سلیکٹڈ وزیراعظم
جنرل ضیاء الحق ملک کے بلاشرکت غیرے مالک تھے
NEW YORK:
جنرل ضیاء الحق ملک کے بلاشرکت غیرے مالک تھے۔ان کے لیے کسی قسم کاکوئی بڑاسیاسی مسئلہ موجودنہیں تھا۔ ہرطرف انکاطوطی بولتاتھا۔پاکستان سترکی دہائی سے نکل کر اَسی کی دہائی میں آچکاتھا۔جنرل صاحب لاہورآئے ہوئے تھے۔پہلے گاف کھیلی اوراسکے بعداپنے ایک دوست کے پاس گلبرگ چلے گئے۔انکادوست جسے احتراماًخان صاحب کہاجاتاتھا،حددرجہ ذہین اوربہت بڑاکاروباری انسان تھا۔ افریقہ میں انتہائی غربت کی حالت میں گیااوروہاں بیس پچیس برس محنت کرنے کے بعدایک تعمیراتی کمپنی بنائی۔
اس کمپنی کانام بھی خان اینڈکمپنی تھا۔خان صاحب نے پورے افریقہ میں بہت بڑے بڑے تعمیراتی کام کیے۔اکثرملکوں کے صدور،وزراء اعظم اوراہم لوگ ان کے ذاتی دوست بن چکے تھے۔خان کنسٹرکشن کمپنی نے بے مثال ترقی کی اوروہ امیر سے امیرترہوتے چلے گئے۔آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے پرائیویٹ جہازاستعمال کرتے تھے۔ معاملہ فہمی اس شخص پرختم تھی۔ پاکستان آئے،توضیاء الحق سے ان کے ذاتی تعلقات بن گئے۔شفیقہ ضیاء الحق،جوکہ خاتون اول تھی،ان کی بہنوں کی طرح تھیں۔جنرل ضیاء الحق سے انکاادب و احترام کارشتہ تھا۔صدرصاحب،خان صاحب کی باتوں کوبڑے غورسے سنتے تھے۔
ان سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ اس لیے بھی کہ خان صاحب،جنرل ضیاء سے کچھ بھی مانگتے نہیں تھے۔ ضیاء الحق ان پربے حداعتمادکرتے تھے۔خان صاحب نے کبھی ان کے اعتمادکودھوکا نہیں دیاتھا۔جنرل صاحب کی ذاتی خوبیوں سے انحراف نہیں کیاجاسکتا۔وہ متین،بامروت اورذاتی زندگی میں سادہ انسان تھے۔خان صاحب،ان کی ذاتی زندگی کے قابل اعتماددوست تھے۔ویسے کبھی کبھی صدرصاحب انھیں کہتے تھے کہ آپ کو سیاست میں لے آتاہوں۔عہدہ مانگو،دے دیتا ہوں۔ مگر خان صاحب کو دوستی کرنے اوراسے برقراررکھنے کانایاب فن آتاتھا۔انھوں نے کبھی بھی جنرل صاحب سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ان کے صاحبزادے ضرورسیاست میں آئے اور نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں وزیر رہے۔ بعد میں،پرویزمشرف کے دورمیں صحت کے مرکزی وزیررہے۔
بات جنرل صاحب کی ہورہی تھی۔ گلبرگ میں خان صاحب کے وسیع وعریض ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ گورنر جیلانی بھی شریک ِ محفل تھے۔حددرجہ بے تکلفی کاماحول تھا۔خان صاحب نے موقعہ غنیمت جان کرجنرل صاحب کو کہاکہ ایک نوجوان وزیرملناچاہتاہے۔آپکو وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کرناہے۔بہترہے آپ اس سے مل لیں۔جنرل صاحب نے انکارکردیاکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کافیصلہ کرچکاہوں۔ ایک زمیندار گھرانے کے پختہ عمرکے منجھے ہوئے سیاستدان کودی جائے گی۔جنرل جیلانی،مکمل طورپرخاموش تھے۔
