودہ اشیاء کا تصور بھی نہ تھا۔ مٹھائی کی دکانوںکے علاوہ مشروبات کی بوتلیںبیچنے والے بھی دکانوں کو سڑکوں تک بڑھا لیتے تھے،اس زمانے میں لیٹر، ڈیرھ لیٹر یا سوا دولیٹر کی بوتلیں نہ ہوتی تھیں۔ ریگولر بوتلیں ہی ہوتی تھیں، گولی والی بوتل کا نسبتاً ریٹ کم ہوتا تھا۔ انکا استعمال کم ہی ہوتا تھا، یہ وہ دورَ تھا کہ سّویوں کے علاوہ بوتل پینا اور پان کھانا ہی عید کی روایت سمجھی جاتی تھی ۔
اندرون ِشہر لاہورکی فصیل کے باہر باغات موجود تھے، اس زمانے میں یہ باغات قبضہ گروپوں اور لاہور میونسپل کارپوریشن کی دسترس سے بچے ہوئے تھے، عید کے دنوں میں ان باغات میں ''عید میلہ '' سج جاتا ، قتلمے اندرسے،کھلونوں اور دوسری اشیاء کی دکانیں لگ جاتیں، اُس زمانے کے حساب سے جھُولے لگ جاتے، موجودہ جدید جھُولوں کا تصور نہ تھا۔ پینگیں اور چار سیٹوں والے لکڑی کے بنے ہوئے آسمانی جھُولے ہوتے تھے، بچے اس ''عید میلے'' میں عید مناتے، واپسی پر کھلونے خرید لئے جاتے اور سارا راستے باجے بجاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے، مائیں کھانا تیار رکھتیں اگرچہ سالن تو عموماً ایک ہی ہوتا تھا مگر اُس عید پر خاص طور گوشت یا مرغی کا سالن بنایا جاتا ۔دیسی مرغیاں ہوتی تھیں ابھی بوائلر مرغیوں کا کلچر نہیں ہوا تھا۔
لوگ اپنے عزیزواقارب سے ضرور ملِنے جاتے تھے، خاص طور پر روٹھے ہوئے دوستوں اور عزیزورشتہ داروں کو منانے ان کے گھروں میں جاتے،گلے ملتے ہی تمام گلِے شکوے دورُ ہو جاتے، روٹھوں کو منانا عید کا خاص جُزو سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں زندگی بڑی سادہ ہوتی تھی مگر جینے کا اپنا مزہ اور انداز تھا ۔گھر کے مرد تاش کی محفلیں سجاتے اور رات گئے تک تاش کی بازیاں لگاتے رہتے ۔ آج کی طرح ٹریفک کی بہتات نہ ہوتی، لاہور کی آبادی مخصوص جگہ میں قائم تھی ۔
ٹرو کا دِن ''پکنک'' کیلئے مخصوص تھا۔ جیلانی پارک (ریس کورس پارک) ماڈل ٹاؤن پارک، گلشن اقبال، فورٹریس سٹیڈیم کا جوائے لینڈ یا دوسرے پارکس موجود نہ تھے، لوگ پکنک منانے کیلئے ''مقبرہ جہانگیر، شالامار باغ، جناح باغ اور چڑیا گھر کا رُخ کرتے، آمدورفت کیلئے عموماً تانگے کی سواری کی جاتی تھی ۔ تانگے کی سیر کا اپنا ہی مزہ اور ردھِم تھا ۔ تیسرے دن جسے ''مرو'' کہا جاتا ہے معمولات زندگی شروع ہو جاتی، اسکول کالج دفاتر اور دکانیں کھل جاتی تھیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی کہ کاش ایک دن اور چھٹی مِل جاتی، تیسرے دن مٹھائی اور مشروبات کی دکانوں سے ٹینٹ اُتر جاتے یہ دکانیں دوبارہ اپنی چاردیواری کے اندر سِمٹ جاتیں ۔ مگرعید کی خوشیاں اور مخصوص تاثر عرصہ تک یاد رہتا، زندگی میں سکون ہی سکون تھا، خاص طور پر روٹھوں ہوؤں کو منانے کا اپنا ہی مزہ تھا ۔ اجتماعیت کی فضا نظر آتی تھی۔ لوگ بے بس و بے کس افراد کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا عید کی خاص روایت سمجھتے تھے ۔ ان دنوں فضا میں بھی عید کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا احساس ہوتا تھا۔
'' خواتین کی چاند رات ، مہندی اور عید''
چاند نظرآتے ہی خواتین گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہو جاتی تھیں، اُس زمانے میں فریج اور فریزر عام نہیں ہوتے تھے، گوشت تو صبح سویرے ہی آتا تھا مگر لہسن، پیاز اور ادرک وغیرہ کو کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ چارپائیوں یا پلنگ پر دُھلی ہوئی یا نئی چادریں ڈال دی جاتی تھیں۔ خواتین گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہوکر پسی ہوئی مہندی کو پانی میں گھول لیتی تھیں، اس محلول کو ہاتھوں پر لگا کر لیٹ جاتی تھیں کیونکہ تصور یہی تھا کہ جتنی دیر مہندی لگی رہے اتنا ہی گہرا رنگ آتا ہے، مہندی لگنے کے بعد عجیب سی بُو فضا میں پھیل جاتی تھی مگر مہندی لگانا عید کی روایات میں اہم ترین روایت سمجھی جاتی تھی۔ خواتین اور بچیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پر بھی مہندی لگائی جاتی تھی ،صبح خواتین ،بچیاں اور بچے اٹھ کر ہاتھ دھوتے اور ایک دوسرے کو دکھایا جاتا کہ کس کی مہندی کا رنگ زیادہ گہرا ہے، اُس زمانے میں خواتین کا رات گئے باہر نِکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا، چنانچہ چوڑیاں اور چھوٹی موٹی جیولری جو کہ موتیوں کے ہار اور انگوٹھی پر مشتمل ہوتی تھی ، شام سے پہلے ہی خریدی جاتی تھیں۔
عید کی صبح خواتین گھروںمیں سویاں بناتی تھیں پھر اپنے اہلخانہ کے ساتھ یہ سویاں محلہ میں بھی تقسیم کی جاتی تھیں ، جب بچیاں ٹرے یا تھال میں سویوں سے بھری چھوٹی چھوٹی پلیٹیں رکھ کر محلے میں ہر دروازے پر دستک دیتی تھیں تو عید کا خاص ماحول پیدا ہوتاتھا۔ گھروں میں سویاں بجھوانا بھی عید کی ضروری روایت سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ نماز عید سے قبل کھجور یا میٹھی چیز کھا نا سنتؐ ہے چنانچہ مرد بھی سویاں کھا کر ہی نماز عید کیلئے نکلتے تھے۔ اہل لاہور کی اکثریت بادشاہی مسجد ، مسجد وزیر خان اور مسجد داتا دربار نماز عید کیلئے جاتی تھی ۔ اُس زمانے میں عید کے بڑے اجتماعات ان تین مساجد میں ہی ہوتے تھے بعد میں آبادی بڑھنے کے ساتھ سینکڑوں جگہ نماز عید کے اجتماعات شروع ہوگئے۔
