’بھانجے‘ کی چھاپ میں فیصل کا کیریئر اوجھل ہوکررہ گیا
ڈیبیو کے بعد اب تک ایک متبادل کھلاڑی کے طور پر کھیلایا جا رہا ھے، فیصل اقبال
'بھانجے' کی چھاپ میں فیصل اقبال کا کیریئر اوجھل ہوکررہ گیا، متبادل کا کردار نبھاتے ہوئے 12 برس بیت گئے، اب بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، زمبابوے میں موقع پانے کیلیے پُراعتماد ہیں۔
تفصیلات کے مطابق فیصل اقبال بہتر تکنیک اور صلاحیتوں کے باوجود اپنے 12 سالہ کیریئر میں عظیم بیٹسمین جاوید میانداد کا بھانجا ہونے کی ''سزا'' کاٹتے رہے،2001 میں ڈیبیو کے بعد ان کی شناخت ایک متبادل کے طور پر بنی، وہ یوسف اور انضمام الحق کی موجودگی اور ان کے بعد بھی ٹیم میں جگہ پکی نہیں کرپائے، اس پورے عرصے کے دوران انھوں نے صرف 26 ٹیسٹ میچز کھیلے، فیصل اقبال نے آخری مرتبہ پاکستان کی نمائندگی 2010 میں کی، گذشتہ ایک سال سے انھیں ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ تو بنایا جارہا ہے مگر پلیئنگ الیون میں شامل ہونے کی حسرت دل میں ہی لیے واپس لوٹ آتے ہیں، انھیں زمبابوے کے خلاف 3 ستمبر سے شروع ہونے والی 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کیلیے بھی اسکواڈ میں برقرار رکھا گیا مگر یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس بار بھی موقع پائیں گے،اس وقت بھی مڈل آرڈر میں جگہ کیلیے اظہر علی، یونس خان، اسد شفیق اور مصباح الحق جیسے مضبوط امیدوار موجود ہیں جبکہ محمد حفیظ اور خرم منظور اوپننگ کریں گے۔
فیصل اقبال نے ویب سائٹ ''کرک انفو'' کو انٹرویو میں کہا کہ مجھے ماضی میں ہمیشہ متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا، انضمام الحق یا یوسف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ ملنے کی توقع تھی مگر نظر انداز کردیا گیا، ڈیبیو کے بعد سے ہی میں ٹیم میں جگہ کا متلاشی ہوں اب بھی میری امیدیں ٹوٹی نہیں ہیں، انھوں نے جاوید میانداد سے اپنے تعلق کے حوالے سے کہا کہ ماضی میں مجھے اسی بات سے نقصان پہنچا، صورتحال کبھی میرے حق میں اچھی نہیں رہی، میں ایک پروفیشنل کرکٹر اور کبھی اپنی کرکٹ کو یقینی تصور نہیں کیا، میں ہمیشہ گرائونڈ پر اپنے ہاتھوں سے رنز اسکور کرتا ہوں کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔واضح رہے کہ فیصل اقبال نے اکثر اپنے کم بیک پر کافی متاثر کیا ہے، 2002 میں جب انھیں دوبارہ واپس طلب کیا گیا توآسٹریلیا کے خلاف 83 رنز بنائے، پھر بھارت کے خلاف انھوں نے 139 رنز کی اننگز کھیلی یہ ان کا ٹیسٹ بیسٹ اسکور ہے جس کی بدولت پاکستان نے کراچی میں 2006 میں 341 رنز کی فتح پائی، 2009 میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں فیصل نے پہلی اننگز میں ففٹی اسکور کی، ان کا بھی دیگر بیٹسمینوں کی طرح بڑا مسئلہ پرفارمنس میں عدم تسلسل رہا جس کی وجہ سے ڈراپ ہونا پڑتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق فیصل اقبال بہتر تکنیک اور صلاحیتوں کے باوجود اپنے 12 سالہ کیریئر میں عظیم بیٹسمین جاوید میانداد کا بھانجا ہونے کی ''سزا'' کاٹتے رہے،2001 میں ڈیبیو کے بعد ان کی شناخت ایک متبادل کے طور پر بنی، وہ یوسف اور انضمام الحق کی موجودگی اور ان کے بعد بھی ٹیم میں جگہ پکی نہیں کرپائے، اس پورے عرصے کے دوران انھوں نے صرف 26 ٹیسٹ میچز کھیلے، فیصل اقبال نے آخری مرتبہ پاکستان کی نمائندگی 2010 میں کی، گذشتہ ایک سال سے انھیں ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ تو بنایا جارہا ہے مگر پلیئنگ الیون میں شامل ہونے کی حسرت دل میں ہی لیے واپس لوٹ آتے ہیں، انھیں زمبابوے کے خلاف 3 ستمبر سے شروع ہونے والی 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کیلیے بھی اسکواڈ میں برقرار رکھا گیا مگر یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس بار بھی موقع پائیں گے،اس وقت بھی مڈل آرڈر میں جگہ کیلیے اظہر علی، یونس خان، اسد شفیق اور مصباح الحق جیسے مضبوط امیدوار موجود ہیں جبکہ محمد حفیظ اور خرم منظور اوپننگ کریں گے۔
فیصل اقبال نے ویب سائٹ ''کرک انفو'' کو انٹرویو میں کہا کہ مجھے ماضی میں ہمیشہ متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا، انضمام الحق یا یوسف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ ملنے کی توقع تھی مگر نظر انداز کردیا گیا، ڈیبیو کے بعد سے ہی میں ٹیم میں جگہ کا متلاشی ہوں اب بھی میری امیدیں ٹوٹی نہیں ہیں، انھوں نے جاوید میانداد سے اپنے تعلق کے حوالے سے کہا کہ ماضی میں مجھے اسی بات سے نقصان پہنچا، صورتحال کبھی میرے حق میں اچھی نہیں رہی، میں ایک پروفیشنل کرکٹر اور کبھی اپنی کرکٹ کو یقینی تصور نہیں کیا، میں ہمیشہ گرائونڈ پر اپنے ہاتھوں سے رنز اسکور کرتا ہوں کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔واضح رہے کہ فیصل اقبال نے اکثر اپنے کم بیک پر کافی متاثر کیا ہے، 2002 میں جب انھیں دوبارہ واپس طلب کیا گیا توآسٹریلیا کے خلاف 83 رنز بنائے، پھر بھارت کے خلاف انھوں نے 139 رنز کی اننگز کھیلی یہ ان کا ٹیسٹ بیسٹ اسکور ہے جس کی بدولت پاکستان نے کراچی میں 2006 میں 341 رنز کی فتح پائی، 2009 میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں فیصل نے پہلی اننگز میں ففٹی اسکور کی، ان کا بھی دیگر بیٹسمینوں کی طرح بڑا مسئلہ پرفارمنس میں عدم تسلسل رہا جس کی وجہ سے ڈراپ ہونا پڑتا ہے۔