اردو نعتیہ شاعری میں خواتین کا حصہ
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نعت گو شاعرات کا ایک پورا کاررواں وجود میں آ چکا ہے
ڈاکٹر محمد سہیل شفیق اپنے مقالے '' اردو نعتیہ شاعری میں خواتین کا حصہ'' میں لکھتے ہیں '' اردو شاعری خواتین شاعرات کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے۔ صنف نعت کی آبیاری میں شاعروں کے ساتھ ساتھ شاعرات کی عقیدت بھری کوششیں بھی لائق مطالعہ ہیں۔
اگرچہ نعتیہ مجموعہ نگار خواتین کی تعداد مجموعہ نگار شعرا کی نسبت کم ہے تاہم وہ شعرا اور شاعرات جنھوں نے کثرت کے ساتھ نعتیں لکھیں اور مجموعے بھی مرتب کیے ان کی تعداد بھی کم نہیں۔ نعت گو شاعرات کے مجموعے ہماری تاریخ ادب کا حصہ ہیں۔ یوں بھی شعر و ادب کے میدان میں مرد و زن کی ایسی کوئی تخصیص نہیں ہے۔'' مثال کے طور پر زاہدہ خاتون کا نعتیہ کلام۔
آئی ترے ورود سے آنکھوں میں روشنی
چمکی ترے وجود سے وحدت الٰہ کی
عاصی کی آس میں تری دل جوئی کی جھلک
ڈاکٹر سہیل شفیق اسی ذیل میں ادا جعفری کا نام لیتے ہیں۔ ان کا شعر ہے:
جب نگاہوں میں ہو نکہتوں کی سی خو، تب انھیں سوچنا
دردِ محراب جاں، آنکھ ہو باوضو، تب انھیں سوچنا
عصر حاضر کی جن چند نعت گو شاعرات اور ان کے نعتیہ مجموعوں کا ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے میں تعارف کرایا ہے۔ ان میں فوزیہ انجم، ام عبد منیب، ام بلال، بشریٰ فرخ، پروین جاوید، ریحانہ تبسم فاضلی، بشارت جبیں، حمیرا راحت، اے۔بی رخشاں، راحت آرا سہیل، صغرا فاطمہ نصیر، طلعت اشارت، مخفی امروہوی، مسعودہ خانم، ریحانہ شفاعت ناز، ناصرہ رفیق، ناظرہ عالم، نور جہاں بنت عرب، نورین طلعت عروبہ، اور مسرت جہاں نوری شامل ہیں۔ سہیل شفیق صاحب لکھتے ہیں کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نعت گو شاعرات کا ایک پورا کاررواں وجود میں آ چکا ہے۔
موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ فوزیہ انجم نے حضورؐ کے صفاتی ناموں کی مناسبت سے ذات رسالت مآب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کا شعر ہے:
ہر سمت میں ہیں اسمِ محمدؐ کی برکتیں
سارا جہان آپ کے
نام انتساب ہے
اُم بلال فرماتی ہیں:
نہ موسموں کی قید میں میری بہار ہو
آنگن میں ان کے ذکرکے کھلتے رہیں گلاب
پروین جاوید کا شعر ہے:
تصور میں شہہ بطحا کا گھر ہے
یہ آنسو چشمِ نم میں کم نہ ہوں گے
حمیرا راحت کہتی ہیں:
میری ہستی بے نشاں تھی آپ نے پہچان دی
میرے ہر اک درد کو آقاؐ نے درماں کر دیا
اے۔بی رخشاں کا شعر ہے:
کاش پھر سوئے حرم اذن مدینہ ہو مجھے
پھر میری آنکھ کو دیدار نصیب ہو جائے
راحت آرا سہیل کے مجموعہ نعت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل زیادہ تر اشعار مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں لکھے گئے ہیں۔ ایک شعر ہے:
وہ کیفیت دل بیاں ہو تو کیسے، نہ اظہار ممکن نہ الفاظ کافی
ہوا سبز گنبد کا پہلا نظارہ، مرا دل بھی جھوما، مری روح بھی جھومی