جیسے ہی مردنماز پڑھنے کیلئے نِکلتے ، خواتین بھی تیار ہونا شروع ہوجاتی تھیں ۔آج کل کے مہنگے ملبوسات یا ''ڈیزائینر سوٹ'' نہیں ہوتے تھے۔ عید پر عمو ماًساٹن اور کریب کے کپڑے پہنے جاتے تھے، میک اپ بھی بڑا سادہ ہوتا ۔ خواتین اور بچیاں فیس کریم لگا کر لپ اسٹک اور نیل پالش لگا لیتی تھیں، جہنیںلپ اسٹک بھی میسر نہ ہوتی وہ دنداسہ دانتوں پر مل کر ہونٹوں پر اورنج رنگ چڑھا لیتیں ، کپڑے اور میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی جاتیں ، گلے میں موتیوں کا ہار ڈال لیا جاتا اور ہاتھوں کی ایک دوانگلیوں میں انگھوٹھیاں پہن لی جاتی تھیں ، مرد جیسے ہی گھروں میں داخل ہوتے خواتین اور بچیاں انکے پاس آتیں اور وہ انھیں بھی عید مبارک باد دیتے ، ساتھ ہی بچوں کی طرف سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا ، عموماًاٹھنی یا ایک روپیہ عیدی دی جاتی مگر ایک روپیہ بھی اس زمانے میں بہت تھا۔اب تو ہزراروں کے حساب سے عیدی دی اور لی جاتی ہے، شادی شدہ بچیوں کے والدین بھی نماز عید سے فارغ ہوتے ہی انکے گھروں میں پہنچ جاتے اور حسب توفیق اپنی بچیوں،داماد اور بچوں میں عیدی تقسیم کی جاتی۔بیٹیاں اپنے والدین کی سویوں اور چائے یا دیسی مشروبات سے خاطر تواضع کرتی ۔ محبت کے یہ مظاہرے ہر گھر میں نظر آتے تھے۔ افراد کے باہمی روابط بہت مضبوط تھے، بے اعتنائی کا دور نہیں تھا۔ محلوں میں خواتین اور بچوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا لگا رہتاتھا، اس چہل پہل سے عید کا روایتی رنگ نمایاں نظر آتا تھا ۔
اب تو مہندی کے وہ پُرانے تصورات بھی تقریباًختم ہوچکے ہیں۔ کئی قسم کی ''کون مہندیاں'' مارکیٹ میں آچکی ہیں یہ کون مہندی کیمیکل کی مدد سے تیار کی جاتی ہے اب ہاتھوں پر مہندی کا لیپ چڑھانے کی بجائے ''کون مہندی اور سرنج'' سے خوبصوت پھول بوٹیاں اور نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، اب سادہ میک اپ کی بجائے جدید میک اپ مارکیٹ میں آچکا ہے، میک اپ کی سینکڑوں اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اب کم از کم ایک درجن اشیاء سے سادہ میک اپ ہوتا ہے ، میک اپ کا سامان تیار کرنے والی سینکڑوںکمپنیاں اپنی مصنوعات کی پُر کشش تشہیر کے ذریعے عام خواتین کو بھی اس راہ پر ڈال چکی ہے کہ پیسوں کی کمی کے با وجود انھیں اپنی آرائش و زیبائش کیلئے درجنوں چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اب عید کے دنوں میں بیوٹی پارلر جانا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان بیوٹی پارلرز میں خواتین کو خوبصورت اور جاذب نظر بنانے کیلئے کئی قسم کے جتن کئے جاتے ہیں۔ گلی محلے میں قائم بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی اکثر خواتین نا تجربہ کار ہوتی ہیں میک اپ کا سامان بھی غیر معیاری ہوتا ہے مگر پھر بھی خواتین کی گھنٹوں باری نہیں آتی۔ اب گلی محلوں میں یگانگت اور اپنائیت کا ماحول نظر نہیں آتا، ہر طرف نمائش و نمود کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پورے لاہور میں ایک ہی قسم کی عید منائی جاتی تھی اندرون شہر اور آس پاس کے علاقوں میں ایک جیسا ماحول ہی نظر آتا تھا، اُس زمانے میں جودوتین پوش علاقے موجود تھے وہاں دیرانیوں کے ڈیڑے ہوتے تھے، اب صرف لاہورمیں ہی قسم قسم کی عید منائی جاتی ہے۔ اندرون شہر اور آس پاس کے علاقوں میں ایک مخصوص کلچر نظر آتا ہے، ڈیفنس میں دوسرا عید کلچر نظر آتا ہے ، نئی آبادیوں میں بھی الگ ماحول نظر آتا ہے۔پسماندہ علاقوں میں اور طرح کی عید منائی جاتی ہے، فلیٹوں کی عید اور ہوتی ہے ۔اب عید کا دن ایک دائمی سکون نہیں دیتا بلکہ یہ نماز عید کے بعد ایک ''ڈیوٹی '' کا احساس ہوتا ہے کہ سب کو عید مبارک کا میسج بھیجنا ہے ، قریبی عزیز واقارب کو فون بھی کرنا ہے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے ناپسندیدہ افراد کے گھروں میں بھی جانا پار تا ہے، اپنے گھروں میں آنے والے بہت سے ناپسندیدہ افراد کو مصنوعی مسکراہٹ اور جبر کے ساتھ ''ویلکم '' کرنا پڑتا ہے اور انکی خاطر تواضع بھی کرنی پڑتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اہل خانہ کے ساتھ نئے قائم ہونے والے شاپنگ مالز اور تفریحی مقامات پر جانا پڑتا ہے۔
سرکاری ملازمین اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو عموماً عید سے قبل تنحواہ ادا کردی جاتی ہے، عید سے پہلے ہی یہ تنحواہ عید کی تیاریوں پر خرچ ہوجاتی ہے۔ اسکے بعد پورا مہینہ کیسے گذاتا ہے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب عید پر بے جا اسراف کئے جاتے ہیں، پہلے عید پر جوکپڑے اور جوتے خریدے جاتے تھے پورا سال وہ پہنے جاتے تھے ، اب تو یہ کلچر ہی تبدیل ہوچکا ہے ۔اب عید پر اس قدر مالی بوجھ پڑجاتا ہے کہ کئی مہینے کے بعد بھی توازن قائم نہیں ہوتا۔
ایک ماہر اقتصادیات کاکہنا ہے کہ عید کا تہوار ہماری اقتصادیات اور معاشیات کیلئے بہت اہم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کپڑوں ِ، میک اپ ، چوڑیوں ، جوتوں اور جیولری کی 65 فصید خریداری ہی عیدین کے موقع پر ہوتی ہے جسکی وجہ سے اکانومی کا پہیہ چل رہا ہے وگرنہ صوتحال اور بھی ابّتر ہوجائے۔ انکا کینا ہے ٹیلرز ، ماہرین میک اپ اور بہت سارے پیشوں کا دارو مدار ہی عید شاپنگ پر ہے، عید کے دنوں میں کم از کم تیس لاکھ افراد کو وقتی روز گار مل جاتا ہے۔ پیسہ متمول افراد کے ہاتھوں سے نکل کر نیچے کی طرف بھی آتا ہے مگر ان دنوں میں امیر اور غریب کا فرق اور بھی گہرا اور واضح نظر آتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک دینی تہوار کا مخصوص تقدس نظر نہیں آتا۔