ان کی ہمت نہیں تھی کہ صدرکے موڈکے خلاف کوئی بات کر سکیں۔خان صاحب نے صدرکوکہاکہ ملنے میں کیاحرج ہے۔ وہ نوجوان کافی دیرسے برآمدے میں انتظار کر رہا ہے۔ صدر صاحب نے کہاکہ چلیے بلالیں۔ملازم، نوجوان کوڈرائنگ روم میں لے کرآیا۔وہ خاموشی اورادب سے کونے میںبیٹھ گیا۔ خان صاحب نے کہاکہ آپ، نوجوان اوران کے خاندان کو بخوبی جانتے ہیں۔مشورہ ہے کہ انکووزیراعلیٰ بنادیا جائے۔جنرل صاحب مکمل طورپرخاموش رہے۔یہ نوجوان، نواز شریف تھا۔باتیں ہونے لگیں۔نوازشریف نے خان صاحب کو کہا کہ میراچھوٹابھائی کافی دیرسے برآمدے میں بیٹھا ہے۔ اسکوبھی اندربلالیں۔چنانچہ ان کوبھی اندرطلب کرلیاگیا۔یہ شہبازشریف تھا۔جنرل صاحب،کافی دیرتک دونوں سے بات کرتے رہے۔آدھے پون گھنٹے کی ملاقات کے بعد خان صاحب نے دونوں بھائیوں کوواپس جانے کااشارہ کر دیا۔دونوں بھائی گاڑی میں بیٹھ کرواپس چلے گئے۔اب ڈرائنگ روم میں بحث شروع ہوگئی کہ وزارت اعلیٰ کس کوملنی چاہیے۔
جنرل صاحب،اپناذہن،ایک بزرگ سیاستدان کے متعلق بناچکے تھے۔فیصلہ تبدیل کرنا نہیں چاہتے تھے۔ مگرخان صاحب،بڑے تدبرسے نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کامقدمہ لڑرہے تھے۔جنرل ضیاء نے،جیلانی صاحب کی طرف رخ کیااورمشورہ مانگاکہ کیاکرناچاہیے۔جنرل جیلانی ایک زیرک انسان تھے۔کہنے لگے بہت بڑے کاروباری باپ کابیٹاہے۔روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں۔اس شخص کاسب سے بڑامیرٹ یہ ہوگاکہ دولت اس کے لیے بے معنی ہے، لہٰذایہ کسی قسم کی مالی بددیانتی کامرتکب نہیں ہوگا۔اسے دولت کی کوئی ہوس نہیں ہوگی۔وزیراعلیٰ بناناآپ نے ہے۔قرائن یہ ہیں کہ یہ نوجوان بچپن سے امیرہے،لہٰذاایمانداری سے کام کرے گا۔خان صاحب نے بھی اس کی تائیدکردی۔ضیاء الحق نے سوچناشروع کردیا۔خان صاحب اورجنرل جیلانی دلیل پربات کررہے تھے۔
جنرل ضیاء نے ایک انتہائی عجیب بات کی۔کہ یہ دوسرابھائی جواندرآیاتھا،اسکاکیانام ہے۔ بتایا گیاکہ یہ چھوٹابھائی ہے اورنام شہبازشریف ہے۔ جنرل ضیاء مکمل طورپرخاموش ہوگئے۔سارے کمرے میں سکوت تھا۔جنرل ضیاء نے شائستگی سے کہاکہ اس کو پنجاب میں کسی قسم کاعہدہ نہیں ملناچاہیے۔میں نے اس کی آنکھوں میں بہت کچھ پڑھ لیاہے۔جنرل صاحب نے مزیدمنفی جملے کہے، جو میں یہاں درج نہیں کرسکتا۔بہرحال نوازشریف کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا۔اوربھی بہت سے عوامل ہونگے، لابیز ہوں گی مگر خان صاحب اورجنرل جیلانی کی رائے سب پرمقدم تھی۔ خان صاحب کاپورانام اسلم خان تھااوروہ وفاقی وزیرنصیرخان کے والدمحترم تھے۔یہ حقیقت ہے کہ جنرل جیلانی اوراسلم خان کی گارنٹی پرنوازشریف کووزارت اعلیٰ دی گئی۔جنرل ضیاء کویہ دلیل بھاگئی کہ یہ نوجوان امیرخاندان سے تعلق رکھتا ہے۔لہٰذاکسی قسم کی مالیاتی کرپشن میں ملوث نہیں ہوگا۔اس واقعہ نے پنجاب بلکہ پاکستان کی سیاسی تقدیربدل کررکھ دی۔
نوازشریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعدسرکاری ملازمین میں اپنی مضبوط لابی بنائی۔ نوازشریف کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے بیوروکریسی میں قابل اوراہل لوگوں کواپنے نزدیک کر لیا۔اس عادت نے انھیں حددرجہ فائدہ پہنچایااورنقصان بھی۔اسکاذکرمیں پھرکبھی کرونگا۔ویسے شہبازشریف کے متعلق جنرل ضیاء الحق نے جوکہاتھا،وقت نے وہ سوفیصد درست ثابت کیا۔متعددبار،پنجاب کے وزیراعلیٰ رہنے کے باوجودانکاکوئی سیاسی گروہ نہیں ہے۔اصل ووٹ اورسیاسی طاقت نوازشریف ہی ہے۔باخبرلوگ بھی جانتے ہیں اور ادارے بھی۔جہاں تک عوام کاتعلق ہے،انھیں سیکڑوں برس سے سچ نہیںبتایاجاتاہے۔مگران تمام واقعات میں ایک سقم رہ گیا۔ دولت کی ریل پیل کے باوجود،مزیددولت حاصل کرنے کی عملی خواہش نے اَل شریف کوایک ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا جسکی حدت سے اس وقت وہ تمام گزررہے ہیں۔ نواز شریف ایمانداری کے اس معیار پرپورا نہیں اُترسکا،جسکی توقع ان کے سیاسی معماروں نے کی تھی۔بہرحال مقدرکا اپنا دھارا ہے اس کوکوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا۔
آج کل سیاسی جلسوں اورجلوسوں میں سلیکٹڈ وزیراعظم کی لفظی ترکیب استعمال کی جارہی ہے۔ سیاستدانوں کاکام ہے کہ اپنااُلوسیدھاکرنے کے لیے سیاسی حریف کوہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔عوام میں کوئی بھی ایساتاثرپیش کرتے ہیں جس سے انھیں فائدہ ہواوران کے سیاسی مخالفین گھبرائے رہیں۔ اس وقت دیکھاجائے توپیپلزپارٹی اورن لیگ، کاہرجید رہنما، عمران خان کوسلیکٹڈوزیراعظم ہونے کاطعنہ دے رہا ہے۔ لوگوں کوکہاجارہاہے کہ موجودہ وزیراعظم کوریاستی اداروں نے سلیکٹ کیاہے۔اسے کٹھ پتلی وزیراعظم بتایاجارہا ہے۔ میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی لینادینا نہیں۔اس سے بھی غرض نہیں کہ کون وزیراعظم بنے۔بہت زیادہ دورکی بات نہیں کرنا چاہتا۔گزشتہ پنتیس چالیس برس میں ایک وزیراعظم بتا دیجیے جومقتدر اداروں کی مرضی کے بغیرآیاہو۔ جونیجو صاحب انتہائی محترم اورایمانداروزیراعظم تھے۔
آج تک آنے والے وزراء اعظم سے انتہائی بلند۔مگرکیاوہ واقعی پارلیمنٹ کے ذریعے سے وزیراعظم بنے تھے۔کیا جنرل ضیاء نے انھیں پیرصاحب پگاڑاکی سفارش پرمسنداعلیٰ پرفائزنہیں کیاتھا۔کیاتمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ،صدرضیاء کی آشیربادسے تخت پرنہیں بیٹھے تھے۔کیاپیپلزپارٹی،اس اَمرسے انحراف کرسکتی ہے کہ بینظیر بھٹوکومقتدراداروں نے تمام شرائط منواکروزیراعظم بننے کی اجازت دی تھی۔کیاہم بھول چکے ہیں کہ وزیراعظم بینظیر کو ایٹمی اثاثوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔خارجہ پالیسی پربھی انکاکوئی کنٹرول نہیں تھا۔کیابینظیر،کہوٹہ تشریف لے جاسکتی تھیں۔صاحبان،قطعاًنہیں۔کیاکوئی اس اَمرسے اختلاف کرسکتاہے کہ جنرل ضیاء کے مرنے کے بعد اداروں نے براہِ راست نوازشریف کی ہرطریقے سے سرپرستی اور معاونت نہیں کی تھی۔کیاآئی جی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں جنرل حمیدگُل بذاتِ خود تمام فیصلے نہیں کرتے تھے۔ کیا بینظیر کو ہرطریقے سے ایذاپہنچانے کی ذمے داری نوازشریف کونہیں دی گئی تھی۔آپ اسکوبھی جانے دیجیے۔ کیا 1990کے الیکشن کاتاج نوازشریف کے سرپرنہیں سجایاگیاتھا۔