ڈاکٹر سہیل شفیق لکھتے ہیں۔ ''نعت کی تخلیق میں عشق رسولؐ، اطاعت رسولؐ، سنت خداوندی کا تصور، اظہار عقیدت، تبلیغ دین کا فریضہ، ذکر رسولؐ کو عام کرنے کی خواہش، وسیلہ ثواب اور ذریعہ نجات، وسیلہ برکت اور مدینہ منورہ کی حاضری کا شوق، دنیا میں دستگیری اور آخرت میں شفاعت کی آرزو ایسے جذبے ہیں جو نعت کی ترقی اور مقبولیت کا سبب بنے۔ نعت گوئی کا محرک اول وہ غیر معمولی عشق رسولؐ ہے جو ہر مسلمان کے قلب میں فروزاں ہے۔
یہی جذبہ عشق مختلف جذبات اور احساسات کو جنم دیتا ہے، کبھی دل میں سوز و گداز کی علامت کبھی شمع یقین کی صورت، کبھی پلکوں پر چمکتے ہوئے موتیوں کی مانند نمودار ہوتا ہے۔ یہی دلوں کو اسوہ حسنہ سے آشنا کرنے کا باعث ہے۔ اس کے تاثر سے بوجھل احساسات کو تازگی اور بے جان الفاظ کو تابندگی ملتی ہے۔''
ناصرہ رفیق کہتی ہیں:
آپؐ کے وجود نے بھر دیے رنگِ کائنات
توڑ کے ساری ظلمتیں صبح قرار آ گئی
نورین طلعت عروبہ کا مجموعہ ''حاضری'' صدارتی ایوارڈ یافتہ ہے۔ ایک شعر ہے:
دیکھا جو مدینہ تو کھلی ایک حقیقت
کچھ بھی نہیں رکھا ہے تمنائے دگر میں
مسرت جہاں نوری فرماتی ہیں:
میں شاعر ہوں' سرمایہ ہے شعر میرا
وہ نذرِ شہہ مرسلاں کر رہی ہوں
نور جہاں بنت احمد عرب کے کلام میں عمل کی خوشبو اور عقیدت و محبت کا رنگ ہے:
میری مجال کیا کروں تعریفِ مصطفیؐ
ان کا کرم ہے آج یہ عزت ملی مجھے
ڈاکٹر سہیل شفیق لکھتے ہیں ''بیسویں صدی کے آخری ربع میں صنف نعت کو جو فروغ ملا بالخصوص پاکستان میں وہ اردو نعت کی تاریخ میں مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے قابل ذکر ہی نہیں لائق تحسین بھی ہے۔ ان برسوں میں تخلیق نعت کے ساتھ ساتھ ترتیب و تدوین نعت کا بھی بہت سا کام ہوا۔ مختلف رسائل نے صنف نعت کے جداگانہ نمبر نکالے جبکہ مرتبین اور اہل ذوق نے نعت کے گلدستے اور انتخاب شایع کیے۔ جامعات میں بھی نعت پر تنقیدی اور تحقیقی کام ہوا۔ نعت کے باب میں الگ رسالے بھی شایع ہونا شروع ہوئے۔ شاعرات نے بھی اس ربع صدی میں نعت گوئی کی طرف زیادہ توجہ کی اور اردو نعت کے اثاثے میں اضافہ کیا۔''
صغرا فاطمہ نصیر کے مجموعہ نعت کا عنوان ''صدائے روح'' ہے، فرماتی ہیں:
نظر کے سامنے رہتا ہے ان کا روضۂ اطہر
ہوئی ہے جب سے میری آنکھ ان کی یاد میں پُرنم
مخفی امروہوی بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں۔ ان کا نعت کا شعر ہے:
وہ اور ہیں جنھیں حسرت ہے غم گساروں کی
غمِ حبیب مرا غم گسار کافی ہے
مسعودہ خانم ان شاعرات میں ہیں جو گزشتہ نصف صدی سے حمد و نعت کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنی زندگی کی پہلی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
ایک ان کے کرم کی نظر چاہیے
مجھ کو آقاؐ کی نگری میں گھر چاہیے
رضیہ ناصر مسکین وہ شاعرہ تھیں جنھوں نے اردو میں ہی نہیں عربی اور پنجابی میں بھی نعتیں کہی ہیں، ان کا ایک شعر ہے:
شاہِ بطحا کی گدائی مل گئی
ہم کو تو جیسے خدائی مل گئی