موجودہ دور میں جس طریقے سے عید منائی جاتی ہے اس میں دین کا رنگ نہایت پھیکا پڑ گیا ہے۔ بھائی چارے اور اجتماعیت کے مناظر نظر نہیں آتے ، اب عید کے موقع پر عید کارڈ نہیں بھیجے جاتے ، موبائل پر ہی '' فاروڈمسیج '' کردیا جاتا ہے یا رسمی طور پر عید مبارک کا پیغام بھیج دیا جاتا ہے، اب مسیج پیکج خاصا سستا ہوگیا ہے وگرنہ لوگ '' فاروڈمسیج'' بھی نہ بھیجیں ، پہلے لوگ خود عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کو عید ملنے جاتے تھے، اب موبائل فون سے ہی کام چلالیا جاتا ہے۔ آج سے کچھ سال قبل لاہور کے شہری عید نماز کے فوراً نعد گھروں میں نہیں جاتے تھے۔ وہ گلی محلے میں کھڑے رہتے کہ سب محلے داروں سے عید مل لیں ، جب تک تمام افراد عید نہ مِل لیں ،جن تک تمام افراد آپس میں عید کی مبارک باد نہ دئیے گھروں میں نہیں جاتے تھے، اب ان مناظر میں بھی خاصی کمی آتی جارہی ہے۔ عید کا فلسفہ اجتماعیت کمزور تر ہورہاہے۔ جدت میں وہ روایات ختم ہورہی ہیں کہ جن کا اپنا ہی حسن ہے۔
دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے قانون نافذ کروانے والے ادارے اپنی ڈیوٹیوں پر موجود ہوتے ہیں ۔حتیٰ کہ عید کی نماز کے دوران بھی محکمہ پولیس کے جوان مکمل الرٹ ہو کر نمازیوں کی حفاظت کرتے ہیںبندوقوں کے سائے تلے عید کی نمازادا کی جاتی ہے۔
اب مٹھائی کی دکانوں پر شامیانے اور قناتیں نہیں لگائی جاتیں ،مٹھائی کی دکانوں میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے، حتیٰ کہ لاہور کے مشہور مٹھائی فروش بھی سمِٹے جا رہے ہیں ۔ اسکی بجائے بیکریوں کا نیا کلچر پیدا ہوا ہے اب بیکریوں میں مٹھائی بھی فروخت ہوتی ہے مگر مٹھائی کی بجائے اب عزیز واقاب اور دوستوں کے ہاں کیک، پیزا اور دوسری بیکری آئیٹمز بھیجی جاتی ہیں، اب آئس کریم ، قلفی ،گول گپے(پانی پوری)شوارما اور برگر کا نیا کلچر پیدا ہوچکا ہے، اب لوگ تاریخی عمارات کی بجائے جد ید تفریخی مقامات کا رخ کرتے ہیں اب عید میلے کی بجائے اپنے بچوں کو شاپنگ مالز اور دوسرے مقامات پربنے ہوئے ڈزنی لینڈ اور جوائے لینڈ وغیرہ لیکر جاتے ہیں۔ اس جدت میں پرُانی روایات و رسم رواج بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔
اب عزیز رشتہ داروں کے گھروں میں جانے کا رواج بھی کم ہورہا ہے،اپر مڈل کلاس اور متمول افراد ایک ہی عید مِلن پارٹی کرکے جان چھرواتے ہیں۔ اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کا رنگ غالب آرہا ہے، آج کے دن بھی بہت سارے لوگ اُداس اور تنہا ہیں، رمضان المبارک میں پیدا ہونے والا تقدس ، نادارافراد کا احساس ، عبادات ، بھائی چارہ اور عبادت کا جذبہ ایک دن میں کا فور ہوچکا ہے۔ شائد ہماری زندگیوں سے برکت اٹھ چکی ہے، نفسا نفسی ، خود غرضی اور انفرادیت نے عید کی خوشیوں کو بھی ماند کردیا ہے، ہر طرف بے جا اسراف کے مناظر نظر آتے ہیں مگر اپنے آس پاس بے بس و بے کس اور مجبور افراد کیلئے کسی کے پاس بھی سوچنے کا وقت نہیں ہے۔
عید الفطر ایک اجتماعی دینی تہوار ہے مگر ہم بِکھر چکے ہے تنہا تنہا ہوچکے ہیں ۔ خود نمائی اور جھوٹی شان وشوکت نے طبقات کے درمیان تفریق اور بھی گہری کردی ہے۔ طبقات کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اب عید کے تہوار پر ایک طرف دولت کی نمائش نظر آتی ہے دوسری طرف محرومیاں ،سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں۔ حد سے زیادہ مہنگائی نے لوگوں کے دلوں سے جینے کی رمق بھی چھین لی ہے۔ ذخیزہ اندوزں نے عوام سے عید کی خوشیاں ہی چھین لی ہیں۔
'' وطن عزیز کی کچھ اہم عید یں''
پاکستا ن کی پہلی عید الفطر آزادی کے صرف دو روز کے بعد منائی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوؤں اور سکھوِں نے مسلمانوں کی قتل وغارت شروع کردی تھی، تمام پاکستانی اس صورتحال پر بہت دل گرفتہ اور پریشان تھے ایسے موقع پر بابا ئے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستانیوں کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے جو تاریخی تقریر کی اس نے گویا مسلمانوں کو نئی زندگی عطا کی۔ لاہور کے شہریوں نے انصار کی روایات کو قائم کرتے ہوئے مہاجرین کو گلے لگایا اور لاہور میں عید الفطر بھی پورے دینی جذبے کے ساتھ منائی گئی اور شہر میں بھائی چارے کی فضا نظر آنے لگی۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد جب پہلی عید الفطر منائی گئی تو پوری فضا سوگوار تھی، عید کی نماز پڑھانے کے بعد آئمہ حضرات نے مسلمانوں کو عید کی مبارک باد بھی نہ دی۔ اور بادشاہی مسجد میں بھی نماز عید مکمل ہونے کے بعد خاکساروں نے حضوری باغ میں روایتی گولوں کی سلامی نہ دی اور نہ ہی عید مبارک کے پیغام والے غبارے اڑائے گئے، نماز ختم ہونے کے بعد لوگ بہت ہی شکستہ دلوں کے ساتھ واپس لوٹے اس موقعہ پر پوری پاکستانی قوم ہی غمزدہ تھی۔
'' انعام واکرام کی رات اور خرافات''