یہ سب کچھ مقتدراداروں کی مرضی کے بغیرہوا تھا۔ دوبار بینظیر اور تین بارنوازشریف،وزیراعظم خود بخود بن گئے تھے۔کیا وہ صرف ووٹ کی طاقت سے اقتدارمیں آئے تھے۔ 1999سے لے کراگلے دس سال جنرل پرویزمشرف کی مرضی کے بغیر کوئی شخص وزیراعظم یاوزیراعلیٰ نہیں بن سکتا تھا۔ کیا 2008 میںشہبازشریف کووزارتِ اعلیٰ پنجاب،کسی کی آشیربادکے بغیرحاصل ہوئی تھی۔
کیا واقعی جنرل پرویزمشرف نے بارہا یہ نہیں کہا کہ ان کے جانشین نے الیکشن میں انھیں دھوکا دیا اوراَل شریف کو نوازا۔اس جانشین نے کیاپیپلزپارٹی کے آصف زرداری کوصدربنانے کی راہ ہموارنہیں کی۔کیاتیس پنتیس برس میں ایک بھی اہم عہدہ،ریاستی اداروں کی مرضی کے بغیردیاگیاہے۔یہ وہ سوالات ہیں جنکا جواب ہرایک کو معلوم ہے۔بلکہ اَزبرہے۔مگردکھ اس بات کاہے کہ ان سیاسی اکابرین نے ہمارے ملک میں بددیانتی کاوہ کلچرقائم کردیا،جس سے باہرنکلناقطعاًممکن نہیں ہے۔کوئی بھی اس بدعنوانی پرمبنی سوشل انجینئرنگ کودرست نہیں کرسکتا۔گزارش صرف ایک ہے۔کم ازکم سیاسی تاریخ کومسخ نہ کریں۔اس پرجھوٹ نہ بولیں۔یہاں توسب کچھ ہی سلیکشن پرہے۔ہاں،اب اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی فریق بن چکی ہیں! کیاآج اَل شریف اور زرداری سلیکٹ ہونے کی بھرپورکوشش نہیں کر رہے؟
جنرل ضیاء الحق ملک کے بلاشرکت غیرے مالک تھے۔ان کے لیے کسی قسم کاکوئی بڑاسیاسی مسئلہ موجودنہیں تھا۔ ہرطرف انکاطوطی بولتاتھا۔پاکستان سترکی دہائی سے نکل کر اَسی کی دہائی میں آچکاتھا۔جنرل صاحب لاہورآئے ہوئے تھے۔پہلے گاف کھیلی اوراسکے بعداپنے ایک دوست کے پاس گلبرگ چلے گئے۔انکادوست جسے احتراماًخان صاحب کہاجاتاتھا،حددرجہ ذہین اوربہت بڑاکاروباری انسان تھا۔ افریقہ میں انتہائی غربت کی حالت میں گیااوروہاں بیس پچیس برس محنت کرنے کے بعدایک تعمیراتی کمپنی بنائی۔
اس کمپنی کانام بھی خان اینڈکمپنی تھا۔خان صاحب نے پورے افریقہ میں بہت بڑے بڑے تعمیراتی کام کیے۔اکثرملکوں کے صدور،وزراء اعظم اوراہم لوگ ان کے ذاتی دوست بن چکے تھے۔خان کنسٹرکشن کمپنی نے بے مثال ترقی کی اوروہ امیر سے امیرترہوتے چلے گئے۔آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے پرائیویٹ جہازاستعمال کرتے تھے۔ معاملہ فہمی اس شخص پرختم تھی۔ پاکستان آئے،توضیاء الحق سے ان کے ذاتی تعلقات بن گئے۔شفیقہ ضیاء الحق،جوکہ خاتون اول تھی،ان کی بہنوں کی طرح تھیں۔جنرل ضیاء الحق سے انکاادب و احترام کارشتہ تھا۔صدرصاحب،خان صاحب کی باتوں کوبڑے غورسے سنتے تھے۔