عیدین کی راتوں کا شمار بھی اُن دس راتوں میں ہوتا ہے کہ جن میں عبادات کا اجّر و ثواب بہت زیادہ ہے یہ دعاؤںکی قبولیت کی راتیںہیں، بخشش و نجات کی راتیںہیں، انعام و اکرام نازل ہونے کی راتیں ہیں، مصائب سے چھٹکارے کی راتیں ہیں۔ دنیا و آخرت میں ُسرخروئی کی راتیں ہیں۔ محدثین اور علما وکرام کے مطابق عید الفطر کی رات مزدوری حاصل کرنے کی رات ہے اس رات اللہ تعالیٰ روزوں ، راتوں کے قیام ، عبادات ، زکوٰۃ ، صدقات ، خیرات اور دوسری نیکیوں کا زیادہ سے زیادہ اجّر عطا فرما تا ہے، مگر اچھنبے کی بات ہے کہ چاند کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں کی اکثریت ''مزدوری '' اجّر و اکرام ، اسکی رحمتوں ، نعمتوں اور برکتوں سے بے نیاز ہوکر خرافات میں کھو جاتی ہے، ماہ رمضان کا تقدس کہیں بھی نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ نماز عشاء میں نمازیوں کی تعداد میں نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ بعض بازاروں میں بے ہودگی کے وہ مناظر نظرآتے ہیں کہ جیسے شیطان کے چیلے اپنے ''گرو' کی رہائی کا جشن منا رہے ہیں ۔
''عام اور متمول افراد کیلئے فطرانے کا نصاب''
نماز عید الفطر سے قبل مستحقین میں فِطرانہ تقسیم کرنا واجب ہے تاکہ وہ بھی اس مذہبی تہوار کی خوشیاں منا سکیں ، فطرانہ گندم ،جو، کھجوروں یا کشمکش کی شکل میں یا اسکی موجودہ قیمت کے حساب سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ مفتیاں ِ دین کے مطابق عام مسلمان گندم کی قیمت کے برابرفطرانہ ادا کریں مگر متمول افراد ایک''صاع'' (سوا سیر) کھجور یا کشمکش کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کریں ۔ باحیثیت افراد کیلئے کشمکش کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کرنا افضل ترین ہے۔ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کر نا اسکی رضا اور نجات کا باعث ہے۔ فطرانے کی رقم پیشہ ور فقیروں کی بجائے سفید پوش افراد کو دینے کا زیادہ اجّر ہے، مخصوص حالات میں فطرانے کی رقم ''عیدی'' کے طور پر بھی ادا کی جا سکتی ہے تاکہ اسکی عزتِ نفس مجروح نہ ہو مگر دینے والے کی نیت فطرانہ ادا کرنے کی ہی ہونی چاہیے، مقررہ حد سے بھی زیادہ فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ دین اسلام میں کم از کم حد رکھی گئی ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
'' طبقاتی تفریق کی انتہا ''
عید الفِطر مسلمانوں کا اجتما عی دینی تہوار اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے، عید الفطر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، نعمتوں اور برکتوں کو آپس میں''شیئر '' (تقسیم) کرنے کا دن ہے، اس دن کی اصل روح اور پاکیزگی ،ایثار، پیار، اخوت اور احساس میں پنہاں ہے۔ انفرادیت اور فضول اخراجات سے منع کیا گیا ہے مگر اکثر یت فضولیات اور خرافات کی انتہا کردیتی ہے۔ بیش قیمت ملبوسات بنائے جاتے ہیں، مہنگی ترین جوتیاں ، سامان میک اپ اور جیولری خریدی جاتی ہے، آرائش کیلئے بیوٹی پارلروں سے ہزاروں کا میک اپ کروایا جاتا ہے، مہنگے ترین ہوٹلوں اور ریستوارنوں میں کھانا کھایا جاتا ہے۔ بچوں کو مہنگے ترین تفریحی مقامات کی سیر کروائی جاتی ہے، مہنگے جھُولوں پر بٹھایا جاتا ہے، دولت کا اس قدر اسراف کیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ، یہ دن تو اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے، طبقاتی تفریق کو کم کرنے کا دن ہے امیر اور غریب کا فرق مٹانے کا دن ہے عید کے روز طبقاتی تفریق عروج پر نظر آتی ہے، ہر طرف خوشیوں کی انتہا،دوسری طرف محرومیاں، سسکیاں اور آہیں ۔ اس دن پاکیزگی، ہمددری و ایثار، یگانگت کی بجائے بے ہودگی، خود نمائی اور خود غرضی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔
''عید کی خوشیوں میں دّکھ بھرے مناظر''
بے شمار ایسے شعبے اور افراد ہیں کہ جنہیں عید پر بھی چھٹی نہیں ملتی، افواج پاکستان رینجرز، محکمہ پولیس وغیرہ۔ نجی شعبے میں ہوٹلوں، ریستورانوں، تفریخی مقامات، مٹھائی کی دکا نوں، بیکریوں اور اشیائے خورونوش کی دکانوں پر کام کرنے والے افراد عید کے موقع پر بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہوتے ہیں، یہ لوگ خاص توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ عید کے دن ایک برگر شاپ پر 9 سالہ خوبصورت بچے کو کام کرتے دیکھا تواُس سے پوچھا '' کہ اُس نے عید کی چھٹی کیوں نہیں کی؟''اُس نے جواب دیا '' میں ایک یتیم بچہ ہوں میری ماں بیمار ہے، دوچھوٹی بہنیں ہیں ہم بہت غریب ہیں آج مجھے دوسو روپے فالتو ملیں گے ٹپ بھی کچھ زیادہ مِل جائے گی۔
میں اپنے گھر مرغی کا گوشت لے جاؤں گا پھر ہمارے گھر بھی چکن پکے گا، میری ماں اور چھوٹی بہنیں خوش ہو جائیں گی'' اسکی بات سُن کر میرے اندر چھنا کے سے کوئی چیز ٹوٹ گئی،کاروں میں بیٹھے افراد اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں مگن تھے۔ اُس بچے کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں تھا ۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہوا ہے وہ خوشیوں پر صرف اپنا اور اپنے بچوں کا حق ہی سمجھتے ہیں۔ عہدِ نبویﷺ میں آپ ﷺ نے ایک اداس یتیم بچے کو دیکھا تھا تو اسے گھر لے گئے تھے، آ پﷺ نے فرمایا تھا میں تمھارا باپ ہوں پھر اس یتیم بچے کو حضرت امام حسینؓ کے کپڑے پہنائے تھے اب مدینہ میں ایک بچہ بھی اداس نہیں تھا اور یہاں ؟؟؟
تمام مسلمانوں نے اس ماہِ مبارکہ میں اپنے نفس پر قابو رکھا، راتوں کو قیام کیا، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں صرف کیا، اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجّر ملنیِ کی اُمید پر دل خوش اور مطمین ہوتا تھا۔ عام مسلمان عہد کرتے تھے کہ وہ باقی سال بھی اسی طریقے سے زندگی گزاریں گے۔ نعت خوان ٹولیاں گلی محلوں میں پھیل کر سحری اور دوسرے اوقات میں ''الوداع رمضان'' کی شعر گوئی کرتی اور نعتیں پڑھتی تھی۔
عید سے دو تین روز قبل سے ہی گلی کوچوں میں مٹھائی کی دکانوں کو سڑک کی طرف بڑھا دیا جاتا، حلوائی ٹینٹ لگا کر پھٹے اُوپر نیچے رکھ کر اُن پر مٹھائیوں کے تھال رکھتے کہ عید کے روز لوگ اپنے عزیزواقارب کی طرف مٹھائی لیکر جانا ضروری سمجھتے تھے، اس زمانے میں بیکریوں کا موجودہ کلچر پیدا نہیں ہوا تھا، نہ ہی اس زمانے میں مشہور بیکریوں کی چین ہوتی تھی، محلوں میں مختلف چھوٹی چھوٹی بیکریاں ہوتی تھیں۔ تین چار بیکری آئٹمز ہوتی تھیں۔ بیکری کی موجودہ اشیاء کا تصور بھی نہ تھا۔ مٹھائی کی دکانوںکے علاوہ مشروبات کی بوتلیںبیچنے والے بھی دکانوں کو سڑکوں تک بڑھا لیتے تھے،اس زمانے میں لیٹر، ڈیرھ لیٹر یا سوا دولیٹر کی بوتلیں نہ ہوتی تھیں۔ ریگولر بوتلیں ہی ہوتی تھیں، گولی والی بوتل کا نسبتاً ریٹ کم ہوتا تھا۔ انکا استعمال کم ہی ہوتا تھا، یہ وہ دورَ تھا کہ سّویوں کے علاوہ بوتل پینا اور پان کھانا ہی عید کی روایت سمجھی جاتی تھی ۔
اندرون ِشہر لاہورکی فصیل کے باہر باغات موجود تھے، اس زمانے میں یہ باغات قبضہ گروپوں اور لاہور میونسپل کارپوریشن کی دسترس سے بچے ہوئے تھے، عید کے دنوں میں ان باغات میں ''عید میلہ '' سج جاتا ، قتلمے اندرسے،کھلونوں اور دوسری اشیاء کی دکانیں لگ جاتیں، اُس زمانے کے حساب سے جھُولے لگ جاتے، موجودہ جدید جھُولوں کا تصور نہ تھا۔ پینگیں اور چار سیٹوں والے لکڑی کے بنے ہوئے آسمانی جھُولے ہوتے تھے، بچے اس ''عید میلے'' میں عید مناتے، واپسی پر کھلونے خرید لئے جاتے اور سارا راستے باجے بجاتے ہوئے گھر کی راہ لیتے، مائیں کھانا تیار رکھتیں اگرچہ سالن تو عموماً ایک ہی ہوتا تھا مگر اُس عید پر خاص طور گوشت یا مرغی کا سالن بنایا جاتا ۔دیسی مرغیاں ہوتی تھیں ابھی بوائلر مرغیوں کا کلچر نہیں ہوا تھا۔
لوگ اپنے عزیزواقارب سے ضرور ملِنے جاتے تھے، خاص طور پر روٹھے ہوئے دوستوں اور عزیزورشتہ داروں کو منانے ان کے گھروں میں جاتے،گلے ملتے ہی تمام گلِے شکوے دورُ ہو جاتے، روٹھوں کو منانا عید کا خاص جُزو سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں زندگی بڑی سادہ ہوتی تھی مگر جینے کا اپنا مزہ اور انداز تھا ۔گھر کے مرد تاش کی محفلیں سجاتے اور رات گئے تک تاش کی بازیاں لگاتے رہتے ۔ آج کی طرح ٹریفک کی بہتات نہ ہوتی، لاہور کی آبادی مخصوص جگہ میں قائم تھی ۔
ٹرو کا دِن ''پکنک'' کیلئے مخصوص تھا۔ جیلانی پارک (ریس کورس پارک) ماڈل ٹاؤن پارک، گلشن اقبال، فورٹریس سٹیڈیم کا جوائے لینڈ یا دوسرے پارکس موجود نہ تھے، لوگ پکنک منانے کیلئے ''مقبرہ جہانگیر، شالامار باغ، جناح باغ اور چڑیا گھر کا رُخ کرتے، آمدورفت کیلئے عموماً تانگے کی سواری کی جاتی تھی ۔ تانگے کی سیر کا اپنا ہی مزہ اور ردھِم تھا ۔ تیسرے دن جسے ''مرو'' کہا جاتا ہے معمولات زندگی شروع ہو جاتی، اسکول کالج دفاتر اور دکانیں کھل جاتی تھیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی کہ کاش ایک دن اور چھٹی مِل جاتی، تیسرے دن مٹھائی اور مشروبات کی دکانوں سے ٹینٹ اُتر جاتے یہ دکانیں دوبارہ اپنی چاردیواری کے اندر سِمٹ جاتیں ۔ مگرعید کی خوشیاں اور مخصوص تاثر عرصہ تک یاد رہتا، زندگی میں سکون ہی سکون تھا، خاص طور پر روٹھوں ہوؤں کو منانے کا اپنا ہی مزہ تھا ۔ اجتماعیت کی فضا نظر آتی تھی۔ لوگ بے بس و بے کس افراد کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا عید کی خاص روایت سمجھتے تھے ۔ ان دنوں فضا میں بھی عید کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا احساس ہوتا تھا۔
'' خواتین کی چاند رات ، مہندی اور عید''
چاند نظرآتے ہی خواتین گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہو جاتی تھیں، اُس زمانے میں فریج اور فریزر عام نہیں ہوتے تھے، گوشت تو صبح سویرے ہی آتا تھا مگر لہسن، پیاز اور ادرک وغیرہ کو کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ چارپائیوں یا پلنگ پر دُھلی ہوئی یا نئی چادریں ڈال دی جاتی تھیں۔ خواتین گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہوکر پسی ہوئی مہندی کو پانی میں گھول لیتی تھیں، اس محلول کو ہاتھوں پر لگا کر لیٹ جاتی تھیں کیونکہ تصور یہی تھا کہ جتنی دیر مہندی لگی رہے اتنا ہی گہرا رنگ آتا ہے، مہندی لگنے کے بعد عجیب سی بُو فضا میں پھیل جاتی تھی مگر مہندی لگانا عید کی روایات میں اہم ترین روایت سمجھی جاتی تھی۔ خواتین اور بچیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پر بھی مہندی لگائی جاتی تھی ،صبح خواتین ،بچیاں اور بچے اٹھ کر ہاتھ دھوتے اور ایک دوسرے کو دکھایا جاتا کہ کس کی مہندی کا رنگ زیادہ گہرا ہے، اُس زمانے میں خواتین کا رات گئے باہر نِکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا، چنانچہ چوڑیاں اور چھوٹی موٹی جیولری جو کہ موتیوں کے ہار اور انگوٹھی پر مشتمل ہوتی تھی ، شام سے پہلے ہی خریدی جاتی تھیں۔
عید کی صبح خواتین گھروںمیں سویاں بناتی تھیں پھر اپنے اہلخانہ کے ساتھ یہ سویاں محلہ میں بھی تقسیم کی جاتی تھیں ، جب بچیاں ٹرے یا تھال میں سویوں سے بھری چھوٹی چھوٹی پلیٹیں رکھ کر محلے میں ہر دروازے پر دستک دیتی تھیں تو عید کا خاص ماحول پیدا ہوتاتھا۔ گھروں میں سویاں بجھوانا بھی عید کی ضروری روایت سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ نماز عید سے قبل کھجور یا میٹھی چیز کھا نا سنتؐ ہے چنانچہ مرد بھی سویاں کھا کر ہی نماز عید کیلئے نکلتے تھے۔ اہل لاہور کی اکثریت بادشاہی مسجد ، مسجد وزیر خان اور مسجد داتا دربار نماز عید کیلئے جاتی تھی ۔ اُس زمانے میں عید کے بڑے اجتماعات ان تین مساجد میں ہی ہوتے تھے بعد میں آبادی بڑھنے کے ساتھ سینکڑوں جگہ نماز عید کے اجتماعات شروع ہوگئے۔