ان سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ اس لیے بھی کہ خان صاحب،جنرل ضیاء سے کچھ بھی مانگتے نہیں تھے۔ ضیاء الحق ان پربے حداعتمادکرتے تھے۔خان صاحب نے کبھی ان کے اعتمادکودھوکا نہیں دیاتھا۔جنرل صاحب کی ذاتی خوبیوں سے انحراف نہیں کیاجاسکتا۔وہ متین،بامروت اورذاتی زندگی میں سادہ انسان تھے۔خان صاحب،ان کی ذاتی زندگی کے قابل اعتماددوست تھے۔ویسے کبھی کبھی صدرصاحب انھیں کہتے تھے کہ آپ کو سیاست میں لے آتاہوں۔عہدہ مانگو،دے دیتا ہوں۔ مگر خان صاحب کو دوستی کرنے اوراسے برقراررکھنے کانایاب فن آتاتھا۔انھوں نے کبھی بھی جنرل صاحب سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ان کے صاحبزادے ضرورسیاست میں آئے اور نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کے دورمیں وزیر رہے۔ بعد میں،پرویزمشرف کے دورمیں صحت کے مرکزی وزیررہے۔
بات جنرل صاحب کی ہورہی تھی۔ گلبرگ میں خان صاحب کے وسیع وعریض ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ گورنر جیلانی بھی شریک ِ محفل تھے۔حددرجہ بے تکلفی کاماحول تھا۔خان صاحب نے موقعہ غنیمت جان کرجنرل صاحب کو کہاکہ ایک نوجوان وزیرملناچاہتاہے۔آپکو وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کرناہے۔بہترہے آپ اس سے مل لیں۔جنرل صاحب نے انکارکردیاکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کافیصلہ کرچکاہوں۔ ایک زمیندار گھرانے کے پختہ عمرکے منجھے ہوئے سیاستدان کودی جائے گی۔جنرل جیلانی،مکمل طورپرخاموش تھے۔
ان کی ہمت نہیں تھی کہ صدرکے موڈکے خلاف کوئی بات کر سکیں۔خان صاحب نے صدرکوکہاکہ ملنے میں کیاحرج ہے۔ وہ نوجوان کافی دیرسے برآمدے میں انتظار کر رہا ہے۔ صدر صاحب نے کہاکہ چلیے بلالیں۔ملازم، نوجوان کوڈرائنگ روم میں لے کرآیا۔وہ خاموشی اورادب سے کونے میںبیٹھ گیا۔ خان صاحب نے کہاکہ آپ، نوجوان اوران کے خاندان کو بخوبی جانتے ہیں۔مشورہ ہے کہ انکووزیراعلیٰ بنادیا جائے۔جنرل صاحب مکمل طورپرخاموش رہے۔یہ نوجوان، نواز شریف تھا۔باتیں ہونے لگیں۔نوازشریف نے خان صاحب کو کہا کہ میراچھوٹابھائی کافی دیرسے برآمدے میں بیٹھا ہے۔ اسکوبھی اندربلالیں۔چنانچہ ان کوبھی اندرطلب کرلیاگیا۔یہ شہبازشریف تھا۔جنرل صاحب،کافی دیرتک دونوں سے بات کرتے رہے۔آدھے پون گھنٹے کی ملاقات کے بعد خان صاحب نے دونوں بھائیوں کوواپس جانے کااشارہ کر دیا۔دونوں بھائی گاڑی میں بیٹھ کرواپس چلے گئے۔اب ڈرائنگ روم میں بحث شروع ہوگئی کہ وزارت اعلیٰ کس کوملنی چاہیے۔
جنرل صاحب،اپناذہن،ایک بزرگ سیاستدان کے متعلق بناچکے تھے۔فیصلہ تبدیل کرنا نہیں چاہتے تھے۔ مگرخان صاحب،بڑے تدبرسے نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کامقدمہ لڑرہے تھے۔جنرل ضیاء نے،جیلانی صاحب کی طرف رخ کیااورمشورہ مانگاکہ کیاکرناچاہیے۔جنرل جیلانی ایک زیرک انسان تھے۔کہنے لگے بہت بڑے کاروباری باپ کابیٹاہے۔روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں۔اس شخص کاسب سے بڑامیرٹ یہ ہوگاکہ دولت اس کے لیے بے معنی ہے، لہٰذایہ کسی قسم کی مالی بددیانتی کامرتکب نہیں ہوگا۔اسے دولت کی کوئی ہوس نہیں ہوگی۔وزیراعلیٰ بناناآپ نے ہے۔قرائن یہ ہیں کہ یہ نوجوان بچپن سے امیرہے،لہٰذاایمانداری سے کام کرے گا۔خان صاحب نے بھی اس کی تائیدکردی۔ضیاء الحق نے سوچناشروع کردیا۔خان صاحب اورجنرل جیلانی دلیل پربات کررہے تھے۔