جیسے ہی مردنماز پڑھنے کیلئے نِکلتے ، خواتین بھی تیار ہونا شروع ہوجاتی تھیں ۔آج کل کے مہنگے ملبوسات یا ''ڈیزائینر سوٹ'' نہیں ہوتے تھے۔ عید پر عمو ماًساٹن اور کریب کے کپڑے پہنے جاتے تھے، میک اپ بھی بڑا سادہ ہوتا ۔ خواتین اور بچیاں فیس کریم لگا کر لپ اسٹک اور نیل پالش لگا لیتی تھیں، جہنیںلپ اسٹک بھی میسر نہ ہوتی وہ دنداسہ دانتوں پر مل کر ہونٹوں پر اورنج رنگ چڑھا لیتیں ، کپڑے اور میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی جاتیں ، گلے میں موتیوں کا ہار ڈال لیا جاتا اور ہاتھوں کی ایک دوانگلیوں میں انگھوٹھیاں پہن لی جاتی تھیں ، مرد جیسے ہی گھروں میں داخل ہوتے خواتین اور بچیاں انکے پاس آتیں اور وہ انھیں بھی عید مبارک باد دیتے ، ساتھ ہی بچوں کی طرف سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا ، عموماًاٹھنی یا ایک روپیہ عیدی دی جاتی مگر ایک روپیہ بھی اس زمانے میں بہت تھا۔اب تو ہزراروں کے حساب سے عیدی دی اور لی جاتی ہے، شادی شدہ بچیوں کے والدین بھی نماز عید سے فارغ ہوتے ہی انکے گھروں میں پہنچ جاتے اور حسب توفیق اپنی بچیوں،داماد اور بچوں میں عیدی تقسیم کی جاتی۔بیٹیاں اپنے والدین کی سویوں اور چائے یا دیسی مشروبات سے خاطر تواضع کرتی ۔ محبت کے یہ مظاہرے ہر گھر میں نظر آتے تھے۔ افراد کے باہمی روابط بہت مضبوط تھے، بے اعتنائی کا دور نہیں تھا۔ محلوں میں خواتین اور بچوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا لگا رہتاتھا، اس چہل پہل سے عید کا روایتی رنگ نمایاں نظر آتا تھا ۔
اب تو مہندی کے وہ پُرانے تصورات بھی تقریباًختم ہوچکے ہیں۔ کئی قسم کی ''کون مہندیاں'' مارکیٹ میں آچکی ہیں یہ کون مہندی کیمیکل کی مدد سے تیار کی جاتی ہے اب ہاتھوں پر مہندی کا لیپ چڑھانے کی بجائے ''کون مہندی اور سرنج'' سے خوبصوت پھول بوٹیاں اور نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، اب سادہ میک اپ کی بجائے جدید میک اپ مارکیٹ میں آچکا ہے، میک اپ کی سینکڑوں اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اب کم از کم ایک درجن اشیاء سے سادہ میک اپ ہوتا ہے ، میک اپ کا سامان تیار کرنے والی سینکڑوںکمپنیاں اپنی مصنوعات کی پُر کشش تشہیر کے ذریعے عام خواتین کو بھی اس راہ پر ڈال چکی ہے کہ پیسوں کی کمی کے با وجود انھیں اپنی آرائش و زیبائش کیلئے درجنوں چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اب عید کے دنوں میں بیوٹی پارلر جانا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان بیوٹی پارلرز میں خواتین کو خوبصورت اور جاذب نظر بنانے کیلئے کئی قسم کے جتن کئے جاتے ہیں۔ گلی محلے میں قائم بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی اکثر خواتین نا تجربہ کار ہوتی ہیں میک اپ کا سامان بھی غیر معیاری ہوتا ہے مگر پھر بھی خواتین کی گھنٹوں باری نہیں آتی۔ اب گلی محلوں میں یگانگت اور اپنائیت کا ماحول نظر نہیں آتا، ہر طرف نمائش و نمود کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پورے لاہور میں ایک ہی قسم کی عید منائی جاتی تھی اندرون شہر اور آس پاس کے علاقوں میں ایک جیسا ماحول ہی نظر آتا تھا، اُس زمانے میں جودوتین پوش علاقے موجود تھے وہاں دیرانیوں کے ڈیڑے ہوتے تھے، اب صرف لاہورمیں ہی قسم قسم کی عید منائی جاتی ہے۔ اندرون شہر اور آس پاس کے علاقوں میں ایک مخصوص کلچر نظر آتا ہے، ڈیفنس میں دوسرا عید کلچر نظر آتا ہے ، نئی آبادیوں میں بھی الگ ماحول نظر آتا ہے۔پسماندہ علاقوں میں اور طرح کی عید منائی جاتی ہے، فلیٹوں کی عید اور ہوتی ہے ۔اب عید کا دن ایک دائمی سکون نہیں دیتا بلکہ یہ نماز عید کے بعد ایک ''ڈیوٹی '' کا احساس ہوتا ہے کہ سب کو عید مبارک کا میسج بھیجنا ہے ، قریبی عزیز واقارب کو فون بھی کرنا ہے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے ناپسندیدہ افراد کے گھروں میں بھی جانا پار تا ہے، اپنے گھروں میں آنے والے بہت سے ناپسندیدہ افراد کو مصنوعی مسکراہٹ اور جبر کے ساتھ ''ویلکم '' کرنا پڑتا ہے اور انکی خاطر تواضع بھی کرنی پڑتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اہل خانہ کے ساتھ نئے قائم ہونے والے شاپنگ مالز اور تفریحی مقامات پر جانا پڑتا ہے۔
سرکاری ملازمین اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو عموماً عید سے قبل تنحواہ ادا کردی جاتی ہے، عید سے پہلے ہی یہ تنحواہ عید کی تیاریوں پر خرچ ہوجاتی ہے۔ اسکے بعد پورا مہینہ کیسے گذاتا ہے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب عید پر بے جا اسراف کئے جاتے ہیں، پہلے عید پر جوکپڑے اور جوتے خریدے جاتے تھے پورا سال وہ پہنے جاتے تھے ، اب تو یہ کلچر ہی تبدیل ہوچکا ہے ۔اب عید پر اس قدر مالی بوجھ پڑجاتا ہے کہ کئی مہینے کے بعد بھی توازن قائم نہیں ہوتا۔
ایک ماہر اقتصادیات کاکہنا ہے کہ عید کا تہوار ہماری اقتصادیات اور معاشیات کیلئے بہت اہم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کپڑوں ِ، میک اپ ، چوڑیوں ، جوتوں اور جیولری کی 65 فصید خریداری ہی عیدین کے موقع پر ہوتی ہے جسکی وجہ سے اکانومی کا پہیہ چل رہا ہے وگرنہ صوتحال اور بھی ابّتر ہوجائے۔ انکا کینا ہے ٹیلرز ، ماہرین میک اپ اور بہت سارے پیشوں کا دارو مدار ہی عید شاپنگ پر ہے، عید کے دنوں میں کم از کم تیس لاکھ افراد کو وقتی روز گار مل جاتا ہے۔ پیسہ متمول افراد کے ہاتھوں سے نکل کر نیچے کی طرف بھی آتا ہے مگر ان دنوں میں امیر اور غریب کا فرق اور بھی گہرا اور واضح نظر آتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک دینی تہوار کا مخصوص تقدس نظر نہیں آتا۔
موجودہ دور میں جس طریقے سے عید منائی جاتی ہے اس میں دین کا رنگ نہایت پھیکا پڑ گیا ہے۔ بھائی چارے اور اجتماعیت کے مناظر نظر نہیں آتے ، اب عید کے موقع پر عید کارڈ نہیں بھیجے جاتے ، موبائل پر ہی '' فاروڈمسیج '' کردیا جاتا ہے یا رسمی طور پر عید مبارک کا پیغام بھیج دیا جاتا ہے، اب مسیج پیکج خاصا سستا ہوگیا ہے وگرنہ لوگ '' فاروڈمسیج'' بھی نہ بھیجیں ، پہلے لوگ خود عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کو عید ملنے جاتے تھے، اب موبائل فون سے ہی کام چلالیا جاتا ہے۔ آج سے کچھ سال قبل لاہور کے شہری عید نماز کے فوراً نعد گھروں میں نہیں جاتے تھے۔ وہ گلی محلے میں کھڑے رہتے کہ سب محلے داروں سے عید مل لیں ، جب تک تمام افراد عید نہ مِل لیں ،جن تک تمام افراد آپس میں عید کی مبارک باد نہ دئیے گھروں میں نہیں جاتے تھے، اب ان مناظر میں بھی خاصی کمی آتی جارہی ہے۔ عید کا فلسفہ اجتماعیت کمزور تر ہورہاہے۔ جدت میں وہ روایات ختم ہورہی ہیں کہ جن کا اپنا ہی حسن ہے۔
دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے قانون نافذ کروانے والے ادارے اپنی ڈیوٹیوں پر موجود ہوتے ہیں ۔حتیٰ کہ عید کی نماز کے دوران بھی محکمہ پولیس کے جوان مکمل الرٹ ہو کر نمازیوں کی حفاظت کرتے ہیںبندوقوں کے سائے تلے عید کی نمازادا کی جاتی ہے۔
اب مٹھائی کی دکانوں پر شامیانے اور قناتیں نہیں لگائی جاتیں ،مٹھائی کی دکانوں میں نمایاں کمی واقع ہوچکی ہے، حتیٰ کہ لاہور کے مشہور مٹھائی فروش بھی سمِٹے جا رہے ہیں ۔ اسکی بجائے بیکریوں کا نیا کلچر پیدا ہوا ہے اب بیکریوں میں مٹھائی بھی فروخت ہوتی ہے مگر مٹھائی کی بجائے اب عزیز واقاب اور دوستوں کے ہاں کیک، پیزا اور دوسری بیکری آئیٹمز بھیجی جاتی ہیں، اب آئس کریم ، قلفی ،گول گپے(پانی پوری)شوارما اور برگر کا نیا کلچر پیدا ہوچکا ہے، اب لوگ تاریخی عمارات کی بجائے جد ید تفریخی مقامات کا رخ کرتے ہیں اب عید میلے کی بجائے اپنے بچوں کو شاپنگ مالز اور دوسرے مقامات پربنے ہوئے ڈزنی لینڈ اور جوائے لینڈ وغیرہ لیکر جاتے ہیں۔ اس جدت میں پرُانی روایات و رسم رواج بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔
اب عزیز رشتہ داروں کے گھروں میں جانے کا رواج بھی کم ہورہا ہے،اپر مڈل کلاس اور متمول افراد ایک ہی عید مِلن پارٹی کرکے جان چھرواتے ہیں۔ اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کا رنگ غالب آرہا ہے، آج کے دن بھی بہت سارے لوگ اُداس اور تنہا ہیں، رمضان المبارک میں پیدا ہونے والا تقدس ، نادارافراد کا احساس ، عبادات ، بھائی چارہ اور عبادت کا جذبہ ایک دن میں کا فور ہوچکا ہے۔ شائد ہماری زندگیوں سے برکت اٹھ چکی ہے، نفسا نفسی ، خود غرضی اور انفرادیت نے عید کی خوشیوں کو بھی ماند کردیا ہے، ہر طرف بے جا اسراف کے مناظر نظر آتے ہیں مگر اپنے آس پاس بے بس و بے کس اور مجبور افراد کیلئے کسی کے پاس بھی سوچنے کا وقت نہیں ہے۔
عید الفطر ایک اجتماعی دینی تہوار ہے مگر ہم بِکھر چکے ہے تنہا تنہا ہوچکے ہیں ۔ خود نمائی اور جھوٹی شان وشوکت نے طبقات کے درمیان تفریق اور بھی گہری کردی ہے۔ طبقات کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اب عید کے تہوار پر ایک طرف دولت کی نمائش نظر آتی ہے دوسری طرف محرومیاں ،سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں۔ حد سے زیادہ مہنگائی نے لوگوں کے دلوں سے جینے کی رمق بھی چھین لی ہے۔ ذخیزہ اندوزں نے عوام سے عید کی خوشیاں ہی چھین لی ہیں۔
'' وطن عزیز کی کچھ اہم عید یں''
پاکستا ن کی پہلی عید الفطر آزادی کے صرف دو روز کے بعد منائی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوؤں اور سکھوِں نے مسلمانوں کی قتل وغارت شروع کردی تھی، تمام پاکستانی اس صورتحال پر بہت دل گرفتہ اور پریشان تھے ایسے موقع پر بابا ئے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستانیوں کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے جو تاریخی تقریر کی اس نے گویا مسلمانوں کو نئی زندگی عطا کی۔ لاہور کے شہریوں نے انصار کی روایات کو قائم کرتے ہوئے مہاجرین کو گلے لگایا اور لاہور میں عید الفطر بھی پورے دینی جذبے کے ساتھ منائی گئی اور شہر میں بھائی چارے کی فضا نظر آنے لگی۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد جب پہلی عید الفطر منائی گئی تو پوری فضا سوگوار تھی، عید کی نماز پڑھانے کے بعد آئمہ حضرات نے مسلمانوں کو عید کی مبارک باد بھی نہ دی۔ اور بادشاہی مسجد میں بھی نماز عید مکمل ہونے کے بعد خاکساروں نے حضوری باغ میں روایتی گولوں کی سلامی نہ دی اور نہ ہی عید مبارک کے پیغام والے غبارے اڑائے گئے، نماز ختم ہونے کے بعد لوگ بہت ہی شکستہ دلوں کے ساتھ واپس لوٹے اس موقعہ پر پوری پاکستانی قوم ہی غمزدہ تھی۔
'' انعام واکرام کی رات اور خرافات''