جنرل ضیاء نے ایک انتہائی عجیب بات کی۔کہ یہ دوسرابھائی جواندرآیاتھا،اسکاکیانام ہے۔ بتایا گیاکہ یہ چھوٹابھائی ہے اورنام شہبازشریف ہے۔ جنرل ضیاء مکمل طورپرخاموش ہوگئے۔سارے کمرے میں سکوت تھا۔جنرل ضیاء نے شائستگی سے کہاکہ اس کو پنجاب میں کسی قسم کاعہدہ نہیں ملناچاہیے۔میں نے اس کی آنکھوں میں بہت کچھ پڑھ لیاہے۔جنرل صاحب نے مزیدمنفی جملے کہے، جو میں یہاں درج نہیں کرسکتا۔بہرحال نوازشریف کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا۔اوربھی بہت سے عوامل ہونگے، لابیز ہوں گی مگر خان صاحب اورجنرل جیلانی کی رائے سب پرمقدم تھی۔ خان صاحب کاپورانام اسلم خان تھااوروہ وفاقی وزیرنصیرخان کے والدمحترم تھے۔یہ حقیقت ہے کہ جنرل جیلانی اوراسلم خان کی گارنٹی پرنوازشریف کووزارت اعلیٰ دی گئی۔جنرل ضیاء کویہ دلیل بھاگئی کہ یہ نوجوان امیرخاندان سے تعلق رکھتا ہے۔لہٰذاکسی قسم کی مالیاتی کرپشن میں ملوث نہیں ہوگا۔اس واقعہ نے پنجاب بلکہ پاکستان کی سیاسی تقدیربدل کررکھ دی۔
نوازشریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعدسرکاری ملازمین میں اپنی مضبوط لابی بنائی۔ نوازشریف کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے بیوروکریسی میں قابل اوراہل لوگوں کواپنے نزدیک کر لیا۔اس عادت نے انھیں حددرجہ فائدہ پہنچایااورنقصان بھی۔اسکاذکرمیں پھرکبھی کرونگا۔ویسے شہبازشریف کے متعلق جنرل ضیاء الحق نے جوکہاتھا،وقت نے وہ سوفیصد درست ثابت کیا۔متعددبار،پنجاب کے وزیراعلیٰ رہنے کے باوجودانکاکوئی سیاسی گروہ نہیں ہے۔اصل ووٹ اورسیاسی طاقت نوازشریف ہی ہے۔باخبرلوگ بھی جانتے ہیں اور ادارے بھی۔جہاں تک عوام کاتعلق ہے،انھیں سیکڑوں برس سے سچ نہیںبتایاجاتاہے۔مگران تمام واقعات میں ایک سقم رہ گیا۔ دولت کی ریل پیل کے باوجود،مزیددولت حاصل کرنے کی عملی خواہش نے اَل شریف کوایک ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا جسکی حدت سے اس وقت وہ تمام گزررہے ہیں۔ نواز شریف ایمانداری کے اس معیار پرپورا نہیں اُترسکا،جسکی توقع ان کے سیاسی معماروں نے کی تھی۔بہرحال مقدرکا اپنا دھارا ہے اس کوکوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا۔
آج کل سیاسی جلسوں اورجلوسوں میں سلیکٹڈ وزیراعظم کی لفظی ترکیب استعمال کی جارہی ہے۔ سیاستدانوں کاکام ہے کہ اپنااُلوسیدھاکرنے کے لیے سیاسی حریف کوہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔عوام میں کوئی بھی ایساتاثرپیش کرتے ہیں جس سے انھیں فائدہ ہواوران کے سیاسی مخالفین گھبرائے رہیں۔ اس وقت دیکھاجائے توپیپلزپارٹی اورن لیگ، کاہرجید رہنما، عمران خان کوسلیکٹڈوزیراعظم ہونے کاطعنہ دے رہا ہے۔ لوگوں کوکہاجارہاہے کہ موجودہ وزیراعظم کوریاستی اداروں نے سلیکٹ کیاہے۔اسے کٹھ پتلی وزیراعظم بتایاجارہا ہے۔ میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی لینادینا نہیں۔اس سے بھی غرض نہیں کہ کون وزیراعظم بنے۔بہت زیادہ دورکی بات نہیں کرنا چاہتا۔گزشتہ پنتیس چالیس برس میں ایک وزیراعظم بتا دیجیے جومقتدر اداروں کی مرضی کے بغیرآیاہو۔ جونیجو صاحب انتہائی محترم اورایمانداروزیراعظم تھے۔
آج تک آنے والے وزراء اعظم سے انتہائی بلند۔مگرکیاوہ واقعی پارلیمنٹ کے ذریعے سے وزیراعظم بنے تھے۔کیا جنرل ضیاء نے انھیں پیرصاحب پگاڑاکی سفارش پرمسنداعلیٰ پرفائزنہیں کیاتھا۔کیاتمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ،صدرضیاء کی آشیربادسے تخت پرنہیں بیٹھے تھے۔کیاپیپلزپارٹی،اس اَمرسے انحراف کرسکتی ہے کہ بینظیر بھٹوکومقتدراداروں نے تمام شرائط منواکروزیراعظم بننے کی اجازت دی تھی۔کیاہم بھول چکے ہیں کہ وزیراعظم بینظیر کو ایٹمی اثاثوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔خارجہ پالیسی پربھی انکاکوئی کنٹرول نہیں تھا۔کیابینظیر،کہوٹہ تشریف لے جاسکتی تھیں۔صاحبان،قطعاًنہیں۔کیاکوئی اس اَمرسے اختلاف کرسکتاہے کہ جنرل ضیاء کے مرنے کے بعد اداروں نے براہِ راست نوازشریف کی ہرطریقے سے سرپرستی اور معاونت نہیں کی تھی۔کیاآئی جی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں جنرل حمیدگُل بذاتِ خود تمام فیصلے نہیں کرتے تھے۔ کیا بینظیر کو ہرطریقے سے ایذاپہنچانے کی ذمے داری نوازشریف کونہیں دی گئی تھی۔آپ اسکوبھی جانے دیجیے۔ کیا 1990کے الیکشن کاتاج نوازشریف کے سرپرنہیں سجایاگیاتھا۔
یہ سب کچھ مقتدراداروں کی مرضی کے بغیرہوا تھا۔ دوبار بینظیر اور تین بارنوازشریف،وزیراعظم خود بخود بن گئے تھے۔کیا وہ صرف ووٹ کی طاقت سے اقتدارمیں آئے تھے۔ 1999سے لے کراگلے دس سال جنرل پرویزمشرف کی مرضی کے بغیر کوئی شخص وزیراعظم یاوزیراعلیٰ نہیں بن سکتا تھا۔ کیا 2008 میںشہبازشریف کووزارتِ اعلیٰ پنجاب،کسی کی آشیربادکے بغیرحاصل ہوئی تھی۔
کیا واقعی جنرل پرویزمشرف نے بارہا یہ نہیں کہا کہ ان کے جانشین نے الیکشن میں انھیں دھوکا دیا اوراَل شریف کو نوازا۔اس جانشین نے کیاپیپلزپارٹی کے آصف زرداری کوصدربنانے کی راہ ہموارنہیں کی۔کیاتیس پنتیس برس میں ایک بھی اہم عہدہ،ریاستی اداروں کی مرضی کے بغیردیاگیاہے۔یہ وہ سوالات ہیں جنکا جواب ہرایک کو معلوم ہے۔بلکہ اَزبرہے۔مگردکھ اس بات کاہے کہ ان سیاسی اکابرین نے ہمارے ملک میں بددیانتی کاوہ کلچرقائم کردیا،جس سے باہرنکلناقطعاًممکن نہیں ہے۔کوئی بھی اس بدعنوانی پرمبنی سوشل انجینئرنگ کودرست نہیں کرسکتا۔گزارش صرف ایک ہے۔کم ازکم سیاسی تاریخ کومسخ نہ کریں۔اس پرجھوٹ نہ بولیں۔یہاں توسب کچھ ہی سلیکشن پرہے۔ہاں،اب اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی فریق بن چکی ہیں! کیاآج اَل شریف اور زرداری سلیکٹ ہونے کی بھرپورکوشش نہیں کر رہے؟