عیدین کی راتوں کا شمار بھی اُن دس راتوں میں ہوتا ہے کہ جن میں عبادات کا اجّر و ثواب بہت زیادہ ہے یہ دعاؤںکی قبولیت کی راتیںہیں، بخشش و نجات کی راتیںہیں، انعام و اکرام نازل ہونے کی راتیں ہیں، مصائب سے چھٹکارے کی راتیں ہیں۔ دنیا و آخرت میں ُسرخروئی کی راتیں ہیں۔ محدثین اور علما وکرام کے مطابق عید الفطر کی رات مزدوری حاصل کرنے کی رات ہے اس رات اللہ تعالیٰ روزوں ، راتوں کے قیام ، عبادات ، زکوٰۃ ، صدقات ، خیرات اور دوسری نیکیوں کا زیادہ سے زیادہ اجّر عطا فرما تا ہے، مگر اچھنبے کی بات ہے کہ چاند کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں کی اکثریت ''مزدوری '' اجّر و اکرام ، اسکی رحمتوں ، نعمتوں اور برکتوں سے بے نیاز ہوکر خرافات میں کھو جاتی ہے، ماہ رمضان کا تقدس کہیں بھی نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ نماز عشاء میں نمازیوں کی تعداد میں نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ بعض بازاروں میں بے ہودگی کے وہ مناظر نظرآتے ہیں کہ جیسے شیطان کے چیلے اپنے ''گرو' کی رہائی کا جشن منا رہے ہیں ۔
''عام اور متمول افراد کیلئے فطرانے کا نصاب''
نماز عید الفطر سے قبل مستحقین میں فِطرانہ تقسیم کرنا واجب ہے تاکہ وہ بھی اس مذہبی تہوار کی خوشیاں منا سکیں ، فطرانہ گندم ،جو، کھجوروں یا کشمکش کی شکل میں یا اسکی موجودہ قیمت کے حساب سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ مفتیاں ِ دین کے مطابق عام مسلمان گندم کی قیمت کے برابرفطرانہ ادا کریں مگر متمول افراد ایک''صاع'' (سوا سیر) کھجور یا کشمکش کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کریں ۔ باحیثیت افراد کیلئے کشمکش کی قیمت کے برابر فطرانہ ادا کرنا افضل ترین ہے۔ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کر نا اسکی رضا اور نجات کا باعث ہے۔ فطرانے کی رقم پیشہ ور فقیروں کی بجائے سفید پوش افراد کو دینے کا زیادہ اجّر ہے، مخصوص حالات میں فطرانے کی رقم ''عیدی'' کے طور پر بھی ادا کی جا سکتی ہے تاکہ اسکی عزتِ نفس مجروح نہ ہو مگر دینے والے کی نیت فطرانہ ادا کرنے کی ہی ہونی چاہیے، مقررہ حد سے بھی زیادہ فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ دین اسلام میں کم از کم حد رکھی گئی ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
'' طبقاتی تفریق کی انتہا ''
عید الفِطر مسلمانوں کا اجتما عی دینی تہوار اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے، عید الفطر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، نعمتوں اور برکتوں کو آپس میں''شیئر '' (تقسیم) کرنے کا دن ہے، اس دن کی اصل روح اور پاکیزگی ،ایثار، پیار، اخوت اور احساس میں پنہاں ہے۔ انفرادیت اور فضول اخراجات سے منع کیا گیا ہے مگر اکثر یت فضولیات اور خرافات کی انتہا کردیتی ہے۔ بیش قیمت ملبوسات بنائے جاتے ہیں، مہنگی ترین جوتیاں ، سامان میک اپ اور جیولری خریدی جاتی ہے، آرائش کیلئے بیوٹی پارلروں سے ہزاروں کا میک اپ کروایا جاتا ہے، مہنگے ترین ہوٹلوں اور ریستوارنوں میں کھانا کھایا جاتا ہے۔ بچوں کو مہنگے ترین تفریحی مقامات کی سیر کروائی جاتی ہے، مہنگے جھُولوں پر بٹھایا جاتا ہے، دولت کا اس قدر اسراف کیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ، یہ دن تو اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے، طبقاتی تفریق کو کم کرنے کا دن ہے امیر اور غریب کا فرق مٹانے کا دن ہے عید کے روز طبقاتی تفریق عروج پر نظر آتی ہے، ہر طرف خوشیوں کی انتہا،دوسری طرف محرومیاں، سسکیاں اور آہیں ۔ اس دن پاکیزگی، ہمددری و ایثار، یگانگت کی بجائے بے ہودگی، خود نمائی اور خود غرضی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔
''عید کی خوشیوں میں دّکھ بھرے مناظر''
بے شمار ایسے شعبے اور افراد ہیں کہ جنہیں عید پر بھی چھٹی نہیں ملتی، افواج پاکستان رینجرز، محکمہ پولیس وغیرہ۔ نجی شعبے میں ہوٹلوں، ریستورانوں، تفریخی مقامات، مٹھائی کی دکا نوں، بیکریوں اور اشیائے خورونوش کی دکانوں پر کام کرنے والے افراد عید کے موقع پر بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہوتے ہیں، یہ لوگ خاص توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ عید کے دن ایک برگر شاپ پر 9 سالہ خوبصورت بچے کو کام کرتے دیکھا تواُس سے پوچھا '' کہ اُس نے عید کی چھٹی کیوں نہیں کی؟''اُس نے جواب دیا '' میں ایک یتیم بچہ ہوں میری ماں بیمار ہے، دوچھوٹی بہنیں ہیں ہم بہت غریب ہیں آج مجھے دوسو روپے فالتو ملیں گے ٹپ بھی کچھ زیادہ مِل جائے گی۔
میں اپنے گھر مرغی کا گوشت لے جاؤں گا پھر ہمارے گھر بھی چکن پکے گا، میری ماں اور چھوٹی بہنیں خوش ہو جائیں گی'' اسکی بات سُن کر میرے اندر چھنا کے سے کوئی چیز ٹوٹ گئی،کاروں میں بیٹھے افراد اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں مگن تھے۔ اُس بچے کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں تھا ۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہوا ہے وہ خوشیوں پر صرف اپنا اور اپنے بچوں کا حق ہی سمجھتے ہیں۔ عہدِ نبویﷺ میں آپ ﷺ نے ایک اداس یتیم بچے کو دیکھا تھا تو اسے گھر لے گئے تھے، آ پﷺ نے فرمایا تھا میں تمھارا باپ ہوں پھر اس یتیم بچے کو حضرت امام حسینؓ کے کپڑے پہنائے تھے اب مدینہ میں ایک بچہ بھی اداس نہیں تھا اور یہاں ؟؟؟